سعداللہ خان حال ہی میں ہونے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات سے بہت خوش ہیں۔
جنوری 2022 کے ایک سرد دن خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع مہمند کے قصبے یکہ غونڈ سے 25 کلومیٹر شمال میں سڑک کے کنارے ایک چائے خانے پر بیٹھے ہوئے وہ مذاقاً اپنے گاؤں کے جنرل کونسلر صاحب زادہ کا گریبان پکڑ کر کہتے ہیں کہ "اب اگر مجھے کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو گا تو میں اسے پکڑ لوں گا"۔
سعداللہ خان ٹرک ڈرائیور ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں صرف پرائمری سطح تک تعلیم دستیاب ہے جس کے باعث نہ تو وہ خود پڑھ سکے ہیں اور نہ ہی ان کے بیٹے بیٹیاں زیادہ تعلیم حاصل کر سکے ہیں۔ اگرچہ وہ ہمیشہ چاہتے تھے کہ اپنے علاقے کے منتخب نمائندوں کو اس کے بارے میں شکایت کریں لیکن وہ کہتے ہیں کہ انہیں ان لوگوں تک کبھی رسائی ہی حاصل نہیں ہوئی۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ مہمند سمیت خیبر پختونخوا کے ساتوں قبائلی اضلاع میں کبھی مقامی سطح کے انتخابات نہیں ہوئے تھے۔ درحقیقت جنوری 2017 میں صوبے میں ان اضلاع کے انضمام سے پہلے یہاں سے صرف قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوتے تھے جن سے رابطہ کرنا قریب قریب ناممکن تھا۔
لیکن 19 دسمبر 2021 کو مہمند، باجوڑ اور خیبر کے قبائلی اضلاع سمیت خیبر پختونخوا کے کئی علاقوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا پہلا مرحلہ منعقد ہوا جس کے نتیجے میں 55 سالہ سعداللہ خان پُریقین ہیں کہ اب وہ اپنے منتخب نمائندوں سے ہر وقت اپنے مسائل کے بارے میں بات کر سکیں گے۔
ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے 35 سالہ صاحب زادہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے حلقہِ انتخاب کے کچھ دیہات میں اب بھی بجلی، سڑک اور سکول موجود نہیں مگر قومی اسمبلی کے مقامی ارکان ان کی عدم موجودگی پر کوئی توجہ نہیں دیتے تھے۔ حالیہ انتخابات کے بعد وہ سمجھتے ہیں کہ ان جیسے نومنتخب نمائندے یہ مسائل حل کرنے کی فوری کوشش کریں گے ورنہ "لوگ انہیں دوسری بار ووٹ نہیں دیں گے"۔
ان کے مقابلے میں دوسرے نمبر پرآنے والے امیدوار 41 سالہ ناصر خان بھی اسی طرح کے مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو اپنا رہائشی سرٹیفیکیٹ یا شناختی کارڈ بنوانا ہو تو اسے حکومت کی طرف سے نامزد کرہ چار مَلِکوں سے اپنی درخواستوں کی تصدیق کرانا پڑتی ہے۔ تاہم مقامی حکومتوں کے قیام کے بعد انہیں توقع ہے کہ "لوگ ان مَلِکوں کے پیچھے بھاگنے کے جنجھٹ سے چھوٹ جائیں گے اور اپنے گاؤں میں موجود کونسلر سے ہی اپنی درخواست کی تصدیق کرا سکیں گے"۔
سعداللہ خان، صاحب زادہ اور ناصر خان کی طرح مہمند میں زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ مقامی نمائندوں کو اپنے اردگرد کے مسائل کا بہتر علم ہوتا ہے اس لیے وہ ان کے حل میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان انتخابات کے دو ہفتے بعد بھی مقامی آبادی میں ان کے بارے میں خاصا جوش پایا جاتا ہے اور کامیاب امیدواروں کو مبارک باد دینے کے لیے ان کے حجروں اور گھروں میں آنے والے لوگوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔
لوئر مہمند کی تحصیل یکہ غونڈ سے تحصیل چیئرمین کے طور پر کامیاب ہونے والے ملک نوید احمد کے حجرے میں ایسے ہی مہمان کا جمگھٹا لگا ہوا ہے۔ ان کے درمیان ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے وہ اس جوش و خروش کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کے قیام سے پہلے "صرف ان کی طرح کے مخصوص لوگوں کو ہی مراعات ملتی تھیں اور صرف انہیں ہی انتظامیہ تک رسائی ہوتی تھی جبکہ باقی معاشرہ اپنے حقوق سے محروم رہتا تھا"۔
خواتین کے مسائل خواتین ہی جانیں
مہمند اور باجوڑ میں جگہ جگہ انتخابات میں حصہ لینے والی خواتین کے پوسٹر اور بینر لگے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں سے اکثر پر امیدوار خواتین کے اپنے نام نہیں لکھے ہوئے بلکہ انہیں کسی کی بیٹی، کسی کی بیوی یا کسی کی بہن کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے۔
اس مقامی رجحان کی وضاحت کرتے ہوئے 65 سالہ دنیا بی بی کہتی ہیں کہ انتخابات سے پہلے وہ کسی کے سامنے اپنا نام نہیں لے سکتی تھیں۔ وہ حال ہی میں ضلع مہمند کے گاؤں مچنی سے خاتون کونسلر منتخب ہوئی ہیں اور اپنے کچے گھر کے ایک بوسیدہ کمرے میں لالٹین کی روشنی میں بات کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ انہیں "اب بھی بہت عجیب محسوس ہوتا ہے کہ لوگ انہیں ان کے نام سے پکار رہے ہیں"۔
لیکن اس کے بارے میں فکرمند ہونے کے بجائے وہ مقامی مسائل کے بارے میں سوچتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ان کے علاقے کی خواتین کو درپیش سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ "ہمارے گاؤں میں لڑکیوں کے لیے پانچویں جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے کی کوئی سہولت نہیں"۔ چونکہ قبائلی روایات کے مطابق مقامی لڑکیاں مزید تعلیم کے لیے کسی دوسرے گاؤں نہیں جاسکتیں اس لیے، دنیا بی بی کے مطابق، "ان میں سے اکثر پانچویں جماعت کے بعد سکول چھوڑ جاتی ہیں"۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی سرکاری ہسپتال میں "خواتین کیلئے ایکس رے، ای سی جی اور دوسرے ٹیسٹ کرانے کی کوئی سہولت موجود نہیں ہے"۔ اسی طرح انہیں دور دراز واقع کنوؤں سے پینےکا پانی اپنے سروں پر اٹھا کر لانا پڑتا ہے جو "ایک تکلیف دہ عمل ہے"۔
اسی علاقے میں ایک نوجوان خاتون، رابعہ بی بی، بھی انتخابی امیدوار تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قبائلی معاشرے میں خواتین کا انتخاب لڑنا ہمیشہ شرم کی بات سمجھی جاتی تھی۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ "اپنی انتخابی مہم کے دوران مجھے یہ دیکھ کر بہت حوصلہ ملا ہے کہ بہت سی مقامی خواتین اب ایسا کرنا چاہتی ہیں"۔
خواتین کی طرح قبائلی اضلاع میں رہنے والے مذہبی اقلیتوں کے لوگوں کو بھی حالیہ انتخابات سے پہلے اپنے مسائل کے حل کے لیے کوئی آسان راستہ دستیاب نہیں تھا۔ باجوڑ سے اقلیتوں کے لیے مخصوص نشست جیتنے والے 60 سالہ صابر مسیح غوری کہتے ہیں کہ اپنی برادری کے مسائل کے حل کے لیے ماضی میں انہوں نے "کئی سیاسی رہنماؤں سے رابطے کیے لیکن کسی نے کبھی ان کی بات نہیں سنی"۔
ان مسائل کی تفصیل بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ایک سال پہلے تک باجوڑ میں کوئی باقاعدہ مسیحی عبادت گاہ نہیں تھی۔ چنانچہ انہیں کئی سال "سرکاری دفتروں کے چکر لگانا پڑے" جن کے نتیجے میں بالآخر حال ہی میں ایک چرچ بنا دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی بھی مقامی مسیحیوں کے رہنے کے لیے کوئی علیحدہ بستی نہیں اور نہ ہی ان کا اپنا قبرستان ہے۔
تاہم انہیں امید ہے کہ مقامی حکومتوں کے قیام کے بعد وہ "خود اپنے مسائل حل کر سکیں گے"۔
انتخاب یا انتشار
پشاور سے شمال کی سمت قبائلی ضلعے باجوڑ کو جانے والے ایک سو 80 کلومیٹر لمبے راستے پر کئی ایسے مقام آتے ہیں جو پچھلے 15 سال میں یا تو مذہبی عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تباہ ہوئے ہیں یا ان عسکریت پسندوں کے خلاف فوج کی طرف سے کیے گئے آپریشن میں برباد ہو گئے ہیں۔ باجوڑ کے مقامی صحافی گل حسن کہتے ہیں کہ مذہبی عسکریت پسندوں نے کئی اہم قبائلی رہنماؤں کو بھی قتل کردیا ہے جس سے مقامی طور پر قیادت کا خلا پیدا ہو گیا ہے۔
تاہم انہیں توقع ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات سے ان کے علاقے میں ایک نئی اور نوجوان قیادت سامنے آئے گی۔
باجوڑ کے صدر مقام خار کے علاقے ولی عہدکورنہ میں تحصیل کونسلر کی نشسست جیتنے والے 25 سالہ نعیم جان اس توقع کو پورا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا تعلق جمیعت علمائے اسلام (فضل الرحمان) سے ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ان کی طرح بہت سے پڑھے لکھے نوجوانوں نے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں حصہ لیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ باجوڑ میں ایک طرف کھیلوں کی سہولیات اور تفریحی مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ دوسری طرف بے روزگاری کی شرح بہت بلند ہےجس کے نتیجے میں مقامی نوجوان مذہبی شدت پسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ ان کے مطابق "ان نوجوانوں کو یہ بھی لگتا ہے کہ وہ صرف طاقت کے زور پر صاحبِ اختیار لوگوں کو اپنی بات سنا سکتے ہیں"۔
تاہم نعیم جان کا خیال ہے کہ جمہوری عمل میں حصہ لینے سے مقامی لوگوں کو احساس ہوگا کہ عسکری تنظیموں میں شامل ہوئے بغیر بھی وہ اپنی بات سنوا اور منوا سکتے ہیں۔
ملک نوید احمد اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خیبر پختونخوا میں انضمام سے پہلے قبائلی اضلاع میں مقامی سطح پر کوئی ایسی سیاسی سرگرمی نہیں ہوتی تھی جس کے ذریعے عام لوگ معاشرے میں کوئی مثبت کردار ادا کرسکتے۔ دوسری طرف، ان کے مطابق، تمام اختیارات چند مخصوص لوگوں کے پاس ہوتے تھے جو دوسروں کو اِن اختیارات کے بل بوتے پر تنگ کرتے تھے۔ ان حالات میں "شدت پسند تنظیمیں لوگوں کو آسانی سے اپنی طرف مائل کر لیتی تھیں"۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ انتخابی سرگرمیوں میں عام لوگوں اور نوجوانوں کی بھرپور شرکت سے یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ اب ان کے علاقے میں شدت پسندی کا خاتمہ ہو سکے گا۔
افسر شاہی کا کنٹرول
خیبر پختونخوا کی وزارتِ قانون نے لوکل گورنمنٹ رولز آف بزنس 2021 کے نام سے ایک مسودہ تیار کیا ہے جسے صوبائی کابینہ کی منظوری کے بعد نافذ کیا جائے گا۔ انتخابات کے پہلے مرحلے سے محض نو دن پہلے جاری کیے گئے اس مسودے میں تجویز کیا گیا ہے کہ مقامی حکومتوں کے پاس یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا بجٹ بنا سکیں، لوگوں کو نوکریاں دے سکیں یا کسی ترقیاتی منصوبے پر رقم خرچ کر سکیں۔ اس کے بجائے یہ سارے اختیارات ضلع اور تحصیل کی سطح پر تعینات سرکاری افسران کو دے دیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
نوجوان خواتین کے ووٹر بننے میں حائل رکاوٹیں: 'ان کی زندگی ان کے گھر تک محدود ہوتی ہے'۔
اس مسودے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس کی مدد سے صوبائی حکومت مقامی حکومتوں کو بے اختیار کر کے انہیں افسر شاہی کے ماتحت کرنا چاہتی ہے۔ باجوڑ کے مقامی صحافی ساجد کاروان کا اس بنا پر کہنا ہے کہ اس مسودے کے منظرِ عام پر آنے کے بعد بیشتر لوگ مقامی حکومتوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ ان کے بقول جب منتخب نمائندوں کے پاس کوئی اختیار ہی نہیں ہوگا تو وہ "کونسلوں میں بیٹھ کر کیا کریں گے"۔
مقامی حکومتوں کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ نشستیں جیتنے والی جماعت، جمیعت علماء اسلام (فضل الرحمان)، کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات جلیل جان بھی یہی سوال اٹھاتے ہیں کہ "اگر مقامی نمائندوں کو اسسٹنٹ کمشنر کے ماتحت ہی رکھنا ہے تو پھر انتخابات پر اربوں روپے کیوں خرچ کیے گئے ہیں"۔
ان کے خیال میں مسودے میں تجویز کیے گئے قواعدوضوابط کے ذریعے صوبے کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف انتخابات میں اپنی شکست کا "بدلہ عوام سے لے رہی ہے"۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب جمیعت علماء اسلام (فضل الرحمان) کے "منتخب نمائندے اپنے عہدوں کا حلف لے لیں گے تو ان قواعدوضوابط کے خلاف ایک قانونی جنگ لڑی جائے گی"۔
مقامی حکومتوں کے انتخابات میں تیسرے نمبر پر آنے والی جماعت، عوامی نیشنل پارٹی، کے رہنما سردار حسین بابک بھی اسی طرح کے خیالات رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے مجوزہ قواعدوضوابط کے ذریعے صوبائی حکومت مقامی حکومتوں کے نمائندوں سے وہ مالی اختیارات بھی واپس لینا چاہ رہی ہے جو انہیں پہلے حاصل تھے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایسا کر کے حکومت آئینِ پاکستان کی اس شق کی خلاف ورزی کر رہی ہے جس کے تحت مقامی سطح پر با اختیار حکومتیں قائم کرنا ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی جماعت اس اقدام کے خلاف خیبر پختونخوا اسمبلی، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں آواز اٹھائے گی۔
لیکن خیبر پختونخوا کے وزیر بلدیات فیصل امین گنڈاپور اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ ان کی حکومت منتحب مقامی نمائندوں سے مالی اور انتظامی احتیارات واپس لے رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رولز آف بزنس کی تیاری ایک روٹین کا معاملہ ہے جس کا انتخابات میں ان کی جماعت کی شکست سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ مجوزہ قواعدوضوابط کے نفاذ کی وجہ سے مقامی حکومتوں کوآئین اور قانون کے تحت دیے گئے اختیارات میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
تاریخ اشاعت 21 جنوری 2022