بارش شروع ہوتے ہی 70 سالہ ریٹائرڈ سکول ٹیچر اکبر علی طارق کو فکر لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں اِس کا پانی ان کے مکان کی بنیادوں میں داخل نہ ہوجائے۔ اس لیے وہ کَسّی اٹھا کر گلی میں بند باندھنے لگے ہیں۔
حیات کوٹ نامی گاؤں میں 24 اگست 2022 کی دوپہر کو شروع ہونے والی یہ بارش جیسے ہی تھمے گی بہت سے دوسرے مقامی لوگ بھی اپنے گھروں سے باہر آ جائیں گے۔ ان میں سے کچھ گلیوں سے پانی نکالنے لگیں گے اور کچھ اپنے مویشیوں کو باندھنے کے لیے کوئی نسبتاً خشک جگہ تلاش کرنے لگیں گے۔
یہ گاؤں وسطی پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔ اس سے صرف ایک کلومیٹر دور ایک مرکزی شاہراہ گزرتی ہے جو لاہور کو پنجاب کے سب سے بڑے صنعتی شہر فیصل آباد سے جوڑتی ہے۔
صوبے کے انتظامی اور معاشی مراکز کے اس قدر قریب ہونے کے باوجود حیات کوٹ میں زندگی کی کئی بنیادی سہولتیں موجود نہیں۔ اس میں لڑکیوں کا کوئی سکول نہیں، اس کی بیشتر گلیاں کچی ہیں اور ان سے گندے پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں چنانچہ یہ پانی گاؤں کے مختلف محلوں میں موجود خالی جگہوں میں جمع ہو کر گندے جوہڑوں کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
گاؤں کے کچھ محلے ایسے بھی ہیں جن میں بجلی کے کھمبے ہی موجود نہیں لہٰذا اس کی موٹی موٹی تاریں لکڑی کے ڈنڈوں اور دیواروں سے لٹکا کر گھروں تک پہنچائی گئی ہیں۔ اکبر علی طارق بجلی کی ترسیل کے اس مقامی نظام کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ایک ماہ پہلے ایک طوفان کے دوران یہ تاریں زمین پر آ گری تھیں جہاں ان میں سے گزرنے والے کرنٹ سے چھو کر مقبول احمد نامی مقامی باشندے کی دو بھینسیں مر گئیں"۔
کچھ دیر بعد ایک قریبی گلی میں وہ ایک گھر کے بیرونی دروازے پر دستک دیتے ہیں جس کی باہر والی دیوار پر ابھی بھی بجلی کی تاریں لٹک رہی ہیں۔ ان کی دستک کے جواب میں مقبول احمد کی اہلیہ سکینہ بی بی باہر آتی ہیں اور کہتی ہیں کہ آج بھی وہ اپنے شوہر کے ساتھ مل کر بارش کے دوران ڈنڈوں کی مدد سے تاروں کو مسلسل درست کرتے رہی ہیں تاکہ وہ دوبارہ نیچے نہ آ پڑیں۔
ان مسائل کی موجودگی میں ان کے لیے حیات کوٹ میں زندگی گزارنا ایک عذاب سے کم نہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ "ہم غریب لوگ ہیں، ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے اسی لیے ہمیں اسی جگہ رہنا پڑ رہا ہے ورنہ جو لوگ استعداد رکھتے ہیں وہ یہاں رہنا پسند نہیں کرتے"۔
وہ اپنے ہمسائے صابر علی کے مقفل گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہ چھ ماہ پہلے لاہور کے قریب کسی جگہ منتقل ہوگئے کیونکہ "ان کے دو بیٹوں کو لاہور کی ایک فیکٹری میں نوکری مل گئی تھی"۔
اکبر علی طارق بھی کہتے ہیں کہ بنیادی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے کئی مقامی خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ان کا اپنا ایک بیٹا اپنے بیوی بچوں سمیت شیخوپورہ منتقل ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے دوسرے دو بیٹوں کا بھی اصرار ہے کہ ان کے پورے خاندان کو لاہور یا شیخوپورہ چلے جانا چاہیے لیکن وہ خود اپنا گاؤں چھوڑنے کو تیار نہیں۔
کوٹ حیات سے 27 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقعے ڈھڈیاں نامی گاؤں کے رہنے والے کاشت کار ساجد امین کے دو بھائی، جو لاہور اور فیصل آباد میں کپڑا سازی کی صنعت سے وابستہ رہے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے بیوی بچوں سمیت انہی شہروں میں بس گئے ہیں۔ چونکہ ساجد امین اپنا نجی تعلیمی ادارہ بھی چلاتے ہیں اس لیے وہ کئی دیگر مقامی خاندانوں کو جانتے ہیں جو پچھلے کچھ سالوں میں اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دلانے کے لیے ضلع ننکانہ صاحب کو چھوڑ کر کسی بڑے شہر میں چلے گئے ہیں۔
سرکاری اعدادوشمار اس رجحان کی توثیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 1998 اور 2017 کے درمیان اس ضلعے کی آبادی بڑھنے کی اوسط سالانہ شرح 1.37 فیصد رہی جو پنجاب کے سب اضلاع سے کم ہے۔ تازہ ترین سرکاری مردم شماری کے مطابق پورے پاکستان میں بھی دراصل صرف چھ ایسے علاقے ہیں جہاں آبادی میں ہونے والا اوسط سالانہ اضافہ ننکانہ صاحب سے کم ہے۔ ان میں بلوچستان کے چار اضلاع، موسیٰ خیل، ہرنائی، کچھی اور آواران، خیبر پختونخواہ کا ضلع تورگر اور سابقہ قبائلی علاقوں کا حصہ فرنٹیر ریجن پشاور شامل ہیں۔
اس کے برعکس ننکانہ صاحب کے پڑوسی ضلع شیخوپورہ کی آبادی میں اضافے کی اوسط سالانہ شرح 2.22 فیصد رہی ہے۔ اگر فرض کر لیا جائے کہ 1998 میں ان دونوں اضلاع کی آبادی دس دس لاکھ تھی تو ننکانہ صاحب کی آبادی میں ہر سال اوسطاً 13 ہزار سات سو افراد کا اضافہ ہوا لیکن اسی دوران شیخوپورہ کی آبادی میں ہر سال اوسطاً 22 ہزار دو سو افراد کا اضافہ ہوا۔
اکبر علی طارق اور چوہدری ساجد امین کے مطابق اس فرق کی واحد وجہ یہ ہے کہ پچھلے 25 سالوں میں بہت سے لوگ بہتر مستقبل کی خاطر ننکانہ صاحب کو چھوڑ کر کہیں اور جا چکے ہیں۔
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
قومی ادارہ شماریات کی جانب سے 20-2019 میں کیے جانے والے پاکستان سوشل اینڈ لیونگ سٹینڈرڈ میژرمنٹ سروے کی رپورٹ کے مطابق ننکانہ صاحب کے تین نواحی اضلاع، لاہور، شیخوپورہ اور فیصل آباد، پنجاب کے ایسے علاقوں کی فہرست میں پہلے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں جہاں بڑی تعداد میں لوگ دوسرے علاقوں سے آ کر آباد ہو رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کم ترقی یافتہ علاقوں سے بڑے شہروں کو آبادی کی منتقلی کی بنیادی وجوہات میں زرعی شعبے کی پسماندگی، کسانوں کو فصلوں کا مناسب معاوضہ نہ ملنا، صحت، تعلیم اور نقل و حمل کی ناقص سہولتیں، اجرت کی کم شرح اور روزگار کے مواقع کا کم ہونا شامل ہیں۔
مختلف سرکاری اور غیر سرکاری فلاحی اداروں سے وابستگی کا تجربہ رکھنے والے اویس احمد کھوکھر کہتے ہیں کہ ان میں سے اکثر وجوہات ان کے علاقے پر لاگو ہوتی ہیں۔ وہ کوٹ حیات کے رہنے والے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا گاؤں جواہر پور نامی یونین کونسل کا حصہ ہے جس کی آبادی لگ بھگ 25 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ اس یونین کونسل میں چھوٹے بڑے 16 دیہات شامل ہیں لیکن، ان کے مطابق، "ان میں سے 10 دیہات ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کے لیے پرائمری سکول موجود نہیں جبکہ لگ بھگ پانچ دیہات ایسے ہیں جہاں لڑکوں کا بھی کوئی سکول نہیں"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "اس یونین کونسل کے کسی بھی گاؤں میں گندے پانی کی نکاسی کا انتظام نہیں اور نہ ہی اس کے آس پاس کوئی ایسی فیکٹریاں یا کارخانے موجود ہیں جہاں بے زمین لوگ ملازمت کر کے روزی روٹی کما سکیں"۔
پنجاب کی صوبائی حکومت کی طرف سے 2020 میں کیا جانے والا موضع جات کا سروے بھی اسی طرح کے نتائج ظاہر کرتا ہے۔ اس کے مطابق ضلع ننکانہ صاحب کے 11 فیصد (42) دیہات میں لڑکوں اور 27 فیصد (104) دیہات میں لڑکیوں کا کوئی سرکاری پرائمری سکول نہیں۔ درحقیقت اس پورے ضلعے میں بچوں کے گھروں سے لڑکیوں کے پرائمری سکول کا اوسط فاصلہ پانچ کلومیٹر ہے اور لڑکوں کے پرائمری سکول کا اوسط فاصلہ تین کلومیٹر ہے۔
اس سروے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ننکانہ صاحب کے 88 فیصد (تین سو 37) دیہات ایسے ہیں جہاں استعمال شدہ گندے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں ہے، 52 دیہات ایسے ہیں جن کی گلیاں کچی ہیں جبکہ بنیادی مراکزِ صحت صرف 16 فیصد (61) دیہات میں موجود ہیں۔ اس ضلعے میں 40 دیہات ایسے بھی ہیں جن کے رہائشیوں کو کسی بنیادی مرکزِ صحت تک پہنچنے کے لیے 25 کلو میٹر تک کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح اس کے 18 فیصد دیہات کے کچھ حصوں میں بجلی کی سہولت موجود نہیں۔
سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ننکانہ صاحب کے دیہی باشندوں کو ٹرانسپورٹ کی سہولت حاصل کرنے کے لیے اوسطاً چھ کلو میٹر تک کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے جبکہ 19 مقامی دیہات کے باسیوں کو یہ سہولت 25 کلومیٹر تک کا فاصلہ طے کرنے کے بعد دستیاب ہوتی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ ضلع پنجاب کی تین اہم ترین شاہراہوں میں گھرا ہوا ہے کیونکہ لاہور-اسلام آباد موٹروے اس کے شمال مغربی کونے میں سے گزرتی ہے، پنڈی بھٹیاں-فیصل آباد موٹروے کا بڑا حصہ اس کی مغربی سرحد سے محض چند کلومیٹر دور ہے جبکہ لاہور-ملتان موٹروے اس کے جنوب مشرقی حصوں میں سے گزرتی ہے۔
دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ لاہور، شیخوپورہ اور فیصل آباد جیسے صنعتی شہروں کا پڑوسی ہونے کے باوجود ننکانہ صاحب میں صنعتی سرگرمی نہ ہونے کے برابر ہے۔ موضع جات کے صوبائی سروے کے مطابق اس میں صرف تین بڑے، چار درمیانے اور نو چھوٹے کارخانے ہیں۔
اویس علی کھوکھر کا کہنا ہے کہ ان حالات میں ننکانہ صاحب کے رہائشیوں کی ایک بڑی تعداد کا کہیں چلے جانا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ تاہم ان کے مطابق نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس یا تو کوئی زمین اور جائیداد ہے ہی نہیں یا وہ بہت تھوڑی زمین کے مالک ہیں۔
وفاقی ادارہ برائے شماریات کی جانب سے 2010 میں کی گئی زراعت شماری کے نتائج ان کی باتوں کی تائید کرتے ہیں۔ ان نتائج کے مطابق ضلع ننکانہ صاحب کی کل زرعی اراضی پانچ لاکھ 96 ہزار 24 ایکڑ ہے جس میں سے 72 فیصد صرف 35 فیصد خاندانوں کی ملکیت ہے جبکہ باقی 65 فیصد خاندانوں کے پاس صرف 28 فیصد رقبہ ہے۔ زمین کی اس غیرمساوی تقسیم کی وجہ سے 39 فیصد مقامی خاندان ایسے ہیں جو ڈھائی ایکڑ سے کم اراضی کے مالک ہیں جبکہ سات فیصد ایسے ہیں جن کے پاس ایک ایکڑ سے بھی کم زرعی رقبہ ہے۔
چونکہ زمین کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر کاشت کاری کوئی منافع بخش عمل نہیں اس لیے ننکانہ صاحب میں پانچ ایکڑ سے کم رقبے کے مالک 23 فیصد خاندانوں نے اپنی زمین ٹھیکے پر دے رکھی ہے اور خود اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے کوئی دوسرا کام کر رہے ہیں۔
سیاست بمقابلہ عوام
پاکستان پیپلز پارٹی لاہور ڈویژن کے ڈپٹی انفارمیشن سیکرٹری اعجاز احمد بھٹی ننکانہ صاحب کے ایک معروف سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس کے مختلف افراد مختلف وقتوں میں قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے ارکان رہ چکے ہیں۔ ان میں رائے بشیر احمد بھٹی کا نام نمایاں ہے کیونکہ وہ دوبار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں جبکہ ان کے قریبی عزیز رائے رشید بھٹی، رانا شوکت محمود اور رائے شاہ جہان بھٹی بھی پنجاب اسمبلی کے ارکان رہے ہیں۔
اعجاز احمد بھٹی اپنے علاقے کی پسماندگی کا ذمہ دار اس کی سیاسی قیادت کو سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پچھلے ماہ بارش کے دوران وہ ننکانہ صاحب شہر سے اپنے گاؤں جانے کے لیے نکلے تو تھوڑی دیر بعد ہی ان کی گاڑی بند ہو گئی کیونکہ نکاسی آب کا سرکاری نظام ناکافی ہونے کی وجہ سے سڑکوں اور کھلی جگہوں پر کئی فٹ پانی کھڑا ہو گیا تھا۔ اس صورتِ حال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ ایک عام آدمی ہوتے تو حکمرانوں کو برا بھلا کہہ کر اپنا غصہ نکال لیتے لیکن چونکہ ان کا خاندان خود حکومت میں رہ چکا ہے اس لیے وہ اس پر ندامت بھی محسوس کر رہے تھے۔
ان کے خیال میں مقامی پسماندگی کی دوسری اہم وجہ ننکانہ صاحب شہر کے اردگرد 23 ہزار ایکڑ ایسی اراضی کی موجودگی ہے جو یہاں واقع سکھ مذہب کے مقدس ترین مذہبی مقام، گوردوارہ جنم استھان، سے وابستہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ "یہ زمین بیچی نہیں جا سکتی اور اسے غیر زرعی مقاصد کے لیے استعمال بھی نہیں کیا جا سکتا اس لیے اس کی وجہ سے نہ تو شہر کی آبادی بڑھ سکتی ہے اور نہ ہی یہاں کوئی کارخانے لگ سکتے ہیں"۔ چنانچہ، ان کی نظر میں، مقامی لوگوں کے پاس کہیں اور چلے جانے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہتا۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر شذرہ منصب علی، جن کے مرحوم والد رائے منصب علی خان کھرل ننکانہ صاحب سے پانچ بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں، بھی تسلیم کرتی ہیں کہ ان کا ضلع اپنے قریبی اضلاع کے مقابلے میں زیادہ پسماندہ ہے۔
ان کی نظر میں اس پسماندگی کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس کے اکثر دیہات میں آمدورفت کے ذرائع ناکافی ہیں جس کے باعث "سرکاری ٹیچر اور ڈاکٹر یہاں تعینات ہونے سے ہچکچاتے ہیں"۔ لیکن، ان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کی موجودہ وفاقی حکومت نے ایک مقامی قصبے، بچیکی، کے نزدیک ننکانہ صاحب کو لاہور-ملتان موٹروے سے جوڑنے کی منظوری دے دی ہے "جس سے یہ مسائل حل ہو جائیں گے"۔
تاریخ اشاعت 6 ستمبر 2022