مئی 2020 میں ریاض بی بی اپنے گاؤں کے قریب واقع ایک بس سٹاپ سے سودا سلف خرید کر گھر واپس جا رہی تھیں کہ ایک تیز رفتار موٹر سائیکل ان سے ٹکرا گیا۔ جب کئی گھنٹے بعد انہیں ہوش آیا تو وہ ایک سرکاری ہسپتال میں پڑی تھیں اور ان کی بائیں ٹانگ ٹوٹ چکی تھی۔ انہیں اگلے 15 دن اسی ہسپتال میں گزارنا پڑے۔
وہ کہتی ہیں کہ اس دوران ان کے علاج پر کم از کم ایک لاکھ روپے خرچ ہوئے جو سب کے سب ان کے گاؤں کے لوگوں نے اکٹھے کر کے ادا کیے۔ تاہم وہ ابھی بھی چل پھر نہیں سکتیں کیونکہ ان کی ٹانگ کو مزید علاج کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے درکار رقم ان کے پاس موجود نہیں۔
ٹانگ ٹوٹنے سے پہلے وہ روزی روٹی کمانے کے لیے لوگوں کے جانوروں کا گوبر صاف کرتی تھیں اور فصلوں کی بوائی اور کٹائی کا کام کرتی تھیں۔ اب ان کی جگہ ان کی دو بیٹیاں کھیتوں میں مزدوری کرتی ہیں۔ اس کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ ان کا "گھر نہیں چل رہا"۔
وہ کہتی ہیں کہ پچھلے سال ان کی بیٹیوں کے کام کے عوض انہوں نے 12 من گندم جمع کرلی تھی جو ابھی تک چل رہی ہے۔ ان کے مطابق "ہم اس کی روٹیاں بنا کر روکھی سوکھی کھا لیتے ہیں"۔ ان کے ہاں مہینے میں شاید دس دن ہی سالن بنتا ہے اگرچہ آج کل آلوؤں کی چنائی کا موسم ہونے کی وجہ سے ان کی بیٹیوں کو مزدوری کے ساتھ ساتھ سالن بنانے کے لیے روزانہ شام کو تھوڑے بہت آلو مل جاتے ہیں۔
ریاض بی بی کی عمر 55 سال ہے اور وہ وسطی پنجاب کے ضلع ساہیوال کے گاؤں 184 نائن ایل میں رہتی ہیں۔ ان کے شوہر کینسر کے مریض تھے لیکن پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان کا کوئی علاج نہ کرا سکیں لہٰذا وہ 29 مئی 2019 کو گھر میں پڑے پڑے فوت ہو گئے اور اپنے پیچھے سات بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑ گئے۔
ان کے زیادہ تر بچے ابھی 18 سال سے کم عمر کے ہیں اور اپنی ماں کے ساتھ پانچ مرلے (ایک ہزار تین سو 61 مربع فٹ) کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں جس کی چار دیواری کچی ہے۔ اس میں پکی اینٹوں سے بنا صرف ایک کمرہ اور ایک چھوٹی سی کوٹھڑی ہے جس کے دروازے کی جگہ کپڑے کا پردہ ٹنگا ہوا ہے۔ گھر کے ایک حصے میں گھاس پھونس اور بانسوں کو جوڑ کر ایک چھپر بنایا گیا ہے جس کے نیچے ایک بھینس اور اس کا بچہ بندھے ہوئے ہیں۔
ریاض بی بی کہتی ہیں کہ یہ مکان چار سال پہلے ان کے والد نے بنوا کر دیا تھا جبکہ بھینس دو سال پہلے ان کے بھائی نے انہیں دی تھی۔ اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی مالی اثاثہ یا زمین نہیں ہے۔
انہی کے گاؤں کی رہنے والی رضیہ بی بی کا خاندان بھی کم و بیش انہی حالات سے گزر رہا ہے۔ جب 6 فروری 2022 کو 60 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا تو انہوں نے اپنے پیچھے کوئی نقدی یا جائیداد نہیں چھوڑی تھی۔ ان کا کل ترکہ ایک کمرہ ہے جو تین مرلے (آٹھ سو 17 مربع فٹ) کے ایک ایسے مکان کا حصہ ہے جس میں ان کے شوہر کے بڑے بھائی کا چھ افراد پر مشتمل کنبہ بھی رہتا ہے۔
ان کے شوہر 15 سال پہلے فوت ہو گئے تھے جس کے بعد انہوں نے اپنی محنت مزدوری سے نہ صرف اپنا گھر چلایا بلکہ اپنی چار میں سے تین بیٹیوں کی شادی بھی کی۔ ان کی چوتھی بیٹی ابھی کنواری ہے اور اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے تایا کی زیرِ کفالت ہے۔
رضیہ بی بی کے ایک قریبی رشتہ دار کا کہنا ہے کہ انہوں نے کئی سال دوسرے لوگوں کے کھیتوں میں مزدوری کی۔ زندگی کے آخری چند سالوں میں جب ان کی صحت سخت کام کے قابل نہ رہی تو وہ گھروں میں صفائی ستھرائی کا کام کرنے لگیں۔ اپنے انتقال سے پہلے وہ ایک نجی سکول اور ایک گھر میں کام کرکے نو ہزار روپے ماہانہ کما رہی تھیں۔
کھیتوں میں اگتی بھوک
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 2010-11 میں پنجاب میں غربت کے حوالے سے کیے گئے ایک سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ راولپنڈی ڈویژن (جس میں راولپنڈی، جہلم، چکوال اور اٹک کے اضلاع شامل ہیں) میں غربت کی شرح صوبے کے باقی حصوں کی نسبت کم ہے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ وہاں کے لوگوں کے پاس وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سرکاری ملازمت کرنے کے کافی مواقع موجود ہیں۔ مزیدبراں وہاں کے لوگ بڑی تعداد میں فوج میں بھی بھرتی ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں جنوبی پنجاب کے اضلاع میں غربت کی شرح پورے صوبے میں سب سے زیادہ ہے کیونکہ وہاں سرکاری اور نجی شعبے کی ملازمتیں بہت کم تعداد میں دستیاب ہیں۔
دوسرے لفظوں میں غربت کا علاقائی معیشت کی نوعیت سے گہرا تعلق ہے یعنی جن علاقوں میں معاشی سرگرمیاں صرف زراعت تک محدود ہیں وہاں غربت کا شکار لوگوں کی تعداد زیادہ ہے۔
زرعی شعبے میں معاشی مساوات کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے روٹس فار ایکویٹی کی سربراہ ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کہتی ہیں کہ زراعت پر منحصر علاقوں میں غربت کی شرح زیادہ ہونے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ زرعی مزدوروں کو بہت کم اجرت ملتی ہے اور ان کے حالات کار بہت ناقص ہیں۔ ان کے مطابق زراعت سب سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنے والا شعبہ ہے لیکن اس کے باوجود اس میں کام کرنے والے لوگ "غیر رسمی یا جبری ملازم" ہوتے ہیں جنہیں "نہ تو ان کے آجروں کی طرف سے صحت اور بچوں کی تعلیم جیسی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اور نہ ہی ان پر کم از کم تنخواہ اور باتنخواہ چھٹیوں کے قوانین لاگو ہوتے ہیں"۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ایسے غیر رسمی یا جبری دیہی مزدوروں میں 85 لاکھ 50 ہزار عورتیں بھی شامل ہیں۔ اس ادارے کے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ دراصل دیہات میں کام کرنے والی ہر دس خواتین میں سے تقریباً آٹھ کے پاس نہ تو ملازمت کا کوئی کنٹریکٹ ہوتا ہے اور نہ ہی تقرری کا کوئی پروانہ۔
زرعی مزدوروں میں پائی جانے والی غربت کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کے پاس اپنی کوئی زرعی زمین نہیں ہوتی۔ وفاقی ادارہ شماریات کے ایک سابق اہلکار (جو اب سٹیٹ بینک آف پاکستان میں کام کرتے ہیں) اپنے تحقیقی مقالے میں زمین کی ملکیت اور غربت کے درمیان تعلق کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دیہات میں رہنے والے وہ تمام گھرانے خطِ غربت سے اوپر زندگی بسر کر رہے ہیں جن کے پاس ڈھائی ایکڑ یا اس سے زیادہ زمین ہے۔ دوسری طرف، ان کے مطابق، بے زمین خاندانوں میں غربت کی تناسب 47 فیصد اور ڈھائی ایکڑ یا اس سے کم زمین کے مالک خاندانوں میں اس کا تناسب 32 فیصد ہے۔
یہ بھی پڑھیں
میری ذات ذرہِ بے نشان: 'زرعی مزدور خواتین کی مشقت کو کام تسلیم ہی نہیں کیا جاتا'۔
ڈاکٹر عذرا طلعت سعید کہتی ہیں کہ ایسے دیہاتی گھرانوں کا بے زمین اور غریب ہونے کا امکان اور بھی زیادہ ہوتا ہے جن کی سربراہ خواتین ہوتی ہیں۔ اگرچہ اس حوالے سے کوئی اعدادوشمار موجود نہیں لیکن اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ "زرعی معیشت میں خواتین کے پاس زمین اور دوسرے معاشی وسائل کی ملکیت کا اختیار ہی نہیں ہوتا"۔
اقوام متحدہ کی طرف سے 2018 میں پاکستان کے دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کے حالاتِ زندگی کے بارے میں جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بھی اس معاملے پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ دیہات میں رہنے والی طلاق یافتہ خواتین میں سے لگ بھگ 53 فیصد مزدوری کرتی ہیں جبکہ 45 فیصد بیوہ دیہاتی خواتین بھی مزدوری کرتی ہیں۔ اس کے برعکس شادی شدہ دیہاتی خواتین میں سے صرف 35 فیصد مزدوری کرتی ہیں۔
دوسرے لفظوں میں گاؤں کی ایسی بہت سی خواتین کے پاس کوئی مالی وسائل یا معاشی ذرائع نہیں ہوتے جن کے شوہر یا تو مر چکے ہوتے ہیں یا وہ انہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ مجبوراً انہیں زندہ رہنے کے لیے مزدوری کرنا پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق، دیہات میں محنت مزدوری کرنے والی خواتین میں سے ایک لاکھ کو طلاق ہوچکی ہے جبکہ ان میں سے پانچ فیصد (یا چار لاکھ سے زیادہ) ایسی ہیں جو ریاض بی بی اور رضیہ بی بی کی طرح بیوائیں ہیں۔
تاریخ اشاعت 15 مارچ 2022