ڈیڑھ سال میں سات نجی یونیورسٹیوں کی منظوری: 'پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اس کی حمایت نہیں کرتا'۔

postImg

فریال احمد ندیم

postImg

ڈیڑھ سال میں سات نجی یونیورسٹیوں کی منظوری: 'پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اس کی حمایت نہیں کرتا'۔

فریال احمد ندیم

حنا عظیم 16 دسمبر 2021 کو بیشتر وقت روتی رہیں کیونکہ وہ انٹرنیشنل گرین یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے اپنے فیصلے پر شدید پچھتا رہی تھیں حالانکہ انہیں وہاں پڑھائی شروع کیے ابھی ایک دن بھی نہیں ہوا تھا۔

دو روز بعد انہیں اپنا پہلا لیکچر سننا تھا لیکن انہیں اس وقت شدید مایوسی ہوئی جب انہیں بتایا گیا کہ اسے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ جب بالآخر یہ لیکچر منعقد ہوا تو اس میں موجود طلبا بیشتر وقت اپنے استاد کو 'نالائق' کہہ کر اس کا ٹھٹھہ اڑاتے رہے۔

حنا عظیم کی عمر 19 سال ہے اور وہ سیالکوٹ سے پڑھنے کے لیے لاہور آئی ہیں۔ وہ انٹرنیشل گرین یونیورسٹی کے شعبہ ڈرمل سائنس (جِلدیات) کے بیچلرز پروگرام میں داخل ہیں جس کے بارے میں، ان کے بقول، یونیورسٹی انتظامیہ کے لوگ خود کہتے رہتے ہیں کہ اس کی تعلیم ایک اچھے پیشہ وارانہ مستقبل کی ضمانت نہیں دے سکتی۔

ان تمام مسائل کی بنا پر وہ  کہتی ہیں کہ "میں مزید ایک دن بھی یہاں پڑھنا نہیں چاہتی اس لیے میں نے انتظامیہ سے درخواست کی ہے کہ وہ میری ادا کردہ فیس مجھے واپس کر دے"۔

یونیورسٹی کی (تاحال نامکمل) ویب سائٹ میں بتایا گیا ہے کہ شعبہ جلدیات میں 10 سمیسٹروں پر مشتمل بیچلرز کی ڈگری کی مجموعی فیس 12 لاکھ 96 ہزار روپے ہے۔ حنا عظیم نے ابھی تک اس میں سے پہلے سمیسٹر کی فیس کے طور پر ایک لاکھ 29 ہزار چھ سو روپے جمع کرائے ہیں لیکن یہ رقم انہیں شاید کبھی واپس نہ ملے کیونکہ یونیورسٹی کے قواعد کہتے ہیں کہ "ایک جاری سمیسٹر کی فیس واپس نہیں کی جائے گی" خواہ اس کی واپسی کا مطالبہ کرنے والے طالب علم کو "یونیورسٹی سے نکالا یا معطل ہی کیوں نہ گیا ہو"۔

وہ تسلیم کرتی ہیں کہ داخلہ لینے سے پہلے انہیں اس یونیورسٹی کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں تھیں۔ ان کے بقول ایف ایس سی کرنے کے بعد انہوں نے دراصل دی یونیورسٹی آف فیصل آباد کے شعبہ جِلدیات میں داخلہ لینے کی کوشش کی تھی لیکن جب انہیں اس میں کامیابی نہ ملی تو اُس یونیورسٹی کی انتظامیہ نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ گرین انٹرنیشنل یونیورسٹی میں داخلہ لیں کیونکہ وہاں بھی یہ مضمون پڑھایا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ "مجھے بتایا گیا کہ گرین انٹرنیشنل یونیورسٹی تین سال سے چل رہی ہے اور اس کے اساتذہ اور تعلیم کا معیار بہت اچھا ہے"  لیکن "جب میں یہاں آئی تو مجھے پتہ چلا کہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا تھا"۔

حنا عظیم کہتی ہیں کہ بھاری فیس وصول کرنے کے باوجود گرین انٹرنیشنل یونیورسٹی میں تعلیمی اور انتظامی حوالے سے کئی واضح خامیاں پائی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر ، ان کے بقول، اس میں طبی تعلیم کے جِلدیات جیسے کئی ایسے شعبے قائم کر دیے گئے ہیں جن میں پڑھانے کے لیے نہ تو تجربہ کار اساتذہ موجود ہیں اور نہ ہی تحقیق کے لیے درکار لیبارٹریاں موجود ہیں۔

یونیورسٹی کی ویب سائٹ بالواسطہ طور پر ان کی بات کی تصدیق کرتی ہے۔ اس میں ریکٹر کے سوا کسی استاد کا نام نہیں دیا گیا جبکہ اس میں فراہم کی گئی سہولیات کی فہرست میں جِلدیات کی کسی لیبارٹری کا ذکر بھی موجود نہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یونیورسٹی میں تعلیمی معیار کو ایک اچھی سطح پر برقرار رکھنے کے لیے اساتذہ اور انتظامیہ کے محاسبے کا کوئی باقاعدہ انتظام موجود نہیں۔ اسی طرح اس میں ایسا کوئی نظام وضع نہیں کیا گیا جس کے تحت اساتذہ اور طلبا کو پڑھائی کے اوقات کار کا پابند بنایا جا سکے۔

متنازعہ قانون سازی

گرین انٹرنیشنل یونیورسٹی مدینہ فاؤنڈیشن نامی خیراتی ادارے کی ملکیت ہے جسے مدینہ گروپ آف کمپنیز کے شریک مالک حاجی محمد سلیم نے قائم کیا تھا۔ یہ فاؤنڈیشن دی یونیورسٹی آف فیصل آباد کی بھی مالک ہے جبکہ مدینہ گروپ آف کمپنیز 92 نیوز نامی ٹیلی وژن چینل اور روزنامہ 92 کے علاوہ فیصل آباد میں کئی صنعتی اور کاروباری اداروں کا مالک ہے۔

<p>گرین انٹرنیشنل یونیورسٹی 2020 میں لاہور میں قائم کی گئی<br></p>

گرین انٹرنیشنل یونیورسٹی 2020 میں لاہور میں قائم کی گئی

لاہور کے جنوبی سرے پر رائے ونڈ روڈ کے نسبتاً کم آباد علاقے میں 80 کنال اراضی پر واقع اس یونیورسٹی کے بارے میں صرف اس میں پڑھنے والے طلبا کو ہی شکایت نہیں۔ پنجاب میں اعلیٰ تعلیم سے منسلک حکومتی ادارے بھی اس کے قیام کے لیے بنائے گئے صوبائی قانون سے خوش نہیں۔

پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے میڈیا آفیسر شاہد عمران کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ اس قانون کی حمایت نہیں کرتا کیونکہ اس کی منظوری کے لیے حکومتی قواعد و ضوابط کو مکمل طور پر  نظر انداز کیا گیا ہے جو "ایک درست قدم نہیں"۔
لیکن گرین انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر خلیق الرحمان اس بات کی تردید کرتے ہیں کہ ان کے ادارے کے قیام کے لیے بنایا گیا قانون متنازعہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کا مسودہ پیش کرنے والی رکنِ پنجاب اسمبلی خدیجہ عمر کی جماعت، پاکستان مسلم لیگ قائدِ اعظم، اور اعلیٰ تعلیم کے صوبائی وزیر راجا ہمایوں سرفراز کی جماعت، پاکستان تحریک انصاف، کا "سیاسی ایجنڈا باہم متصادم" ہے جس کے باعث ان دونوں کے درمیان اس قانون کی منظوری کے حوالے سے اختلافات پیدا ہوئے۔

لیکن ڈان اخبار میں جولائی 2021 میں چھپنے والی رپورٹ ایک مختلف کہانی سناتی ہے۔ اس کے مطابق گرین انٹرنیشنل یونیورسٹی کے مالکان نے پنجاب اسمبلی کے سپیکر پرویز الٰہی سے اس کے قیام کے لیے درکار قانون کی منظوری میں مدد طلب کی۔ نتیجتاً ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والی خدیجہ عمر نے ذاتی حیثیت میں اس قانون کا مسودہ صوبائی اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا۔

تاہم جب 4 جون 2020 کو پنجاب اسمبلی نے کسی بحث مباحثے بغیر متفقہ طور پر یہ قانون منظور کر لیا تو راجا یاسر ہمایوں اتنے ناخوش ہوئے کہ، ڈان کی رپورٹ کے مطابق، انہوں نے اپنے عہدے سے ہی استعفیٰ دینے کی دھمکی دے دی۔ ان کا موقف تھا کہ ایک رکنِ اسمبلی کی طرف سے ذاتی حیثیت میں پیش کیے گئے قانون کو منظور کر کے یونیورسٹی کے قیام کی اجازت دینے سے ایسے قوانین کی منظوری اور یونیورسٹیوں کے قیام کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا جس کے نتیجے میں صوبے میں "اعلیٰ تعلیم کا معیار برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گا"۔

ابھی اس تنازعے کی گرد بیٹھی بھی نہیں تھی کہ ان کا خدشہ درست ثابت ہو گیا اور مارچ 2021 میں ارکانِ اسمبلی کی طرف سے ذاتی حیثیت میں پیش کیے گئے مسودہ ہائے قوانین کو منظور کر کے پنجاب اسمبلی نے تین مزید یونیورسٹیوں کے قیام کی اجازت دے دی۔ ان میں سے دی سپیریئر کالج (لاہور) ترمیمی ایکٹ 2021 کا مسودہ خدیجہ عمر نے ہی پیش کیا تھا جبکہ بہاولپور میٹروپولیٹن یونیورسٹی ایکٹ 2021 کا مسودہ پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کے رکن اسمبلی محمد افضل نے اور دی یونیورسٹی آف چناب ایکٹ 2021 کا مسودہ پاکستان تحریک انصاف کی رکن اسمبلی سبرینہ جاوید نے پیش کیا تھا۔

یہی نہیں بلکہ جون 2021 میں صوبائی اسمبلی نے تین اور قانون منظور کر کے قرشی یونیورسٹی، ایسپائر یونیورسٹی لاہور اور دی انسٹی ٹیوٹ آف منیجمنٹ اینڈ ایپلائیڈ سائنسز خانیوال کے قیام کی اجازت بھی دے دی۔ ڈان کے مطابق ان تینوں قوانین کے مسودے بھی مسلم لیگ قائداعظم کے ارکان سجاد احمد خان، میاں شفیع محمد اور خدیجہ عمر نے ذاتی حیثیت میں پیش کیے تھے۔

تاہم میاں شفیع محمد کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ "انہیں یاد ہی نہیں کہ انہوں نے کبھی ایسا کوئی مسودہ اسمبلی کی منظوری کے لیے پیش کیا ہے" جبکہ خدیجہ عمر کہتی ہیں کہ پاکستان کے آئین کے تحت "صوبائی اسمبلی کے ہر رکن کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ذاتی حیثیت میں کوئی بھی مسودہِ قانون اسمبلی میں پیش کر سکے"۔

وہ اس تاثر کو بھی مسترد کرتی ہیں کہ ان قوانین کی منظوری پر ان کی اپنی جماعت اور اس کی اتحادی پاکستان تحریک انصاف کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے تھے ۔ بلکہ وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ راجا یاسر ہمایوں کو "نجی یونیورسٹیوں کے قیام کے لیے ارکان اسمبلی کی جانب سے ذاتی حیثیت میں پیش کیے جانے والے مسودہ ہائے قانون پر کوئی اعتراض نہیں"۔

تعلیم یا کاروبار؟

پنجاب میں تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن کا طریقہ کار 20 ستمبر 2006 کو جاری کیے گئے ایک نوٹیفیکیشن میں دیا گیا ہے۔ اس کے تحت افراد یا غیر رجسٹرڈ اداروں کو ایسے ادارے قائم کرنے کی اجازت نہیں بلکہ صرف نجی شعبے کی رجسٹرڈ کمپنیاں، سوسائٹیز ایکٹ کے تحت بنائی گئی انجمنیں، مدینہ فاؤنڈیشن جیسی غیر منافع بخش غیر سرکاری تنظیمیں اور ٹرسٹ ہی ان کے قیام کے لیے صوبائی حکومت کو درخواست دے سکتے ہیں۔

اس عمل کے پہلے مرحلے کے طور پر ایسی کمپنیوں، انجمنوں، غیر سرکاری تنظیموں اور ٹرسٹوں کے مجاز نمائندے ایک باقاعدہ درخواست کے ہمراہ اپنے مجوزہ تعلیمی ادارے کے قابلِ عمل ہونے کے بارے میں ایک جامع رپورٹ اور ایک لاکھ روپے کا ناقابل واپسی بینک ڈرافٹ/پے آرڈر صوبائی حکومت کو جمع کراتے ہیں۔

یہ دستاویزات وصول کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کا صوبائی محکمہ ان کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور پھر انہیں صوبائی حکومت کی طرف سے قائم کی گئی تعلیمی، انتظامی اور مالی امور کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی کے پاس بھیج دیتا ہے جو نہ صرف مجوزہ ادارے کے قابلِ عمل ہونے کے بارے میں تیار کی گئی رپورٹ میں دی گئی معلومات کا تفصیلی جائزہ لیتی ہے بلکہ اس کے ارکان مجوزہ ادارے کی عمارات اور دوسری سہولیات کا بذاتِ خود معائنہ بھی کرتے ہیں۔

یہ کمیٹی اپنی سفارشات پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کو پیش کرتی ہے جو ان کا جائزہ لے کر طے کرتا ہے کہ کیا مجوزہ ادارہ تمام متعلقہ قوانین اور انتظامی قواعد و ضوابط پر پورا اترتا ہے۔ اگر یہ شرط پوری ہو رہی ہو تو کمیشن تجویز کرتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کا صوبائی محکمہ اس کی پوری درخواست صوبائی کابینہ کو بھیجے جس کی منظوری ملنے کے بعد یہی محکمہ اس ادارے کے قیام کے لیے درکار قانون کا مسودہ تیار کرتا ہے تا کہ اسے اسمبلی میں پیش کیا جا سکے۔

تاہم مسودے کے اسمبلی کے سامنے رکھے جانے سے پہلے اس کی ایک قائمہ کمیٹی فیصلہ کرتی ہے کہ آیا اس میں دیے گئے نکات تمام قوانین سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ اس کمیٹی سے منظوری ملنے کے بعد ہی مسودے کو اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے۔

لیکن مذکورہ بالا ساتوں تعلیمی اداروں کے لیے درکار قوانین کی منظوری کے لیے یہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا۔ ڈان کے بقول یہی وجہ تھی کہ حکومت کی طرف سے بنائی گئی ماہرین کی کمیٹی کے سربراہ اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر خالد آفتاب نے اس سارے عمل کے دوران ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ 

یہ بھی پڑھیں

postImg

نظامِ تعلیم میں طبقاتی تقسیم: واحد قومی نصاب کس طرح سرکاری اور نِجی سکولوں میں فرق بڑھا دے گا۔

تاہم گرین انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر خلیق الرحمان اس طریقہِ کار کو نظر انداز کر کے یونیورسٹیوں کے قیام کی منظوری دینے کو کوئی غلط بات نہیں سمجھتے۔ بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ اس سلسلے میں پنجاب اسمبلی کے ارکان کی طرف سے ذاتی حیثیت میں پیش کیے گئے مسودہ ہائے قانون کی منظوری "پاکستان کے لیے بہت فائدہ مند ہے کیونکہ اس کی بدولت نئے تعلیمی ادارے قائم ہو رہے ہیں اور ملک بھر میں بہت بڑی تعداد میں طلبہ کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کا موقع میسر آ رہا ہے"۔

اس کے برعکس پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے میڈیا آفیسر شاہد عمران کہتے ہیں کہ گرین انٹڑنیشنل یونیورسٹی جیسے تعلیمی اداروں کے لیے منظور کیے گئے قوانین اعلیٰ تعلیم کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ "کاروباری طبقے اور دیگر مفاد پسند گروہوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے بنائے گئے ہیں"۔

ان کا کہنا ہے کہ تعلیمی معیار برقرار رکھنے کے لیے صوبائی حکومت اور صوبائی اسمبلی کے لیے لازمی ہے کہ وہ  تمام "فیصلے طے شدہ طریقہ کار کے مطابق ہونے دیں" اور ان معاملات میں متعلقہ محکموں اور اداروں پر "اوپر سے فیصلے مسلط نہ کریں" کیونکہ اس دباؤ کے نتیجے میں "تعلیم کے شعبے میں ان محکموں اور اداروں کا اختیار نظرانداز ہی نہیں ہوتا بلکہ ختم ہو کر رہ جاتا ہے''۔

تاریخ اشاعت 28 دسمبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

فریال احمد ندیم نے کنیئرڈ کالج لاہور سے عالمی تعلقات میں بی ایس آنرز کیا ہے۔ وہ صحت اور تعلیم سے متعلق امور پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.