'نہ بچوں نے پروا کی نہ حکومت کو فکر ہے'، ملتان میں اولڈ ایج ہوم کے مکینوں کی مشکلات

postImg

سہیرہ طارق

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

'نہ بچوں نے پروا کی نہ حکومت کو فکر ہے'، ملتان میں اولڈ ایج ہوم کے مکینوں کی مشکلات

سہیرہ طارق

loop

انگریزی میں پڑھیں

"اگر سر پر باپ کا سایہ نہ بھی ہو تو اکیلی ماں 10 بچوں کو پال سکتی ہے لیکن بچوں کو ماں باپ پالنا پڑ جائیں تو وہ نہیں پال سکتے۔"

یہ الفاظ ہیں ملتان کے اولڈ ایج ہوم کی رہائشی 70 سالہ ندا بی بی کے جو گزشتہ پانچ برس سے اولڈ ایج ہوم میں مقیم ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بچے اپنے والدین کو اولڈ ایج ہوم اس لیے بھیج دیتے ہیں تاکہ ان کے آرام میں خلل نہ پڑے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہماری ماں نے راتوں کو جاگ کر ہمیں پالا اور ہمارے مستقبل کے لیے قربانیاں دیں۔ ندا بی بی کے مطابق یہاں بہت سی سہولتیں ہیں لیکن ان سے انہیں سکون نہیں ملتا کیونکہ اولاد کا نعم البدل کوئی نہیں۔

وسائل کی کمی ایسے اداروں میں والدین کو چھوڑ آنے کی سب سے بڑی وجہ تصور کی جاتی ہے لیکن بابا فرید کچھ الگ ہی کہانی سناتے ہیں۔ بقول ان کے وہ میلسی کے نواحی علاقے کےخوش حال جاگیردار تھے۔ جوان ہونے پر عیش و عشرت میں پلے تین بیٹوں میں جائیداد پر جھگڑے شروع ہو گئے۔  روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ کرانہوں نے  زمین تینوں میں تقسیم کر دی۔

"اس سے چھ ماہ بعد ہی اولاد مجھے بوجھ سمجھنے لگی۔ پیسے کی کمی، نہ ہی کوئی اور مشکل لیکن بیٹوں میں سے کوئی بھی اپنے والد کو ساتھ رکھنے کو تیار نہ تھا۔ انہوں نے مجھے اولڈ ایج ہوم داخل کروا دیا۔اب وہ میرے لیے ماہانہ دو ہزار روپے جمع کروا جاتے ہیں۔"

ملتان میں محکمہ سوشل ویلفیئر کے تحت اولڈ ایج ہوم یا عافیت سنٹر 1995ء میں تعمیر کیا گیا۔ عید گاہ کے قریب شمس آباد کے علاقے میں  واقع اس ہوم میں بزرگ مرد و خواتین کے رہنے کے لیے الگ الگ انتظامات کیے گئے ہیں۔ ادارے میں داخلے کے لیے عمر کا 60 سال سے زیادہ ہونا ضروری ہے۔بے گھر یا اولاد کی سختیوں سے تنگ معمر افراد یہاں باقی کی زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہاں رہائش، بجلی، کھانا اور ادویات جیسی سہولیات مفت دستیاب ہیں۔ اس وقت ملتان کے اولڈ ہوم میں 50 سے زیادہ بزرگ مقیم ہیں۔

تاہم گزشتہ کچھ عرصہ سے ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ پہلے یہاں صرف 30 بزرگوں کے رہنے کی گنجائش ہونے کے باعث داخلے کی درخواستیں لمبا عرصہ زیر التوا رہتی تھیں۔ اس مسئلے کا حل نکالتے ہوئے مئی 2022ء میں ادارے سے ملحقہ جگہ پر ایک نئی عمارت تعمیر کر کے اسے اولڈ ایج ہوم میں شامل کیا گیا۔ اب ادارے میں بیک وقت 70 سے زیادہ بزرگ رہ سکتے ہیں۔

اولڈ ایج ہوم انتظامیہ کے مطابق سرکاری بجٹ سیلری اور نان سیلری کے زمروں میں تقسیم ہوتا ہے اور یہ چار اقساط میں جاری ہوتا ہے۔  نان سیلری بجٹ کی مد میں ادارے کے اخراجات، بجلی و گیس کے بل، کھانے پینے کا سامان، بلڈنگ کی دیکھ بھال، اور سیلری بجٹ میں سٹاف کی تنخواہیں شامل ہیں۔

ادارے کے انچارج کے مطابق نان سیلری بجٹ کا تخمینہ ہر سال بزرگ افراد کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے آٹھ سے 10 لاکھ روپے لگایا جاتا ہے مگر سالانہ اقساط میں جاری ہونے والا بجٹ ادارے اور بزرگ رہائشیوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ فنڈز کے اجرا میں تاخیر کی صورت میں انہیں بہترین کھانا، ادویات، فرنیچر اور آسائشیں دینامشکل ہو جاتا ہے لہٰذا مختلف عطیہ دہندگان کے تعاون سے بزرگ افراد کے لیے ادارے میں کنٹریکٹ بنیادوں پر باورچی اور اٹینڈنٹ کو بھرتی کیا گیا ہے۔ انہیں تنخواہ حکومت کے بجائے عطیہ دہندگان فراہم کرتے ہیں

یہاں رہنے والوں کی صحت کی دیکھ بھال کے لیے سرکاری سطح پر کوئی خاص فنڈ نہیں دیے جاتے۔ ادارے کی پالیسی کے مطابق مہینے میں ایک بار ڈاکٹر چیک اپ کرنے کے لیے  آتے ہیں یا ایمرجنسی کی صورت میں کسی کو ہسپتال منتقل کیا جا سکتا ہے۔

یہاں قیام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عمر کے اس حصے میں بیشتر بزرگوں کی صحت خراب رہتی ہے اس لیے مہینے میں ایک بار معائنہ نا کافی ہے۔

اس میں قدرے بہتری اس وقت آئی جب نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے اپریل 2023 میں اچانک اولڈ ایج ہوم کا دورہ کیا۔بزرگ رہائشیوں کی صحت کے مسائل کو دیکھتے ہوئے وزیراعلیٰ نے نشتر ہسپتال سے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم اولڈ ایج ہوم کے لیے تشکیل دینے کی ہدایات جاری کیں جو ہر ہفتے ادارے میں جا کر بزرگوں کو صحت کی سہولیات فراہم کریں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'کھانا اکثر پڑوسیوں سے مانگ کر کھاتی ہوں': ڈیرہ اسماعیل خاں ڈویژن میں بے وسیلہ خواتین کے لیے کوئی دارالامان نہیں

ملتان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مبشراحمد انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں شعبہ نفسیات کے انچارج ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انہوں ںے اپنے طور پر یہاں آ کر مختلف بزرگ رہائشیوں سے بات کی تو ان میں سے بہت سوں کو ڈپریشن سمیت دیگر  ذہنی مسائل کا شکار پایا۔

"ان افراد کے دماغی و ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے لیکن حکومت کی جانب سے کوئی بھی ماہر نفسیات ادارے میں کبھی تعینات نہیں کیا گیا۔"

ان کے مطابق اپنے خاندان سے دور ہونے کے سبب بیشتر بزرگ تنہائی محسوس کرتے ہیں لہٰذا ان میں خود کشی سمیت دیگر منفی خیالات زیادہ  شدت سے آ سکتے ہیں۔انہیں سماجی سپورٹ کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ رشتہ دار اگر ان سے ملنے آئیں تو ان کی تنہائی کو دور کیا جا سکتا ہے۔

تاریخ اشاعت 26 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سہیرہ طارق گزشتہ 7 سالوں سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ مختلف قومی و علاقائی نیوز چینلز میں سماجی، سیاسی، معاشرتی و دیگر موضوعات پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔

thumb
سٹوری

کوئٹہ شہر کی سڑکوں پر چوہے بلی کا کھیل کون کھیل رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

شاہ زیب رضا
thumb
سٹوری

"اپنی زندگی آگے بڑھانا چاہتی تھی لیکن عدالتی چکروں نے سارے خواب چکنا چور کردیے"

arrow

مزید پڑھیں

یوسف عابد

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.