تین دسمبر 2021 کو سیالکوٹ میں ایک فیکٹری کے سری لنکن منیجر کا قتل پاکستان میں ایک مشتعل ہجوم کے ہاتھوں کسی شخص کی ہلاکت کا تازہ ترین واقعہ ہے۔ اس سے پہلے وقوع پذیر ہونے والے ایسے کئی واقعات کی ایک بڑی تعداد درحقیقت پچھلے بیس سال میں دیکھنے میں آئی ہے۔
ایسی بیشتر ہلاکتیں مذہبی وجوہات کی بنا پر ہوئی ہیں تاہم کچھ واقعات ایسے بھی سامنے آئے ہیں جن میں مشتعل ہجوم نے چوری یا ڈکیتی جیسے جرائم میں ملوث لوگوں کو اجتماعی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ کچھ ہلاکتوں کے پیچھے ذاتی رنجشوں، انتقامی جذبات اور غلط فہمی جیسے عناصر بھی پائے گئے ہیں حتیٰ کہ ایسے واقعات بھی جو بدیہی طور پر تو توہینِ مذہب کے الزام کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوئے ان کی اصل وجہ جائیداد اور کاروبار کے تنازعات، ذاتی رنجشیں اور ملازمین و آجرین کے اختلافات نکلے۔
دوسری طرف ہر ایسے واقعے کے بعد حکومت کہتی ہے کہ اس کا اعادہ نہیں ہونے دیا جائے گا اور اس طرح کی ہلاکتوں پر تشویش میں مبتلا لوگ یہ توقع باندھ لیتے ہیں کہ شاید یہ اس طرح کا آخری واقعہ ہو لیکن ابھی ایک ہلاکت کی بازگشت لوگوں کے ذہن میں موجود ہوتی ہے کہ اسی طرح کی ایک اور ہلاکت سامنے آ جاتی ہے۔
ان واقعات کے تواتر کی سب سے بڑی وجہ ان میں ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا نہ ملنا ہے۔ درحقیقت گزشتہ 30 سالوں میں ایسی مثالیں خال خال ملتی ہیں جن میں اس طرح کی ہلاکتوں کے ذمہ دار لوگوں کو عدالتوں نے سزا دے کر باقی لوگوں کے لیے عبرت کی مثال بنایا ہو۔ نیچے دی گئی فہرست سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے:
• مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کا پہلا نمایاں واقعہ 1994 میں گوجرانوالا شہر میں پیش آیا تھا جب مقامی لوگوں نے حافظ ساجد فاروق نامی ایک شخص کو قرآن کے اوراق نذرِ آتش کرنے کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد آگ لگا کر ہلاک کر دیا۔ اس واقعے میں چار مرکزی ملزموں کے خلاف کئی سال تک مقدمہ چلا لیکن مقتول کی اہلیہ قانونی اور مالی وسائل نہ ہونے کے سبب اس کی پیروی جاری نہ رکھ سکیں جس کے باعث وہ سزا سے بچ نکلے۔
گوجرہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ 2009 میں مسیحی آبادی میں 40 گھروں کو آگ لگا دی گئی
• اسی طرح 2008 میں کراچی کے علاقے کورنگی کی ایک فیکٹری میں جگدیش کمار نامی ہندو مزدور کو اس کے ساتھی مزدوروں نے توہینِ رسالت کے الزام میں لاتوں اور گھونسوں سے تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ لیکن ان کے والد نے ان کے قتل کا مقدمہ ہی درج نہیں کرایا کیونکہ ان کے اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والی مذہبی اور سماجی تنظیموں نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا تھا تا کہ مقدمہ بازی کہیں پاکستان کی ہندو آبادی کے خلاف فسادات کا باعث نہ بن جائے۔ نتیجتاً اس واقعے میں ملوث کسی ملزم کو سزا نہ ہو سکی۔
• وسطی پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل گوجرہ میں سینکڑوں افراد نے 2009 میں قرآن کی بے حرمتی کے الزام میں ایک مسیحی بستی پر حملہ کر کے تقریباً 50 گھروں کو آ گ لگا دی جس میں خواتین اور بچوں سمیت چھ افراد زندہ جل گئے۔ اس واقعے میں ملوث درجنوں ملزموں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد مقدمے کا مرکزی مدعی اور پانچ گواہ بیرون ملک چلے گئے کیونکہ، ان کے مطابق، پاکستان میں ان کی جان کو خطرہ تھا۔ ان کی ملک میں عدم موجودگی کے باعث مقدمہ داخلِ دفتر کر دیا گیا اور یوں اس کی پیروی نہ ہونے کے نتیجے میں تمام ملزم رہا ہو گئے۔
• اسی سال لاہور کے شمال میں واقع قصبے مریدکے میں مشتعل ہجوم نے چمڑے کی ایک فیکٹری کے مالک نجیب ظفر اور ان کے ملازم کو قرآنی آیات کی توہین کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔ مبینہ طور پر یہ واقعہ مزدوروں اور فیکٹری کی انتظامیہ کے درمیان حالاتِ کار اور اجرتوں پر تنازعے کا نتیجہ تھا۔ ان ہلاکتوں کا مقدمہ نامعلوم ملزموں کے خلاف درج کیا گیا لیکن ابھی تک کسی کو سزا نہیں ہوئی۔
• سیالکوٹ شہر کے نواح میں ایک مشتعل ہجوم نے 2010 میں مغیث اور منیب نامی دو نوعمر بھائیوں کو ایک نوجوان کے قتل کے شبے میں پکڑ کر بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا جس کے دوران وہ دونوں ہلاک ہو گئے۔ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لیا جس کے بعد 13 ملزموں کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے سات کو موت کی سزا جبکہ چھ کو عمر قید کی سزا دی گئی لیکن ملزموں نے اس سزا کے خلاف اپیل کر دی جس کا فیصلہ سناتے ہوئے 2019 میں اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پولیس کی تفتیش کو ناقص قرار دیا اور تمام ملزموں کی سزا دس دس سال قید میں تبدیل کر دی۔
• بہاولپور میں 2012 میں سینکڑوں افراد نے مقامی تھانے پر حملہ کر کے وہاں قید ایک ملنگ کو باہر نکالا اور اسے آگ لگا کر ہلاک کر دیا۔ اس پر قرآن کی توہین کرنے کا الزام تھا۔ اس واقعے کے بعد سینکڑوں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تاہم اس میں سے کسی کو کبھی سزا نہیں ہو سکی۔
• سندھ میں ضلع دادو کے علاقے راجو ڈیرو کی گوٹھ سیتا کی ایک مسجد میں 2012 میں قرآن کے جلے ہوئے اوراق پائے جانے پر مقامی لوگوں نے احتجاج کیا اور ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو اس عمل کا ملزم ٹھہرایا۔ پولیس نے اسے گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا تاہم ایک مشتعل ہجوم نے تھانے پر حملہ کر کے اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور آگ لگا کر مار ڈالا۔ اس واقعے کے بعد پولیس نے 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کر کے متعدد لوگوں کو گرفتار کیا لیکن کچھ عرصہ بعد سبھی ملزم عدم ثبوت کی بنیاد پر رہا ہو گئے۔
• گوجرانوالا میں 2014 میں سینکڑوں افراد نے احمدیوں کی ایک بستی پر حملہ کر کے متعدد گھروں کو آگ لگا دی جس سے ایک خاتون اور دو کمسن بچیاں ہلاک ہو گئیں۔ حملہ آوروں کا الزام تھا کہ اس بستی میں رہنے والے ایک شخص نے فیس بُک پر اسلام کے خلاف توہین آمیز کلمات لکھے ہیں۔ اس واقعے کا مقدمہ تو درج ہوا لیکن آج تک نہ تو کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے اور نہ ہی کسی ملزم کو سزا ہوئی ہے۔
• لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں 2015 میں دو مسیحی عبادت گاہوں پر دو بم دھماکے ہوئے جن میں 15 افراد ہلاک اور 50 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ ان دھماکوں کے بعد مقامی مسیحیوں نے احتجاج کیا جس کے دوران مشتعل ہجوم نے بابر نعمان اور حافظ نعیم نامی دو افراد کو دہشت گرد تصور کرتے ہوئے تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر انہیں آگ لگا دی۔ طویل تفتیش کے بعد پولیس نے ان ہلاکتوں میں مبینہ طور پر ملوث 40 سے زیادہ افراد کو گرفتار کر کے ان پر انسدادِ دہشت گردی، قتل اور دیگر کئی دفعات کے تحت مقدمے درج کیے۔ تاہم بعد میں دونوں مقتولین کے لواحقین نے ملزموں سے صلح کر لی جس کے بعد یہ مقدمے ختم ہو گئے۔
• اسی سال لاہور کے نواحی علاقے کوٹ رادھا کشن میں بیسیوں افراد نے ایک بھٹہ مزدور شہزاد مسیح اور اس کی حاملہ بیوی شمع کو قرآنی آیات کی بے حرمتی کے الزام میں بھٹے کی آگ میں پھینک کر زندہ جلا دیا۔ اس واقعے میں ملوث کئی ملزموں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلایا گیا جن میں سے پانچ کو سزائے موت ہوئی اور نو کو دو دو سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ دیگر ملزموں کو عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیا گیا۔ تاہم یہ سزائیں حتمی نہیں بلکہ ان کے خلاف اپیلیں ابھی اعلیٰ عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں۔
یہ بھی دیکھیں
سری لنکن منیجر کا سیالکوٹ کی فیکٹری میں قتل: 'لیبر یونین ہوتی تو ایسا نہ ہوتا'۔
• کراچی کے علاقے لانڈھی نمبر 3 میں بیسیوں مقامی لوگوں نے 2017 میں ایک دکان پر لوٹ مار کرنے والے ایک ڈاکو کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے زندہ جلا دیا۔ اس واقعے میں دو افراد کو مرکزی ملزم قرار دے کر گرفتار کیا گیا تاہم ان پر نہ تو مقدمہ چلا اور نہ ہی انہیں کوئی سزا ملی۔
• مردان کی خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں 2017 میں طلبہ اور کیمپس کے انتظامی اہلکاروں پر مشتمل ہجوم نے مشال خان نامی طالب علم کو توہینِ مذہب کے الزام میں اجتماعی طور پر تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔ بعد میں تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ مشال خان کو دراصل یونیورسٹی میں بدانتظامی کے خلاف آواز اٹھانے پر سازش کے تحت قتل کیا گیا تھا۔ پولیس نے اس واقعے میں ملوث 57 ملزموں کو گرفتار کیا جن میں سے مرکزی ملزم کو سزائے موت، پانچ ملزموں کو پچیس پچیس سال قید اور 25 ملزموں کو چار چار سال قید کی سزا سنائی گئی جبکہ 26 دیگر ملزموں کو بری کر دیا گیا۔ بعدازاں عدالت نے مرکزی ملزم کی اپیل پر اس کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی جبکہ چار سال قید کی سزا پانے والے ملزموں کی ضمانتیں منظور کر کے انہیں رہا کر دیا۔
• کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں 2020 میں چار سو سے زیادہ افراد نے ایک شخص کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔ مقتول پر موبائل فون کے ذریعے مقامی خواتین کی بلا اجازت ویڈیو بنانے کا الزام لگایا گیا تھا لیکن پولیس کی تفتیش میں لین دین کا جھگڑا بھی سامنے آیا۔ پولیس نے اس واقعے میں ملوث متعدد لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا لیکن جلد ہی تمام ملزم ضمانت پر رہا ہو گئے۔
تاریخ اشاعت 21 دسمبر 2021