پنجاب میں نمونیا کے بڑھتے کیسز:' پورے ملک کے میڈیا کو بچوں کی اموات سے زیادہ الیکشن میں دلچسپی ہے'

postImg

بلال احمد اذان

postImg

پنجاب میں نمونیا کے بڑھتے کیسز:' پورے ملک کے میڈیا کو بچوں کی اموات سے زیادہ الیکشن میں دلچسپی ہے'

بلال احمد اذان

ثناء بی بی کہتی ہیں کہ 25 جنوری کی صبح پانچ بجے میرے بچے کا جسم کانپنے لگا، رنگ بھی نیلا پڑ گیا، اسے بیڈ پر لٹا کر فوری ڈاکٹر کی طرف بھاگی جو دوسری وارڈ میں تھے۔ کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر پہنچے، بچے کا معائنہ کیا اور کہہ دیا کہ آپ کا بیٹا اللہ کو پیارا ہو چکا ہے۔

ثناء بی بی کا تعلق پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کے نواحی قصبے منڈیالی سے ہے ان کے شوہر شہر میں ایک ہوٹل پر ملازمت کرتے ہیں۔

ثناء جو پہلے سسکیاں لے رہی تھیں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ان کا شکوہ ہے کہ ان کے بچے کو نمونیا ہی تو تھا اگر بروقت مناسب طبی سہولیات مل جاتی تو شاید وہ آج زندہ ہوتا۔

ان کے بقول 24 جنوری کی شام جیسے ہی ان کے بیٹے کی طبعیت بگڑی تھی تو وہ اپنے شوہر کے ہمراہ  فوری طور پر اسے لے کر سول ہسپتال پہنچ گئیں۔ یہاں پر موجود ڈاکٹرز نے بچے کا معائنہ بھی نہیں کیا اور کہہ دیا کہ اسے شہباز شریف چلڈرن ہسپتال کی ایمرجنسی میں لے جائیں جو وہاں سے تقریبا 5 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہم دونوں میاں بیوی بیمار بچے کو لے کر چلڈرن ہسپتال پہنچے تو رات کے 8 بج چکے تھے۔ پرچی کاونٹر پر بھی بہت لوگ جمع تھے، قطار میں کھڑے رہ کر اندراج کی پرچی بنوائی۔ اس کے بعد بچے کے ڈاکٹر سے معائنے کے لیے بھی کافی دیر تک انتظار کرنا پڑا۔

' ایک لمحے کا انتظار بھی مشکل ہو رہا تھا کیونکہ بچہ بہت تکلیف میں تھا اس کی تکلیف مجھ سے دیکھی نہیں جا رہی تھی"۔

ان کے مطابق باری آنے پر ڈاکٹر نے بتایا کہ نمونیا کی بیماری کی وجہ سے بچے کی حالت نازک ہو چکی ہے اسے فوری طور پر وارڈ میں داخل کرا دیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ بچے کو گود میں اٹھائے وارڈ میں داخل ہوئے تو وہاں پر بہت زیادہ بھیڑ تھی۔ ایک ایک بستر پر پانچ، پانچ بچے تھے، بہت ساری مائیں اپنے بچوں کو گود میں لے کر بیٹھی تھیں اور ڈرپ کو ہاتھوں میں تھامہ ہوا تھا۔  وہ نرسنگ کاؤنٹر پر پہنچے تو یہاں بھی 15 منٹ تک انتظار کرنا پڑا، باری آئی نرس نے ڈرپ لگا کر مشورہ دیا کہ جس بیڈ پر جگہ ملے بچے کو گود میں لےکر بیٹھ جائیں۔

'میں ساری رات بچے کو لے  کر بیٹھی رہی اس کے والد سخت سردی میں باہر کھڑے رہے، پھر صبح پانچ بجے  ان کا بچہ دم توڑ گیا۔

فاروق آباد کے رہائشی محمد سجاول کی دو سالہ بیٹی نور فاطمہ بھی تین دن تک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد 26 جنوری کو زندگی کی بازی ہار چکی ہیں۔

سجاول نہ کسی سے شکوہ کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں کوئی شکایت ہے بس انھوں نے اتنا ہی کہا "خدا کرئے کسی غریب کا بچہ بیمار نہ ہو، کیوں کہ یہاں پر تو موت بھی سکون کی نہیں ملتی"

شیخوپورہ میں یہ کہانی صرف ثناء بی بی یا محمد سجاول کی ہی نہیں ہے۔ چلڈرن ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق پچھلے دو ہفتوں میں اس  شہر میں نمونیے سے کم از کم 21 بچوں جاں بحق ہو چکے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں متاثر ہو رہے ہیں۔

گوجرانوالہ کے قریبی قصبہ اروپ سے تعلق رکھنے والے چالیس سالہ غلام رسول مزدوری کرکے گزر بسر کرتے ہیں، دو روز پہلے ان کے  تین سالہ اکلوتے بیٹے کا اسی مرض کی وجہ سے انتقال ہوگیا ہے۔

غلام رسول بتاتے ہیں کہ کچھ دن پہلے جب ان کے بیٹے کی طبعیت خراب ہوئی تو انھوں نے ایک مقامی کلینک سے دوا لی اور گھر واپس آگئے۔ بچے کو دو روز تک دوائی دی گئی جس میں بظاہر کچھ افاقہ بھی ہوا لیکن تیسرے روز اچانک بچے کی حالت بگڑ گئی جس پر سب گھر والے پریشان ہو گئے۔

غلام رسول کہتے ہیں کہ ہمیں اور کچھ نہ سجھائی دیا تو ہم بیٹے کو لے کر سول ہسپتال پہنچ گئے جہاں سے ہمیں قریب ہی نئے بننے والے چلڈرن ہسپتال بھجوادیا گیا، چلڈرن ہسپتال میں پہلے ہی بہت زیادہ رش تھا ، بچے کے ٹیسٹ کئے گئے تو انکشاف ہوا کہ اسے نمونیا ہوگیا ہے جس پر ہمارے ہاتھ پیر پھول گئے۔

'میرا لخت جگر دو روز تک ہسپتال میں زیر علاج بھی رہا لیکن پھر تیسرے روز ڈاکٹر نے بتایا کہ اس کی جان نہیں بچائی جاسکی'۔

میڈیا پر محکمہ صحت پنجاب کے حوالے سے چلنے والی خبروں کے مطابق یکم جنوری سے 26 جنوری تک صوبے میں نمونیے سے انتقال کرنے والے بچوں کی تعداد 233 تک پہنچ چکی ہے۔ ریکارڈ کے مطابق 25 جنوری کو 12 اور 26 جنوری کو 13 بچوں کا انتقال ہوا ہے۔ اسی طرح  یکم جنوری سے اب تک نمونیے مرض میں مبتلا ہونے والے بچوں کی تعداد 12 ہزار کے قریب ہے۔

اس عرصے میں لاہور میں بھی25 بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔یہ صورتحال صرف شمالی پنجاب ہی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب کے حالات بھی کچھ اچھے نہیں ہیں۔ ملتان کے چلڈرن اور نشتر ہسپتال کے ریکارڈ کے مطابق رواں ماہ 42 بچے نمونیے کی وجہ سے دم توڑ گئے ہیں جبکہ جنوبی پنجاب کے مختلف ہسپتالوں میں جاں بحق ہونے والے بچوں کی کل تعداد 67 ہے۔

ماہرینِ صحت نمونیا کے بڑھتے ہوئے کیسز کو شدید سردی اور موسمِ سرما میں فضائی آلودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والی سموگ کو بھی قرار دے رہے ہیں۔

شیخوپورہ کے ہسپتالوں میں زیر علاج بچوں کے والدین ایسی صورتحال میں نہ صرف ہسپتال کے عملے بلکہ اپنے مقامی سیاستدانوں کی بے اعتنائی کا شکوہ بھی کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق موجودہ الیکشن مہم کے دوران ہر کوئی ترقی کے دعوے تو بڑھ چڑھ کر رہا ہے لیکن ان سے کوئی پوچھنے تک نہیں آیا۔

شیخوپورہ سے مسلسل تین بار منتخب ہونے والے مسلم لیگ ن کے رہنما میاں جاوید لطیف نے تو اپنی الیکشن مہم کے لیے ایک ایسا پمفلٹ بھی چھپوایا ہے جس میں وہ چلڈرن ہسپتال سمیت شہر میں عوامی فلاح کے 36 منصوبوں مکمل کرنے کا دعوی کرتے ہوئے خود کو ووٹ کا صحیح حق دار قرار دے رہے ہیں۔

محمد سجاول جن کی تین سال بچی کا دو روز پہلے انتقال ہوا ہے وہ کہتے ہیں کہ مقامی سیاستدان کی نظر میں صرف چوہدری اور وڈیرے ہی ووٹر ہیں کیوں کہ آج کل وہ انہی کے ڈیروں پر پائے جاتے ہیں، شہر میں غریب لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

وہ کہتے ہیں کہ جس طرح مقامی سیاستدان انہیں نہیں پوچھ رہے اسی طرح پورے ملک کے میڈیا کو بچوں کی اموات سے زیادہ الیکشن میں دلچسپی ہے۔

شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن اور صحافی آصف کمبوہ  کہتے ہیں کہ 24 جنوری کی رات 11 بجے وہ اپنے شہر کے چلڈرن ہسپتال گئے تو یہاں پر بجلی بند تھی۔ پوچھنے پر معلوم پڑا کہ جنریٹر پچھلے گزشتہ پندرہ روز سے خراب ہے۔ کچھ والدین نے بتایا کہ نرسری میں آکسیجن کی سپلائی 20 منٹ معطل رہی ہے۔

ان کے مطابق ہسپتال میں چھاتی کے انفیکشن کا ٹیسٹ کرنے والی واحد مشین بھی خراب ہے جو ایک کونے میں پڑی ہے اور اس کو زنجیر لگائی گئی ہے۔ ہسپتال میں داخل بچے سینکڑوں میں ہیں لیکن یہاں پر صرف 32 ہی بیڈ دستیاب ہیں ان میں سے بھی کچھ ایمرجنسی وارڈ میں ہیں۔

ان کے  مطابق جب اس ساری صورتحال سے ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر وقار علی خان کو آگاہ کیا تو انھوں نے فوری طور پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ فون کیا اور ان معاملات کو فوری طور پر حل کرنے کا حکم دیا۔ لیکن دو روز گزرنے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔

شیخوپورہ چلڈرن ہسپتال کے ایڈیشنل میڈیکل سپریڈنٹ ڈاکٹر اسامہ خان کے مطابق پہلے ہسپتال کی ایمرجنسی اور آئی سی یو میں بیڈز کی تعداد 32 ہی تھی لیکن اب ان کو بڑھا کر 41 کر دیا گیا ہے کیوں کہ سٹور روم میں پڑے ہوئے 9 بیڈز بھی اب استعمال میں لائے جارہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'اسے لاہور لے جائیں': ننکانہ صاحب کا ضلعی ہسپتال ہر چوتھے مریض کو دوسرے شہروں کے ہسپتالوں میں کیوں ریفر کر دیتا ہے؟

 وہ بتاتے ہیں کہ ایمرجنسی میں روزانہ کی بنیاد پر دو سو سے ڈھائی سو بچے چیک اپ کے لیے آرہے ہیں جبکہ او پی ڈی میں چیک اپ والوں کی تعداد  400 سے 450  تک ہے۔ ہسپتال میں صرف انہیں بچوں کو داخل کیا جا رہا ہے جو شدید متاثر ہوں، اس کے علاوہ اگر کسی روز بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے تو والدین کو انہیں لاہور کے چلڈرن ہسپتال لے جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے لیکن یہ تعداد دو فیصد سے بھی کم ہو گی ۔ ہسپتال میں ڈاکٹروں اور نرسوں کی بھی کمی ہے۔

وہ اپنے ہپستال میں پانچ بچوں کے لیے ایک ہی بستر کو بھی صحت کے اصولوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سے سوئیر انفیکشن کا شکار بچہ دوسرے بچوں پر بھی اثر انداز کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر فیاض کھوکھر کا شمار گوجرانوالہ کے سینئر جنرل فزیشنز میں ہوتا ہے  جوکہ سول ہسپتال کامونکی کے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ بھی رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ہمارا نظام صحت کا ڈھانچہ زیادہ بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ اس لیے احتیاطی تدابیر اپنا کر اس صورتحال سے بچا جاسکتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان دنوں ان کے کلینک پر ہر دس میں سے نو مریض سموگ اور نمونیا کا شکار آرہے ہیں سب کو سینے میں درد ، نزلہ ، زکام ، کھانسی ، آنکھوں کا دکھنا اور کپکپاہٹ کی ایک جیسی علامات ہیں۔

 ایسے لوگ جوکہ موٹر سائیکل کا استعمال کرتے ہیں وہ اس بیماری کا سب سے پہلا شکار ہوتے ہیں، اس کے علاؤہ چھوٹے بچوں کو نمونیا منٹوں میں پکڑ لیتا ہے جس کی پہلی علامت یہی ہوتی ہے کہ انہیں سانس میں تکلیف ہوتی ہے اور سینے میں درد محسوس ہوتا ہے۔ "

ڈاکٹر فیاض کھوکھر کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ مزید ایک ماہ یعنی ماہ فروری تک بچوں کے بارے میں لاپرواہی نہ برتیں ، ان کو گرم ملبوسات پہنائیں ، انڈر گارمنٹس کا لازمی استعمال کریں ، بچوں کو ضروری حالات کے سوا باہر نہ نکلنے دیں ،جو بچے سکول جاتے ہیں ان کو ٹوپی دستانے اور جرابیں ضرور پہنائیں اور جب بھی پانی پئیں اسے نیم گرم کرلیں ، ابلے انڈوں، سوپ، گرم دودھ اور چائے کا استعمال کریں۔

ڈاکٹر فیاض کھوکھر کہتے ہیں کہ جو نمونیا ان دنوں پھیلا ہوا ہے وہ عام نمونیا نہیں بلکہ وائرل نمونیا ہے جس میں وہ ویکسین کارآمد نہیں ہوتی جوکہ بچوں کو پیدائش کے بعد حفاظتی ٹیکا جات میں لگائی جاتی ہے ، بہتر یہی ہے کہ والدین احتیاط سے کام لیں اور اس وائرل نمونیا سے خود بھی بچیں اور اپنے بچوں کو بھی بچائیں۔

*اس رپورٹ کی تیاری میں گوجرانوالہ سے احتشام احمد شامی نے بھی مدد کی ہے۔

تاریخ اشاعت 27 جنوری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

بلال احمد اذان کا تعلق شیخوپورہ سے ہے۔ انہوں نے انٹرنیشنل ریلیشن اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کر رکھا ہے۔ 2011 سے صحافت سے وابستہ ہیں۔

thumb
سٹوری

گیس لیکج اور سلنڈر پھٹنے کے بڑھتے ہوئے واقعات: "توانائی کے متبادل ذرائع انسانی زندگیاں بچا سکتے ہیں"

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

بجلی کے لیے اربوں روپے کے ڈیم ضروری نہیں

thumb
سٹوری

کروڑہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ: ترقی یا مقامی وسائل کی قربانی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

کیا زیتون بلوچستان کی زراعت میں خاموش انقلاب ثابت ہو گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان
thumb
سٹوری

سولر سسٹم اور لیتھیم بیٹری: یک نہ شد دو شد

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

بلوچستان کی دھوپ اور قیمتی ہوائیں ملک کو کیسے گرین توانائی کا حب بنا سکتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعاصم احمد خان

پاکستان کے پانی کی کہانی

thumb
سٹوری

"ہمارا روزگار، ماحول، زمین سب تباہ کرکے بڑے شہروں کو بجلی دینا کوئی ترقی نہیں۔"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

زرعی ٹیوب ویلوں کی شمسی توانائی پر منتقلی میں تاخیر: "ہر بار کہتے ہیں فنڈز نہیں آئے، نام اگلی لسٹ میں ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceدانیال بٹ
thumb
سٹوری

پولیس سے چھپتے افغان طلبہ، ڈگری ادھوری رہنے کا خوف، نہ کوئی ہاسٹل نہ جائے پناہ

arrow

مزید پڑھیں

دانیال عزیز
thumb
سٹوری

سوات کی توروالی کمیونٹی ورلڈ بینک سے کیا چاہتی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسہیل خان
thumb
سٹوری

"لگتا تھا بجلی، پنکھا ہمارے مقدر میں ہی نہیں، اچھا ہوا کسی کو تو غریبوں کی تکلیف یاد آئی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.