ملک کی طویل ترین نہر میں پانی کی قلت سے سندھ کی زراعت متاثر، کاشت کار زمینیں بیچنے لگے

postImg

الیاس تھری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

ملک کی طویل ترین نہر میں پانی کی قلت سے سندھ کی زراعت متاثر، کاشت کار زمینیں بیچنے لگے

الیاس تھری

loop

انگریزی میں پڑھیں

مہندر دیو لکھانی کا تعلق عمر کوٹ شہر سے ہے اور وہ سندھ کے صدارتی ایوارڈ یافتہ سماجی رہنما ڈاکٹر ہرچند رائے لکھانی کے بیٹے ہیں۔ 62 سالہ مہندر دیو لکھانی نے 2013ء میں نارا کینال کی ذیلی نہر نور واہ پر اپنی 168 ایکڑ زرعی اراضی بیچی اور اس کے بعد عمرکوٹ سے کراچی منتقل ہو گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ "نارا کینال، جہاں آج کل لوگ پانی کو ترس رہے ہیں، اس کی نور واہ نہر کے ساتھ میں نے 1990ء میں گندم کی 70 من فی ایکڑ اور مرچ کی 50 من فی ایکڑ پیداوار حاصل کی۔ پھر حالات یہ ہو گئے کہ میرا 45 ایکڑ پر مشتمل آموں کا باغ پانی نہ ملنے سے سوکھ گیا۔ اس لیے اپنی زرعی زمیں بیچنا پڑی۔ کراچی میں ریئل اسٹیٹ کا نیا کاروبار شروع کیا اور اب خوش حال زندگی گزار رہا ہوں۔"

نارا کینال سکھر بیراج سے نکلنے والے سات نہروں میں سے ایک ہے۔ اس کی لمبائی 364 کلومیٹر ہے اور اس میں 13 ہزار 602 کیوسک پانی کی گنجائش ہے۔

ریٹائرڈ پروفیسر جلال کوری کا تعلق عمر کوٹ سے 30 کلومیٹر دور جنوب میں واقع تاریخی شہر ڈھورو نارو سے ہے۔ 63 سالہ جلال کوری سندھی لکھاری ہیں اور تاریخ کے مختلف موضوعات پر تحقیق کرتے ہیں۔

ان کے مطابق سکھر بیراج سے نکلنے والی نارا کینال کے کمانڈ ایریا کی زمین بہت زرخیز ہے۔ پانی کی فراوانی کے سبب کبھی یہاں کے کاشت کار امیر تر ہوا کرتے تھے اور دوسرے علاقوں کے لوگ انہیں "نارا کے نواب" کہا کرتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ صوبہ سندھ میں پرانا ضلع تھرپارکر، جس میں موجودہ اضلاع عمرکوٹ، تھرپارکر، سانگھڑ اور میرپور خاص شامل تھے، سب اس سے مستفید ہوتے۔ مگر پانی کی قلت، چوری اور بدانتظامی سے زمین دار اور ہاری دونوں کو اب قابل ذکر نفع نہیں ہوتا۔

بھوم سنگھ سوڈھو عمر کوٹ سے 10 کلومیٹر شمال میں واقع گاؤں ماندھل کے کاشت کار اور 55 ایکڑ زمین کے مالک ہیں۔ وہ مقامی زمین داروں کے قائم کردہ "انڈس ایگریکلچر فورم" کے سرگرم رکن بھی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ محکمہ آب پاشی سب ڈویژن عمرکوٹ کے اعداد و شمار کے مطابق 1932ء میں نارا کینال کے لیے 13 ہزار 602 کیوسک پانی کی منظوری دی گئی۔ اس وقت نارا کینال کا کمانڈ ایریا یا سیراب ہونے والا رقبہ 20 لاکھ ایکڑ تھا۔ بعض ازاں روہڑی کینال اور گھوٹکی فیڈر کینال سے سیراب ہونے والی خیرپور اور سکھر اضلاع کی اراضی کو نارا کینال سے پانی دیا جانے لگا جس سے اس کا کل کمانڈ ایریا بڑھ کر 27 لاکھ ایکڑ تک پہنچ گیا البتہ نہر کا پانی نہیں بڑھایا گیا۔

ان کے مطابق اس وقت نارا کینال کو 18 ہزار 500 کیوسک پانی کی ضرورت ہے جبکہ اسے صرف 9590 کیوسک پانی مل رہا ہے۔ جس عرصے میں طلب کم ہوتی ہے اس وقت اسے صرف سات ہزار سے آٹھ ہزار کیوسک پانی دیا جاتا ہے۔

بھوم سنگھ سوڈھو نے کہا کہ صالح پٹ اور چونڈکو سے جمڑاؤ کینال تک نارا کینال کا پانچ ہزار کیوسک پانی بااثر کاشت کار چوری کرتے ہیں۔ یہاں غیرقانونی طور پر پانی نکالنے والی سیکڑوں مشینیں لگی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سکھر بیراج سے نارا کینال کے لیے پانی کا بہاؤ یا واٹر ڈسچارج بڑھانے کے لیے 2015ء میں اس وقت کے صوبائی وزیر سندھ سید علی مردان شاہ نے کوشش کی اور اس کے نتیجے میں صوبائی وزارت آب پاشی نے ایک سمری بنا کر وزیر اعلیٰ سندھ کو ارسال کی۔ اس میں نارا کینال کا واٹر ڈسچارج 18 ہزار 500 کیوسک کرنے کا کہا گیا۔ تاہم حال ہی میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے عہدے کی مدت پوری ہونے تک یہ سمری منظور نہیں ہوئی۔

"اگر نارا کینال کا واٹر ڈسچارج سمری کے مطابق کر دیا جائے تو سرے پر موجود ضلع تھرپارکر اور عمرکوٹ میں پانی کے قلت کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو جائے گا۔"

ڈائریکٹر نارا کینال انجنیئر نعیم میمن کا کہنا ہے کہ کینال کو 11 ہزار 800 کیوسک پانی مل رہا ہے۔ ان کے مطابق چوٹیاریوں ڈیم بننے سے لوئر نارا کینال کو فائدہ ہوا ہے جس کے ذریعے پانی کی بندش اور قلت کے دنوں میں لوئر نارا کینال کی پانچ شاخوں کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

44 سالہ فاروق جونیجو 200 ایکڑ زمین کے مالک ہیں اور کاشت کاروں کی تنظیم انڈس ایگریکلچر فورم کے صدر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا سب ڈویژن عمرکوٹ میں ایک لاکھ 32 ہزار ایکڑ زرعی زمین میں سے 50 ہزار ایکڑ پانی کی قلت کے باعث غیر آباد ہو گئی ہے۔ اگر ان زمینوں کو چوٹیاریوں ڈیم کا پانی نہ ملے تو 15000 ایکڑ زمین بھی آباد نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اس ڈیم سے سب ڈویژن عمر کوٹ کو پانی 2008ء سے ملنا شروع ہوا ہے۔

"سب ڈویژن عمرکوٹ کی زرعی زمین زرخیز ہے، مگر پانی کی قلت کی وجہ سے رواں سال وہاں گندم کی فی ایکڑ پیداوار صرف 18 سے 22 من ہوئی ہے اور کپاس کی کی پیداوار 16 سے 20 من فی ایکڑ رہی جبکہ قریبی ضلع سانگھڑ میں گندم کی فی ایکڑ پیداوار 30 سے 40 من اور کپاس کی 40 من فی ایکڑ رہی۔"

سندھ میں ڈاکٹر میر امان اللہ تالپر کا شمار پانی اور زراعت کے ماہرین میں ہوتا ہے۔ عمر کوٹ کی تحصیل کنری سے تعلق رکھنے والے 68 سالہ میر امان اللہ نے بتایا کہ تونسہ بیراج سے گڈو بیراج تک 35 ہزار کیوسک پانی چوری ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں لوئر نارا کینال کو کم پانی ملتا ہے۔ کشمور اور کندھ کوٹ کے علاقوں میں بھی اس کینال سے چوری شدہ پانی سے کاشت کاری ہوتی ہے۔

عمر کوٹ کے رانا رمیز انڈس ایگریکلچر فورم کے سابق صدر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی اور پانی کی قلت سے حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ "گزشتہ سال ڈیڑھ لاکھ روپے میں ملنے والی ٹریکٹر کے پچھلے ٹائروں کی جوڑی اس سال تین لاکھ 50 ہزار روپے میں مل رہی ہے۔ گزشتہ سال بیلارس روسی ٹریکٹر کی قیمت 28 لاکھ روپے تھی جو رواں سال 63 لاکھ روپے ہو گئی۔ گزشتہ سال یوریا کھاد کی بوری 2700 روپے کی تھی جو اس سال 4200 روپے میں ملی۔"

سب ڈویژن عمرکوٹ کے محکمہ آب پاشی آفس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق نارا کینال کا نظام آب پاشی دو حصوں میں چلایا جاتا ہے۔ اس میں ایک حصہ سکھر بیراج سے جمڑاؤ کینال تک اپر نارا کینال کہلاتا ہے جو 115 میل پر مشتمل ہے اور دوسرا جمڑاؤ سے فرش ریگولیٹر ڈھورو نارو تک لوئر نارا کینال کہلانے والا 105 میل طویل حصہ ہے۔

ایس ڈی او آب پاشی سب ڈویژن فرش ہیں اسد اللہ میمن کے پاس سب ڈویژن عمرکوٹ کا اضافی چارج بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ زرعی پانی چوری کیا جا رہا ہو لیکن رواں سال پانی کی چوری کا کوئی کیس داخل نہیں ہوا۔ اس کا سبب گزشتہ دو سیزنز میں پیدا ہونے والی سیلابی صورت حال ہے۔ غیر قانونی مشینوں اور بڑے پائپوں سے پانی چوری سرے کے علاقوں میں نہیں ہوتی تاہم کینال کے بالائی حصے میں پانی چوری کی بابت اعلیٰ افسران ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔

اسداللہ میمن نے بتایا کے مکھی فرش لنک کینال کے منصوبے پر اس سال کے آخر تک کام کرنا شروع ہو جائے گا۔ اس سے نبی سر سے تھر کول تک پانی پہنچایا جائے گا۔

واضح رہے کہ 28 جون 2023ء کو سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی صدارت میں ہونے والے ایکنک کے اجلاس میں تھر کول کو مکھی فرش لنک کینال کے ذریعے پانی فراہم کرنے کا منصوبہ منظور کیا گیا۔ اس پر 12 ارب روپے سے زیادہ کی لاگت کا تخمینہ ہے۔

اسلم ملاح نارا کینال کے کاشت کاروں کے حقوق کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ ان کا تعلق وکلا کے فورم "آلٹرنیٹ لا کلیکٹو" سے ہے۔ میر پور خاص سے تعلق رکھنے والے یہ 32 سالہ وکیل اسلم کہتے ہیں کہ حکام کے مطابق تھر کول ایریا بلاک ون کو پانی فراہم کرنے والے اس منصوبے کے تحت 200 کیوسک پانی لے جایا جائے گا اور اسے 500 کیوسک تک بڑھایا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ لوئر نارا کینال سے تھر کول منصوبے کو پانی فراہم کرنے کے نتیجے میں تھر واہ، نور واہ، کوٹ واہ، چھور واہ اور تھر ٹیل کے کمانڈ ایریا میں 50 ہزار ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہو گی اور علاقے پر منفی معاشی و سماجی اثر پڑے گا۔ ان کے مطابق 100 کیوسک سے 10 ہزار ایکڑ زمین آباد کی جا سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'پٹ فیڈر کینال ہمارے لیے خونی نہر ثابت ہوئی ہے، ایک اور سیلاب کو برداشت کرنے کی سکت نہیں ہے'

چوٹیاریوں ڈیم ضلع سانگھڑ سے 35 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ڈیم چھ ارب روپے کی لاگت سے 2002ء میں تعمیر ہوا۔ اس کا بنیادی مقصد لیفٹ بنک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی)کے پانی کا اخراج تھا۔ اپریل، مئی اور جون کے مہینوں میں ہونے والی پانی کی کمی کے دوران نارا کینال کے عمرکوٹ اور فرش سب ڈویژن کو اس ڈیم سے پینے اور کاشت کے لیے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

عمرکوٹ کے مقامی زمین دار مدن مالہی کہتے ہیں "چوٹیاریوں ڈیم نہ ہوتا تو پورا ضلع عمرکوٹ پینے کے پانی کو ترس جاتا۔ گزشتہ دو سیلابوں میں نارا کینال کو بچانے کے لیے مسلسل بند رکھا گیا۔ اس دوران ضلع عمر کوٹ کو چوٹیاریوں ڈیم سے پانی دیا گیا۔"

انہوں نے بتایا کہ اپریل، مئی اور جون میں جب دریائے سندھ میں پانی کا بہاؤ کم ہوتا ہے، چوٹیاریوں ڈیم سے لوئر نارا کینال کو پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اسی دوران علاقے میں مرچ اور کپاس بوائی اپریل سے 15 مئی تک جاری رہتی ہے البتہ پانی کی کمی کے باعث فصل اچھی نہیں ہوتی۔

57 سالہ میاں خالد ولہاری ضلع عمر کوٹ کے وائس چیئرمین اور کاشت کار ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نارا کے زمیندار اب نواب نہیں رہے، حکومت سندھ کو نارا کینال کا واٹر ڈسچارج بڑھانا چاہیے کیوں کہ 2023ء تک آبادی بہت بڑھ چکی ہے لیکن پانی 1932ء میں منظور ہونے والا مل رہا ہے۔

تاریخ اشاعت 7 اکتوبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

الیاس تھری کا تعلق ضلع عمرکوٹ سندھ سے ہے۔ وہ گذشتہ بیس سالوں سے زائد عرصے سے صحافت سے منسلک ہیں۔ تعلیم، سیاست، ادب، ثقافت و سیاحت، زراعت، پانی، جنگلی جیوت اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے رہے ہیں۔

فیصل آباد: کسانوں کی خواتین بھی احتجاج میں شرکت کر رہی ہیں

بچے راہ دیکھ رہے ہیں اور باپ گھر نہیں جانا چاہتا

thumb
سٹوری

بھارت کا نیا جنم

arrow

مزید پڑھیں

User Faceطاہر مہدی

ننکانہ صاحب: کسانوں نے گندم کی کٹائی روک دی

thumb
سٹوری

کیا واقعی سولر پینل کی مارکیٹ کریش کر گئی ہے یا کچھ اور؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

" پنجاب میں آٹے کا بحران آنے والا ہے، حکومت کے لیے اچھا نہیں ہو گا"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceبلال حبیب
thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.