مہمند ڈیم کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کب ہو گی؟

postImg

کلیم اللہ

postImg

مہمند ڈیم کے متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی کب ہو گی؟

کلیم اللہ

یہ 2018ء کی بات ہے جب اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار اور تحریک انصاف کی حکومت ڈیمز بنانے کے لیے بہت متحرک نظر آتے تھے اور ان دنوں دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کے حوالے سے میڈیا پر سرکاری اشتہارات کی بھر مار تھی۔

ان ہی دنوں خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند میں جس مقام پر ڈیم بنانے کا اعلان ہوا وہاں کے لوگ عجیب ملی جلی کیفیت کا شکار تھے۔

اگرچہ حکومت نے ان کے گھروں، زمینوں اور نقصانات کا خاطرخوا معاوضہ دینے اور دوبارہ آباد کاری کا وعدہ کیا تھا تاہم وہ اپنے آبائی گھروں اور علاقے سے نقل مکانی کا سوچ کر ہی افسردہ تھے۔

مہمند ڈیم، پشاور کے 37 کلومیٹر شمال میں دریائے سوات پر بنایا جا رہا ہے۔ واپڈا کے مطابق  اس کا بنیادی مقصد سیلاب کو روکنا، ساڑھے 16 ہزار ایکڑ رقبے کی آبپاشی، بجلی کی پیداوار اور مقامی لوگوں کی سماجی و معاشی حالت کو بہتر بنانا ہے۔

پی سی ون کے مطابق ڈیم کی اونچائی 700 فٹ اور اس میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 1.2 ملین ایکڑ فٹ ہوگی۔ یہاں 800 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہو گی جبکہ اس پر لگ بھگ تین کھرب 10 ارب روپے لاگت آئے گی۔

حکومتی ذرائع بتاتے ہیں کہ مہمند ڈیم سے ملکی معیشت کو سالانہ تقریباً 20 ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔ سیلاب کی روک تھام سے سات کروڑ 90 لاکھ روپے سالانہ بچت اس کے علاوہ ہوگی۔

اس ڈیم کے لیے چار اضلاع مہمند، باجوڑ، مالاکنڈ اور چارسدہ میں آٹھ ہزار 787 ایکڑ اراضی حاصل کی گئی جہاں تعمیراتی کام 20 ستمبر 2019ء کو شروع کر دیا گیا تھا۔

گاؤں پٹی بانڈہ، ڈیم کی زد میں آنے والی ضلع مہمند کی واحد آبادی تھی جہاں کے مکین پانچ سال گزرنے کے باجود اپنےگھروں اور زمین کے معاوضوں سے محروم ہیں۔

 اس گاؤں کے رہائشی 60 سالہ محمد شریف آج کل چارسدہ میں اپنے دو بیٹوں اور بیٹی کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد کئی پشتوں سے پٹی بانڈہ میں رہتے چلے آ رہے تھے اور ان کی اپنی پیدائش بھی وہیں ہوئی۔

وہ یاد کرتے ہیں کہ جب ڈیم کے سروے کے لیے وقتاً فوقتاً غیر ملکی آتے تھے تو وہ خاصہ دار فورس کے ساتھ اپنا اسلحہ لے کر ان کی حفاظت کے لیے جاتے تھے۔

 "ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس ڈیم کی وجہ سے ملک کی تقدیر بدل جائے گی۔ لوگوں کو روزگار ملے گا۔ لیکن پورا معاوضہ نہ ملنے پر جب ہم نے گھر خالی نہیں کیا تو 2021ء میں مجھے تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کرکے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں بند کردیا گیا جہاں سے ہائیکورٹ نے رہائی دلائی۔"

شریف جیل سے واپس لوٹے تو جولائی 2021ء میں پولیس نے پھر ان کے گھر کا محاصرہ کر لیا لیکن انہوں نے حکومتی وعدے کے مطابق معاوضہ ملنے تک گھر خالی کرنے سے انکار کر دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ جب انہوں نے مزاحمت کی تو انتظامیہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے پر راضی ہوگئی۔ علاقہ معززین کی موجودگی میں طے پایا کہ حکومت ان کی دوبارہ آباد کاری، مال مویشیوں اور زمین کی مد میں ایک کروڑ 40 لاکھ معاوضہ دے گی جبکہ واپڈا میں ان کے بیٹے کو نوکری دی جائے گی۔

"معاوضے کی رقم میں سے 60 لاکھ میرے چچا زاد کے حصے میں آئے اور میرے 90 لاکھ روپے بنتے ہیں جس کی مجھے پرچی پکڑا دی گئی۔ ہم نے گھر تو ڈیم کے لیے حوالے کردیا لیکن مجھے رقم آج تک نہیں ملی اور میں کرائے کے مکانوں میں خوار ہو رہا ہوں۔"

قبل ازیں 2019ء میں واپڈا ہاؤس پشاور میں واپڈا، ضلعی انتظامیہ اور جرگہ ممبران کے اجلاس ہوئے جہاں پٹی بانڈہ گاؤں کے متاثرین کے لیے حکومتی پیکج یعنی زرعی زمینوں، مال مویشیوں، جنگلات، ٹیوب ویلز، گھروں اور دوسری جگہ دوبارہ آباد کاری کے معاوضے کے معاملات پر اتفاق کیا گیا۔

اجلاس میں طے پایا کہ اثاثوں کی مالیت کے علاوہ ہر خاندان کو ریسٹلمنٹ کا معاوضہ 60 لاکھ روپے دیا جائے گا جبکہ دس لاکھ سے تین لاکھ تک کسی اور جگہ گھر کی تعمیر کے لیے دیے جا ئیں گے۔

مکامل شاہ، متاثرہ گاؤں پٹی بانڈہ کے رہائشیوں کی 'تحفظ حقوق مہمند' نامی تنظیم کے صدر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب ڈیم پر کام کا افتتاح ہوا تو حکومت نے متاثرین کے لیے اچھے اچھے اعلانات کیے۔

"2019ء میں واپڈا اور ضلعی انتظامیہ نے پہلے دریائے سوات کے کنارے آباد 15خاندانوں کی زمین مقررہ معاوضے کے تحت حاصل کی۔ پھر 2021ء میں ہمارےگھروں اور زمین کا مطالبہ کیا جس کی لیے انتظامیہ نے گاؤں کے 66 خاندانوں کے اثاثوں کا تخمینہ لگایا اور ہم سے مطالبات بھی مانگے۔"

مکامل بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے 14 مطالبات سٹیمپ پیپر پر لکھ کر دیئے جس میں ہر شادی شدہ جوڑے کے لیے پورا ریسیٹلمنٹ پیکج، فصل، چراگاہ و جنگلات اور مویشیوں کے نقصانات کا ازالہ، رائلٹی میں حصہ، متاثرین کے نیا ویلج (بنیادی سہولیات سمیت)، روزگار اور سرکاری نوکریاں اور متبادل زمین بمع ثبوت قبضہ شامل تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اسیسمنٹ کے چھ ماہ بعد انتظامیہ نے 66 میں سے 21 خاندانوں کو معاہدے کے تحت معاوضہ ادا کر دیا لیکن باقی 45 خاندان فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے رہ گئے۔ گاؤں کی نمائندگی کرنے والے مشران (عمائدین) نے بھی اپنے پیسے وصول کیے اور یہاں سے چلے گئے۔

 "دو ماہ بعد واپڈا اور انتظامیہ کے اہلکار گاؤں میں آئے اور پورے معاوضے کے بجائے فی خاندان صرف ڈیڑھ لاکھ سے آٹھ لاکھ روپے تک دینے کی بات کی۔ جب ہم لوگوں نے یہ پیشکش قبول کرنے سے انکار کیا تو ہماری زندگی اجیرن کر دی گئی۔"

ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے بعد ازاں مزید نو خاندانوں کو گھروں، زمین وغیرہ کا معاوضہ ادا کر دیا لیکن وہ بھی احتجاجاً گھروں سے نہیں نکل رہے۔ کیونکہ اثاثوں کی رقم تو مل گئی مگر انہیں خاندانوں کی ری سیٹلمنٹ کی پوری ادائیگی نہیں کی گئی۔

"ہمارےعلاقوں میں ایک ہی قلعہ نما گھر میں تین یا چار بھائیوں کے خاندان رہتے ہیں لیکن ہر ایک کا پورشن اور کچن الگ ہوتا ہے۔ جیسے ہم تین بھائی اور والد ایک ہی احاطے میں رہتے ہیں لیکن حکومت نے مجھے سات لاکھ روپے دیے جبکہ بھائی کو دو لاکھ ادا کیے ہیں۔"

وہ بتاتے ہیں کہ ان تینوں کے خاندان الگ ہیں جب کسی دوسری جگہ منتقل ہوں گے تو تینوں کو الگ الگ گھر چاہیے ہوگا۔ لیکن حکومت یہ بات نہیں سمجھ رہی۔ حکام کہتے ہیں کہ انہوں نے گوگل اور سپارکو سے اس جگہ کا 2015ء کا نقشہ لیا ہے جس کے مطابق یہاں صرف 30 گھر تھے جو پیکچ کے اہل ہیں باقی سب لوگ ابھی آئے ہیں۔

وہ شکوہ کرتے ہیں کہ جب انہوں نے اہلکاروں کا موقف تسلیم نہیں کیا تو انہیں جرگے سے ہی اٹھا کر تھری ایم پی او کے تحت ڈیرہ اسماعیل جیل بھیج دیا گیا۔

"گاؤں پٹی بانڈہ کے 66 متاثرہ خاندانوں کے کچھ لوگ ڈیم پر لیبر اور ڈرائیور کی نوکریاں کرتے تھے انہیں بھی وہاں سے نکال دیا گیا۔ دو سال بعد 35 دن کے احتجاج پر پچھلے رمضان میں انہیں بحال کیا گیا۔"

"اب انتظامیہ نے ہمارے گاؤں کے اردگرد کانٹے دار باڑ لگا کر راستے میں (گاؤں سے ڈیڑھ کلومیٹر پہلے) چیک پوسٹ بنا دی ہے اور گاؤں میں ہر قسم کی ٹرانسپورٹ یہاں تک کہ موٹر سائیکل کا داخلہ بھی منع ہے۔"

مکامل شاہ  نے بتایا کہ حال ہی میں ایمبولینس لانے کی اجازت ملی ہے جس کا الگ سے لمبا چوڑا طریقہ کار ہے ورنہ چیک پوسٹ تک مریضوں کو چارپائی پر ڈال کر لے جایا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے گاؤں میں آنے پر چھ مہینے کی پابندی لگا دی گئی۔

پشاور واپڈا ہاؤس کے جون 2019ء کے اجلاس کے میٹنگ منٹس میں گوگل تصاویر اور ستمبر 2020ء میں سپارکو سیٹلائٹ امیجز کا کا حوالہ دیا گیا ہے جس کے تحت 35 خاندانوں کو پوری ریسٹلمنٹ اور 12 کو نصف معاوضے سے بھی کم (تین سے دس لاکھ تک)کا اہل قرار دیا گیا ہے۔

پٹی بانڈہ کے ان متاثرین نے مقامی سطح پر احتجاجوں کے بعد مارچ 2022ء میں نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر احتجاج کیا۔ آرمی چیف، چیف جسٹس، وزیراعظم سے ایف آئی اے، نیب اور ڈپٹی کمشنر مہمند تک کو خط لکھے اور درخواستیں دیں مگر ان متاثرین کے مطابق ان کی فریاد کسی نے نہیں سنی۔

اتنا ہوا کہ اگست 2023ء میں ضلع مہمند سے سینیٹر ہلال الرحمان نے متاثرین کے مسئلے کو سینٹ کمیٹی  برائے فنانس و ریونیو میں اٹھایا۔ جس میں ڈی سی مہمند ڈاکٹر احتشام نے بتایا کہ حکومت نے ضلع انتظامیہ کو معاوضےکی ادائیگی کے لیے دو ارب 85 کروڑ روپے دیے ہیں۔

"اس رقم میں سے ایک ارب 19 کروڑ تقسیم نہیں ہوئے۔ ایک ارب 17 کروڑ روپے کی زمین پر دو قوموں عیسیٰ خیل اور برہان خیل کے درمیان تنازع عدالت میں زیر سماعت ہے۔ بقایا دو کروڑ روپے ضرورت کے تحت تقسیم کر دیے جائیں گے۔ عدالتی فیصلہ آنے پر باقی ادائیگیاں بھی کر دی جا ئیں گی۔"

تاہم سینٹر ہلال الرحمان نے متاثرین کو پی سی ون کے مطابق معاوضہ اور مراعات نہ ملنے پر تشویش کا اظہار کیا۔

 " پی سی ون میں کہا گیا ہے کہ زرعی زمین کا معاوضہ 49 لاکھ فی ایکڑ، بنجر یا غیر آباد زمین کا نو لاکھ 88 ہزار روپے جبکہ قابل کاشت رقبے کا معاوضہ 13 لاکھ روپے فی ایکڑ دیا جائے گا۔"

ڈپٹی کمشنر مہمند نے بتایا کہ پی سی ون میں زمین کا ریٹ بہت زیادہ لگایا تھا جس پر واپڈا نے 2018 ء میں دوبارہ مذاکرات کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کو درخواست کی تھی۔

"علاقے کے منتخب نمائندوں، قبائلی مشران اور واپڈا کے نمائندوں کے درمیان بات چیت میں زرعی زمین کا چھ لاکھ روپے اور غیر آباد کا تین لاکھ روپے فی ایکڑ معاوضہ دینے پر اتفاق ہو گیا تھا۔"

سینٹر ہلال الرحمان کا کہنا تھا کہ گھروں کے سٹرکچر کے معاوضے میں کمی بیشی ہو سکتی ہے تاہم زمین کی قیمت پی سی ون کے مطابق رہنی چاہیے تھی۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ معاوضے کی رقم 10 ارب 54 کروڑ سے کم کر کے تین ارب 75 کروڑ کر دی گئی ہے۔

تاہم چیئر پرسن قائمہ کمیٹی سینیٹر سعدیہ عباسی کا کہنا تھا کہ زمین کا حصول ایک قانونی عمل ہوتا ہے اور کمیٹی کے پاس موجودہ قوانین کو تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ یوں یہ معاملہ ایسے ہی نمٹا دیا گیا۔

اسسٹنٹ کمشنر مہمند لوئر صدام حسین میمن متاثرین کے مطالبات اور دعووں کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انتظامیہ پٹی بانڈہ کے حقیقی مکینوں کو پیکج کے تحت معاوضے دے چکی ہے۔ لیکن ان لوگوں نے پھر اپنے بھائیوں کو یہاں بلا لیا اور اب ان کے لیے بھی معاوضے مانگ رہے ہیں۔

"ہم نے گوگل اور سپارکو کے علاوہ ان کے ملکان و مشران کی موجودگی میں سروے کیے تھے۔ جو لوگ اس وقت موجود نہیں تھے ان کے لیے اب کچھ نہیں کیا جاسکتا۔"

تاہم مکامل شاہ اور گاؤں کے دیگر لوگ اسسٹنٹ کمشنر سے اتفاق نہیں کرتے۔ وہ کہتے ہیں کہ سروے اور جرگہ میں شامل مشران ان کے گاؤں سے تھے ہی نہیں بلکہ یہ سرکاری ملکان تھے جن کو سرکار نے خود ہی اس گاؤں کی نمائندگی سونپ دی تھی۔

"دوران سروے ہمیں بتایا گیا کہ ہر خاندان کو متاثرین پیکج کے تحت پورا معاوضہ ملے گا۔لیکن بعد میں بیشتر کو محروم کردیا گیا۔"

پٹی بانڈہ میں ٹرانسپورٹ پر پابندی سے متعلق اسسٹنٹ کمشنر کا کہنا تھا کہ بھاشا ڈیم سائٹ پر چینی اہلکاروں پر حملے کے بعد یہاں سکیورٹی کے غیر معمولی اقدامات کئے گئے ہیں۔ اس لیے پٹی بانڈہ میں ٹرانسپورٹ پر پابندی ہے۔

انہوں نے کہنا تھا کہ یہ لوگ غیرقانونی قابضین ہیں، اور خبردار کیا کہ اگر یہ خود نہ گئے تو انتظامیہ اگلے ماہ ان کو زبردستی پٹی بانڈہ سے نکالے گی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ضلع خیبر کی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں باڑہ ڈیم بننے میں آخر رکاوٹ کیا ہے؟

افتخار مہمند، تحصیل پنڈیالی کی یونین کونسل عیسیٰ خیل کے چیئرمین ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت نے ڈیم کے لیے مہمند قبائل کی تین شاخوں کا آٹھ ہزار ایکڑ رقبہ انتہائی کم قیمت یعنی تین لاکھ روپے فی ایکڑ لیا ہوا ہے۔ جبکہ یہاں پر پہاڑی زمین بھی 18 لاکھ روپے ایکڑ تک ہے۔

"ہمارے اس وقت کے منتخب نمائندوں نے تحفہ کے طور پر اتنی کم قیمت پر زمین دے دی پھر بھی چھ ہزار 400 ایکڑ کا معاوضہ دینے کا وعدہ کیا گیا اور باقی 16 سو ایکڑ کا کوئی حساب کتاب نہیں لگایا گیا۔ تاہم اس میں سے بھی ابھی ایک روپیہ نہیں ملا۔"

وہ معاوضے کی تقسیم پر دو قوموں کے درمیان تنازع کو حکومت کی سازش سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ زمین کے دعویدار دو فریقوں میں سے ایک نے رواج کے مطابق قسم اٹھالی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ زمین اسی قوم کی ہوئی۔ لیکن پھر بھی حکومت نے معاملہ عدالت سے حل کرانے کا کہا ہے اور فیصلہ آنے میں دہائیاں لگیں گی۔

"مہمند قبائل کو اس ڈیم سے تکالیف کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوا۔ روزگار تو دور ہمارے لوگوں کے ہاتھ سے مویشی چرانے اور جنگل سے لکڑیاں جمع کرنے کا وسیلہ بھی چھن گیا ہے۔ تحصیل پنڈیالی میں ہائیرسیکنڈری سکول، بنیادی مرکز صحت تک نہیں ہے جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔"

واپڈا ہاؤس پشاور میں متاثرین مہمند قوم کی نمائندگی کرنے والے جرگہ ممبر اور موجودہ ایم پی اے ملک محبوب شیر کہتے ہیں کہ پٹی بانڈہ کے تمام لوگوں کو معاہدے کے مطابق ان کے معاوضے مل چکے ہیں۔ تاہم جو لوگ سروے میں رہ گئے تھے ان کی کوشش ہے کہ انہیں بھی معاوضہ دلائیں۔

وہ اعتراف کرتے ہیں کہ مقامی لوگوں کو ڈیم پر روزگار نہیں دیا جا رہا لیکن اس کا الزام وہ ڈیم انتظامیہ کے کچھ افراد پر لگاتے ہیں جنہوں نے مضبوط لابی بنائی ہوئی ہے اور صرف اپنے علاقوں کے لوگوں کو ہی نوکریاں دیتے ہیں۔

مکامل شاہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے انٹر پاس کیا ہوا ہے مگر ڈیم پر انہیں کوئی نوکری نہیں مل رہی۔

"میں گاؤں میں موٹر سائیکل پر سٹے (مکئی کے بھٹے) بھیجتا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں بیچ سکتا کیونکہ یہاں اب موٹرسائیکل چلانے پر پابندی ہے۔ ڈیم پر پنجاب اور کراچی کے لوگ نوکریاں کر رہے ہیں جبکہ میں باہر دیہاڑی کر رہا ہوں۔"

(اس رپورٹ کی تیاری کے دوران انتظامیہ نے پٹی بانڈہ گاؤں میں مکامل شاہ کے گھر کو مسمار کر دیا۔)

تاریخ اشاعت 29 جولائی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

کلیم اللہ نسلی و علاقائی اقلیتوں کو درپیش مخصوص مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔ انہوں نے لیڈز یونیورسٹی لاہور سے ماس کمیونیکیشن میں بی ایس آنرز کیا ہے۔

thumb
سٹوری

ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے کاشتکار ہزاروں ایکڑ گندم کاشت نہیں کر پا رہے۔ آخر ہوا کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد زعفران میانی

سموگ: ایک سانس ہی ہم پر حرام ہو گئی

thumb
سٹوری

خیبر پختونخوا میں ایڈز کے مریض کیوں بڑھ رہے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاسلام گل آفریدی
thumb
سٹوری

نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف سندھ میں احتجاج اور مظاہرے کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار
thumb
سٹوری

پنجاب: محکمہ تعلیم میں 'تنظیم نو' کے نام پر سکولوں کو'آؤٹ سورس' کرنے کی پالیسی، نتائج کیا ہوں گے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

برف کے پہاڑؤں پر موت کا بسیرا ہے، مگر بچے بھی پالنے ہیں

thumb
سٹوری

سموگ: یہ دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ری ، عبدالل

پرانی کیسٹس،ٹیپ ریکارڈ یا فلمی ڈسک ہم سب خرید لیتے ہیں

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.