کیا لودھراں کا جم خانہ گرلز ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ اور لائبریری دونوں ہڑپ کر جائے گا؟

postImg

محمد یاسین انصاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

کیا لودھراں کا جم خانہ گرلز ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ اور لائبریری دونوں ہڑپ کر جائے گا؟

محمد یاسین انصاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

پنجاب کے ناخواندہ ترین اضلاع میں سے ایک لودھراں میں قائم گورنمنٹ گرلز ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کی بوسیدہ عمارت عارضی طور پر خالی کیا ہوئی کہ وہاں جم خانہ بنانے کی تجویز پیش کر دی گئی جبکہ بہت سے لوگ وہاں انسٹی ٹیوٹ ہی کی نئی عمارت تعمیر ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) آفس لودھراں کے قریب اس مقام پر سات کنال سات مرلے کی ایک خالی عمارت ہوا کرتی تھی جسے 2010ء میں گورنمنٹ گرلز ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کو الاٹ کیا گیا۔ اس کے بعدطالبات کی فنی تربیت کے لیے مخصوص یہ انسٹی ٹیوٹ کرائے کی عمارت سے وہاں منتقل کر دیا گیا۔

وقت کے ساتھ عمارت کی حالت خستہ ہونے پرانسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ نے سیکرٹری ٹیوٹا کو اسی جگہ نئی عمارت کی تعمیر کے لیے فنڈز کے اجرا کا خط لکھا۔ حکومت پنجاب نے اس مقصد کے لیے 11 کروڑ روپے جاری کر دیے۔ اس دوران نئی عمارت بنانے کے لیے گورنمنٹ گرلز ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کو دوبارہ کرائے کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔

نئی تعمیر کی تیاریاں ہو رہی تھیں کہ ضلعی انتظامیہ نے اس رقبے پر جم خانہ بنانے کی تجویز پر غور شروع کر دیا۔ یہ خبر ملتے ہیں سول سوسائٹی، تاجر اور صحافی برادری اور سیاسی کارکنوں کی جانب سے صدائے احتجاج بلند ہوئی۔

ان لوگوں کہنا تھا کہ جم خانہ شہریوں کی ضرورت نہیں بلکہ یہاں مخصوص لوگوں نے محدود تعداد میں آنا ہو گا۔ دوسری جانب گورنمنٹ گرلز ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کا شہر میں ہونا غریب اور متوسط طبقے  سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں کےلیے انتہائی اہم ہے۔

ڈسٹرکٹ مینیجر ٹیوٹا خورشید چوہان نے بتایا کہ ان کا ادارہ نجی عمارت کا 45 ہزار روپے ماہانہ کرایہ ادا کر رہا ہے جس میں 200 کے قریب طالبات تربیت پا رہی ہیں۔

ادارے کو الاٹ شدہ رقبے پر جم خانہ نہ بنانے کے لیے انہوں نے ڈپٹی کمشنر لودھراں کو قائل کرنے کی کوشش کی۔ ان کے نہ ماننے پر انہوں نے سیکرٹری ٹیوٹا پنجاب کو آگاہ کیا۔

اس کے بعد ڈپٹی کمشنر نے ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کی عمارت بنانے کے لیے تین مقامات پر متبادل رقبہ الاٹ کرنے کی تجویز دی۔  ان میں شہر سے سات کلومیٹر دور چک نمبر 10، اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر کے سامنے، جس کی انہیں کروڑوں روپے سرکاری قیمت ادا کرنا پڑے گی ہے اور محکمہی سپیشل ایجوکیشن کے دفتر کے سامنے آٹھ کنال رقبہ شامل ہے۔

معاملہ صرف گورنمنٹ گرلز ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے رقبے کا نہیں بلکہ لودھراں کی میونسپل لائبریری کو بھی جم خانہ میں شامل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لائبریری کے سینئر ممبر مبشر وسیم لودھی نے بتایا کہ 1990ء میں اے ڈی سی جی ڈاکٹر اعظم سلیم کی کاوشوں سے فروٹ مارکیٹ میں میونسپل لائبریری قائم ہوئی جس میں ہزاروں کتابیں ہیں۔ تقریباً 15 سال قبل اس کی عمارت بوسیدہ ہونے پر لائبریری کو ڈی سی آفس کے قریب نئی عمارت میں منتقل کر کے اس کا نام علامہ اقبال لائبریری رکھ دیا گیا۔ 2018ء میں ڈپٹی کمشنر لودھراں ثاقب علی عطیل نے یو ایس ایڈ کے تعاون سے اس کی تزئین و آرائش کی نیز لائبریری کے لیے نئے کمپیوٹر اور فرنیچر بھی خریدا گیا۔

انہوں نے  بتایا "اس لائبریری کے احاطے میں خوبصورت گراسی پلاٹ اور پھول دار پودے لگائے گئے ہیں اور اسے خواتین پارک کا نام دیا گیا ہے۔ صبح نو بجے سے پہلے خواتین آ کر واک کرتی ہیں۔ نو بجے لائبریری کھل جاتی ہے۔ شام چار بجے لائبریری بند ہو جانے کے بعد دوبارہ شام کو خواتین وہاں آ جاتی ہیں، اس طرح ایک احاطے اور عمارت سے دو کام لیے جا رہے ہیں۔”

سابق ڈپٹی ڈائریکٹر تعلقات عامہ رحیم طلب نے بتایا کہ بیوروکریسی کا منصوبہ ہے کہ ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے رقبے پر جم خانہ بنا کر اور لائبریری کی دیوار توڑ کر اسے جم خانہ میں شامل کر لیا جائے۔ اسی وجہ سے لائبریری کی تختی اتار دی گئی ہے۔

“اگر لائبریری کو بھی جم خانہ میں شامل کر لیا گیا تو ایک طرف عام لوگوں کا داخلہ بند ہو جائے گا اور دوسری طرف خواتین بھی چہل قدمی کرنے سے محروم ہو جائیں گی۔"

یہ بھی پڑھیں

postImg

حسرت ان غنچوں پہ ہے ۔۔۔ وہاڑی میں ادیبوں کے لئے سرکاری سرپرستی میں بنایا جانے والا ٹی ہاؤس ناکام کیوں ہوا؟

لودھراں کے آصف علی نے بتایا کہ تعلیمی پسماندگی اور بنیادی سہولیات سے محروم اضلاع میں لودھراں کا  پنجاب میں 35 واں نمبر ہے، ایسے میں تعلیم کے بجائے بیوروکریسی کے لیے جم خانہ کو ترجیح دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔

امیر جماعت اسلامی ضلع لودھراں ڈاکٹر طاہر احمد چوہدری کا کہنا ہے کہ جم خانہ امیروں کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ اسے لودھراں سے باہر شفٹ کیا جائے کیونکہ وہ سفری اخراجات برداشت کر لیں گے ۔ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کی غریب طالبات کے شہر سے دور جانے سے نہ صرف ان کے سفری اخراجات ناقابل برداشت ہو جائیں گے بلکہ سفر میں وہ غیر محفوظ بھی ہوں گی۔

ایک رپورٹ کے مطابق ضلع لودھراں میں 15 سال سے زیادہ عمر کے تقریباً 46 فیصد افراد ناخواندہ ہیں۔ یہاں تعلیمی اداروں کا بھی فقدان ہے۔ ضلع لودھراں میں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کا ایک ہی کیمپس ہے اس لیے حصول تعلیم کے لیے نوجوانوں کی بڑی تعداد کو بہاولپور یا ملتان جانا پڑتا ہے۔ ایسے میں روزگار کے حصول کے لیے ہنر سکھانے  والے تعلیمی  اداروں کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔

تاریخ اشاعت 25 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمدیاسین انصاری بہاول پور کے نوجوانوں صحافی ہیں۔ عرصہ 23 سال سے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔

چینی بنانے سے پہلے ہی شوگر ملز 25 ارب روپے کما لیتی ہیں

اس کے بال دھاگے کے تھےمگر ماں کے ہاتھ کی بنی گڑیا بیش قیمت تھی

واٹر کانفرنس: سندھ کا پانی دوسرے صوبوں کو ہرگز نہیں دیں گے

thumb
سٹوری

'میری کروڑوں کی زمین اب کوئی 50 ہزار میں بھی نہیں خریدتا': داسو-اسلام آباد ٹرانسمیشن لائن پر بشام احتجاج کیوں کر رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

شوگر ملوں کے ترازو 83 ارب روپے کی ڈنڈی کیسے مار رہے ہیں؟ کین کمشنر کا دفتر کیوں بند ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض
thumb
سٹوری

دیامر میں درختوں کی کٹائی، جی بی حکومت کا نیا'فاریسٹ ورکنگ پلان' کیا رنگ دکھائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفہیم اختر

شیخ ایاز میلو: میرا انتساب نوجوان نسل کے نام، اکسویں صدی کے نام

thumb
سٹوری

بہاولپور میں طالبہ کا سفاکانہ قتل، پولیس مرکزی ملزم تک کیسے پہنچی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان

نئی نہروں کا مسئلہ اور سندھ کے اعتراضات

thumb
سٹوری

شام میں ملیشیا کے کیمپوں میں محصور پاکستانی جنہیں ریاست نے اکیلا چھوڑ دیا

arrow

مزید پڑھیں

User Faceزبیر خان
thumb
سٹوری

زرعی انکم ٹیکس کیا ہے اور یہ کن کسانوں پر لاگو ہوگا؟

arrow

مزید پڑھیں

عبداللہ چیمہ
thumb
سٹوری

پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی، عوام کے تحفظ کا ادارہ یا استحصال کاہتھیار؟

arrow

مزید پڑھیں

سہیل خان
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2025. loksujag. All rights reserved.