تحصیل مانجھی پور کا واحد ڈگری کالج، صرف دو کلاس روم،'وہ بھی اب گرے کہ تب'

postImg

رضوان الزمان منگی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

تحصیل مانجھی پور کا واحد ڈگری کالج، صرف دو کلاس روم،'وہ بھی اب گرے کہ تب'

رضوان الزمان منگی

loop

انگریزی میں پڑھیں

سعید خان ضلع صحبت پور کے رہائشی اور ایف ایس سی کے طالب علم ہیں۔ وہ اپنے گوٹھ امین مرہٹہ سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر واقع گورنمنٹ کالج مانجھی پور میں پڑھتے ہیں۔

سترہ سالہ سعید خان نے میٹرک بھی یہیں مانجھی پور سے کیا تھا۔ اس لیے انہیں کالج آنے جانے میں کوئی خاص تکلیف نہیں اور نہ ہی اساتذہ سے کوئی شکایت ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ان کا کالج صرف دو کمروں پر مشتمل ہے۔ فرسٹ ایئر اور سیکنڈ ایئر کے تمام مضامین کی کلاسز کے لیے یہی دو کمرے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ دونوں کلاس رومز کی حالت اتنی خراب ہے کہ دوران کلاس بھی چھت سے گارے اور سیمنٹ کے ٹکڑے گرتے رہتے ہیں اور ان کے ساتھی طالب علموں کی توجہ لیکچر سے زیادہ چھت پر رہتی ہے کہ کہیں اوپر ہی نہ آن گرے۔

سعید خان کے والد محمد امین کاشتکاری کرتے ہیں۔ ان کے پاس اپنی بارہ ایکڑ زمین ہے لیکن سیم زدہ ہےجس کی وجہ سے ان کی آمدنی بہت محدود ہے۔ سعید خان کہتے ہیں کہ اپنے شہر سے باہر جا کر تعلیم حاصل کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔

"اس لیے ہم سب اور اساتذہ انہیں کلاس رومز میں پڑھنے کے لیے بھی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ جہاں ہر وقت جان کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہتا ہے۔ ایک بار تو جشن آزادی کے دن چھت کا ایک بڑا ٹکڑا گر گیا تھا۔ شکر ہے لڑکے باہر تھے اس لیےکوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔"

ان کا کہنا تھا کہ سنا ہےکالج کی نئی عمارت کے لیے تین سال سے پیسے آئے ہوئے ہیں لیکن پتہ نہیں کس وجہ سے کام شروع نہیں ہو پا رہا؟

بلوچستان کے ضلع صحبت پور کی تحصیل مانجھی پور، سندھ کے ضلع جیکب آباد سے متصل ہے۔ مانجھی پور شہر اگرچہ 18 ہزار نفوس پر مشتمل ہے تاہم یہ قدیم آبادی ہے۔

مانجھی پور اس علاقے میں سبی کے بعد دوسرا شہر ہے جہاں برطانوی دور میں پرائمری سکول بنایا گیا تھا۔ 1946ء میں اسے مڈل کا درجہ دینے کے ساتھ یہاں ہاسٹل بھی تعمیر کیا گیا۔ یہاں نصیرآباد تک کے طلباء رہائش اختیار کرتے رہے اور انہیں مقامی زمیندار خان بہادر کی جانب سے کھانا فراہم کیا جاتا تھا۔

مانجھی پور مڈل سکول کو1952ء میں ہائی سکول کا درجہ ملا۔ کئی سال بعد  یہاں دوسرا ہائی سکول بھی بن گیا مگر 2013ء تک ایف ایس سی کے لیے بچوں کو حیرالدین انٹر کالج جانا پڑتا تھا۔ تاہم 2015ء میں مانجھی پور انٹر کالج بنانے کی منظوری دی گئی۔

کالج کے لیکچرار اللہ داد پنھیار بتاتے ہیں کہ انٹر کالج میں کلاسز کا آغاز دو سال بعد 2017ء میں ہوا۔ پروفیسر جان محمد کھوسہ پہلے پرنسپل تعینات ہوئے۔ اس وقت بھی کالج کے لیے عمارت دستیاب نہیں تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ پرنسپل نے مختلف شخصیات کی مدد سے مانجھی پور ہائی سکول میں ایک کمرہ حاصل کیا اور شام کو سکول میں انٹر کی کلاسز شروع کرا دیں۔ پانچ ماہ ایک کمرے میں کالج کا کام جاری رہا۔ پھر نئے پرنسپل محمد ایوب منگریو نے چارج سنبھالا تو طلباء کی تعداد میں اضافہ ہو چکا تھا۔

پرنسپل محمد ایوب منگریو بتاتے ہیں کہ سیاسی شخصیات کی دلچسپی اور ان کی کوششوں سے ہائی سکول کے ہاسٹل کی 1946ء والی پرانی عمارت کا انتخاب کیا گیا جو متروک ہو چکی تھی۔ اس بوسیدہ عمارت میں چار کمرے قابل استعمال بنائے گئے۔ جن میں سے ایک دفتر، ایک لیب اور دو کلاس رومز کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔

مانجھی پور کالج کو 2019ء میں ڈگری کا درجہ دے دیا گیا لیکن بلڈنگ نہ ہونے کے باعث بی ایس کی کلاسز کا اجرا نہیں ہوسکا ہے۔

ابھی یہاں صرف ایف اے/ ایف ایس سی کی کلاسز لگتی ہیں۔ طلباء کی تعداد 250 اور طالبات کی تعداد 70 ہے۔ صبح کو کلاس رومز میسر نہ ہونے کی وجہ سے طالبات کی کلاسیں شام کو ہوتی ہیں۔

پرنسپل  کہتے ہیں کہ موجودہ عمارت میں سٹاف سمیت طلباء کی زندگی کو  شدید خطرات لاحق ہیں۔ بچے کالج آنے سے ڈرتے ہیں اب اس عمارت میں مزید تعلیم جاری رکھنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ تین سال سے کالج کی عمارت کے لیے فنڈز آ چکے ہیں۔ زمین بھی الاٹ ہو چکی ہے مگر تعمیراتی کام کا آغاز نہیں ہو سکا۔

 محکمہ مواصلات و تعمیرات کے ایکسیئن احمد نواز عمرانی بتاتے ہیں کہ 2020ء کے بجٹ میں ڈگری کالج کے لیے 15 کروڑ 52 لاکھ روپے منظور ہوئے۔ محکمے نے 17 نومبر 2021ء کو فیز ون کے ٹینڈرز جاری کیے۔

"ضلعی انتظامیہ نے کالج کے لیے جون 2022 ء میں مانجھی پور سے ایک کلو میٹر مغرب میں  دس ایکڑ زمین ہمارے حوالے کی تھی۔ جس کے بعد موبلائزیشن کی مد میں 10 فیصد رقم یعنی ڈیڑھ کروڑ ٹھیکیدار کو ریلیز کر دیے گئے تھے۔"

وہ کہتے ہیں کہ زمین الاٹ ہوتے ہی کام شروع کرا دیا گیا تھا لیکن بارشوں کی وجہ سے کام روکنا پڑا۔اس کے بعد وہاں کام کرنا ناممکن تھا اب بھی اس زمین پر پانی کھڑا ہے۔

کالج کی عمارت کے ٹھیکیدار عبدالعزیز کھوسہ بتاتے ہیں کہ ٹینڈرز کے دو ماہ بعد محکمہ کا ورک آرڈر ملا تو زمین تک مٹیریل اور مشینری لے جانے کا راستہ نہیں تھا۔ ٹینڈر میں راستہ بنانے کے لیے پیسے نہیں رکھے گئے تھے۔ پچیس لاکھ روپے جیب سے خرچ کر کے راستہ بنایا۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ کام شروع کرانے لگے تو زمین کالج کے نام نہیں تھی۔ ریونیو بورڈ کے ذریعے جون 2022ء میں مسئلہ حل ہوا لیکن جب دوبارہ کام کا آغاز کرنا چاہا تو شدید بارشیں شروع ہوگئیں اور سیلاب آگیا۔ آج تک یہ جگہ کام کے قابل نہیں ہے۔

"کالج کی زمین چاروں طرف سے زرعی اراضی  میں گھری ہے اور سڑک سے تقریباً چار فٹ نیچی ہے۔ اس لیے وہاں مجوزہ نقشے کے مطابق بلڈنگ بن ہی نہیں سکتی۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

ضلع واشک کا پہلا انٹرکالج: سات سال سے زیر تعمیر عمارت اور اس میں زیر تعلیم طلبا کی کہانی

عبدالعزیز کا کہنا ہے کہ جتنے پیسے انہیں ملے ہیں وہ اتنا کام کریں گے مزید کام نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اب مٹیریل کے ریٹس بڑھ چکے ہیں۔

"اگر محکمہ دوبارہ ٹینڈر کرے تو پھر ہی کام کرنا ممکن ہو سکتا ہے"۔

تاہم ایکسیئن بلڈنگز سمجھتے ہیں کہ ٹھیکیدار کو ٹینڈرز کے مطابق کام مکمل کرنا ہو گا۔ اگر چاہے تو دوبارہ ٹینڈرز کے لیے درخواست بھی دے سکتا ہے۔ لیکن کام مکمل نہ کیا تو ٹھیکیدار  بلیک لسٹ ہو جائے گا۔

محمد آصف کھوسہ یونین کونسل مانجھی پور کے چیئرمین ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کالج کے لیے ضلع کونسل سے یونین کونسل تک میں قرار دادیں پیش ہوئیں۔ کئی لوگوں کی کوششوں سے  پہلے انٹر اور پھر ڈگری کالج منظور ہوا۔ اس کے بعد عمارت کے لیے ہر ادارے کو درخواستیں دی گئیں۔

"تین سال سے رقم موجود ہے لیکن کام نہیں ہو رہا۔ اگر زمین کے حوالے سے کوئی ایشو ہے تو ڈپٹی کمشنر پرانے ہاسٹل والی جگہ کالج کے نام کرا دیں۔ ہمیں محکمے یا ٹھیکیدار کی کوتاہی سے کوئی سرو کار نہیں۔ کالج کی تعمیر شروع نہ ہوئی تو ہم عدالت سے رجوع کریں گے۔"

تاریخ اشاعت 24 نومبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

رضوان الزمان منگی کا تعلق بلوچستان کے ضلع صحبت پور سے وہ 10 سالوں سے صحافت سے وابستہ ہیں اور مختلف اداروں کیلئے کام کرتے رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.