سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہونے والے نقصان کا تو کسی طور ازالہ ہو ہی جائے گا لیکن سیلاب کے بعد کھڑے پانی کی وجہ سے پھوٹنے والی ملیریا کی وبا نے تو ظفر علی لغاری سے جینے کی امید ہی چھین لی۔
اس سال نومبر میں ان کا جواں سال بیٹا اور بیوی ملیریا کی وجہ سے جاں بحق ہو گئے۔
ادھیڑ عمر ظفر لغاری کا تعلق سندھ میں ضلع دادُو سے 20 کلومیٹر کی مسافت پر تحصیل جوہی سے ہے جہاں وہ گوٹھ فیض محمد لغاری نامی قصبے کے رہائشی ہیں۔ اگست میں آنے والے سیلاب میں ان کا گھر منہدم ہو چکا ہے اور اب وہ اپنی کم سِن بیٹی کے ساتھ اسی گھر کے ملبے پر بیٹھے ہیں۔
سیلاب سے پہلے وہ اپنی بیوی، دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کے ساتھ خوش حال زندگی گزار رہے تھے۔ وہ اپنی ملکیتی زمین پر کھیتی باڑی کرتے تھے جس سے ان کے سال بھر کے اخراجات پورے ہو جاتے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے 15 بکریاں بھی پال رکھی تھیں۔ لیکن اب نہ صرف ان کے روزگار کے یہ ذرائع ختم ہو گئے ہیں بلکہ بیوی اور بیٹے کی موت نے گویا ان کو جیتے جی مار دیا ہے۔
ظفر علی بتاتے ہیں کہ سیلاب کے بعد ان کے علاقے میں پانی کھڑا ہو گیا جس سے ملیریا سمیت کئی بیماریوں نے جنم لیا۔ بدقسمتی سے ان کا 21 سالہ بیٹا اور بیوی بھی ملیریا میں مبتلا ہو گئے۔ جب ان کے بیٹے کی بیماری نے شدت اختیار کی تو وہ اسے جوہی کے تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹر نے دوائیں لکھ کر انہیں واپس بھیج دیا۔
لیکن ان کے بیٹے کی طبعیت نہ سنبھل سکی۔ چند روز کے بعد اس کا بخار مزید شدّت اختیار کر گیا اور جب وہ بیٹے کو دوبارہ ہسپتال لے جا رہے تھے تو اس نے راستے میں دم توڑ دیا۔ ابھی وہ جوان بیٹے کے دکھ سے ہی نہ سنبھلے تھے کہ 20 روز بعد ان کی اہلیہ بھی اسی بیماری کے باعث انتقال کر گئیں۔
گوٹھ فیض محمد لغاری کے رہائشی بتاتے ہیں کہ اس علاقے میں ہر دوسرا فرد بخار میں مبتلا ہے جس میں اکثریت بچوں کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’جن لوگوں نے بھی ڈاکٹر سے اپنا طبّی معائنہ کروایا ہے ان میں ملیریا کی تشخیص ہوئی ہے۔‘‘
ناقص انفراسٹرکچر
اس سال 27 نومبر کی شام اس گوٹھ سے جنوب کی جانب کچھ فاصلے پر جوہی کے ایک نِجی کلینک میں لوگوں کی بھیڑ لگی ہے۔ ان میں خواتین کی اکثریت ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو گود میں اٹھا رکھا ہے۔ کلینک کو چلانے والے ڈاکٹر غلام مصطفیٰ بتاتے ہیں کہ وہ روزانہ تقریباً 500 مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں جن میں نصف سے زیادہ تعداد ملیریا میں مبتلا ہوتی ہے۔
جوہی میں واقع واحد سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر محمد عابد اس بات کی تو تصدیق کرتے ہیں کہ ان کے پاس آنے والے لوگوں میں زیادہ تعداد ملیریا کے مریضوں کی ہوتی ہے لیکن وہ یہ تعداد 20 سے 25 تک بتاتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر کوئی شخص شدید بیمار ہو تو کیا اسے ہسپتال میں داخل کیا جاتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ اس ہسپتال میں یہ سہولت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اس لئے وہ ایسے مریضوں کو ضلع دادُو یا سیہون شریف کے ہسپتالوں میں بھیج دیتے ہیں۔
ڈاکٹر عابد سے بات چیت کے بعد 15 منٹ میں ہی 10 ایسے مریض اس ہسپتال میں آئے جن کا کہنا تھا کہ وہ ملیریا میں مبتلا ہیں۔ ان کے ہاتھ میں پکڑی لیبارٹری رپورٹیں واضح طور پر ان کے جسم میں ملیریا وائرس کی نشان دہی کر رہی تھیں۔ اسی ہسپتال کے سامنے ایک نِجی لیبارٹری کے عملے میں شامل ایک شخص نے بتایا کہ ان کی لیبارٹری میں ٹیسٹوں کے لئے آنے والوں میں 70 فیصد ملیریا میں مبتلا ہوتے ہیں۔
مقامی سماجی کارکن مقبول حسین کہتے ہیں کہ اس علاقے میں صحت کے سرکاری مراکز یا تو نہیں ہیں اور اگر ہیں تو وہ سیلاب سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں ’’یا پھر وہ سرکاری بدانتظامی کے باعث بند پڑے ہیں۔‘‘ وہ گوٹھ فیض محمد لغاری کی مثال دیتے ہیں جہاں ڈسپنسری کی عمارت تو بنائی گئی ہے لیکن اس میں عملہ تعینات نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے وہ بند پڑی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ شہر میں موجود واحد سرکاری ہسپتال تک لوگوں کی رسائی فی الوقت بہت مشکل ہے کیونکہ سیلاب میں راستے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ’’اگر کوئی مریض کسی طرح ہسپتال پہنچ بھی جائے تو ڈاکٹر اسے پیناڈول کی گولی دینے یا دادُو کے ہسپتال کو ریفر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے۔‘‘
وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے 2020 میں سندھ کی موضع شماری کی رپورٹ کے مطابق تحصیل جوہی کے 92 دیہات میں سے صرف 16 میں بنیادی مراکزِ صحت موجود ہیں جو کُل دیہات کا صرف 17 فیصد ہے۔ اس تحصیل میں ایک گاؤں سے بنیادی مرکز صحت تک کا اوسط فاصلہ 16 کلومیٹر ہے جبکہ 12 دیہات ایسے بھی ہیں جو بنیادی مرکز صحت سے 25 سے 50 کلومیٹر اور دو 50 کلومیٹر سے بھی زیادہ دور ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
کیا ہوا کیوں یہ سہانی بستیاں بیمار ہیں: 'ڈِگری کے سیلاب زدگان ہیضہ، بخار اور جلدی امراض کا شکار ہو رہے ہیں'۔
عالمی ادارہ صحت کی 17 اکتوبر 2022 کو جاری ایک رپورٹ بھی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ صوبہ سندھ میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ملیریا کے مریضوں میں کئی گُنا اضافہ ہوا ہے۔ اس ادارے نے پچھلے سال اور رواں سال کے اگست کے مہینوں کا موازنہ کیا ہے جس کے مطابق صوبہ سندھ میں اگست 2021 میں ملیریا کے 19 ہزار 826 جبکہ اگست 2022 میں سیلاب کے دوران 69 ہزار 123 ملیریا کے مریض سامنے آئے۔
ڈاکٹر مصطفٰی کہتے ہیں کہ اگر طبّی امداد مل جائے تو عام طور پر ملیریا کے مریض کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ لیکن سیلاب کے بعد لوگوں کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی انہیں نقل و حمل کی سہولت میسر ہے جس کی وجہ سے مریضوں کو بر وقت ہسپتال نہیں پہنچایا جا سکتا۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ حکومت سیلاب زدہ علاقوں میں مچھروں کے خاتمہ کے لئے بڑے پیمانے پر سپرے کرائے ’’ورنہ یہ وبا مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔‘‘
تاریخ اشاعت 6 دسمبر 2022