فیضان آفریدی کراچی کے رہائشی ہیں جنہوں نے گزشتہ سال پری میڈیکل میں ایف ایس سی پاس کی تھی۔ انہوں نے ایم بی بی ایس میں داخلے کے لیے پچھلے سال ایم ڈی کیٹ(میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز ایڈمشن ٹیسٹ) دیا تھا اور رواں سال بھی دیا، لیکن دونوں ہی بار امتحانات متنازع ہو گئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ رواں برس 21 ستمبر کی رات انہوں نے جاگتےگذاری۔ وہ پڑھتے رہے اور ساتھ واٹس ایپ و فیس بک بھی دیکھتے رہے۔ اس رات صبح تین بجے تک سوشل میڈیا گروپس میں ایم ڈی کیٹ کے تین مختلف سوالیہ پرچے شیئر ( آؤٹ) ہو چکے تھے۔
"میں نے فیس بک پر جو آخری پرچہ دیکھا وہ تقرِیباً صبح چار بجے اپلوڈ کیا گیا تھا۔ میں تھک چکا تھا اور صبح ٹیسٹ دینا تھا، اس لیے میں اس پرچے کا صرف انگریزی والا سیکشن ہی پڑھ سکا اور سو گیا۔"
پاکستان بھر کے میڈیکل کالجز اور یونیورسٹیوں میں داخلے کے لیے امتحان پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) لیتی ہے جو ایک قانونی ریگولیٹری باڈی ہے۔
ایم ڈی کیٹ کے ذریعے مستقبل کے مسیحاؤں کا انتخاب کیا جاتا ہے مگر یہ امتحان پیپر لیک، بدانتظامی اور بدعنوانی کی وجہ سے متنازع ہوتا چلا آ رہا ہے۔
سندھ میں ایم ڈی کیٹ 22 ستمبر کو ڈاؤ یونیورسٹی کے زیر انتظام پانچ شہروں کراچی، جامشورو، شہید بینظیر آباد، لاڑکانہ اور سکھر میں بیک وقت لیا گیا جس میں 38 ہزار امیدواروں نے حصہ لیا اور 22 ہزار 366 کامیاب قرار دیے گئے۔
تاہم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے یہ الزام لگا دیا کہ ٹیسٹ سے پہلے ہی پیپر لیک ہو چکا تھا۔
تنظیم کے صدر ڈاکٹر محبوب نوناری بتاتے ہیں کہ کئی امیدواروں سے انہیں شکایات کیں اور انہیں شواہد بھی موصول ہوئے۔وہ الزام لگاتے ہیں کہ پرچہ آؤٹ کرنے میں ڈاؤ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور انتظامیہ ملوث ہیں۔
فیضان آفریدی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ سوالیہ پیپر دیکھ کر حیران رہ گئے۔ انگریزی کا سیکشن وہی تھا جو انہوں نے چار بجے والی پوسٹ میں دیکھا تھا۔ پیپر ختم ہونے کے بعد انہوں نے سوشل میڈیا پر موجود پیپر کا جائزہ لیا تو ہوبہو وہی تھا جو امتحان میں آیا۔
عمران خان کے دور حکومت میں پی ایم ڈی سی کو ختم کرکے 'پاکستان میڈیکل کمیشن'بنایا گیا تھا جس کے تحت ملک بھر میں ایم ڈی کیٹ کی یکساں امتحانات لیے جاتے تھے۔ تاہم 2022ء میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک حکم کے بعد پارلیمنٹ نے ترمیمی بل منظور کر کے پی ایم ڈی سی کو بحال کردیا۔
اب پی ایم ڈی سی کسی بھی ادارے یا یونیورسٹی کے ذریعے ایم ڈی کیٹ کا امتحان منعقد کرا سکتی ہے جو صوبائی سطح پر ہوتا ہے۔ پچھلے سال صوبے میں یہ امتحان جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے زیر انتظام لیا گیا لیکن پرچہ آؤٹ ہو گیا جس پر یہ ٹیسٹ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی نے لیا۔
رواں سال ٹیسٹ لینے کی ذمہ داری ڈاؤ یونیورسٹی کراچی ہی کو دی گئی لیکن اس بار یہاں سے بھی پرچہ آؤٹ ہو گیا۔
ڈاکٹر محبوب نوناری کا کہنا ہےکہ رواں سال شکایات ملنے پر انہوں نے حکام سے رابطہ کیا لیکن کوئی ریسپانس نہیں ملا۔ وہ ڈاؤ یونیورسٹی گئے تو کہا گیا کہ متعلقہ دفاتر کو سیل کر دیا گیا ہے جبکہ عدالت جانے پر انہیں وی سی کی جانب سے دھمکیاں ملنے لگیں۔
بعدازاں 16 امیدواروں نے بھی ایم ڈی کیٹ کے خلاف سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا۔ ان کے وکیل بیرسٹر شعیب کھٹیان بتاتے ہیں کہ انہوں نے شواہد کے ساتھ ثابت کیا کہ پرچہ صرف ٹیسٹ سے پہلے آؤٹ ہی نہیں ہوا بلکہ رقم لے کر بیچا گیا تھا۔
فیضان آفریدی پٹیشنرز میں سے ایک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی سے پیپر تو لیک ہوا ہی ہے، ان کے مارکس کو بھی کم کرکے دکھایا گیا۔
’’میری کاربن کاپی کے مطابق میرے نمبر 175 بنتے تھے لیکن نتائج میں 165 دکھائے گئے۔ چونکہ میرا پچھلے سال کا تجربہ تھا اس لیے میں نے مارکنگ سوچ سمجھ کر کی تھی۔ فرضی امتحانات (موک ٹیسٹ) میں بھی میرے نمبر ہمیشہ 180 سے زیادہ آتے رہے۔"
ان کے بقول کئی طلباء کی کاربن کاپیوں میں نمبر زیادہ ہیں لیکن ڈاؤ یونیورسٹی کے جاری کردہ نتائج میں کم لگائے گئے۔
سندھ ہائی کورٹ میں 26 اکتوبر کو جمع کرائی جانے والی چھ رکنی حکومتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں پیپر لیک ہونے کے شواہد کی تصدیق کی ہے۔ اس موقع پر پی ایم ڈی سی نے بتایا کہ سندھ میں 38 ہزار سے زائد امیدواروں میں سے 683 نے 190 سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔
عدالت میں سامنے آیا کہ کچھ طلبا جن کا بورڈ کے امتحانات میں سکور بہت کم تھا انہوں نے اس ٹیسٹ میں 190 سے زیادہ مارکس حاصل کیے۔ صرف رانی پور انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسز کے 30 طلبا نے 190 سے زیادہ مارکس لیے۔
عدالت نے ایم ڈی کیٹ کے نتائج کو منسوخ کرتے ہوئے حکم دیا کہ یہ ٹیسٹ ایک ماہ کے اندر آئی بی اے کراچی اور آئی بی اے سکھر کے زیر انتظام دوبارہ کرائے جائیں، لیکن آئی بی اے کراچی نے امتحانات کا انتظام سنبھالنے سے معذرت کر لی ہے۔
تاہم اب سندھ کابینہ نے منظوری دی ہے کہ ایم ڈی کیٹ چار کی بجائے چھ ہفتے میں ہوں گے جو آئی بی اے سکھر کے زیر انتظام منعقد کرائے جائیں گے۔
سندھ میں جب امتحانات اور خاص طور پر میڈیکل ٹیسٹ کی بات آئے تو نتائج میں ضلع تھرپارکر کے طلباء ہر بار سرفہرست ہوتے ہیں۔
رواں سال یہاں کے تقرِیباً ڈیڑھ سو امیدواروں نے 190 یا اس سے زیادہ مارکس لیے جبکہ اس ضلعے کی نشستیں صرف 26 ہیں۔
پروفیسر بھوانی شنکر پچھلے 27 برس سے تھر میں اکیڈمی چلا رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے سینٹر کے بچے ہر بار میڈیکل میں ٹاپ سکور کرتے ہیں۔اس بار بھی کچھ طلبا نے 190 سے زیادہ نمبرز حاصل کیے مگر نتائج منسوخ ہو گئے جس کا انہیں بہت دکھ ہے۔
ایک طالب علم جن کے نمبر 187 اور 190 کے درمیان آٓئے ہیں، انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ پچھلے سال صرف دو نمبروں سے رہ گئے تھے، اس بار امید تھی کہ ان کا میڈیکل میں داخلہ ہو جائے گا لیکن ساری محنت پر پانی پھیر گیا۔
تاہم بیرسٹر شعیب کھٹیان کا کہنا ہے کہ جو طالب علم قابلیت رکھتے ہیں انہیں کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔انہیں تیاری کے لیے مزید وقت مل گیا ہے وہ اور زیادہ نمبر حاصل کر سکتے ہیں۔
فیضان آفریدی اور تھر کے کچھ طالب علم پریشان ہیں کیوںکہ وہ دوبارہ امتحان دینے والے (امپروور) ہیں اور پی ایم ڈی سی انہیں رجسٹر نہیں کر رہی۔
ایک طالب علم نے بتایا کہ تھرپارکر کے امیدواروں میں مقابلہ زیادہ سخت ہے کیوںکہ پچھلے سال 26 میں سے صرف پانچ/چھ نشستیں نئے (فریش) امیدواروں کو ملی تھیں جبکہ باقی ساری سیٹیں دوبارہ امتحان دینے والے لے اڑے تھے۔
فیضان کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اگر وہ رجسٹر ہو بھی جاتے ہیں تو کیا آئی بی اے سکھر کے زیر انتظام دوبارہ لیا جانے والا امتحان شفاف ہو گا؟
انہوں نے دلیل دی کہ سیلف فنانس پر ایم بی بی ایس کے طالب علم کو ایک کروڑ روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اگر کہیں سے ان لوگوں کو 30 یا 40 لاکھ روپے میں پیپر مل جائے تو کیوں نہیں لیں گے؟
یہ بھی پڑھیں
دفعہ 144 نافذ، موبائل فون سروس معطل: خیبر پختونخوا میں ایم ڈی کیٹ کے ہزاروں امیدواروں کی بے یقینی ختم نہیں ہوئی
"امیر والدین کی جانب سے بولیاں تو اب بھی لگیں گی لیکن اب اس کا انحصار آئی بی اے سکھر پر ہے کہ وہ کس طرح ٹیسٹ میں شفافیت کو یقینی بناتا ہے۔"
دوسری جانب وفاقی تحقیقاتی ادارہ ( ایف آئی اے)، عدالتی حکم کے تحت پیپر آؤٹ ہونے کی تحقیقات کر رہا ہے جس نے ابتدائی طور پر ونود کمار اور ڈاکٹر سجاد محمود علوی کو اس معاملے میں مشکوک قرار دیا ہے۔
ونود کمار، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی میں تھرڈ ایئر کے طالب علم ہیں اور میڈیکو انجنیئرنگ کے نام سے پلیٹ فارم بھی چلاتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ 21 ستمبر کی رات انہوں نے خود سے سوشل میڈیا پر کوئی پیپر نہیں بھیجا۔
"مختلف واٹس ایپ گروپس سے پیپر آ رہے تھے جو ہم نے بھی آگے بھیج (فارورڈ کر) دیے تھے۔ میں نے کسی سے پرچہ لیا ہوتا اور اسے بیچنا ہوتا تو گروپ میں شیئر کیوں کرتا؟
ایف آئی اے نے مجھے تین بار بلایا اور فون بھی لے لیا ہے۔ تاہم میں ہر سطح پر اپنا دفاع کروں گا۔"
تاریخ اشاعت 12 نومبر 2024