بلتستان کے لوگ ہر سال 21 دسمبر کی رات ایک خاص تہوار مناتے ہیں جسے "مے فنگ" کہا جاتا ہے، بلتی زبان میں "مے" کا مطلب آگ اور "فنگ" کا مطلب پھینکنا ہے، یعنی آگ سے کھیلنا ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق صدیوں پرانے اس تہوار کو منانے کا مقصد بہار کی آمد پر اسے خوش آمدید کہنا ہے۔
جشن مے فنگ میں شام کو اندھیرا چھاتے ہی لوگ اپنے گھروں سے آگ کے گولے یا مشعلیں لے کر گروپ کی شکل میں گیت گاتے ہوئے نکلتے ہیں اور کسی بلند ٹیلے یا پہاڑی پر چڑھ جاتے ہیں۔ وہاں ایک بڑا اجتماعی الاؤ روشن کر کے دائرے کی شکل میں بیٹھ کر قدیم گیت گانا اور رقص کرنا اس جشن کا اہم حصہ ہے۔
اس رقص کو مقامی زبان میں "مے ہژس" یعنی آگ کا رقص کہتے ہیں۔ "مے فنگ" کے تہوار کی جڑیں تبتی بدھ مت ثقافت سے ملتی ہیں اور اس میں آتش بازی، موسیقی اور رقص شامل ہے۔
اس سال بھی گلگت بلتستان کی وادی خپلو میں جعمرات کی شام لوگوں نے اپنے اپنے گاؤں میں اس تہوار کو منایا جبکہ مرکزی جشن شاہی پولو گراؤنڈ سے متصل ایک پہاڑی سے ایک شمع بردار ریلی سے شروع ہو کر گراؤنڈ میں رقص اور موسیقی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
لوک سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر بلدیات حاجی عبدالحمید نے بتایا کہ "مے فنگ کے قدیم تہوار کو منانے کے لیے لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں، کیونکہ یہ ہمیں اپنے آباء و اجداد کے ساتھ ہمارے تعلق کی یاد دلاتا ہے، جنہوں نے اسے صدیوں پہلے منانا شروع کیا تھا۔ یہ علاقے کے رہائشیوں کے لیے خوشی کا دن ہے کیونکہ یہ سال کی طویل ترین رات اور سردیوں کے موسم کے اختتام کا آغاز ہے"۔
مقامی مورخ محمد حسن حسرت کے مطابق، اس تہوار کی ابتداء غیر واضح ہے، لیکن بہت سے لوگ اسے نئے سال کے آمد کے طور پر دیکھتے ہیں۔
"یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تہوار مقپون خاندان کے دور میں شروع ہوا جو 12ویں صدی میں خطے میں ابھرا اور تقریباً 700 سال تک جاری رہا"۔
ان کا کہنا تھا کہ چند لوگوں نے اسے 17ویں صدی کی افسانوی کہانی آدم خور حکمران، راجہ ابدال خان سے منسوب کیا، جو اپنے ظلم کے لیے جانا جاتا تھا۔
محمد حسن کہتے ہیں کہ یہ تہوار چترال، گلگت کے علاوہ چین کے بعض علاقوں میں بھی منایا جاتا ہے۔
"جب 21 دسمبر کا سورج غروب ہوتا ہے، تو لوگ خاص طور پر بچے اور نوجوان اپنے ہاتھوں میں شمع بردار لاٹھیاں اٹھا کر ہوا میں لہراتے ہیں اور رقص کرتے ہیں۔اگرچہ یہ تقریبات گزشتہ 40 سے 50 سالوں سے کم ہو رہی تھیں، لیکن یہ ایک بار پھر لوگوں میں مقبول ہو رہی ہیں"۔
مقامی فنکار غلام عباس بلغاری ڈھول بجانے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ وہ 1987 سے مقامی طور پر بکرے کی کھال سے تیار کردہ اپنا ڈھول بجاتے ہیں۔ انہیں مے فنگ کے میلے میں ڈھول بجانا بہت پسند ہے۔
"2005ء سے یہ تہوار بلتستان کی مختلف وادیوں شگر، روندو، سکردو، کھرمنگ اور خپلو میں باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ میں نے کئی سالوں کے وقفے کے بعد آج وادی خپلو میں رنگا رنگ مے فنگ فیسٹیول میں شرکت کی ہے"۔
گلوکار زاہد حسین نے لوک سجاگ کو بتایا، "میں نے لوگوں میں ایسا جوش و خروش پہلے کبھی نہیں دیکھا، آپ یہاں سینکڑوں لوگوں کو دیکھ سکتے ہیں، جو اتنے ٹھنڈے موسم میں بھی اس جشن میں شرکت کرنے کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ثقافتی تہواروں کو زندہ رکھیں۔"
قدیم زمانوں میں جشن مے فنگ 21 دسمبر سے تین ہفتے قبل اور تین ہفتے بعد تک منایا جاتا تھا مگر دور حاضر میں بلتی لوگ صرف 21 دسمبر کو یہ جشن مناتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
شمسی توانائی کے واٹر پمپ اور گلگت بلتستان کے آخری گاؤں کا ننھا منا زرعی انقلاب
وادی خپلو سے تعلق رکھنے والے نذیر علی نے کہا کہ ہر سال 21 دسمبر کو صبح ہوتے ہی بچے لکڑی کے سرے پر آگ لگا کر مشعل بنانے کی ضد کرتے ہیں، اس مشعل کو مقامی زبان میں ڈانڈریا، لانڈر کہتے ہیں۔
"اس دن شام سے پہلے بچوں کے لئے ڈانڈریا تیار کر کے انہیں تہوار کے مقام پر لے جایا جاتا ہے تاکہ وہ بھی دوسروں کے ساتھ اس تہوار میں حصہ لے سکیں۔"
جشن مے فنگ میں ڈانڈریا لہراتے ہوئے انہیں بلند مقام سے نیچے پھینکنے سے متعلق یہ مانا جاتا ہے کہ لوگ گھروں سے جب آگ لے کر نکلتے ہیں تو گھر میں موجود آسیب بلائیں سب اس آگ کے ساتھ نکل جاتی ہیں۔
" لوگ دعا کرتے ہیں کہ آنے والا وقت ہمارے لئے اچھا ہو، پانی وافر مقدار میں آئے اور فصلیں بہتر ہوں، یہ سب دعائیں مانگ کر پھر آگ کو بلندی سے نیچے پھینک دیا جاتا ہے"۔
تاریخ اشاعت 28 دسمبر 2023