دس سالہ فاطمہ شفیق فیصل آباد کے نواح میں قائم سرکاری گرلز پرائمری سکول گٹ والا میں چوتھی جماعت کی طالبہ ہیں۔ اس سکول کا انتظام محکمہ تعلیم نے چند ہفتے قبل ایک نجی ادارے کو سونپ دیا ہے۔
فاطمہ کے والد محمد شفیق سائیکل پر قریبی بستیوں میں سبزی بیچتے ہیں۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی کا سکول "پرائیویٹ"ہو گیا ہے تو بھاگے بھاگے سکول پہنچے۔
" ہم غریب لوگ ہیں پرائیویٹ سکولوں کی فیسیں ادا نہیں کر سکتے۔ اس لیے میں نے ضروری سمجھا کہ پتا تو کروں اب وہ (سکول والے) بچوں کی فیس کتنی لیں گے۔"
سکول انتظامیہ نے انہیں یقین دہانی کرائی کہ نا صرف بچوں سے کوئی فیس نہیں لی جائے گی بلکہ انہیں پہلے سے بہتر تعلیم دی جائے گی۔
وہ بتاتے ہیں کہ فیس کے حوالے سے تو ان کی تسلی ہو گئی ہے لیکن یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ حکومت سرکاری سکولوں کو "پرائیویٹائز" کیوں کر رہی ہے؟ ان کے بقول ان کے دو بیٹے ایک اور سکول میں پڑھتے ہیں لیکن اسے پرائیویٹ نہیں کیا گیا۔
پبلک سکولز کی تنظیم نو کا پروگرام
محکمہ تعلیم پنجاب نے صوبے میں 13 ہزار 219 پرائمری سکولوں کو ' پبلک سکولز ری آرگنائزیشن پروگرام' کے تحت پرائیویٹ سروس پرووائڈرز کے حوالے یا دوسرے لفظوں میں'آؤٹ سورس'کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو اب پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن(پیف) کے تحت چلائے جائیں گے۔
پہلے مرحلے میں فیصل آباد کے 148 سکولوں سمیت صوبے میں پانچ ہزار863 سکولوں کا انتظام نان پرافٹ این جی اوز، تعلیمی ادارں اور پڑھے لکھے افراد کے سپرد کیا جا رہا ہے۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق 'آؤٹ سورس' کیے جانے والے ان سکولوں میں 567 ایسے ہیں جہاں کوئی ٹیچر تعینات نہیں تھا۔ دو ہزار 555 سکولوں میں ایک، ایک ٹیچر تھا جبکہ دو ہزار741 سکولوں میں دو، دو ٹیچر تعینات تھے۔
اس پروگرام کے دوسرے مرحلے میں فیصل آباد کے 138 سکولوں سمیت صوبے میں چار ہزار 453 ایسے سکول آؤٹ سورس کیے جائیں گے جہاں طلبہ کی تعداد 50 سے 100 کے درمیان ہے۔
تیسرے مرحلے میں وہ دو ہزار 903 سکول آؤٹ سورس کیے جائیں گے جن میں طلبہ کی تعداد سو سے زائد ہے لیکن وہاں ٹیچرز صرف دو، دو ہیں۔
آؤٹ سورسنگ کے مقاصد؟
سرکاری دستاویز میں پبلک سکولز ری آرگنائزیشن پروگرام کے پانچ بنیادی مقاصد بتائے گئے ہیں جن میں کم کارکردگی والے سرکاری سکولوں میں بچوں تعداد بڑھانا، تعلیمی معیار کی بہتر ی، طلبا و طالبات کو بہتر ماحول کی فراہمی، 16 سال تک کے تمام بچوں کا داخلہ یقینی بنانا اور اساتذہ کی کمی پوری کرنا شامل ہیں۔
دستاویز کے مطابق پنجاب میں 52 ہزار سرکاری سکولوں میں چار لاکھ اساتذہ ہیں جو ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد بچوں کو پڑھا رہے ہیں لیکن صوبے میں اب بھی ایک کروڑ 17 لاکھ سے زائد بچے سکول سے باہر ہیں۔
"یہ اقدام آئین کے آرٹیکل 25 اے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے کیا ہے جس کے تحت پانچ سے 16 سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینا ریاستی ذمہ داری ہے۔"
صوبائی وزیر تعلیم رانا سکندر حیات بتاتے ہیں کہ اس پروگرام کے تحت 20 فیصد سکول تعلیم یافتہ نوجوانوں، 20 فیصد تعلیمی شعبے میں مہارت رکھنے والوں(سکول چینز) اور 30 فیصد این جی اوز کے سپرد کیے جائیں گے۔ جبکہ 30 فیصد سکول پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلائے جائیں گے۔"
وہ کہتے ہیں کہ پیف کے زیر انتظام پہلے سے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت سکولوں کو حکومت ہر بچے کی فیس کی مد میں 650 روپے ادا کر رہی تھی جو اب بارہ سو روپے ہوگی۔
ان کا کہنا ہے کہ نئے آوٹ سورس سکولوں کو بھی فیس کی مد میں ایک ہزار 200 روپے ادا کیے جائیں گے۔ بچوں کی تعداد دگنا کرنے اور بنیادی ڈھانچے میں بہتری پر 300 روپے فی طالب علم اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔"
وہ کہتے ہیں کہ آؤٹ سورس ہونے والے سکولوں سے اساتذہ کو ان قریبی سرکاری سکولوں میں ٹرانسفر کیا جا رہا ہے جہاں اساتذہ کی کمی ہے۔ اس اقدام سے سرکاری سکولوں میں تعلیمی معیار بہتر ہوگا اور طلبہ کی تعداد بھی بڑھے گی۔
آؤٹ سورسنگ سے توقعات پوری ہوں گی؟
تعلیمی ماہرین اور اساتذہ اس حکومتی پالیسی سے اتفاق نہیں کرتے۔ کہتے ہیں کہ سکولوں کی آؤٹ سورسنگ سے توقعات پوری ہوتی نظر نہیں آتیں۔
ماہر تعلیم محمد انور، فیصل آباد کے رہائشی ہیں جو عالمی اداروں کو کنسلٹینسی فراہم کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس وقت پیف (پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن) سکولوں کو انفراسٹرکچر یا دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے الگ سے کوئی بجٹ نہیں ملتا۔
"ان سکولوں کے تمام اخراجات حکومت سے فیس کی مد میں ملنے والی رقم سے پورے کیے جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے یہاں کم تعلیم یافتہ افراد کو معمولی تنخواہ پر ٹیچر رکھا جاتا ہے جبکہ عمارت اور سہولیات پر بھی مناسب رقم خرچ نہیں کی جاتی۔"
پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن ایک خود مختار ادارہ ہے جو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل پر کام کرتا ہے۔ اس کا مقصد تعلیم کے فروغ کے لیے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے غریب بچوں کو تعلیم فراہم کرنے میں نجی شعبے کی کوششوں کی حوصلہ افزائی اور حمایت کرنا ہے۔
محمد انور کا ماننا ہے کہ سرکاری سکولوں کی آوٹ سورسننگ سے معیار تعلیم میں کوئی بہتری نہیں آئے گی بلکہ غریب کا بچہ بنیادی تعلیم کی سہولت سے مزید دور ہو جائے گا۔
"اس پالیسی کا اگلا متوقع مرحلہ یہی ہو گا کہ آؤٹ سورس سکولوں کے سب بچے بھاری فیس دیا کریں گے اور انتہائی غریب بچوں کو ذلت آمیز انداز میں فیس معافی کی بھیک ملا کرے گی۔"
بھارت میں بی جے پی حکومت نے نجکاری کے فروغ کے لیے ریاست گجرات کے بعد ہریانہ میں چند سال قبل کچھ ایسی ہی پالیسی متعارف کرانے کی کوشش کی تھی۔
اس پالیسی میں تجویز دی گئی تھی کہ ایک لاکھ 80 ہزار سالانہ سے زیادہ کمانے والے والدین سرکاری سکول میں اپنے بچے کی 500 روپے ماہانہ فیس دیں۔ تاہم بچہ اگر آؤٹ سورس یا پرائیویٹ سکول میں جائے گا تو اس کی ماہانہ فیس (1100 روپے) سرکار ادا کرے گی۔
ان تجاویز کو ماہرین تعلیم اور اپوزیشن نے یہ کہہ کر آڑے ہاتھوں لیا کہ کل حکومت معاشی مجبوریوں کا بہانہ بنا کر فیسوں کی ادائیگی روک دے گی اور تعلیم پرائیویٹائز ہو جائے گی۔
تاہم تامل ناڈو سرکار نے حال ہی میں تعلیمی اداروں کے لیے نیا نظام بنایا ہے جہاں سیکڑوں سرکاری سکولوں کی سینیٹیشن (صفائی) اور سکیورٹی کو آؤٹ سورس کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔
اساتذہ اور سہولتوں کی قلت
پنجاب ایجوکیٹرز ایسوسی ایشن کے صوبائی صدر محمد صفدر کہتے ہیں کہ اگر ہر بچے کو پڑھانا مقصود ہے تو پنجاب حکومت سرکاری اساتذہ کی کمی پوری کرے اور سکولوں میں بنیادی سہولیات یقینی بنائے۔
ان کے بقول آؤٹ سورسنگ سے صوبے میں بالآخر مفت تعلیم ختم ہو جائے گی۔
وہ سمجھتے ہیں کہ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی قلت حکومت کی اپنی پیدا کردہ ہے۔ چودہ ہزار ایجوکیٹرز برسوں سے اپنی مستقلی کے منتظر ہیں اور پچھلے آٹھ سال سے اساتذہ کی بھرتیاں نہیں ہوئیں، جو ریٹائر ہو ئے ان کی سیٹیں بھی خالی پڑی ہیں۔
محمد فیاض الحسن، تحصیل تاندلیانوالہ میں گورنمنٹ ایلیمنڑی سکول چک 621 گ ب میں ریاضی کے استاد ہیں۔ وہ بھی سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی قلت اور سہولتوں کے فقدان کی تصدیق کرتے ہیں۔
"میرا سکول دریائے راوی کے قریب ہے جہاں تین کلاس رومز اور تین اساتذہ کی اشد ضرورت ہے۔ وہاں پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ ہی پوری چار دیواری ہے۔"
وہ اتفاق کرتے ہیں کہ سرکاری سکولوں پر لوگوں کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ یہاں نجی سکولوں میں ایف اے، بی اے افراد کو 10 سے 15 ہزار روپے ماہانہ پر ٹیچر رکھا جاتا ہے۔ اب آؤٹ سورس کیے جانے والے سکولوں میں بھی یہی ہو گا۔
" اس سے بہتر ہے کہ سرکاری سکولوں میں بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں، اساتذہ کی کمی پوری کی جائے اور ان کی ملازمت کو کارکردگی سے مشروط کیا جائے۔"
اساتذہ کے ٹی این اے ٹیسٹ کا تنازع
صوبائی وزیر کہتے ہیں کہ محکمہ تعلیم میں جزا و سزا کا کوئی مؤثر نظام ہے نہ اساتذہ کی صلاحیت جاننے کا کوئی سسٹم۔ اس لیے حکومت نے اساتذہ کا ٹی این اے (ٹریننگ نیڈ اسیسمنٹ) ٹیسٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
اگرچہ اساتذہ یونین سے مذاکرات کے بعد یہ ٹیسٹ مؤخر کر دیا گیا تاہم اس پر اساتذہ کو سخت اعتراضات ہیں۔
محکمہ تعلیم نے نومبر کے آغاز میں ٹیسٹ کا انعقاد کیا تھا لیکن بائیکاٹ کے باعث اس میں بہت کم اساتذہ شریک ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں
میانوالی کے کالجوں میں اساتذہ کی راہ دیکھتے طلبہ اپنے مستقبل سے مایوس ہونے لگے
ٹیچر رہنما محمد صفدر ٹی این اے ٹیسٹ کو ایک حکومتی حربہ قرار دیتے ہیں جس کا مقصد آؤٹ سورسنگ کے لیے سرکاری اساتذہ پر دباؤ ڈالنا ہے۔
وہ سوال کرتے ہیں کہ کیا دیگر سرکاری ملازمین کے بھی ٹیسٹ لیے جا رہے ہیں؟ سرکاری اساتذہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور این ٹی ایس (نیشنل ٹیسٹنگ سروس)کلئیر کر کے آئے ہیں۔ اب دوبارہ ٹیسٹ کی کیا تک ہے؟
انہیں اعتراض ہے کہ حکومت پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلنے والے سکولوں کے اساتذہ کا ٹیسٹ کیوں نہیں لےلیتی جن کی اکثریت ایف اے یا بی اے پاس بھی نہیں ہے۔
ان کا استدلال تھا کہ اساتذہ کی بنیادی ڈیوٹی درس و تدریس ہے لیکن الیکشن ڈیوٹی ہو، مردم شماری یا انسداد ڈینگی ہر جگہ اساتذہ سے اضافی کام لیے جاتے ہیں اور پھر ان سے سو فیصد رزلٹ بھی مانگا جاتا ہے۔
ٹیچر فیاض الحسن بتاتے ہیں کہ ٹی این اے ٹیسٹ، موبائل اپیلیکیشن کے ذریعے لیا گیا تھا۔ لیکن پرائمری سے میٹرک تک پڑھانے والے تمام اساتذہ کے لیے ایک ہی ٹیسٹ ڈیزائن کیا گیا جبکہ ہر سطح کے اساتذہ کے لیے الگ ٹیسٹ ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے تجویز دی کہ حکومت اگر ٹیسٹ لینا چاہتی ہے تو اسے لازمی کرنے کی بجائے اختیاری کر دے۔ یعنی جو ٹیچر ٹیسٹ پاس کر لیں انہیں بین الاقوامی ماہرین یا بیرون ملک سے ٹریننگ کرائی جائے۔ یوں دیگر اساتذہ کو بھی ٹیسٹ دینے پر تیار کیا جا سکتا ہے۔
تاریخ اشاعت 29 نومبر 2024