موسمیاتی تبدیلیاں یا ہائبرڈ بیج؟ دھان کی اگیتی کاشت سے کسانوں کو نقصان کیوں ہوا؟

postImg

آصف ریاض

postImg

موسمیاتی تبدیلیاں یا ہائبرڈ بیج؟ دھان کی اگیتی کاشت سے کسانوں کو نقصان کیوں ہوا؟

آصف ریاض

محمد قاسم کمبوہ کا تعلق پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہے جو دھان (چاول)کا روایتی علاقہ نہیں سمجھا جاتا لیکن کچھ برسوں سے یہاں بھی وسیع رقبے پر دھان کی کاشت شروع ہو رہی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے سال ان کے علاقے میں جن کسانوں نے دھان کی ہائبرڈ اقسام لگائی تھیں ان کی فی ایکڑ پیداوار سو من سے زیادہ رہی اور انہیں کم از کم چار ہزار روپے من دام ملے۔

دوسروں کی دیکھا دیکھی رواں سال انھوں نے بھی 13 ایکڑ اراضی ٹھیکے پر لے کر اس میں دھان کی ہائبر قسم کاشت کر لی جس پر ان کے 18 لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ جب فصل تیار ہوئی تو اس کے سٹے (خوشے) میں چاول ہی نہیں ہے یعنی 18 لاکھ میں سے ایک پائی بھی واپس آنے کی امید نہیں۔

"میں نے زندگی میں پہلی بار اتنا دھان لگایا اور اتنا نقصان اٹھانا پڑا کہ اب دوبارہ کبھی منجی (دھان) کاشت کرنے کا نہیں سوچوں گا۔"

ان کا ماننا ہے کہ کمپنی والوں نے انہیں ناقص بیج دیا۔ انھوں نے ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت (توسیع) کو درخواست دی ہے کہ انھوں نے کنزیو نامی کمپنی سے ہائبرڈ بیج خریدا تھا۔ لہٰذا اس کے خلاف کارروائی کر کے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔

"میری شکایت پر کمپنی کے نمائندے فصل دیکھنے بھی آئے تھے لیکن ان کا موقف ہے کہ یہ نقصان شدید گرمی کی وجہ سے ہوا ہے۔"

صرف محمد قاسم ہی نہیں، وسطی اور جنوبی پنجاب کے بیشتر علاقوں میں یہی صورتحال ہے۔ جن کسانوں نے بھی گندم کے فوری بعد مئی میں چاول کی ہائبر یا موٹی اقسام کاشت کی تھیں وہ پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔

ضلع لودھراں کے رہائشی میاں نوید قریشی نے اپنے پانچ ایکڑ کھڑے دھان میں جانور چھوڑ دیے ہیں کیوں کہ خوشے میں چاول ہی نہیں تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے ہمسائے چوہدری شاہد کی تو پوری 50 ایکڑ فصل ضائع ہوگئی جس کی وجہ سے انہیں دل کا دورہ پڑ گیا اور وہ کئی روز ہسپتال داخل رہے۔

"پہلے گندم اور اب چاول نے کسانوں کو برباد کر دیا ہے۔"

خانیوال کی تحصیل کبیر والا کے شبیر احمد جٹ نے 16 ایکڑ دھان لگایا تھا جس کی پیداور صرف سات من فی ایکڑ نکلی۔ ان کے بقول انھوں نے 'سن کراپ' نامی کمپنی کا ہائبرڈ بیج بویا تھا۔

"کاشت سے پہلے کمپنی والوں نے آکر کہا کہ ہماری ورائٹی لگائیں جو سخت گرمی بھی برداشت کرسکتی ہے۔ لیکن اب ہم شکایت لے کر گئے تو کہتے ہیں کہ اس بار درجہ حرارت غیر معمولی تھا جس سے پورے ملک میں چاول کی فصل متاثر ہوئی ہے۔"

عابد حسین، ضلع لودھراں میں محکمہ زراعت کے فیلڈ افسر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دھان 35 سینٹی گریڈ درجہ حرارت کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن رواں سال جولائی میں جب اگیتی فصل پولی نیشن کے مرحلے میں تھی اس وقت درجہ حرارت 45 ڈگری سے نیچے نہیں آیا جس کے باعث خوشے میں دانے کی گروتھ نہیں ہو سکی۔

وہ کہتے ہیں کہ کسی ایک علاقے میں نہیں بلکہ پورے پنجاب میں مئی کی کاشتہ فصل متاثر ہوئی ہے۔ کوئی کسان ایسا نہیں جو کہے کہ اس کی پیداوار 70 من ہوئی ہے حالانکہ ہائبرڈ دھان کی پیداوار 80 من سے زیادہ ہوتی ہے۔
"اس بار اگر کسی کی بہت اچھی پیداوار بھی ہوئی ہے تو وہ 35 من تک رہی جو بڑا نقصان ہے۔"

محکمہ موسمیات  کی ماہانہ رپورٹ بتاتی ہے کہ جولائی 2024ء کے دوران پاکستان میں 64 سال بعد اتنی زیادہ گرمی پڑی جتنی اس سے پہلے جولائی 1969ء میں پڑی تھی۔

"رواں سال جولائی میں ملک میں اوسط درجہ حرارت 32.62 سینٹی گریڈ رہا جو اس ماہ کے اوسط درجہ حرارت سے 1.26 سینٹی گریڈ زیادہ ہے۔ اسی طرح جولائی 2024 میں دن کا زیادہ سے زیادہ درجہ 38.58 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا جو ملکی اوسط سے 1.39 سینٹی گریڈ زیادہ ہے۔"

رات کے کم از کم درجہ حرارت میں بھی تبدیلی دیکھی گئی ہے جو اس بار جولائی میں اوسط سے 1.36 سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

پنجاب میں عموماً دھان کی پنیری جولائی میں لگتی ہے جس کو اگست میں کھیتوں میں منتقل کردیا جاتا ہے لیکن کچھ سال سے موٹے اور ہائبرڈ اقسام کے چاول کی پنیری اپریل میں لگا لی جاتی ہے اور مئی میں اسے کھیت میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ یہ فصل اگست میں کاٹ لی جاتی ہے۔

اگست میں ہائبرڈ چاول کی کٹائی سے خالی ہونے والی زمین پر باسمتی یا روایتی دھان کاشت کر لیا جاتا ہے جو اکتوبر اور نومبر میں تیار ہو جاتاہے۔ پھر اسی زمین پر گندم کی کاشت ممکن ہوجاتی ہے۔ یوں کسان اگیتی کاشت سے سال میں تین فصلیں حاصل کر لیتے ہیں۔

عابد حسین کہتے ہیں کہ وسطی و جنوبی پنجاب میں کپاس اور کچھ سالوں سے مکئی کی فصل متاثر ہونے کے باعث ہائبرڈ دھان کی اگیتی کاشت کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ پچھلے سال چونکہ ہائبرڈ اقسام نے کسانوں کو اچھا منافع دیا اس لیے رواں سال کاشت میں مزید اضافہ ہوا۔

پنجاب میں فصل اور پیداوار کا تخمینہ لگانے والے ادارے میں چاول پر کام کرنے والے ڈپٹی ڈائریکٹر عباس علی شاہ بتاتے ہیں کہ رواں سال چاول کی اگیتی (ارلی) کاشت یا متاثرہ فصل کا ابھی تک تخمینہ نہیں لگایا گیا۔ تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ پنجاب میں چاول کی پانچ/ چھ فیصد کاشت اگیتی ہوتی ہو گی۔

پچھلے سال اس ادارے نے چاول کا ورائٹی(اقسام) کے حساب سے تخمینہ لگایا تھا اس کے مطابق دھان کی اگیتی کاشت تقریباً سات لاکھ 78 ہزار ایکڑ رقبے پر لگی تھی جو چاول کے کل زیر کاشت رقبے کا 7.27 فیصد ہے۔

اگر یہ اعداد و شمار درست ہیں تو رواں سال شدید گرمی نے آٹھ لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر لگے چاول کو جزوی یا مکمل طور پر متاثر کیا ہے۔

موسمیاتی تغیرات اور پاکستان

گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس  کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ملکوں میں  پاکستان کا دنیا میں پانچواں نمبر ہے جہاں 1999ء سے 2018ء تک موسمیاتی تغیرات سے تقریباً 10 ہزار جانوں اور تقریبا چار بلین امریکی ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔

جبکہ عالمی بنک نے 2022ء میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاکستان کی زراعت اور انفراسٹریکچر کے نقصانات اور تعمیر نو کا تخمینہ 40 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ بتایا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور گرمی کی شدت میں اضافے سے نہ صرف ماحولیات بلکہ پاکستان کی معاشی سلامتی کو بھی سنگین خطرات لاحق ہیں۔

"پاکستان میں 1960ء کی دہائی کے بعد سے اوسطاً سالانہ درجہ حرارت میں تقریبا 0.5 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2050 ء تک اوسط درجہ حرارت میں مزید 1.3 سے 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہوگا۔"

اقوام متحدہ  کا ادارہ برائے خوراک و زراعت کہتا ہے اگر اوسط درجہ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہو تو خوراک اور نقد آور فصلوں کی پیداوار میں پانچ سے 10 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے۔ جبکہ چاول کی پیداوار کے حوالے سے صورتحال زیادہ خطرناک ہے۔

 دھان کی فصل پھل کے مرحلے پر انتہائی حساس ہوتی ہے جس میں 35 ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت نقصان کا باعث بن سکتا ہے جس سے پیداوار میں 10 سے 15 فیصد تک کمی آسکتی ہے۔ زیادہ متاثرہ علاقوں میں پیداوار 40 فیصد تک بھی کم ہو سکتی ہے۔

شدید گرمی سے چاول کی فصل کے متاثر ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔

مختلف سرکاری و غیر سرکاری رپورٹس اور تحقیق سے بات سامنے آئی ہے کہ پچھلی ایک ڈیڑھ دہائی میں کئی ایسے مواقعے آئے جب زیادہ درجہ حرارت نے فصلوں کو متاثر کیا ہے۔

2010ء میں بھی شدید گرمی کی وجہ سے کپاس کی پیداوار  میں شدید کمی واقع ہوئی تھی۔

پنجاب میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار 18 من آئی تھی حالانکہ اس سے پچھلے سال 20 سے 24 من تک رہی تھی۔ یہ وہ سال تھا جب پنجاب میں کپاس کے زیر کاشت رقبے میں کمی آنا شروع ہوئی اور وسطی پنجاب کے کچھ علاقوں میں مکئی کا رقبہ بڑھنا شروع ہوگیا۔

جون جولائی 2012ء میں جب مکئی کی فصل پولی نیشن کے مرحلے میں پہنچی تو درجہ حرارت میں غیر متوقع اضافے نے اس کی پیداوار کو بھی بہت متاثر کیا تھا۔اسی طرح 2015ء میں رات کے درجہ حرارت میں اضافے کے باعث دھان کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی تھی۔

2020ء میں مکئی کی پیداوار میں نمایاں کمی دیکھی گئی جب اگست میں درجہ حرارت ملکی اوسط سے 0.76 زیادہ تھا۔ دن کا درجہ حرارت اوسط سے 0.39 اور رات کا 1.07 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا تھا۔ جبکہ 2021ء ایک بار پھر دھان کی فصل متاثر ہوئی۔

موسمیاتی تغیرات کے حوالے سے 2022ء پاکستان میں بدترین سال تھا جب شدید گرمی کے بعد بارشوں کی زیادتی ایک تو سیلاب کا باعث بنی دوسرے شدید گرمی نے گندم کی فصل کو حد سے زیادہ متاثر کیا۔ گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں 10 فیصد تک کمی ہوگئی تھی۔

مارچ اور اپریل 2022ء میں درجہ حرارت اوسط درجہ حرارت سے چار ڈگری زیادہ رہا تھا، 1961ءکے بعد یہ دونوں ملک کے گرم ترین مہینے تھے۔

کسانوں کی تنظیم پاکستان کسان بورڈ کے مرکزی صدر شوکت علی چدھڑ تسلیم کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیاں زراعت کو شدید متاثر کر رہی ہیں جن سے رواں سال دھان کو بھی کافی نقصان ہوا ہے۔

 "تاہم بیج بنانے والی وہ کمپنیاں بھی برابر کی قصور وار ہیں جو ان بیجوں کے گرمی برداشت کرنے کے بڑے بڑے دعوے کرتی ہیں۔ لیکن جب درجہ حرارت میں ایک ڈگری کا بھی فرق آیا تو فصل کی تباہی کا سارا ملبہ موسم پر ڈال رہی ہیں۔"

وہ دلیل دیتے ہیں کہ رواں سال ہیٹ ویو سے تکنیکی طور پر دھان کی تمام اقسام کو متاثر ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کچھ مقامی ورائٹیاں مکمل ناکام نہیں ہوئیں لیکن گرمی برداشت کرنے کی دعوے دار کمپنیوں کے ہائبرڈ بیج نے تو ایک دانہ نہیں اٹھایا۔

ضلع اوکاڑہ میں بصیر پور کے کاشت کار امتیاز احمد وٹو تصدیق کرتے ہیں کہ ان کی کاشتہ مقامی ورائٹی 'اری فائن' کی پیداوار اس بار 40 من فی ایکڑ نکلی ہے جو پچھلے سال 56 من تھی۔ گرمی سے پیداوار کم ضرور ہوئی لیکن اتنی کم نہیں جیسا متعدد کسانوں کے ساتھ ہوا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے علاقے میں ایک کھیت کی پیداوار 50 من فی ایکڑ آئی ہے جبکہ ساتھ والے کھیت کے خوشے میں ایک دانہ نہیں ہے۔ اس کا تو یہی مطلب ہے کہ بیج میں ہی کوئی گڑ بڑ ہے۔ ہائبرڈ اقسام تو بالکل ہی فارغ ہو گئی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ کمپنیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ہائبرڈ ورائٹیاں ناصرف شدید گرمی برداشت کریں گی بلکہ 100 من سے زیادہ پیداوار دیں گی اور پچھلے سال پیداوار کی حد تک دعویٰ درست ثابت ہوا تھا۔ لیکن اس بار گندم کی فصل ابھی کھڑی تھی کہ کمپنیوں نے بیج کی بکنگ شروع کر دی۔

"کمپنیوں نے بکنگ کے حساب سے بیج امپورٹ کیا لیکن بعد میں طلب بہت زیادہ بڑھ گئی۔ میرے خیال میں ایسا ممکن ہے کہ ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے کمپنیوں نے پچھلے سال کا بچا ہوا بیج مکس کر دیا ہو۔"

ناقص بیج کے حوالے سے کسانوں کے خدشات بلاوجہ نہیں ہیں۔

2022ء میں جب شدید گرمی سے مکئی کی فصل کو نقصان ہوا تو اس وقت بھی کسانوں نے گرمی کے ساتھ ناقص ہائبرڈ بیجوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔

پاکستان کنزیومر پروٹیکشن کونسل کی سرکاری ویب سائٹ کے مطابق ادارے کو زراعت کے حوالے سے ناقص پروڈکٹس کی جو شکایات موصول ہوئی ان میں سب سے زیادہ بیج اور زرعی دواؤں سے متعلق ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

گندم، کپاس اور دالوں کے لیے تنگ ہوتی زمین، موسمیاتی تغیر پاکستان کے زرعی منظر نامے کو کیسے بدل رہا ہے؟

کنزیومر کونسل کو 2016ء میں زرعی استعمال کی ناقص اشیا کے بارے میں 607 شکایات موصول ہوئیں جن میں سے 297 ناقص بیج کی تھیں۔ 2017ء میں کل 386 میں سے 49، 2018ء میں 475 میں سے 101 اور 2019 میں چار میں سے ایک شکایت ناقص بیج سے متعلق آئی تھی۔

نیشنل ایگریکلچر ریسرچ کونسل(این اے آر سی) کے سینیئر سائنٹیفک آفیسر اور رائس پروگرام کے لیڈر ڈاکٹر عابد مجید ستی بھی کسانوں کا موقف کسی حد تک تسلیم کرتے ہیں۔

"ہائبرڈ بیج صرف ایک سال لگ سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ جب ڈیمانڈ بڑھی تو کمپنیوں نے پرانا بیج جسے 'ایف ون' کہا جاتا ہے وہ نئے بیج میں مکس کر دیا ہو۔" تاہم وہ شدید گرمی کو بھی نقصان کی وجہ قرار دیتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ دھان کے ایک ہی پودے میں نر اور مادہ (سیلف پولینیٹڈ) ہوتے ہیں اور جب پولی نیشن کا مرحلہ آتا ہے تو 35 ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت پیداوار کو متاثر کرتا ہے۔ اس لیے ہائبرڈ یا اری چاول کی اگیتی اقسام کی پنجاب میں کاشت کسی صورت ٹھیک نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دھان کی اگیتی اقسام کے لیے سندھ اور بلوچستان کے کچھ علاقوں کا موسم سازگار ہے جہاں ان کی پیداوار بھی اچھی آتی ہے۔

 "پنجاب میں صرف باسمتی یا نان باسمتی اقسام لگنی چاہیے جن کی پنیری اگست میں منتقل ہوتی ہےکیونکہ سمتبر میں پولینیشن کے وقت درجہ حرارت 30 سے 35 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جو یہاں اس کے لیے انتہائی موزوں ہے۔"

* اس سٹوری کی تیاری میں شانزے صدیق نے بھی مدد کی ہے۔

تاریخ اشاعت 31 اگست 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد آصف ریاض رپورٹر ہیں اور ان کا کام کھیت سے منڈی اور صارف تک زرعی شعبے کے جملہ امور اور مسائل کا احاطہ کرتا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.