پنجاب کے تمام 36 اضلاع میں مقامی حکومتیں ڈھائی سال معطل رہنے کے بعد بحال ہو چکی ہیں جبکہ افسر شاہی سے لیے گئے ان کے منتظمین (ایڈمنسٹریٹرز) کے اختیارات ختم ہو گئے ہیں۔ ان حکومتوں کی بحالی سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل میں آئی ہے جس نے 25 مارچ 2021 کو فیصلہ دیا تھا کہ مقررہ مدت سے پہلے ان کا خاتمہ ایک غیر آئینی اقدام تھا۔
چونکہ پنجاب حکومت اس فیصلے کو لاگو کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی تھی اس لیے کئی علاقوں سے تعلق رکھنے والے مقامی حکومتوں کے نمائندوں نے ان کی بحالی کے لیے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا جس نے صوبائی حکومت کو خبردار کیا کہ وہ انہیں 20 اکتوبر 2021 تک بحال کرے ورنہ اس کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کی جائے گی۔ نتیجتاً اس تاریخ سے دو روز پہلے انہیں بحال کر دیا گیا۔
اس قانونی قضیے کی ابتدا 2018 میں ہوئی تھی جب پاکستان تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد اعلان کیا تھا کہ وہ پنجاب میں رائج مقامی حکومتوں کا نظام بدل دے گی۔ اس اعلان پر عمل درآمد کے لیے اپریل 2019 میں پنجاب اسمبلی نے ایک قانون منظور کیا جس سے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی صوبائی حکومت کا 2013 میں بنایا گیا مقامی حکومتوں کا قانون ختم ہو گیا۔
نئے قانون میں واضح طور پر لکھا گیا کہ اس کے نافذ العمل ہوتے ہی اس وقت موجود منتخب مقامی حکومتیں خود بخود ختم ہو جائیں گی۔ چنانچہ مئی 2019 میں یہ حکومتیں تحلیل ہو گئیں۔
ان کا انتخاب 2015 اور 2016 میں دو مرحلوں میں ہوا تھا اور 2013 میں بنائے گئے قانون کے تحت ان کی مدت اِس سال دسمبر میں ختم ہونا تھی۔ اسی بنا پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ اس مدت سے پہلے اِن کی تحلیل آئینِ پاکستان میں مقامی حکومتوں کو دیے گئے اختیارات اور حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
سپریم کورٹ نے اپنا تفصیلی فیصلہ جولائی 2021 میں جاری کیا جس میں یہ بھی کہا گیا کہ پنجاب حکومت نے مقامی حکومتوں کو تحلیل کر کے ان لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کیے ہیں جنہوں نے مقامی نمائندوں کو ووٹ دے کر منتخب کیا تھا۔ اس فیصلے کے مطابق 2019 میں بنائے جانے والے قانون کی دفعہ تین خاص طور پر آئین پاکستان سے مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ اسی کے تحت پنجاب حکومت کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ مقامی حکومتوں کو قبل از وقت تحلیل کر سکے۔
تاہم صوبائی حکومت نے جولائی 2021 میں سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کی جس میں موقف اپنایا گیا کہ 16-2015 میں منتخب کی گئی مقامی حکومتوں کو بحال کرنے سے صوبے میں بہت سے قانونی، انتظامی اور مالی مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ مقامی حکومتوں کا ایک بہتر اور موثر نظام قائم کرنے کے لیے ایک نیا قانون بنایا گیا ہے جس کے تحت مقامی نمائندوں کو پہلے سے زیادہ بااختیار بنایا گیا ہے۔
اسی دوران تحلیل شدہ مقامی حکومتوں کے نمائندوں نے 25 مارچ کے عدالتی حکم پر عمل نہ ہونے پر پنجاب حکومت کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی جس پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے ان حکومتوں کو فوراً بحال کرنے اور ان کی بحالی میں ہونے والی تاخیر کی تحقیقات کا حکم دیا۔
اس تاخیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور تسلیم کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد مقامی حکومتوں کی بحالی کے لیے سرکاری اعلامیہ جاری کرنے میں کافی وقت لگ گیا لیکن وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کی سب سے اہم وجہ یہ انتظامی چیلنج تھا کہ عدالتی حکم پر مکمل عمل درآمد کے لیے ہر ضلعے میں تفصیلی منصوبہ بندی کی ضرورت تھی تا کہ بحال شدہ مقامی حکومتیں صحیح معنوں میں دوبارہ فعال ہو سکیں۔
پنجاب کا نیا بلدیاتی قانون
پاکستان تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت 2019 میں اپوزیشن جماعتوں کی شدید مخالفت کے باوجود پنجاب اسمبلی سے مقامی حکومتوں کے لیے ایک نیا قانون منظور کرانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس کی منظوری کے موقع پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ ماضی میں مقامی حکومتوں کے پاس نہ کوئی اختیارات ہوتے تھے اور نہ ہی عوامی مسائل حل کرنے کے لیے مالی وسائل۔ ان کا دعویٰ تھا کہ نئے قانون میں یہ دونوں مسئلے حل کر دیے گئے ہیں۔
اس قانون کے کچھ اہم نکات درجِ ذیل ہیں:
• موجودہ مقامی حکومتوں کے خاتمے کے ایک سال کے اندر ان کے لیے نئے انتخابات کرائے جائیں گے۔
• نئے انتخاب تک مقامی حکومتوں میں ایڈمنسٹریٹر مقرر کیے جائیں گے۔
• یونین کونسل اور ضلع کونسل کا نظام ختم کر دیا جائےگا۔
• شہروں میں میونسپل کونسل اور محلہ کونسل جبکہ دیہات میں تحصیل کونسل اور ولیج کونسل کے نام سے مقامی حکومتیں قائم کی جائیں گی۔
• صوبے بھر میں 22 ہزار ولیج کونسلیں قائم کی جائیں گی جبکہ 138 تحصیل کونسلوں کا قیام بھی عمل میں لایا جائے گا۔
• ولیج کونسل اور محلہ کونسل کا انتخاب غیر جماعتی بنیادوں پر کرایا جائے گا جبکہ تحصیل اور میونسپل سطح پر انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔
• ولیج کونسل اور محلہ کونسل کے سربراہان کا براہ راست انتخاب ہو گا اور سب سے زیادہ ووٹ لینے والا امیدوار ان کا چیئرمین بن جائے گا۔
• نئی مقامی حکومتوں کو پنجاب کے ترقیاتی بجٹ میں 33 فیصد حصہ دیا جائے گا۔
• نئی مقامی حکومتوں کی مدت چار سال ہو گی اور ان کے لیے انتخابات میں حصہ لینے والوں کے لیے تعلیم کی کوئی شرط نہیں ہو گی۔
• نئی مقامی حکومتوں میں پروفیشنل اور تکنیکی ارکان کا انتخاب بھی یقینی بنایا جائے گا۔
اپوزیشن نے اس بل پر 11 اعتراضات جمع کرائے جنہیں حکومتی جماعت نے مسترد کر دیا۔ اپوزیشن کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی حسن مرتضٰی کے مطابق اس قانون میں عوامی نمائندوں کو اختیارات تو دے دیے گئے ہیں لیکن ان کی اہلیت اور کارکردگی جانچنے کا کوئی طریقہ کار طے نہیں کیا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یونین کونسل اور ضلع کونسل کے خاتمے کی وجہ سے دیہی آبادی کے لیے کئی انتظامی اور ترقیاتی مسائل حل کرانا مشکل ہو جائے گا۔
تاہم اس قانون کے تحت نئی مقامی حکومتوں کا انتخاب ہونے سے پہلے ہی ایک طرف سپریم کورٹ نے اس کے ایک حصے کو آئین سے متصادم قرار دے دیا اور دوسری طرف خود صوبائی حکومت نے اپریل 2021 میں ایک آرڈیننس کے ذریعے اس میں درجنوں تبدیلیاں کر دیں جن کے نتیجے میں اس کا بنیادی ڈھانچہ ہی بدل گیا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق سیکرٹری کنور دلشاد کے مطابق ان ترامیم سے ڈپٹی کمشنروں اور کمشنروں کے پاس لا محدود اختیارات جمع ہو گئے ہیں چنانچہ مقامی حکومتیں صوبائی انتظامیہ اور افسرشاہی کی مرہونِ منت ہو کر رہ گئی ہیں۔ اسی طرح، ان کے مطابق، ان ترامیم میں یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ میونسپل کونسلوں کے میئر کا انتخاب کون لوگ لڑ سکیں گے، یہ انتخاب کیسے ہو گا اور میئر کے اختیارات کیا ہوں گے۔
بحال شدہ مقامی حکومتیں کتنی موثر ہوں گی؟
جب 2019 میں مقامی حکومتوں کو ختم کیا گیا تو عام لوگوں کو توقع تھی کہ جلد ہی ان کے لیے نئے انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور مقامی سطح پر پیدا ہونے والے انتظامی خلا کو صوبائی حکومت کے مقرر کردہ منتظمین کے ذریعے پُر کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن عدالتی حکم کے تحت پرانی مقامی حکومتوں کی بحالی سے اب یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ آیا یہ اپنے اپنے علاقے میں انتظامی اور ترقیاتی مسائل حل کرنے میں موثر ثابت ہو سکتی ہیں۔
جمہوریت، انتخابات اور سیاست پر تحقیق کرنے والے غیر سرکاری ادارے پاکستان انسٹیٹوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ان حکومتوں پر چلنے والی عدالتی کارروائی کا فیصلہ بہت پہلے آ جاتا تو بہت اچھا ہوتا کیونکہ ان کی تحلیل کے وقت ان کی آئینی مدت کے تین سال ابھی باقی تھے۔ اب اگرچہ ان کی بحالی عمل میں آ چکی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس صرف دو ماہ کا وقت بچا ہے جو اس قدر مختصر ہے کہ اس میں کوئی اہم کام سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں
خواتین امیدواروں کی عام انتخابات میں کامیابی: بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا۔
مقامی حکومتوں کے نظام پر تحقیقی کام کرنے والے صحافی سلمان عابد بھی کہتے ہیں کہ اگلے دو مہینوں میں ان حکومتوں کے انتظامی طور پر فعال ہونے اور ترقیاتی طور پر کوئی موثر کردار ادا کرنے کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی بحالی کا عملی فائدہ اُسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ قانونی جنگ میں ضائع ہونے والا وقت ان کی بقیہ مدت میں شامل کر دیا جائے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ "ایسا صرف عدالت ہی کر سکتی ہے"۔
سلمان عابد کا یہ بھی کہنا ہے کہ بحال شدہ حکومتوں کی افادیت اس بات سے بھی مشروط ہے کہ کیا صوبائی حکومت انہیں انتظامی اور ترقیاتی مقاصد کے لیے پیسے دینے کے لیے تیار ہے اور کیا یہ حکومتیں اس قابل ہیں کہ وہ چند دنوں میں موثر منصوبہ بندی کر کے نہ صرف ان پیسوں کا اجرا یقینی بنا لیں بلکہ انہیں مناسب طریقے سے استعمال بھی کر لیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی صوبائی حکومت جس نے ان مقامی حکومتوں کو ڈھائی سال کام نہیں کرنے دیا کیا وہ ابھی انہیں آزادانہ طور پر اپنے اختیارات استعمال کرنے دے گی؟
حسان خاور کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کرنا چاہتی۔ ان کے مطابق "مقامی حکومتوں کو دفاتر اور گاڑیوں سمیت تمام سہولیات فراہم کر دی گئی ہیں جبکہ مختلف ترقیاتی کاموں کے لیے منصوبہ بندی اور ان کے لیے درکار مالی وسائل کی فراہمی کے لیے اقدامات بھی جاری ہیں"۔
تاریخ اشاعت 29 اکتوبر 2021