وادیِ ہنزہ کے قصبے علی آباد میں درجہِ حرارت منفی پانچ ڈگری سینٹی گریڈ تک گِر چکا ہے لیکن خون منجمند کر دینے والی اس سردی میں بھی ہزاروں لوگ یہاں کی مرکزی شاہراہ پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ان میں نوجوان سیاسی کارکن عظیم ہنزئی بھی شامل ہیں جو ایک ہاتھ میں کتاب تھامے غصیلی مگر پر امید نظروں سے مطالعہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان سے چند فٹ کے فاصلے پر خواتین کا ایک گروہ بیٹھا ہوا ہے جو گھر بار چھوڑ کر کڑکڑاتے جاڑے میں پچھلے کئی دن سے سراپا احتجاج بنی بیٹھی ہیں۔
اس احتجاج کی بنیادی وجہ بلند و بالا پہاڑی سلسلوں پر مشتمل اس علاقے میں ہونے والی سنگین ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں۔ ہزاروں سال سے جمی برف سے بنے مقامی گلیشیئر پگھل رہے ہیں جس سے یہاں بہنے والی ندیوں اور دریاؤں میں غیر متوقع طور پر سیلاب آ رہے ہیں۔ اکثر اوقات جب پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود برف پگھلتی ہے تو اس کے تودے اپنے ساتھ بھاری پتھر بھی نیچے وادیوں میں لے آتے ہیں جو صدیوں سے بنی آبی اور انسانی گذرکاہوں کو بند کر دیتے ہیں۔
ایسی سب سے نمایاں تبدیلی 2010 میں آئی جب پہاڑوں سے بھاری چٹانوں کے گرنے کی وجہ سے وادیِ ہنزہ کے قصبے عطا آباد کے پاس سے گذرتے دریا کا راستہ بند ہو گیا اور ایک پوری وادی گہرے پانی میں ڈوب گئی۔ پانی کے اس ذخیرے کو آج پورا پاکستان عطا آباد جھیل کے نام سے جانتا ہے۔
ملک کے مختلف حصوں سے گلگت بلتستان جانے والے سیاح اس جھیل کی سیر کو اپنے سفر کا ایک لازمی حصہ سمجھتے ہیں۔ اونچے پہاڑوں سے گھرا اس کا پرسکون پانی ہزاروں – اور شاید لاکھوں -- تصویروں کے ذریعے ان گنت آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچا چکا ہے لیکن ہنزہ سے باہر کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ اس کے سبز پانیوں کے نیچے کس طرح کے انسانی المیے چھپے ہوئے ہیں۔
اس نا واقفیت کی ایک واضح مثال اس وقت سامنے آئی جب لاہور میں پڑھنے والے گلگت بلتستان کے طالب علموں نے 10 اکتوبر بروز ہفتہ لاہور پریس کلب کے سامنے علی آباد کے مظاہرین سے یک جہتی کے اظہار کے لئے ایک احتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس مظاہرے کے شرکا کی تعداد پچاس سے زیادہ نہ ہو سکی اور ان میں بھی شاید ہی کوئی مقامی لوگ شامل تھے۔
لاہور میں احتجاج کرنے والے ایک ہنزئی نوجوان اسی وجہ سے شکایت کرتے ہیں کہ 'عطاء آباد جھیل پر ہزاروں تصاویر اتارنے کے باوجود لوگ ابھی تک گلگت بلتستان کے لوگوں اور ان کے مسائل سے آگاہ نہیں'۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے اسیر
عطا آباد جھیل کے بننے کی وجہ سے کم از کم تیس مکان مکمل طور پر تباہ ہو گئے اور سینکڑوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ اس وقت کی علاقائی حکومت نے ان متاثرین سے وعدہ کیا کہ ان کے نقصان کا ازالہ ایک سال کے اندر اندر کر دیا جائے گا لیکن جب ایک سال گزرنے کے بعد بھی ان کی داد رسی نہ ہوئی تو انہوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا۔
ہنزہ کی رہنے والی نازنین نیاز کے مطابق، 'اگست 2011 میں وزیر اعلیٰ گِلگت بلتستان سید مہدی شاہ ہنزہ کے دورے پر آئے تو جھیل سے متاثرہ افراد نے اس موقعے پر احتجاج کرنے کی کوشش کی جبکہ پولیس حکام نے بزورِ طاقت اس احتجاج کو روکنا چاہا۔ 'پولیس اور مظاہرین کے درمیان کشمکش کے نتیجے میں مظاہرے میں شامل ایک باپ اور بیٹا ہلاک ہو گئے'۔
پولیس نے بعد میں نازنین کے بڑے بھائی بابا جان سمیت پندرہ مظاہرین کو ان دونوں اموات کا ذمہ دار ٹھہرایا اور دہشت گردی کرنے اور امنِ عامہ میں خلل ڈالنے کے جرم میں انہیں گرفتار کر لیا۔
نازنین نے ایک حالیہ انٹرویو میں سجاگ کو بتایا کہ کس طرح 'پولیس نے رات کی تاریکی میں میرے بھائی کو ہمارے گھر سے گھسیٹ کر گرفتار کیا'۔ وہ کہتی ہیں: 'کئی دن تک تو ہمیں یہ بھی معلوم نہ ہو سکا کہ انہیں کہاں لے جایا گیا تھا'۔
2015 میں بابا جان چند ماہ کے لیے ضمانت پر رہا ہوئے لیکن چیف کورٹ گِلگت بلتستان نے 2016 میں انہیں اور ان کے ساتھی مظاہرین کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ لہٰذا انہیں پھر سے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان قیدیوں کے خاندانوں نے فوری طور پر سپریم ایپلیٹ کورٹ گِلگت بلتستان میں اِس فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر دیں لیکن چار سال گزرنے کے باوجود ان کی شنوائی نہیں ہو سکی کیونکہ حکومتِ پاکستان نے اس عرصے میں ایپلیٹ کورٹ کے ججوں کی تقرری ہی نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں
قصور میں صنعتی فضلہ صاف کرنے کا پلانٹ: سرطان جیسی بیماریوں اور آبی آلودگی کا بڑا ذریعہ۔
بابا جان کون ہیں؟
بابا جان چالیس سال پہلے ہنزہ کے ایک محنت کش گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے تین بھائی اور چار بہنیں ہیں جو سب ان سے چھوٹے ہیں۔ ان کے والد عبداللہ بیگ، جو اب ستر برس کے ہو چکے ہیں، اپنی عمر کا زیادہ حصہ کاشت کاری کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ مستری کے طور پر بھی کام کیا ہے۔
بابا جان کی سیاسی زندگی کا آغاز 1999 میں ہوا جب وہ گورنمنٹ ڈگری کالج گِلگت میں پڑھ رہے تھے۔ ہم سب نامی ویب سائٹ پر 2016 میں چھپنے والے ایک مضمون میں اسرار الدین اسرار لکھتے ہیں: اس سال انہیں 'معلوم ہوا کہ ان کے گاؤں ناصر آباد میں سنگ مرمر کا پہاڑ ایک کمپنی کو لیز پر دیا گیا ہے ۔ یہ سن کر وہ گاؤں پہنچ گئے اور گاؤں کے لوگوں کو ان کے حقوق کے لئے متحرک کیا۔ انہوں نے اس کمپنی کو وہاں کام کرنے نہیں دیا یہاں تک کہ وہ کمپنی واپس چلی گئی اور دوسری کمپنی آئی ان کا بھی بابا جان سے ٹاکرا ہوا ۔ بابا جان نے لوگوں کی مدد سے تحریک کو منظم کیا اور اس کمپنی کو بھی کام کرنے نہیں دیا'۔
تعلیم مکمل کرنے کے بعد بابا جان پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے اور اس کی ذیلی تنظیم پیپلز یوتھ آرگنائزیشن کے ہنزہ یونٹ کے صدر بن گئے۔ 2004 میں وہ اس پارٹی کو چھوڑ کر لیبر پارٹی پاکستان میں شامل ہو گئے اور ضلع کونسل کے انتخاب میں ہنزہ سے امیدوار بنے۔ ان انتخاب میں وہ محض تیس ووٹوں کے فرق سے دوسرے نمبر پر رہے۔
اسرار الدین اسرار کہتے ہیں کہ اسی زمانے میں بابا جان نے پروگریسو یوتھ فرنٹ بلاورستان کی بنیاد ڈالی جس نے دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے خلاف ایک بھر پور تحریک چلائی۔ اس تحریک کے سلسلے میں ایک دفعہ جب انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر گِلگت میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا تو پولیس نے ان پر شدید تشدد کیا۔
عنایت بیگ کا تعلق بائیں بازو کی ایک طلبہ تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کی گِلگت بلتستان شاخ سے ہے- وہ گزشتہ دو دہائیوں سے بابا جان کو جانتے ہیں۔ انکے مطابق 2006 میں بابا جان نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا محور پاکستان اور چین کی سرحد پر واقع سوست کے تجارتی مرکز کو بنایا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ وہاں کے انتظامی معاملات میں محض سابقہ مقامی حکمران کے خاندان کو ہی نہیں 'بلکہ گلگت بلتستان کے عوام کو بھی شامل کیا جائے'۔
2015 میں جب گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات ہوئے تو بابا جان نے جیل میں ہونے کے باوجود ان میں حصہ لیا اور ایک دفعہ پھر چند سو ووٹوں کے فرق سے دوسرے نمبر پر آئے۔
لیکن ایک طرف جہاں بابا جان کی سیاسی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا تھا دوسری طرف ان کی گرفتاری نے ان کے خاندان کو کئی مشکلات میں ڈال دیا تھا۔ ان کی بہن نازنین کا کہنا ہے کہ ان کی گرفتاری کی وجہ سے ان کی بہن شگفتہ کی تعلیم مکمل نہیں ہو سکی۔ 'انہوں نے 2011 میں انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں گلگت بلتستان میں پہلی پوزیشن لی تھی اور بعد میں وہ فل برائٹ سکالر شپ پر امریکہ میں پڑھنے کے لئے بھی منتخب ہوئی تھیں لیکن بھائی کی گرفتاری کے بعد ہمارے گھر کی معاشی حالت اس قدر بگڑ گئی کہ وہ اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکیں اور انہیں مجبوراً پولیس فورس میں بھرتی ہونا پڑا'۔
اسی طرح جب 2017 میں نازنین اور شگفتہ کی شادیاں ہوئیں تو بابا جان کی غیر موجودگی کی وجہ سے وہ دونوں خوش ہونے کے بجائے بہت غمگین تھیں۔ 'ہماری شادیاں ہمارے لیے باعث مسرت نہیں بلکہ ماتم کی طرح تھیں'۔
نازنین کہتی ہیں کہ ان کی والدہ زہرہ بی بی بھی اپنے بیٹے کی قید کے دکھ میں شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو چکی ہیں۔ 'بھائی کے جیل جانے کے بعد ہم ہر روز ایک نئے قرب سے گزرتے ہیں'۔
مستقبل کا لائحہِ عمل
نازنین اور ان کے خاندان کے دوسرے لوگ اب ہر روز بابا جان اور ان کے ساتھ قید دوسرے لوگوں کی رہائی کے لئے علی آباد میں دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے مطاہرین سے خطاب کرتے ہیں اور اسیروں کی اپنے گھروں کی واپسی کا مطالبہ دہراتے ہیں۔
نازنین احتجاج میں شامل لوگوں کی شکر گزار ہیں اور کہتی ہیں کہ گِلگت کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ تمام مذہبی فرقوں اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مقامی لوگ خود بھی اور اپنی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں اور دیگر اہلِ خانہ کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں اس دھرنے میں شریک ہیں۔
مظاہرین میں شامل گلگت سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان سیاسی کارکن مدبر علی کہتے ہیں کہ لوگ فرقوں اور سیاسی وابستگیوں کو پسِ پشت ڈال کر بابا جان کی رہائی کے لیے سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں کیونکہ 'بابا جان اس وقت گِلگت بلتستان کے پورے خطے میں رہنے والے نوجوانوں کے نمائندہ بن چکے ہیں'۔
اگرچہ احتجاج کو شروع ہوئے پہلے ہی ایک ہفتہ ہو چکا ہے اس کے منتظمین اس کو ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ان کا اصرار ہے کہ وہ اسے اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک بابا جان اور دوسرے قیدی رہا نہ ہو جائیں۔ نازنین کے بقول 'اگر حکومتی اور ریاستی نمائندوں کی طرف سے اس مسئلے پر کوئی پیش رفت نہ کی گئی تو دھرنے کے شرکا گِلگت شہر کی طرف لانگ مارچ کرنے کو بھی تیار ہیں'۔
یہ رپورٹ لوک سجاگ نے پہلی دفعہ11 اکتوبر2020 کو اپنی پرانی ویب سائٹ پر شائع کی تھی۔
تاریخ اشاعت 12 فروری 2022