42 سالہ محمد حسین (فرضی نام) سندھ پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل ہیں۔ وہ طویل عرصہ سے ضلع ٹنڈو محمد خان میں فرائض انجام دے رہےہیں اور آج کل تھانہ آبادگار شوگر ملز میں تعینات ہیں۔ محمد حسین عام طور پر پولیس موبائل پر ڈیوٹی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جب وہ رات کو گشت کر رہے ہوتے ہیں تو ممکن ہے اس سے شہریوں کو اپنے تحفظ کا احساس ہوتا ہو۔ مگر انہیں ہمیشہ یہی خوف رہتا ہے کہ ان کی کھٹارا گاڑی کہیں بیچ راستے خراب نہ ہو جائے یا اس کا پٹرول ختم نہ ہو جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر کبھی جرائم پیشہ افراد کا پیچھا کرنا پڑے تو پولیس موبائل اکثر جواب دے جاتی ہے۔ ایسے میں لوگ پولیس کو برا بھلا کہتے ہیں اور اہل کار گاڑی کو دھکا لگا رہے ہوتے ہیں۔ ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔
محمد حسین نے بتایا کہ ان کی مشکل صرف گاڑی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ تھانے میں واش روم ہی نہیں ہے۔ اہل کاروں کو رفع حاجت کے لیے جھاڑیوں میں جانا پڑتا ہے۔ ان حالات میں پولیس کو دعاؤں اور تحفظ کی ضرورت ہے۔
سات لاکھ 26 ہزار 119 آبادی کا ضلع ٹنڈو محمد خان تین تحصیلوں (تعلقہ) ٹنڈو محمد خان، بلڑی شاہ کریم اور ٹنڈو غلام حیدر پر مشتمل ہے۔
ضلع بھر میں گیارہ تھانے ہیں جن میں سے ایک خواتین کے لیے مخصوص ہے۔تحصیل ٹنڈو محمد خان کے علاقے میں پانچ تھانے ہیں جن میں سے تین بلڑی شاہ کریم اور تحصیل ٹنڈو غلام میں واقع ہیں۔
ٹنڈو محمد خان پولیس کے اپنے اعدادوشمار بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ضلع میں منشیات، چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔گزشتہ چھ ماہ کے دوران ان جرائم کے 497 مقدمات درج ہوئے۔
ایس ایس پی ٹنڈو محمد خان کے پی آر او پارس میمن تصدیق کرتے ہیں کہ رواں سال جنوری سے جولائی تک ضلعی ہیڈ کوارٹر کے صرف تین تھانوں میں 208 وارداتوں کے مقدمات درج کیے گئے۔ چوتھے (ویمن) پولیس سٹیشن میں درج منشیات فروشی اور چوری کے 14 مقدمات اس کے علاوہ ہیں۔
دیگر تھانوں میں گٹکا مین پوری،چرس افیون اور آئس فروشی،کیمیکل سے دیسی شراب کی تیاری اور فروخت، بغیر لائسنس آتشیں اسلحہ رکھنے وغیرہ کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
سماجی کارکن ریاست مقبول مسیح بتاتے ہیں کہ شہر میں منشیات بڑی مقدار میں فروخت ہورہی ہیں۔ مین پوری، گٹکا ،انڈین سفینہ، چرس افیون ہیروئن اور آئس یہاں ایسے بک رہے ہیں جیسے پرچون کی دکان پر اشیاء خورونوش بکتی ہیں۔
جرائم اور مقدمات کی تشویشناک صورتحال اپنی جگہ، پولیس کی حالت اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ ہیڈ کانسٹیبل کے بقول "شہری جرائم کا قصوروار پولیس کو تو ٹھہراتے ہیں لیکن وہ دیکھ ہی رہے ہیں کہ ہمارا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے۔"
ٹنڈو محمد خان کو وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کے دور میں 2005ء میں حیدرآباد سے الگ کرکے ضلع کا درجہ دیا گیا۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر بننے کے بعد یہاں 18 سال میں تمام محکموں کے دفاتر نئے بن گئے ہیں مگر پولیسنگ پر توجہ دکھائی نہیں دیتی۔
ضلع کے گیارہ تھانوں میں سے صرف چار کی اپنی عمارتیں ہیں جب کہ چھ تھانے مختلف محکموں کی چھوڑی ہوئی پرانی بوسیدہ عمارتوں میں قائم ہیں ۔ضلع پولیس لائنز سابقہ محکمہ ٹیلی فون کے پرانےکوارٹرز میں بنائی گئی ہے اور تعلقہ پولیس سٹیشن بھی انہیں کوارٹرز میں کام کر رہا ہے۔
تھانہ شیخ بھرکیو، بی سیکشن ، ڈندو اور مویا سمیت چاروں تھانوں کے اہلکار محکمہ بلدیات کی عمارتوں میں بیٹھے ہیں۔ تھانہ ملاکاتیار محکمہ انہار اور تھانہ آبادگار مقامی شوگر ملز کی لیبر کالونی میں قائم ہیں اور محکمہ ریونیو کی ایک پرانی عمارت کو ویمن پولیس سٹیشن کا نام دے دیا گیا ہے ۔
ٹنڈو محمد خاں کے ڈی ایس پی محمد خان زنئور کہتے ہیں کہ زیادہ تر تھانے مختلف محکموں کی پرانی اور متروک عمارتوں میں قائم ہیں۔ لہذا جس تھانے کی عمارت ہی نہیں ہے وہاں واش روم یا پانی کی سہولت کیا ہوگی۔ویمن پولیس سٹیشن میں بھی واش روم کاعارضی بندوبست کیا گیا ہے۔
یہاں ضلعی پولیس سربراہ اور آٹھ ڈی ایس پیز سمیت مجموعی طور پر ایک ہزار86 اہلکار اور افسر ہیں۔ مگر صرف تین ڈی ایس پیز اور تین ایس ایچ اوز کو سرکاری رہائش گاہیں میسر ہیں۔ یہاں تک کہ ایس ایس پی بھی انہار افسروں کے لیے مخصوص بنگلے میں قیام پذیر ہیں۔
ٹنڈو محمد خان تاجران فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری سلیم گدی بتاتے ہیں کہ ٹنڈو محمد خان اور ٹنڈو غلام حیدر کے ڈی ایس پیز ایک ہی کوارٹر کے کمروں میں رہتے ہیں جبکہ بلڑی شاہ کریم کے ڈی ایس پی چوکی کے ایک کمرے میں مقیم ہیں۔تعلقہ (ٹنڈو محمد خان) تھانے والی عمارت تو کسی بھی وقت دھماکے سےگر سکتی ہے۔
ڈی ایس پی ٹنڈو محمد خاں اعتراف کرتے ہیں کہ جوانوں اور افسروں کی رہائش کا انتظام ہے نہ ہی ایس ایچ اوز کے دفاتر کا کچھ پتا۔پولیس کے جوان علاج معالجے اور بچوں کی تعلیم کے لیے الگ پریشان ہیں۔ مگر مشکلات کے باوجود پولیس اپنا کام فرض شناسی سے انجام دے رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سابقہ صوبائی حکومت نے ضلع پولیس ہیڈکوارٹرز بنانے کی منظوری دی تھی، تعمیراتی کام بھی چل رہا ہے۔ ہیڈ کوارٹرز کی تکمیل سے یہاں شہر میں تو مسائل کچھ کم ہو جائیں گے مگر دیگر تھانوں کے لیے بھی سوچنا پڑے گا اور تب تک مشکلات برقرار رہیں گی۔
یہ بھی پڑھیں
ویمن ہیلپ ڈیسک کی حقیقت اور گوجرانوالہ کے ویمن پولیس سٹیشن کے گیٹ پر پڑے تالے کی کتھا
سماجی رہنما راؤ غلام حسین بتاتے ہیں کہ ٹنڈو محمد خان پولیس کی گاڑیوں میں سے بیشتر تو چلتی ہی نہیں ہیں۔ جو قابل استعمال ہیں ان میں پٹرول نہیں ہوتا۔
"جب بھی کوئی فریادی تھانے جاتا ہے۔ پولیس والے انہیں کہتے ہیں کہ پہلے آپ ہماری گاڑی میں پٹرول ڈلواؤ پھر آپ کے کیس کی تفتیش شروع کریں گے۔"
سرکاری ریکارڈ کے مطابق ضلع میں پولیس کے پاس کل 30 پولیس موبائل گاڑیاں ہیں۔ان میں سے زیادہ تر گاڑیاں 2006ء ماڈل کی ہیں جو تقریباً کھٹارہ ہو چکی ہیں۔ کچھ 2010ء میں خریدی گئی تھیں یہ نسبتاً بہتر حالت میں ہیں جبکہ صرف ایک گاڑی نئی ہے۔یہاں پولیس کےپاس 30 فائٹر موٹر سائیکلیں بھی موجود ہیں جن میں سے نصف ناکارہ ہو چکی ہیں۔
گاڑیوں کے پٹرول سے متعلق سوال پر پولیس افسروں نے بجٹ کو 'سیکرٹ ڈاکومنٹ' قرار دے کر تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔ تاہم ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ اپنے وسائل سے گاڑیوں کی مرمت اور دیکھ بھال کرتے ہیں۔
ایس ایس پی ٹنڈو محمد خان کا کہنا تھا کہ ان کی حال ہی میں تعیناتی ہوئی ہے۔اس لیے وہ مسائل پر بریفنگ لینے کے بعد ہی کچھ کہنے کی پوزیشن میں ہونگے۔
تاریخ اشاعت 26 ستمبر 2023