سانگھڑ کی تحصیل سنجھورو کے غلام علی لغاری چالیس سال تک ایک زمیندار گھرانے کے کھیتوں میں مزدوری کرتے رہے۔ تقریباً دس سال پہلے زمین مالکان نے انہیں بے دخل کیا تو انہوں نے اپنا حق مانگا جس پر ان کے گھر کو آگ لگا دی گئی جس میں ان کے مویشی، آٹے کی چکی، موٹرسائیکل اور جمع پونجی سمیت سب کچھ جل کر راکھ ہو گیا۔
غلام علی کے بیٹے منظوری لغاری بتاتے ہیں کہ زمینداروں نے ان کے والد کے 26 لاکھ روپے دینا تھے۔ انہوں نے اپنا حق اور گھر کے نقصان کا معاوضہ لینے کے لیے سندھ ٹیننسی ایکٹ کے تحت اس وقت سانگھڑ کے اسسٹنٹ کمشنر کو درخواست دی جو اس طرح کے تنازعات پر فیصلہ دینے کے مجاز تھے۔ اسسٹنٹ کمشنر نے کیس سننے کے بعد ان کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ تاہم زمینداروں سے اس فیصلے پر عمل نہ کرایا جا سکا۔ چنانچہ غلام علی نے سندھ ہائی کورٹ میں رٹ کر دی۔
ہائی کورٹ کے حیدرآباد بینچ نے 30 جولائی 2019 کو غلام علی کے حق میں فیصلہ دیا لیکن اس وقت تک ان کی وفات ہو چکی تھی۔ عدالت نے سیشن جج سانگھڑ اور جوڈیشل مجسٹریٹ کو حکم دیا کہ تین ماہ میں اس فیصلے پر عملدرآمد کرایا جائے۔ اپنے فیصلے میں عدالت کا کہنا تھا کہ سندھ ٹیننسی ایکٹ کے تحت زمیندار نہ تو ہاری/کھیت مزدور سے بیگار لے سکتا ہے اور نہ ہی اسے زمین سے بے دخل کر سکتا ہے۔
سندھ حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ سیشن جج سانگھڑ کا کہنا ہے کہ جب سپریم کورٹ فیصلہ دے گی تو تب ہی غلام علی کے لواحقین کو ان کا حق ملے گا۔
سندھ ٹیننسی ایکٹ 1952 میں بنایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت زمین مالکان کے خلاف کسانوں کی شکایات بیوروکریسی سنتی ہے۔ تاہم اکثر مواقع پر کسان یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ سرکاری افسروں پر بڑے زمینداروں کے اثرورسوخ کے باعث کسانوں/ہاریوں کو انصاف نہیں ملتا۔
غلام علی کے کیس میں عدالت نے اسسٹنٹ کمشنروں سے کسانوں اور مزدوروں کے کیس سننے کا اختیار بھی واپس لے لیا ہے اور قرار دیا ہے کہ اب ایسے مقدمات ہائی کورٹ دیکھے گی۔
سندھ ٹیننسی ایکٹ کے تحت زمیندار نہ تو ہاری/کھیت مزدور سے بیگار لے سکتا ہے اور نہ ہی اسے زمین سے بے دخل کر سکتا ہے
سندھ کے انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ 2013 کو اس مسئلے کے حل کی جانب ایک دور رس اقدام کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس قانون سازی کی بدولت غلام علی جیسے کسان صنعتی مزدوروں کی طرح یونین بنا کر اپنے آجروں سے لین دین کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، اس ایکٹ کے تحت حکومت نے ان کسانوں کے لیے 50 کروڑ روپے بھی مختص کیے ہیں جو ان کی بہبود پر خرچ کیے جائیں گے۔
پاکستان نیشنل ٹریڈ یونین کے رہنما ناصر منصور کا کہنا ہے کہ اس ایکٹ میں انہیں قانونی طور پر مزدور تسلیم کیا جا چکا ہے اور اصولی طور پر وہ ان تمام رائج قوانین سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں۔ ان میں کسانوں/کھیت مزدوروں کی سوشل سکیورٹی کے اداروں میں رجسٹریشن اور ان کے خاندان کی ہیلتھ انشورنس بھی شامل ہیں۔ اگر کام کے دوران کسی کسان کو چوٹ لگ جائے یا اس کی موت ہو جائے تو قانون کے تحت متاثرہ فرد یا اس کے اہلخانہ معاوضے کے بھی حقدار ہیں۔
تاہم صوبائی محکمہ محنت کے لا افسر ریجھو مل کا کہنا ہے کہ کسانوں کے لیے سوشل سکیورٹی، ھیلتھ انشورنس، ای او بی آئی اور پینشن کے لیے زمینداروں سے پیسے اور مراعات لینا آسان کام نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ میں کسانوں اور ماہی گیروں کو یونین سازی کے حقوق تو مل گئے ہیں مگر اس قانون کے تحت قواعد و ضوابط ابھی ترتیب نہیں دیے جا سکے جن میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔
قواعد و ضوابط نہ ہونے کی وجہ سے کسانوں کو ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن کے ادارے اور سوشل سکیورٹی کے محکمے میں رجسٹرڈ نہیں کیا جا سکا۔ ریجھو مل کے مطابق اس مقصد کے لیے ان کا محکمہ کسانوں کی تنظیموں اور زمینداروں سے مشاورت کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کپڑے کی فیکٹریوں، کارخانوں یا ملوں میں خام مال زرعی زمینوں سے ہی لایا جاتا ہے۔ اس قانون کے بعد ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں فیکٹری مالکان کسانوں کو بھی سوشل سکیورٹی اور صحت کی انشورنس کے لیے مدد دیں۔
کھیت مزدوری کرنے والے بہت سے کسان نہ صرف اپنے پیشہ وارانہ حقوق بلکہ بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رہتے ہیں
محکمہ محنت حیدرآباد ریجن کے ریجنل ڈائریکٹر غلام سرور نے بتایا کہ کسانوں اور ماہی گیروں کو انڈسٹریل ریلیشنز ایکٹ 2013 کے تحت یونین سازی کا حق ملنے کے بعد ان کے ادارے نے کسانوں کی 10 تنظیموں اور ایک فیڈریشن کو رجسٹرڈ کر لیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سوشل سکیورٹی، ای او بی آئی اور پینشن دینا ان کے ادارے کی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس مقصد کے لیے کسانوں اور ماہی گیروں کے آجر انہیں اجرت کا پانچ فیصد ادا کریں گے تو تبھی انہیں یہ سہولتیں مل سکیں گی۔
دوسری جانب زمینداروں اور آبادکاروں کی تنظیم ایوان زراعت سندھ کے مرکزی جنرل سیکرٹری زاہد بھرگڑی کا کہنا ہے کہ ''ہم زمیندار اپنے کسانوں کو زرعی پیداوار میں حصے دار سمجھتے ہیں۔ چونکہ ہم کسان کو پہلے ہی پیداوار میں حصہ دے رہے ہوتے ہیں اس لیے انہیں دوسری مراعات دینے کے پابند نہیں ہیں۔''
یہ بھی پڑھیں
میری ذات ذرہِ بے نشان: 'زرعی مزدور خواتین کی مشقت کو کام تسلیم ہی نہیں کیا جاتا'۔
سانگھڑ، بدین، ٹنڈو اللہ یار، دادو، نواب شاہ اور ٹھٹہ اضلاع سے تعلق رکھنے والے کسانوں رزاق، منظور، مختیار اور دیگر نے بتایا کہ اب تو کسانوں کو آدھا حصہ بھی نہیں ملتا اور اکثر زمیندار انہیں دیہاڑی دار مزدور کی حیثیت سے ہی ملازمت دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زمینداروں کے ہاں کھیت مزدوری کرنے والے بہت سے کسان نہ صرف اپنے پیشہ وارانہ حقوق بلکہ بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رہتے ہیں۔
ہاری ویلفیئر ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں کھیت مزدوروں کی بڑی تعداد زمینداروں کی نجی جیلوں میں قید ہے۔ 2021 میں عدالتی احکامات پر ایسے 1465کسانوں کو ان جیلوں سے رہائی دلائی گئی جن میں 445 بچے اور521 خواتین بھی شامل تھیں۔ اس سے پہلے 2013 سے 2021 تک دس ہزار 190 افراد کو ان جیلوں سے بازیاب کرایا گیا تھا۔
تاریخ اشاعت 25 فروری 2023