لاہور کی چاولہ فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ کیا ہوا؟

postImg

کلیم اللہ

postImg

لاہور کی چاولہ فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ کیا ہوا؟

کلیم اللہ

لاہور کی چاولہ فیکٹری کے محنت کش ایک کوارٹر میں اپنے لیڈر کے ساتھ بیھٹے فیکٹری انتظامیہ اور مزدوروں کے درمیان طے پانے والے معاہدہ پر بحث کررہے ہیں۔

یہ مزدور صوبائی دارالحکومت کی قائداعظم انڈسٹریل ایریا میں واقع اس فیکٹری میں کام کرتے ہیں جس کے باہر وہ دس روز تک اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کرتے رہے۔ مظاہرین فیکٹری سے بلاوجہ نکالے گئے اپنے رہنما کی واپسی اور دیگر مسائل کا حل چاہتے تھے۔ یہ احتجاج 29 جولائی کو شروع ہوا تھا۔

ان مزدوروں میں اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے 42 سالہ محمد امین بھی شامل تھےجو چار بچوں کے باپ ہیں۔وہ اپنے کوارٹر کے تین چارپائیوں کی گنجائش والے چھوٹے سے کمرے میں سات دیگر مزدور وں کے ساتھ رہتے ہیں۔

بنیان میں ملبوس امین کہتے ہیں کہ سب مزدوروں کو کمپنی انتظامیہ کی ناانصافیوں پر کھل کر بات کرنی ہوگی۔

 محمد امین بتاتے ہیں کہ وہ پچھلے دس برس سےچاولہ فیکٹری میں بطور پریس مین کام کررہے ہیں جہاں ڈیڑھ سو سینٹی گریڈ کی بھاپ سے ربر کے چپل، شیٹیں اور وائپر وغیرہ بنتے ہیں۔ عام آدمی وہاں پانچ منٹ بھی کھڑا نہیں ہوسکتا لیکن وہ وہاں ڈانگری، ہیلمٹ، ماسک، بوٹ اور پنکھے کے بغیر گھنٹوں کام کرتے ہیں۔

"یہاں (فیکٹری میں) سیفٹی کا کوئی موثر انتظام ہے نہ دھواں باہر نکالنے کا کوئی سسٹم۔ یہی وجہ ہے کہ میرے ساتھ کوارٹر میں موجود کسی مزدور کا بازوں کٹا ہوا ہے تو تو کسی کی انگلیاں اور کوئی دمہ کا مریض ہے۔ مشین کا نٹ نکلنے سے میرے بھی پانچ دانت ٹوٹے ہوئے ہیں۔ دو سال پہلے اسی فیکٹری میں کام کے دوران میرا بھائی فوت ہوگیا تھا۔"

انہوں نے بتایا جب ان کے دانت ٹوٹے تو وہ بے ہوش ہوگئے مگر فیکٹری انتظامیہ نے ہسپتال بھیجنے کے لیے ایمبولینس تک کا انتظام نہیں کیا۔

"مجھے ساتھی مزدوروں نے جناح ہسپتال پہنچایا جس سے زیادہ دکھ یہ ہے کہ فیکٹری انتظامیہ نے علاج کرانے کی بجائے خیریت تک دریافت نہیں کی۔ میں تکلیف میں فیکٹری آتا تھا تاکہ تنخواہ نہ کاٹی جائے کیونکہ میں گھر کا واحد کفیل ہوں۔"

چاولہ فیکٹری ںے 80 کی دہائی میں چپل سازی میں اپنی شناخت بنائی تھی۔ بعد میں ربڑ، پینٹ، وارنش، پولیوریتھین (فوم وغیرہ میں استعمال ہونے والا میٹیریل)، وینائل ایسیٹٹ (چیزوں کو چپکانے والا کیمیکل )اور لیدر کے جوتے بھی بنانے شروع کر دیے۔

محمد امین دعویٰ کرتے ہیں کہ آج 10 سال بعد بھی وہ صرف 26 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں جو حکومتی مقرر کردہ کم آز کم اجرت سے کہیں کم ہے۔

بجٹ پر جب کم از کم اجرت 37 ہزار مقرر کی گئی تو محمد امین سمیت چاولہ فیکٹری کے مزدوروں نے انتظامیہ سے اپنی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔ ساتھ اولڈایج بینیفٹ، گریجویٹی اور سوشل سکیورٹی کارڈ کی ڈیمانڈز  بھی شامل تھیں۔

تاہم فیکٹری مالکان نے مزدوروں کے مطالبات ماننے کی بجائے فیکٹری کو ہی تالا لگا دیا ہے۔

اس فیکٹری میں کم و بیش 300 لوگ دو شفٹوں میں کام کرتے ہیں جن میں 50 کے قریب دفتری سٹاف ہے۔ یہاں بیشتر ورکر لاہور سے باہر کے ہیں جن میں میانوالی سے تعلق رکھنے والے رفیع اللہ بھی ہیں۔ وہ 2007ء میں 25 ہزار روپے ماہوار پر ہیلپر بھرتی ہوئے تھے اور آج 17 سال بعد ان کی تنخواہ 30 ہزار ہے۔

رفیع اللہ اپنا بائیں ہاتھ دکھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ 2010ء میں ان کا ہاتھ فیکٹری کی مشین میں آ گیا تھا جس کی وجہ سے ان کی تین انگلیاں ضائع ہوگئیں۔ وہ آپریشن کے بعد مکمل ٹھیک ہونے تک اپنے گھر میں رہے اور نو مہینے بعد کام پر واپس آئے۔ فیکٹری انتظامیہ نے چھٹیاں منظور کرنے کی بجائے ان کی پچھلی مدت ملازمت ہی ختم کر دی اور ان کا نام 2013ء کی نئی بھرتی میں ڈال دیا۔

رفیع اللہ پریشان ہیں کہ اب انہیں کوئی اور فیکٹری کام نہیں دے رہی۔ وہ جس بھی فیکٹری میں نوکری کے لیے درخواست دیتے ہیں انہیں معذور قرار دے کر انکار کر دیا جاتا ہے۔

صرف چاولہ فیکٹری ہی نہیں لاہور کی قائداعظم انڈسٹرئیل ایریا کی مختلف فیکٹریوں میں کام کرنے والے تقریباً تمام مزدور ایسی صورتحال سے دو چار ہیں۔

ایک طرف ان کے تنخواہیں کم تو دوسری طرف ان کے صحت وتندرستی کا یہ عالم ہے کہ ہر کوئی بیمار سا لگتا ہے۔

کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ محمد عثمان شدید گرمی کے باوجود اپنے کندھے کو رومال سے ڈھانپ کر رکھتے ہیں کیونکہ ان کا بازو فیکٹری میں کام کے دوران کٹ گیا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ پانچ سال قبل ان کا دایاں ہاتھ مشین میں آگیا تھا۔ جناح ہسپتال میں آپریشن کے دوران ڈاکٹروں نے ہاتھ کو بازو سے کاٹ دیا۔

"لیکن انتظامیہ اپنی فیکٹری میں سیفٹی سہولیات بہتر کرنے کی بجائے مجھے کہتی تھی کہ آپ نے مشین میں خود ہاتھ دیا اس میں ہماری کوئی غلطی نہیں۔"

عثمان اب بھی فیکٹری میں وہی پرانا کام کر رہے ہیں۔ تاہم اب انہیں روزگار چھن جانے کا خدشہ ہے۔

"جس فیکٹری میں میرا بازو ضائع ہوگیا، اس کے مالکان ہمارے مطالبات ماننے کو تیار نہیں بلکہ انہوں نے پوری فیکٹری کو ہی بند کردیا ہے۔"

 چاولہ فیکٹری کے خلاف احتجاج اس وقت شروع ہو جب مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والے مزدور رہنما مولانا شہباز کو نوکری سے فارغ کردیا گیا۔

چالیس سالہ مولانا شہباز بتاتے ہیں کہ وہ 24 سال سے وہاں کام کر رہے ہیں۔ جب وہ آئے تو اس وقت فیکٹری میں 18 سے 20 بیچ بنتے تھے آج مزدوروں کی محنت سے پروڈکشن دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔

"اس وقت مالک کے پاس ایک گاڑی تھی، آج پانچ لینڈ کروزر گاڑیاں ہیں۔لیکن اس تمام عرصے میں مزدوروں کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔"

وہ کہتے ہیں کہ جولائی میں پنجاب حکومت نے صوبہ بھر میں کم از کم تنخواہ 37 ہزار کرنے کا اعلان کیا تو مزدوروں نے مل کر یہ فیصلہ کیا کہ وہ کمپنی مالکان سے اپنی تنخواہوں پر بات کریں گے۔

"کمپنی انتظامیہ نے مجھے لالچ کے طور پر سپروائز بنانے اور کمپنی کے خرچ پر میری فیملی کو مری گھمانے کی پیشکش کی لیکن میں نے انتظامیہ کے سامنے مزدوروں کو بونس دینے، کم آز کم اجرت 37 ہزار کرنے، تمام مزدوروں کے سوشل سیکورٹی کارڈز اور اولڈ ایج بینیفٹ کارڈ کے مطالبے رکھ دیے۔"

انتظامیہ نے مولانا شہباز کو  شوکاز نوٹس دے کر دو دن کے لیے فیکٹری میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دی۔ ان کی حاضری لگا کر انہیں گیٹ پر بٹھا دیا جاتا تھا۔

"اس دوران  میرے ساتھ دہشت گرد کی طرح کا سلوک روا رکھا گیا۔ پانی پینے کے لیے جاتا تو ساتھ دو گارڈ میرے ساتھ ہوتے جیسے میں کوئی قیدی ہوں۔"

فیکٹری انتظامیہ نے بالآخر 15 دن بعد 28 جولائی کو ان کی ملازمت ختم کردی۔

"ورکروں نے احتجاج کیا تو انتظامیہ نے ساری مشینیں بند کر دیں۔"

تاہم فیکٹری مالک میاں فیصل چاولہ کہتے ہیں کہ ان کی کمپنی میں کوئی رسمی لیبر یونین (سی بی اے) نہیں ہے۔ وہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ تمام ملازمین کو فیکٹری سے نہیں نکالا گیا۔

"جب کمپنی نے چار کارکنوں کو منفی طرز عمل پر قواعد کے تحت نکالا تو  70 فیصد ملازمین نے مشینیں چھوڑ کر احتجاج اور نعرے بازی شروع کر دی جس پر فیکٹری کو بند کرنا پڑا۔"

اس سوال پر کہ اگر کوئی لیبر یونین نہیں ہے تو ایک یا چار ملازمین کو نکالنے پر ان کے پیچھے 70 فیصد لوگ کیسے آئے؟ کمپنی مالک کہتے ہیں کہ ان لوگوں نے سب ملازمین سے گٹھ جوڑ کرکے کمپنی کو بلیک میل کرنے والی فضا پیدا کی تھی۔ تاہم میاں فیصل نے "بلیک میلنگ" کی وضاحت نہیں کی۔

وہ مزدوروں کا یہ دعوی بھی تسلیم نہیں کرتے کہ فیکٹری انہیں حکومت کی اعلان کردہ کم از کم اجرت سے کم تنخواہیں دے رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ نئی اجرت کا نوٹیفیکشن ابھی تک نہیں آیا لیکن پچھلے نوٹیفیکشن کے بنیاد پر وہ تمام مزدوروں کو 32 ہزار سے زیادہ تنخواہ دے رہے ہیں جس کا ثبوت لیبر ڈیپارٹمنٹ میں موجود ہے۔

تاہم مولانا شہباز، میاں فیصل کے موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔

انہوں نے لوک سجاگ کو 26 اگست کو تیار ہونے والی  تمام ورکروں کی تنخواہوں کی تفصیل دکھائی۔ اس دستاویز کے مطابق بونس اور گریجویٹی سمیت 32 ہزار لکھے گئے ہیں۔ اس لیے مزدور یہ رقم لینے سے انکاری ہیں اور لیبر قوانین کے مطابق حقوق مانگ رہے ہیں۔

میاں فیصل چاولہ نے یہ بھی دعویٰ کیا  کہ ان کی فیکٹری میں مزدوروں کی حفاظت کی تمام سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔

"اگر ملازمین خود ان کو استعمال نہیں کرتے اور ایک ہاتھ میں موبائل پکڑ کر ٹک ٹاک دیکھیں اور دوسرے ہاتھ سے مشین چلارہے ہوں تو وہ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔"

مولانا شہباز غصے سے کہتے ہیں کہ مزدور پاگل نہیں کہ اپنا ہاتھ مشین میں دے دیں۔

"ہر جگہ کیمرے لگے ہوئے ہیں کمپنی کسی ایک حادثے کی ویڈیو دکھا دے جو مزدور کی لاپروائی کی وجہ سے پیش آیا ہو۔"

فیصل چاولہ کہتے ہیں کہ ملک کے معاشی حالات اس قدر خراب ہیں کہ وہ صرف مزدوروں کے روزگار کی وجہ سے فیکٹری چلارہے تھے۔

"مجھے نقصان ہو رہا تھا۔ اس لیے فیکٹری بند کرنا پڑی۔"

تاہم پاکستان کے ادارہ شماریات کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مالی سال 2022ء کے دوران ربڑ پلاسٹک شوز کے ایک لاکھ 70 ہزار 836 جوڑے برآمد کیے گئے جبکہ 2023ء میں دو لاکھ چار ہزار 995 جوڑے برآمد کیے گئے جو سال 2022ء کی نسبت 34ہزار 159 جوڑے زیادہ ہیں۔ یعنی ایکسپورٹ میں 17 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ٹاون شپ لاہور میں قائم لیبر ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ آفس کے ڈائریکٹر ندیم اختر کہتے ہیں کہ ان کا محکمہ تمام فیکٹری ورکرز کو کم آز کم اجرت دینے کا پابند بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

"ہم بہت حد تک کامیاب بھی ہو گئے ہیں تاہم کچھ چھوٹی فیکٹریاں اب بھی مزدوروں کو حکومتی اعلان کے مطابق تنخواہیں نہیں دیتیں جس پر ہم ایکشن لیتے ہیں۔ اگر کسی ورکر کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آئے یا ان کے تنخواہ کا مسئلہ ہو تو وہ لیبر کورٹ میں کیس دائر کر سکتا ہے۔"

 تاہم ڈائریکٹر لیبر چاولہ فیکٹری کے خلاف کسی کارروائی کا تحریری ثبوت نہ دے سکے۔

وہ بتاتے ہیں کہ وہ ہیلتھ اور سیفٹی سے متعلق تمام فیکٹریوں کی مسلسل انسپیکشن کرتے ہیں۔کہیں خلاف ورزی ہورہی ہو تو تنبیہ کے بعد چالان بھی کرتے ہیں۔تاہم کسی فیکٹری مالک کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی نہیں کر سکتے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'نوٹس اور پورے واجبات دیے بغیر نوکریوں سے فارغ کر دیا'، پیل کمپنی سے نکالے گئے ملازمین کا احتجاج

چاولہ فیکٹری کے معاملے پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے فیکٹری انتظامیہ اور مزدوروں کے درمیان ایک تحریری معاہدہ کرایا ہے جس پر پوری طرح عمل کرائیں گے۔ چھ اگست کو ہوئے معاہدے کے تحت چاولہ فیکٹری، مزدوروں کے تمام واجبات قانون و باہمی رضامندی کے مطابق 26 اگست تک ادا کر دے گی۔

"فیکٹری تمام ورکروں کے ای او بی آئی کاغذات کو تصدیق کرنے کی پابند ہوگی اور ان کی اگست اور ستمبر کی سوشل سکیورٹی بھی جمع کرائے گی۔ فریق دوم یعنی مزدور واجبات ملنے کے بعد ایک ہفتے کے اندر کمپنی کے کوارٹرز وغیرہ خالی کر دیں گے۔"

تاہم مولانا شہباز اس معاہدہ پر من و عن عمل درآمد نہ ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کمپنی نے 36 ہزار تنخواہ لینے والے مزدوروں کی گریجویٹی بھی کم از کم اجرت 32 ہزار کے حساب سے بنائی ہے۔ جبکہ انتظامیہ مزدوروں کو دھمکا رہی ہے تاکہ وہ یہ رقم وصول کرنے سے انکار نہ کریں۔

"کمپنی نے لیبر ڈیپارٹمنٹ کو بتایا ہے کہ ورکر خود ملازمت چھوڑ گئے ہیں۔ یہ سب جعل سازی ہے ہم نے ملازمت نہیں چھوڑی لیکن ہم یہ کہیں ثابت نہیں کر سکتے کیونکہ مزدوروں کو کبھی بھرتی کا لیٹر (تقرر نامہ) ہی نہیں دیا گیا تاکہ وہ فیکٹری کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہ کرسکیں۔"

وہ مزید کہتے ہیں کہ گریجویٹیز کی ذمہ داری فیکٹری مالک کی موجودگی میں لیبرڈیپارٹمنٹ نے لی تھی۔ لیبر ڈائریکٹر نے وعدہ کیا تھا کہ آپ لوگ یہ رقم لے لیں بعد میں گریجویٹی کا مسئلہ بھی حل کر لیں گے لیکن ابھی تک اس وعدے پر عمل ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ 

تاریخ اشاعت 21 ستمبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کلیم اللہ نسلی و علاقائی اقلیتوں کو درپیش مخصوص مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے لیڈز یونیورسٹی لاہور سے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس آنرز کیا ہے۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.