نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ: مالی بےضابطگیوں اور بدعنوانی کی 21 سالہ طویل داستان۔

postImg

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ: مالی بےضابطگیوں اور بدعنوانی کی 21 سالہ طویل داستان۔

زاہد علی

loop

انگریزی میں پڑھیں

نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ کا نام کراچی کے علاوہ پاکستان کے کسی بھی حصے میں رہنے والے بجلی کے صارفین کے لیے اجنبی نہیں کیونکہ چند ماہ پہلے تک وہ بجلی کا ہر یونٹ استعمال کرنے پر دس پیسے ایک ایسے سرچارج کے طور پر ادا کرتے رہے ہیں جس کا مقصد اس منصوبے کے لیے درکار رقم اکٹھی کرنا تھا۔ 

فروری 2021 میں انگریزی اخبار ڈان میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق اس سرچارج کی وصولی موجودہ سال کے اوائل تک جاری رہی حالانکہ یہ منصوبہ اگست 2018 میں مکمل ہو گیا تھا۔ ڈان کا یہ بھی کہنا ہے کہ واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) نے اس مد میں کل ملا کر ایک سو ارب روپے وصول کیے ہیں۔ 

اگرچہ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کو 12 فروری 2021 کو جمع کرائی گئی ایک درخواست میں واپڈا نے تسلیم کیا ہے کہ ان میں سے 69 ارب 29 کروڑ 80 لاکھ روپے منصوبے کی تعمیر میں استعمال کیے گئے لیکن اس نے باقی رقم کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ 

ایک دوسرے انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون کے مطابق اس سال فروری میں وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی نے طے کیا کہ سرچارج کی اضافی وصولی کی تحقیقات کی جائیں گی لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ ان تحقیقات کا کیا ہوا۔ نتیجتاً نہ تو اس کے ذمہ دار سرکاری افسران کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے اور نہ ہی یہ رقم بجلی کے صارفین کو واپس کی گئی ہے۔ 

تاہم آزاد جموں و کشمیر کے صدرمقام مظفرآباد سے تعلق رکھنے والے 60 سالہ وکیل امجد علی خان کا کہنا ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ میں ہونے والی بےضابطگیوں اور بدعنوانیوں کی داستان سرچارج کی اضافی وصولی سے کہیں طویل ہے۔ وہ آزاد جموں و کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ کے سامنے ایسی متعدد درخواستوں کی پیروی کر رہے ہیں جن میں اس منصوبے کے منفی سماجی، ماحولیاتی اور مالی اثرات کی نشان دہی کی گئی ہے۔ 

امجد علی خان کا کہنا ہے کہ آزاد جموں و کشمیر ہائی کورٹ اور سرکاری منصوبوں کے مالی معاملات کی نگرانی کرنے والا ادارہ، آڈیٹر جنرل آف پاکستان، نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ میں پائی جانے والی کئی خرابیاں سامنے لائے ہیں لیکن حکومت نہ تو ان خرابیوں کی کوئی تسلی بخش وضاحت پیش کر سکی ہے اور نہ ہی ان کے ذمہ دار افراد اور اداروں کا تعین کر سکی ہے۔

دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے

نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ کے تحت دریائے نیلم کو مظفرآباد سے 41 کلومیٹر مشرق میں نوسیری نامی جگہ سے 32 کلومیٹر لمبی سرنگوں کے ذریعے موڑ کر چھترکلاس کے علاقے میں دریائے جہلم میں ڈالا گیا ہے جہاں لگائے گئے بجلی گھر مجموعی طور پر نو سو 69 میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں۔ 

<p>پاور پراجیکٹ شروع ہونے سے پہلے دریائے نیلم کا بہاؤ<br></p>

پاور پراجیکٹ شروع ہونے سے پہلے دریائے نیلم کا بہاؤ

اس منصوبے کی تجویز واپڈا نے پہلی بار 1983 میں پیش کی تھی۔ اس وقت اسے نیلم جہلم کوہالہ ہائیڈل کمپلیکس کہا جاتا تھا۔ چار سال بعد واپڈا نے اس کے مجوزہ علاقے کا تفصیلی جائزہ لیا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ اس کے لیے کس طرح کی تعمیراتی تکنیک درکار ہو گی۔ 1989 میں قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی نے پہلی بار اس کے لیے 15 ارب روپے مختص کیے لیکن حکومت اس رقم کا بندوبست نہ کر سکی اور اس پر کام شروع نہ ہو سکا۔ 

اکتوبر 1997 میں ناروے کی ایک کمپنی، نارپلان کنسلٹنگ انجینئرز اینڈ پلانرز،  نے اس منصوبے کا ڈیزائن، اس کے لیے درکار تعمیراتی اور تکنیکی مہارت اور اس کا ٹھیکہ دینے کا طریقہِ کار طے کر کے کئی دستاویزات تیار کیں جن میں پہلی بار اس کا نام نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ رکھا گیا۔ ان دستاویزات کی بنیاد پر 2002 میں اس کی تعمیر کے لیے منصوبہ سازی شروع ہوئی جس کا پہلا دور (پی سی-ون) اسی سال منظور کیا گیا۔

اس دوسرے پی سی-ون کی منظوری کے باوجود اگلے تین سال منصوبے پر کام کا آغاز نہ ہو سکا کیونکہ حکومت کے پاس اس کے لیے پیسے ہی نہیں تھے۔

بعدازاں اکتوبر 2005 میں نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ کے لیے مختص کی گئی جگہ ایک ہولناک زلزلے کی زد میں آ گئی۔ تاہم آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی طرف سے 9 جولائی 2018 کو پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو پیش کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق اس زلزلے کے باوجود واپڈا نے منصوبے کے ڈیزائن میں کوئی تبدیلی کرنا مناسب نہ سمجھا اور مارچ 2007 میں دو چینی کمپنیوں، چائنہ گیزوبا گروپ کمپنی اور چائنہ نیشنل مشینری امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کارپوریشن، پر مشتمل ایک کنسورشیم کو اس کی تعمیر کا ٹھیکہ دے دیا جس کی شرائط کے مطابق اسے اکتوبر 2015 میں مکمل کیا جانا تھا۔ 

مئی 2008 میں واپڈا کو بدیر یہ احساس ہوا کہ زلزلے کے بعد منصوبے کے ڈیزائن کا دوبارہ جائزہ لینا ضروری ہے چنانچہ یہ ذمہ داری غیر ملکی اور ملکی ماہرین پر مشتمل نیلم جہلم کنسلٹنٹس نامی ایک کنسورشیم کو سونپی گئی۔ آڈیٹر جنرل کا کہنا ہے کہ ان ماہرین کی تعیناتی میں تاخیر سے قومی خزانے کو کئی ارب روپے کا نقصان پہنچا (جس کی تفصیل آگے چل کر آئے گی)۔ 

لیکن اس دوران حکومت نہ تو اس منصوبے کے لیے درکار رقم کا بندوبست کر پا رہی تھی اور نہ ہی اس کے لیے مختص جگہ پر بجلی فراہم کر سکی تھی۔ اس لیے 2010 تک اس پر کسی قسم کا کوئی تعمیراتی کام نہ ہو سکا حالانکہ اس دوران ٹھیکیدار کمپنیوں اور ماہرین دونوں کو ہی بھاری رقوم کی ادائیگی کی جا رہی تھی۔

<p>پاور پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد دریائے نیلم کا بہاؤ<br></p>

پاور پراجیکٹ کی تکمیل کے بعد دریائے نیلم کا بہاؤ

آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ اُسی سال کے آغاز میں واپڈا نے فیصلہ کیا کہ منصوبے کو وقت پر مکمل کرنے کے لیے اس کی سرنگوں کی کھدائی ڈرِل اور آئی وی بلاسٹ کے روایتی طریقے سے کرنے کے بجائے بورنگ مشینوں کے ذریعے کی جائے گی۔ لیکن اس نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود بھی اسے 2015 میں مکمل نہ کیا جا سکا۔ 

لہٰذا اُس سال اس کا تیسرا پی سی-ون بنایا گیا جس میں طے کیا گیا کہ اسے نومبر 2016 میں پایہِ تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ تاہم یہ وقت بھی گزر گیا اور منصوبہ مکمل نہ ہوا۔ 

اس تمام عرصے میں اس کی لاگت بھی مسلسل بڑھ رہی تھی۔ مثال کے طور پر 2002 میں تیار کیے گئے نظر ثانی شدہ پہلے پی سی-ون میں اس کی لاگت کا تخمینہ 84 ارب 50 کروڑ روپے 22 لاکھ 60 ہزار روپے لگایا گیا تھا مگر 2015 میں بنائے گئے تیسرے پی سی-ون میں اس کی مجوزہ لاگت چار کھرب چار ارب روپے تک پہنچ  چکی تھی۔ 

آنے والے سالوں میں اس میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔ اس کا ثبوت واپڈا کی طرف سے نیپرا کو 12 فروری 2021 کو جمع کرائی گئی درخواست میں موجود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ کی کل لاگت چار کھرب 28 ارب 29 کروڑ 60 لاکھ روپے رہی۔ واپڈا کی اپنی ویب سائٹ اس سے بھی زیادہ لاگت دکھاتی ہے۔ اس کے مطابق 23 مئی 2018 کو تیار کیے گئے آخری پی سی-ون کے تحت منصوبے کی کل لاگت پانچ کھرب چھ ارب 80 کروڑ 86 لاکھ 10 ہزار روپے تھی۔

بہرحال اگر نیپرا کو دیے گئے اعدا و شمار کو ہی درست مان لیا جائے تو اس پر آنے والی کل لاگت ابتدائی تخمینے سے تین کھرب 43 ارب 79 کروڑ 37 لاکھ 40 ہزار روپے زیادہ ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق لاگت میں اس خطیر اضافے کی سب سے اہم وجہ منصوبے کی تکمیل میں شدید تاخیر ہے۔  

آڈیٹر جنرل کے ہوش ربا انکشافات

آڈٹ رپورٹ میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ میں ہونے والی کئی مالی بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔ اس کے مطابق اس منصوبے کے کنسلٹنٹس/ماہرین کی تقرری سے قبل دسمبر 2007 میں اس کی تعمیر پر مامور کنسورشیم کو 90 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی حالانکہ زلزلے کے بعد ابھی اس کے ڈیزائن کا حتمی جائزہ لیا جانا باقی تھا۔ آڈیٹر جنرل کا کہنا ہے کہ یہ ادائیگی پلاننگ کمیشن کے ان قواعد کی کھلی خلاف ورزی ہے جن کے تحت کسی بھی ترقیاتی منصوبے پر مروجہ معاشی، مالیاتی اور تکنیکی معیارات کے مطابق عمل درآمد کرنا ضروری ہے۔ 

یہ بھی پڑھیں

postImg

کوہالہ ہائیڈروپاور پراجیکٹ: بولی کے بغیر ٹھیکہ دینے سے کس کا نقصان ہو رہا ہے؟

جب دسمبر 2016 میں اس ادائیگی کا معاملہ نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ کی انتظامیہ کے سامنے رکھا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ "غیر ملکی ماہرین کو متعین کرنے کا عمل مشکلات سے بھرا ہوا تھا کیونکہ (11 ستمبر 2001 کو امریکہ میں ہونے والے دہشت گردی کے حملے) کے بعد خطے میں امن و امان کی صورتِ حال بہت خراب ہوگئی تھی (جبکہ) 2005 کے زلزلے کی وجہ سے یہ صورتِ حال مزید گھمبیر ہوگئی تھی۔ اس لیے حالات کے سازگار ہوتے ہی 2008 میں ڈیزائن کے جائزے اور کام کی نگرانی کے لیے ماہرین کی تقرری کر دی گئی"۔ 

تاہم آڈیٹر جنرل نے اس جواب کو غیر تسلی بخش قرار دیا ہے کیونکہ اس میں یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ ٹھیکیدار کمپنیوں کو ماہرین کی تقرری سے پہلے ادائیگی کیوں کی گئی۔ 

آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 31 مئی 2015 کو منصوبے میں شامل ایک سرنگ میں چٹانوں کے گرنے سے تین پاکستانی مزدور ہلاک اور 14 زخمی ہوئے۔ اس حادثے کی وجہ سے بورنگ کی مشینری کو بھی نقصان پہنچا اور منصوبے کی تکمیل میں سات ماہ کی تاخیر ہوئی جس سے حکومتِ پاکستان کو 30 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

اگرچہ نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ کے ڈائریکٹر (لاجسٹکس) نے ٹھیکیدار کمپنیوں کی طرف سے کیے گئے ناکافی حفاظتی اقدامات کو اس حادثے کی وجہ قرار دیا لیکن، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق، واپڈا نے ان کمپنیوں کو سزا دینے کے بجائے انہیں 17 کروڑ 50 لاکھ روپے کی اضافی ادائیگی کی تاکہ اس رقم سے زخمی مزدوروں کا علاج کیا جا سکے، ہلاک شدہ مزدوروں کے لواحقین کو زرِ تلافی دی جا سکے اور سرنگ میں حفاظتی اقدامات کو بہتر بنایا جا سکے۔ 

آڈیٹر جنرل کی نظر میں یہ ادائیگی بِلاجواز تھی لیکن دسمبر 2016 میں جب یہ سوال نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ کی انتظامیہ کے سامنے اٹھایا گیا تو اس کا کہنا تھا کہ چٹانوں کا گرنا "مکمل طور پر غیر متوقع عمل تھا (اور )کسی انتہائی تجربہ کار ٹھیکیدار کے لیے بھی اس کی پیش بینی کرنا ممکن نہیں تھا"۔

دریائے نیلم میں سرنگوں کے ذریعے پانی چھوڑا جاتا ہے۔دریائے نیلم میں سرنگوں کے ذریعے پانی چھوڑا جاتا ہے۔

آڈٹ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشان دہی کی گئی کہ منصوبے کے لیے متعین کیے گئے ماہرین اس کے ڈیزائن اور تعمیراتی سرگرمیوں کے معیار کا جامع جائزہ لینے میں ناکام رہے جس کے نتیجے میں اس میں ایسی تبدیلیاں ہوئیں جو اس کی لاگت میں 86 ارب روپے کا اضافہ کرنے کا باعث بنیں۔ ماہرین کی اس "ناقص کارکردگی" کی بنا پر آڈٹ رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ انہیں اجرت میں دیے گئے 16 ارب روپے دراصل ضائع ہی ہوئے ہیں۔ 

آڈیٹر جنرل نے منصوبے کے لیے گاڑیوں کی خریداری کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کی رپورٹ کے مطابق پہلے پی سی-ون کے تحت اس کے لیے 87 گاڑیاں خریدی گئیں جن میں سے 60 فیصد اس کی جائے تعمیر اور اس کے آس پاس کام کرنے والے اہلکاروں کے لیے مختص تھیں جبکہ 40 فیصد لاہور میں واقع واپڈا کے صدر دفتر میں استعمال کی جاتی تھیں۔ دوسرے پی سی-ون کے تحت 2012 میں اس کے لیے 19 کروڑ 60 لاکھ روپے کی لاگت سے 18 نئی گاڑیاں خریدی گئیں جبکہ صرف تین برس گزرنے کے بعد 25 مزید نئی گاڑیاں خریدی گئیں جن کی مالیت 18 کروڑ 40 لاکھ روپے تھی۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق یہ 25 گاڑیاں خریدنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ 

ان تمام مسائل پر تبصرہ کرتے ہوئے امجد علی خان کا کہنا ہے کہ ان کی واضح نشان دہی کے باوجود نہ تو نیلم جہلم ہائیڈروپاور پراجیکٹ کے منصوبہ سازوں سے کبھی کوئی بازپرس کی گئی ہے اور نہ ہی اس کی تعمیر کرنے والی کمپنیوں کو کسی قسم کی تحقیقات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان کے بقول "اس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں عدالتیں، قوانین اور عوام بڑی کمپنیوں اور افسر شاہی کے سامنے بے بس ہیں"۔

تاریخ اشاعت 17 دسمبر 2021

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

زاہد علی ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی اور متعلقہ موضوعات پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے فارسی ادب میں بی اے آنرز کیا ہے۔

سندھ: گندم کی سرکاری قیمت 4000، کسان 3500 روپے میں فروخت کرنے پر مجبور

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.