پاکپتن کی تحصیل عارف والا کے گاؤں 25 ای بی کے باہر دھان کے کھیتوں میں کھال کے اوپر چارپائی دھری ہے جہاں اگست کی ایک صبح فریاد کا خاندان ناشتہ کر رہا ہے۔ سبزی، روٹی اور ساتھ لسی کاایک مٹکا۔
سخت محنت کے دوران یہ وقفہ غنیمت ہے۔ وہ فجر کی اذان سے بہت پہلے یہاں دھان کے کھیت میں پہنچے تھے اور گھٹنوں تک پانی میں ڈوبے مسلسل دو گھنٹے چاول کی پنیری لگاتے رہے۔
اس ٹیم میں فریاد کے علاوہ ان کی دو شادی شدہ بیٹیاں اور ان کی اہلیہ رضیہ شامل ہیں جو بظاہر سارا انتظام سنبھال رہی ہیں۔
پاکستان کی معیشت میں زراعت کا حصہ تقریباً 19 فیصد ہے لیکن ملک کی 38 فیصد افرادی قوت اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ زرعی لیبر کا 55 سے60 فیصد پنجاب میں کام کرتا ہے جن میں 40 سے 50 فیصد خواتین ہیں۔
معیشت کے کسی اور شعبے میں خواتین کا اتنا زیادہ کردار نہیں جتنا زراعت میں ہے مگر انہیں موسمی و غیر رسمی مزدور کی حیثیت دی جاتی ہے۔ لیبر قوانین تو زرعی شعبے پر لاگو ہی نہیں ہوتے۔
زرعی روزگار گزربسر کے لیے ناکافی ہوتا ہے اور موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات نے اسے ناقابل بھروسہ بھی بنا دیا ہے جس کی وجہ سے پنجاب میں مردوں کی دیہات سے شہروں کی طرف نقل مکانی تیز ہو گئی ہے۔
یہ لوگ شہروں میں پلمبر، الیکٹریشن، مستری وغیرہ کا کام سیکھ لیتے ہیں یا پھر ایسی ملازمتیں ڈھونڈتے ہیں جہاں باقاعدہ تنخواہ ملتی ہو۔ ان میں سے کچھ مرد صرف گندم یا چاول کی بوائی یا کٹائی کے موسم میں اپنے گاؤں واپس آتے ہیں۔
مرد روزگار کے لیے شہر چلے جاتے ہیں تو زراعت میں لیبر کا خلا خواتین پُر کرتی ہیں
دلچسپ بات یہ ہے کہ مردوں کے شہر چلے جانے سے زرعی میدان میں لیبر کے خلا کو خواتین پر کر رہی ہیں جو آبپاشی سے کھیت مزدوری تک تمام کام کرتی ہیں۔ یہ نہ ہوتیں تو پنجاب میں فوڈ سپلائی چین کو شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا۔

پنجاب میں بے زمین کسان (فصل کے پانچویں، آٹھویں یا بیسویں حصے پر( مزارعے کے طور پر کام کرتے ہیں یا پھر کھیتوں میں مزدوری کرتے ہیں۔
فریاد کے پاس اپنی کوئی زمین نہیں، ان کا خاندانی پیشہ شادی بیاہ میں ڈھول بجانا تھا۔ اب اس سے گزارا نہیں ہوتا اس لیے انہیں مزدوری کے لیے فصل کی بوائی یا کٹائی شروع ہونے کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے خاندان کو زرعی کام ٹھیکے کی شکل میں ملتا ہے جو انہیں مخصوص مدت میں مکمل کرنا ہوتا ہے اور اجرت یکمشت مل جاتی ہے۔ ان کے چک کے ارد گرد زیادہ تر زمین چھوٹے کسانوں کی ملکیت ہے جو عموماً دو سے تین ایکڑ کے مالک ہیں۔
سستے برانڈ کی سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے انہوں نے کہا: "وہ کسی ٹھیکیدار کی بجائے براہ راست مجھ سے معاملہ کرتے ہیں، یہ طریقہ زیادہ آسان ہے۔"
اگست کا گرم اور حبس زدہ موسم انسانوں اور جانوروں دونوں کے لیے تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن دھان کے لیے موزوں۔
فریاد کے پاس چار دن ہیں جن میں ان کے خاندان کو ایک ایکڑ زمین میں ہائبرڈ چاول کی پنیری لگانی ہے اور پھر دوسرے کھیت میں کام شروع کرنا ہے۔
موسم سازگار رہا تو وہ روزانہ آٹھ گھنٹے کام کر کے چار دن میں معاہدہ مکمل کر لیں گے۔ یہ کام روزانہ صبح اور سہ پہر چار چار گھنٹےکی دو شفٹوں میں تقسیم ہوگا۔
کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ، گھر آ کر ہر کام میں اکیلی
گاؤں کی خواتین کھیتوں میں مردوں کے برابر محنت کرتی ہیں۔ دھان کے کھیت میں سہاگہ مارنا ہو، پنیری لگانی ہو، پھل اور سبزیاں بونے سے کپاس کی چنائی اور گندم کی کٹائی تک وہ ہر کام کرتی ہیں۔ لیکن جب وہ کھیتوں سے واپس گھر آتی ہیں تو وہاں انہیں سب کام اکیلے ہی کرنا پڑتے ہیں۔
رضیہ اپنے شوہر سے تقریباً دو گھنٹے پہلے جاگتی ہیں۔ روٹی کے لیے آٹا گوندھتی ہیں، پھر کھلے صحن میں مٹی سے بنے چولہے میں لکڑیاں اور بھوسہ سلگاتی ہے تب کہیں ان کے شوہر کی آنکھ کھلتی ہے۔
وہ صبح کے لیے سالن رات ہی کو بچا لیتی ہیں، کچھ روٹیاں لپیٹ کر اپنے بیٹوں کے لیے رکھ دیتی ہیں جو سکول جانے کے لیے تب جاگتے ہیں جب باقی سب کھیتوں کو جا چکے ہوتے ہیں۔
رضیہ بتاتی ہیں کہ گرمیوں میں دس بجے کے بعد دھوپ میں کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے تو وہ وقفہ کر لیتے ہیں اور چک کے نواح میں واقع اپنے گھر واپس پہنچتے ہیں۔

"میرے شوہر جاتے ہی لیٹ جاتے ہیں مگر میں آرام نہیں کر سکتی۔ اسی وقت میرے بیٹے سکول سے واپس لوٹتے ہیں اور وہ بھوکے ہوتے ہیں۔ میں ان کے لیے دوپہر کا کھانا بنانے میں لگ جاتی ہوں۔"
اسی دوران مویشیوں کو چارہ ڈالنے کا کام رضیہ کی منجھلی بیٹی فاطمہ کرتی ہیں جو آٹھویں جماعت تک ہی سکول جا پائی تھیں۔ ابھی ماں کو گائے کا دودھ نکالنا ہے تاہم باڑے یا گوبر کی صفائی وہ شام کو کریں گی۔
اس خاندان نے دو گائے 'ادھارے' پر رکھی ہوئی ہیں۔ یعنی انہوں نے کسی دوسرے سے مویشی آدھے حصے پر لیے ہیں جن کی یہ دیکھ بھال کرتے ہیں جبکہ دودھ و افزائش کی آمدنی مالک اور رکھوالا برابر بانٹ لیتے ہیں۔
کھیت مزدور خاندان دن بھر مشقت کے باوجود 625 روپے فی کس ہی کما پاتا ہے
عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کے مطابق دیہی خواتین گھریلو کاموں کے ساتھ مویشیوں اور مرغیوں کی دیکھ بھال بھی کرتی ہیں جن میں چارہ ڈالنا، شیڈ صاف کرنا، کھیتوں سے چارہ لانا ، دودھ نکالنا اور انڈے جمع کرنا شامل ہے۔
سہ پہر کو فریاد کا خاندان دوسری شفٹ کے لیے دوبارہ کھیتوں کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ ان کی دو بیٹیاں بھی اپنے گھریلو کام نمٹا کر ان سے آ ملتی ہیں۔
راستے میں ان کی ملاقات تنزیلہ سے ہوتی ہے جو ایک دبلی پتلی درمیانی عمر کی خاتون ہیں جو اپنی عمر سے زیادہ بوڑھی دکھائی دیتی ہیں۔ وہ کھیت اور گھر میں دن بھر محنت کے بعد بھینسوں کو تالاب سے پانی پلانے لے جا رہی ہیں۔
گاؤں کے دوسری طرف بھوسے کی گرد میں اٹے رفیق اور ان کی بیوی ثمینہ تلی کی خشک چھڑیوں سے بیج نکالنے میں مصروف ہیں۔ یہ نوجوان جوڑا 16 افراد پر مشتمل ایک بڑے خاندان کا حصہ ہے جو مل کر مزدوری کرتا ہے۔

پنجاب حکومت نے یکم جولائی 2024ء سے کم از کم ماہانہ اجرت 37 ہزار روپے مقرر کر رکھی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مزدور (مرد ہو یا عورت) کی اجرت ایک ہزار 200 روپے یومیہ سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم کھیت میں دھان لگانے کی مزدوری ( یا ٹھیکہ) عموماً دس ہزار روپے فی ایکڑ طے ہوتی ہے۔ بارش نہ ہو تب بھی یہ کام چار افراد چار دن سے پہلے مکمل نہیں کر سکتے۔
یوں دیکھا جائے تو فریاد کے خاندان کو کل ڈھائی ہزار روپے مزدوری ملتی ہے جو فی کس 625 روپے یومیہ بنتے ہیں یعنی سرکاری مقرر کردہ اجرت کا تقریباً نصف۔
رضیہ کے بقول وہ اچھے موسم (فصل اور حالات) میں بھی زیادہ سے زیادہ 25 سے 30 ہزار روپے ماہانہ کما پاتے ہیں۔
'چار مہینے ہمیں کوئی کام نہیں ملتا، یہ بہت مشکل وقت ہوتا ہے'
صوبائی حکومت زرعی شعبے میں کم از کم اجرت کے قانون پر عمل کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہی۔ یہاں عارف والا میں جتنے بھی کھیت مزدوروں سے بات کی گئی ان میں سے کسی کو بھی حکومتی مقرر کردہ کم از کم اجرت کا علم نہیں تھا۔علاوہ ازیں کھیت مزدوری کے تقریباً تمام معاہدے زبانی ہوتے ہیں جن کا کوئی تحریری ثبوت نہیں ہوتا۔
رضیہ کہتی ہیں کہ زرعی شعبہ پورا سال اسی طرح کی مزدوری پر چلتا ہے۔ کچھ مہینے تو ایسے ہوتے ہیں جب نہ بوائی ہوتی ہے اور نہ کٹائی، بس فصل پکنے کا انتظار رہتا ہے۔"چار مہینے ہمیں کوئی کام ہی نہیں ملتا یہ بہت مشکل وقت ہوتا ہے۔"
تو پھر گزارا کیسے ہوتا ہے؟ "دکان داروں کی مہربانی ہے کہ ہمیں ادھار پر راشن دے دیتے ہیں۔ انہیں یقین ہوتا ہے کہ ہم فصل پر قرض لوٹا دیں گے۔"
ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ کھیت مزدور دن رات محنت کر کے بھی اتنا کماتے ہیں کہ بمشکل گزارا کرتے اور قرض اتارتے ہیں۔ بے روزگاری میں پھر قرض لیتے ہیں اور فصل پر دوبارہ اسی کو اتارنے میں جت جاتے ہیں۔
رضیہ نے بتایا کہ کچھ دوسرے قرضے بھی ہیں۔ فریاد نے اپنی دوسری بیٹی کی شادی کے لیے ڈھائی لاکھ روپے قرض لیا تھا جس میں سے آدھا رقم ادا ہو چکی ہے۔امید ہے تیسری بیٹی کی شادی سے پہلے باقی بھی ادا ہو جائے گا۔
"یہ سب بہت مشکل ہے۔ ہماری آمدنی سے چولہا مشکل سے جلتا ہے اوپر سے بجلی کے بھاری بل بھی آجاتے ہیں جو ہماری آمدن کا بیشتر حصہ چٹ کر جاتے ہیں۔"
'میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام نہیں چھوڑا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں'
کھیت مزدوری میں عورت کی بیماری، حمل یا بعد از زچگی آرام کو بھی اہم نہیں سمجھا جاتا نہ ہی اسے کام سے غیر حاضری کی معقول وجہ تصور کیا جاتا ہے۔
رضیہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ جب ان کی پہلی بیٹی حنا پیٹ میں تھی تو اس دوران بھی انہیں کام کرنا پڑتا تھا۔ یہ دھان کی بوائی کا موسم تھا اور ٹھیکے مکمل کرنا ضروری تھے۔ دوسرا بچہ یعنی عائشہ بطن میں تھی تو وہ گندم کاٹ رہی تھیں اور حنا پیچھے پیچھے پھرتی تھی۔

"کچھ سال بعد جب میں اور حنا دھان کی پنیری لگا رہی ہوتی تھیں تو عائشہ اپنے چھوٹے بھائی کو جھولے (چارپائی سے بندھا کپڑا) میں سلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں اپنے چھ بچوں کو کام کے دوران کھیتوں میں ہی دودھ پلایا کرتی تھی۔
"میں نے حمل کے آخری مہینوں میں بھی کبھی کام کرنا نہیں چھوڑا اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔"
ایشیئن فورم فار ہیومن رائٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ کی رپورٹ کہتی ہے کہ دیہات میں خواتین کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ وہ اکثر مناسب غذا سے محروم رہتی ہیں جس کے نتیجے میں کمزوری اور بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق حاملہ خواتین کا کھیتوں میں سخت کام کرنا خطرناک ہے جو ماں اور ہونے والے بچے دونوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
دھان لگانے یا کھیت میں گوڈی کے لیے مسلسل جھکے رہنا کمر، جوڑوں اور پٹھوں کی تکلیف کا سبب بنتا ہے۔ حمل اور بچے کو دودھ پلانے کے دوران غذا کی کمی خواتین کو مزید کمزور کر دیتی ہے جس سے وہ کئی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔
فریاد اور رفیق اپنی بیویوں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں لیکن گھر میں ان کی مدد کے لیے ایک انگلی بھی نہیں ہلاتے۔ کہتے ہیں "یہ تو عورتوں ہی کا کام ہے۔"
لڑکے صبح کو سکول جاتے اور شام کو کرکٹ کھیلتے یا آوارہ گردی کرتے نظر آتے ہیں
بیٹے، خاندان کو غربت سے نکالنے کا واحد ذریعہ سمجھے جاتے ہیں جس کے لیے ان کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اگر لڑکا میٹرک بھی پاس کر لے تو کوئی چھوٹی موٹی نوکری حاصل کر سکتا ہے جو مستقل آمدنی کی ضمانت ہوگی۔
لیکن بیٹی کی تعلیم؟ چک 25 ای بی کے تقریباً تمام مردوں کا خیال ہے کہ لڑکی کی تعلیم کا فائدہ اس کے سسرال کو ہوگا۔ لڑکی کھیتوں میں کام کر کے والدین کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
رضیہ کو پانچویں کے بعد سکول چھوڑنا پڑا تھا۔ ان کی دونوں بیٹیوں کی پڑھائی بھی پرائمری کے بعد چھڑوا دی گئی کیونکہ گھر میں ان کی زیادہ ضرورت تھی لیکن بیٹے صبح سکول جاتے اور شام کو ادھر ادھر آوارہ گردی کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں

سخت بے زمینی ہے سخت لامکانی ہے: پنجاب کے لہلہاتے کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین فاقے کرنے پر مجبور۔
ثمینہ کبھی سکول نہیں گئیں مگر چاہتی ہیں کہ ان کے بیٹے کالج تک پہنچیں تاکہ انہیں (بیٹوں کو) کھیتوں میں مشقت نہ کرنی پڑے۔
یہی سوچ گاؤں میں لڑکیوں کو تعلیم سے محروم رکھنے کی بڑی وجہ ہے۔ انہیں یہ سمجھ نہیں آتا کہ لڑکیوں کو پڑھایا جائے تو وہ بھی وہی ملازمتیں حاصل کر سکتی ہیں جن کی وہ اپنے بیٹوں کے لیے آرزو کرتے ہیں۔
باپ چاہتے ہیں کہ ان کی بیٹیاں کھیتوں اور گھروں میں اپنی ماؤں کی طرح کام کریں۔
پنجاب کے دیہات میں کوئی بچی اپنے چھوٹے بہن یا بھائی کو کمر پر لادے پھر رہی ہے تو کوئی مویشیوں کے پیچھے بھاگ رہی ہے جبکہ لڑکے کرکٹ کھیلتے یا ادھر اُدھر گھومتے نظر آتے ہیں۔
دیکھنے والا سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ تعلیم تک رسائی ہو تو بہتر کون ثابت ہوگا؟ وہ لڑکی جس پر بچپن سے ذمہ داریوں کا بوجھ ڈال دیا گیا یا وہ لڑکا جو آوارہ گردی میں وقت گزار رہا ہے۔
سندھ میں کھیت مزدور خواتین کے حقوق کا قانون تو ہے مگر اس پر عمل کون کروائے گا؟
سندھ حکومت نے خواتین کھیت مزدوروں کے حقوق کو سب سے پہلے تسلیم کیا اور دسمبر 2019 میں 'سندھ ویمن ایگریکلچرل ورکرز ایکٹ' نافذ کیا۔
اس قانون کے تحت مرد اور خواتین کو برابر اجرت ملے گی جو سرکاری مقرر کردہ اجرت سے کم نہیں ہو گی۔ کھیتوں میں کام تحریری معاہدے کے تحت ہوگا اور روزانہ کام کے اوقات آٹھ گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوں گے۔
خواتین کو زچگی یا عدت کے لیے120 دن کی چھٹی لازمی ملے گی جبکہ دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے محفوظ اور صاف ستھرا ماحول فراہم کرنا ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں

کھیت مزدوروں کے قانونی حقوق: 'بڑے زمینداروں کے اثرورسوخ کے باعث ہاریوں کو انصاف نہیں ملتا'
ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کے مطابق قانون کھیت مزدور خواتین کے حقوق کو تسلیم تو کرتا ہے لیکن سندھ حکومت اس پر عملدرآمد کرانے میں ناکام نظر آتی ہے۔
پنجاب میں 'ہوم بیسڈ ورکرز ایکٹ 2023ء' کا نفاذ دیہاڑی دار لیبرکے حقوق کے تحفظ کی جانب اہم پیشرفت ہے لیکن یہاں بھی سندھ کی طرز پر کھیت مزدور خواتین کے لیے الگ قانون سازی کی ضرورت ہے۔
رضیہ کو کمر میں شدید درد رہتا ہے اور ثمینہ کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ دونوں کو ڈاکٹروں نے آرام کا مشورہ دیا لیکن وہ جانتی ہیں کہ ایسا کوئی آپشن نہیں۔
آج چوتھے روز کا سورج غروب ہوتے ہی ٹھیکے کا کام بھی مکمل ہو گیا ہے۔ رضیہ کی کمر شدید درد کر رہی ہے مگر یہ سکون کا لمحہ ہے۔ وہ اپنی اجرت میں سے کچھ رقم نکال کر مٹھی میں دبا لیتی ہیں۔
وہ اپنے شوہر فریاد کے ساتھ گلی کے نکڑ والی دکان کی طرف جا رہی ہیں جہاں کریانے کے ساتھ چند دوائیں بھی مل جاتی ہیں، وہ اپنے لیے درد کی گولیاں خریدیں گی۔
دوائی اور فریاد کے سگریٹ سے کچھ پیسے بچ گئے تو شاید انہیں اپنا پسندیدہ جوس بھی میسر آ جائے۔
یہ مضمون انسانی حقوق کمیشن پاکستان نے کمیشن کیا
تاریخ اشاعت 23 اپریل 2025