اٹھائیس سالہ ہیڈ کانسٹیبل محمد ہارون خان میانوالی کے نواحی گاؤں بیرولی کے رہائشی اور چھ برس قبل پٹرولنگ پولیس میں بھرتی ہوئے تھے۔ دوران سروس انگریزی میں ماسٹر ڈگری کی تھی۔ وہ کافی عرصے سے تحصیل عیسیٰ خیل کی کنڈل پٹرولنگ پوسٹ پر تعینات تھے۔
رواں سال 30 ستمبر کی نصف شب درجن بھر دہشت گردوں نے ضلعی ہیڈکوارٹر سے 110 کلو میٹر دور واقع اس کنڈل پوسٹ پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔ اس وقت پوسٹ میں صرف چھ اہلکار تھے۔تاہم یہ مقابلہ صبح تک جاری رہا تھا۔
فائرنگ کے تبادلے میں محمد ہارون خان جاں بحق ہو گئے۔ دو حملہ آور بھی مارے گئے، دیگر حملہ آور فرار ہوگئے تھے۔
ہارون خان کے تین بچے ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی پانچ سالہ فروا سکول جاتی ہے۔ بیٹا تین سال کا ہے اور دوسری بیٹی والد کی وفات کے 20 روز بعد پیدا ہوئی ہے۔ ہارون کی والدہ ابھی تک صدمے سے باہر نہیں نکل پائیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ "بچے سمجھتے ہیں ان کے بابا شہر گئے ہیں دو چار دن میں لوٹ آئیں گے۔"
سی ٹی ڈی حکام کے مطابق دونوں ہلاک ہونے والے ملزموں زبیر نواز اور محمد خان کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی کے ٹیپو گروپ سے تھا۔ ان میں سے ایک ٹی ٹی پی لکی مروت کے امیر ارشد نواز کا بھائی تھا۔
میانوالی میں دہشت گردوں کا یہ پہلا حملہ نہیں تھا ۔ اس سے قبل رواں سال یکم فروری کو تھانہ مکڑوال پر دہشتگردوں نے حملہ کیا تھا تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی تھی۔
اسی ماہ چار نومبر کو ایئر فورس کے ٹریننگ بیس میانوالی پر بھی دہشت گردوں نے حملہ کیا جسے ناکام بنا دیا گیا۔پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے مطابق جوابی کارروائی اور کلیئرنس آپریشن میں تمام نو دہشت گرد مارے گئے تھے۔ حملے کے دوران تین غیر آپریشنل طیاروں کو کچھ نقصان پہنچا تھا۔
سنٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس)کی سالانہ رپورٹ بتاتی ہے کہ 2022ء میں ملک بھر میں دہشت گردی سے جڑے تشدد کے واقعات میں 980 ہلاکتیں ہوئیں۔ دہشت گرد حملوں اور فورسز سے جھڑپوں کے کل 512 واقعات پیش آئے۔
گزشتہ سال زیادہ تر واقعات خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہوئے۔ ان میں مارے جانے والوں میں 308 شہری، 295 سکیورٹی اہلکار اور 377 جنگجو شامل تھے۔ پچھلے سال پنجاب میں 25 واقعات پیش آئے تھے اور 28 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔
سی آر ایس ایس کی آخری سہ ماہی رپورٹ کے مطابق رواں سال دہشت گردی سے ہلاکتوں کی آٹھ سال میں بلند ترین سطح دیکھی گئی ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2023ء کے پہلے نو ماہ میں دہشت گردوں کی جانب سے 1087 حملے کیے گئے جن میں کل 345 سیکورٹی اہلکار مارے گئے۔ ان میں 2085 پولیس اہلکار اور 137 فوج کے جوان شامل ہیں۔
سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر 20 برس قبل پنجاب میں ضلعی پولیس کی مدد کے لیے پٹرولنگ پولیس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ تمام بڑی شاہراہوں پر چیک پوسٹیں قائم کی گئیں اور ان کو پٹرولنگ پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
پٹرولنگ پولیس کے بنیادی اہداف میں شاہراہوں پر غیر قانونی آمدرورفت روکنا، شہروں کو محفوظ بنانے میں اداروں کی معاونت اور ایمرجنسی میں عوام کی مدد کرنا شامل ہے۔
اسی سلسلے میں ضلع میانوالی میں ابتدائی طور پر 12 چیک پوسٹیں بنائی گئی تھیں۔
تحصیل پپلاں میں تین مقامات کندیاں موڑ،حافظ والہ اور انور چوک پر پوسٹیں بنائی گئیں۔ تحصیل میانوالی میں پانچ نانگنی موڑ، یاروخیل، مسلاں والا، فخرآباد اور تری خیل جبکہ تحصیل عیسیٰ خیل میں چار پوسٹینں ںچغلاں، چچالی ،درہ تنگ اور کنڈل کے مقامات پر بنائی گئی ہیں۔
ایسں پی پٹرولنگ پولیس اختر حسین جوئیہ نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ضلع میں پیٹرولنگ پولیس کی کل نفری ڈھائی سو کے قریب ہے اور چیک پوسٹوں کی تعداد 13 ہو چکی ہے۔ ہر پوسٹ پر ایک شفٹ میں آٹھ اہلکار ڈیوٹی دیتے ہیں اور ضرورت کے مطابق نفری کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔
"ہر چیک پوسٹ کی حدود تقریباً 30کلو میٹر ہے۔ اور اس کے پاس 2004ء یا 2006ء ماڈل کی ایک ہائی لیکس گاڑی موجود ہے"۔
آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے یکم اکتوبر کو ہارون خاں کی نماز جنازہ کے موقعے پر بتایا تھا کہ کہ خیبر پختونخواہ کا بارڈر ایریا اور پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے میانوالی میں پولیس کو کچھ مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن پولیس کو سہولیات میں کوئی کوتاہی نہیں برتی جائے گی۔
تاہم ایک پٹرولنگ پوسٹ کے انچارج یہاں وسائل کی فراہمی کی مایوس کن تفصیل بتاتے ہیں۔ سب انسپکٹر محمد سمجھتے ہیں کہ موجودہ سہولیات میں موثر پٹرولنگ ممکن نہیں ہے۔
"ہمیں 30 کلو میٹر ایریا میں پٹرولنگ کے لیے روزانہ صرف پانچ لٹر ڈیزل ملتا ہے جبکہ ایک چکر میں چھ لٹر فیول خرچ ہوتا ہے۔ ڈھائی سال پہلے 20 لٹر تیل روزانہ ملتا تھا تو ہر شفٹ میں علاقے کا ایک چکر لگا سکتے تھے لیکن اب دن میں ایک چکر بھی نہیں لگایا جا سکتا۔"
علی اصغر 12سال سے پٹرولنگ پولیس میں بطور ڈرائیور ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ڈیزل کی کمی کے ساتھ پٹرولنگ گاڑیوں کی مرمت ہوتی ہے نہ ہی بوقت موبل آئل تبدیل کیا جاتا ہے۔
"جب گاڑی کھڑی ہوجاتی ہے تو چوکی کا عملہ اپنی جیب سے اس کی مرمت کراتا ہے"۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت چونکہ مرمت کے لیے کچھ نہیں دیتی اس لیے گاڑی کی چھوٹی موٹی خرابی نظر انداز کر دی جاتی ہے۔ یوں گاڑیاں آہستہ آہستہ کٹھارا ہوتی جا رہی ہیں اور انہیں ایمرجنسی میں استعمال کیا ہی نہیں جا سکتا۔ آئل بروقت تبدیل نہ ہونے کی وجہ سے کئی گاڑیوں میں انجن کے مسائل ہیں۔
سب انسپکٹر ریٹائرڈ محمد اکرم، میانوالی کی تقریباً تمام چیک پوسٹوں پر بطور انچارج فرائض انجام دے چکے ہیں۔
وہ تصدیق کرتے ہیں کہ گاڑیوں کی مرمت اور چوکی کے دیگر اخراجات کا بل ضلعی ہیڈ کوارٹر کو بھیجا جاتا تھا لیکن وہاں سے انہیں کبھی ایک روپیہ بھی موصول نہیں ہوا۔
یہ بھی پڑھیں
ٹنڈو محمد خان پولیس کی خستہ حالی، 'مجرموں کا پیچھا کرنے جائیں تو ڈر رہتا ہےکہ گاڑی میں پٹرول ختم نہ ہو جائے'
فیولنگ کا معاملہ نظر انداز کرتے ہوئے ایسں پی پٹرولنگ نے لوک سجاگ سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ 160 نئی گاڑیاں آچکی ہیں جو امید ہے جلد پٹرولنگ پولیس کو مل جائیں گی۔
وہ بتاتے ہیں کہ مکڑوال حملے میں دہشت کردوں نے کلاشنکوف، سنائپر گن اور راکٹ لانچر استعمال کیے تھے۔ اس وقت پولیس کے پاس روایتی ہتھیار تھے۔ تاہم اب اہلکاروں کو جدید اسلحہ مہیا کیا گیا ہے۔ انٹیلی جنس رپورٹس کے باعث افسران اور جوان ہر لحاظ سے تیار تھے۔
"ہم نے کنڈل پوسٹ پر نفری بڑھا دی ہے۔اور سنائپرز تعینات کئے ہیں۔ دور تک اندھیرے میں دیکھنے والے کیمرے (نائٹ گوگل) لگائے گئے ہیں۔ ابھی چیک پوسٹوں پر سینڈ بیگز(ریت) کے مورچے ہیں لیکن جلد میٹل کے مورچے نصب کیے جائیں گے۔"
سابق چوکی انچارج محمد اکرم ان اقامات سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑے بڑے دعوے اپنی جگہ، جب تک ڈیزل سمیت پولیس کی دیگر بنیادی ضروریات پوری نہیں کی جاتیں تب تک صورتحال بہتر نہیں ہو گی۔
"پٹرولنگ پولیس ایمرجنسی میں عوام کی مدد کو پہنچ ہی نہیں پاتی تو اس کی کار کردگی اور محکمے کی ساکھ کیسے بہتر ہو سکتی ہے"۔
ڈی پی او میانوالی مطیع اللہ خان نوانی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ کنڈل چیک پوسٹ پر حملے کے بعد عیسیٰ خیل سے پولیس اور ایلیٹ فورس آدھے گھنٹے میں کنڈل پہنچ گئی تھی۔ "اب بھی تمام اداروں سے مسلسل رابطے میں ہیں اور ہر دشمن سے نمٹنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں"۔
تاریخ اشاعت 27 نومبر 2023