میری وجہِ تباہی صرف طوفاں ہو نہیں سکتا: 'لیفٹ بنک آؤٹ فال ڈرین زیریں سندھ میں ہزاروں لوگوں کی زندگی اور روزگار کے لیے ایک مستقل خطرہ بن گیا ہے'۔

postImg

سترام سانگی

postImg

میری وجہِ تباہی صرف طوفاں ہو نہیں سکتا: 'لیفٹ بنک آؤٹ فال ڈرین زیریں سندھ میں ہزاروں لوگوں کی زندگی اور روزگار کے لیے ایک مستقل خطرہ بن گیا ہے'۔

سترام سانگی

اس سال جولائی کے اواخر میں جیسے ہی بارشیں شروع ہوئیں 37 سالہ کاشت کار کیول میگھواڑ کو یقین ہو گیا کہ انہیں گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنا پڑے گی۔

وہ سندھ کے ضلع میرپور خاص کے گاؤں کوٹ میر جان محمد ٹالپر میں رہتے ہیں جو لیفٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (ایل بی او ڈی) نامی نالے سے صرف ایک کلومیٹر دور ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان بارشوں کے نتیجے میں اس نالے میں بہنے والا پانی اس کے کناروں سے باہر نکل کر اس کے ارد گرد واقع دیہات میں پھیل گیا ہے جس سے نہ صرف ان کی فصلیں ملیامیٹ ہو گئی ہیں بلکہ ان کا پورا گاؤں بھی پانی میں ڈوب گیا ہے۔

چنانچہ وہ اپنے مال مویشی اپنے گھر میں ہی چھوڑ کر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ اپنے رشتہ داروں کے ہاں منتقل ہو گئے ہیں جو نواحی ضلع تھرپارکر کے کلوئی نامی علاقے میں رہتے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی نقل مکانی ان کے لیے کوئی نیا تجربہ نہیں بلکہ "جب بھی ایل بی او ڈی کا پانی سیلابی صورت اختیار کرتا ہے ہمیں ایسا ہی کرنا پڑتا ہے"۔

اس ضمن میں وہ 2011 میں ہونے والی بارشوں اور ان کے نتیجے میں آنے والے سیلاب کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی وجہ سے انہیں کئی ہفتوں کے لیے بے گھر ہونا پڑا تھا۔

انہی کے گاؤں کے ایک اور باسی 35 سالہ اشوک میگھواڑ نے بھی اپنے بیوی بچوں کو کلوئی منتقل کر دیا ہے جبکہ وہ خود اپنے گاؤں میں ہی رہ رہے ہیں جہاں، ان کے مطابق، "سیلابی پانی ابھی بھی ایل بی او ڈی  سے نکل کر انسانی آبادی اور زرعی اراضی میں داخل ہو رہا ہے"۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے علاقے سے گزرنے والی ایک اہم سڑک جو دو بڑے مقامی قصبوں جھڈو اور نوکوٹ کو آپس میں ملاتی ہے ٹریفک کے لیے بند کر دی گئی ہے کیونکہ ایل بی او ڈی کے آرپار بنایا گیا اس کا پل مکمل طور پر پانی میں ڈوب گیا ہے۔ ان حالات میں مقامی لوگوں کو محفوظ مقامات پر لے جانے کے لیے حکومت کی جانب سے کشتیاں چلائی جا رہی ہیں۔

اگرچہ ہر برسات میں صورتِ حال اتنی خراب نہیں ہوتی لیکن اشوک میگھواڑ کہتے ہیں کہ معمول سے ہٹ کر ہونے والی ہر بارش کے بعد مقامی لوگوں کو ایل بی او ڈی میں "سیلاب آنے کا دھڑکا لگا رہتا ہے"۔ اس لیے، ان کے مطابق، "جیسے ہی اس میں پانی کی مقدار بڑھنے لگتی ہے ہم جان جاتے ہیں کہ اب ہمیں اپنا گھر بار، مال مویشی اور فصلیں چھوڑ کر نقل مکانی کرنا پڑے گی"۔

ان کے ضلعے کے دوسرے علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے۔

بھیرو کولہی نے اپنے خاندان کے ساتھ جرکس شاخ کے کنارے عارضی طور پناہ لی ہےبھیرو کولہی نے اپنے خاندان کے ساتھ جرکس شاخ کے کنارے عارضی طور پناہ لی ہے

میرپور خاص شہر سے 48 کلومیٹر جنوب میں واقع گوٹھ امیر بخش کلوئی نامی گاؤں کے رہنے والے 60 سالہ بھیرو کولہی کا کہنا ہے کہ پچھلے ماہ آنے والے سیلاب نے ان کی نو ایکڑ اراضی پر کھڑی مرچوں اور کپاس کی فصلیں تباہ کر دی ہیں۔ اگرچہ یہ تباہی لانے والا پانی ڈھورو پران نامی ایک قدیم برساتی ندی کا حفاظتی بند ٹوٹنے سے ان کے گاؤں میں داخل ہوا تھا لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس بند کے ٹوٹنے کی بنیادی وجہ ایل بی او ڈی ہی ہے کیونکہ "اس نے جگہ جگہ ڈھورو پران کا قدرتی راستہ روک رکھا ہے"۔ اسی بنا پر ان کا کہنا ہے کہ ایل بی او ڈی ان جیسے "ہزاروں لوگوں کی زندگی اور روزگار کے لیے ایک مستقل خطرہ بن گیا ہے"۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیلاب کا پانی ابھی تک ان کے گاؤں میں کھڑا ہے کیونکہ اس کے اخراج کا واحد ذریعہ ایل بی او ڈی ہے جو خود لبا لب بھرا ہوا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اپنی بیوی اور چار بچوں کے ساتھ نواحی ضلع بدین کے قصبے ملکانی شریف کے قریب پناہ لے رکھی ہے۔

قدرتی راستے، سرکاری رکاوٹیں 

اگرچہ بارشیں ختم ہوئے دو ہفتوں سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن جھڈو کا پورا قصبہ اب بھی پانی میں ڈوبا ہوا ہے جبکہ اس کی 90 فیصد آبادی دوسرے علاقوں میں منتقل ہو چکی ہے۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے قصبے میں آنے والے سیلاب کا سبب ڈھورو پران کے حفاظتی بند میں پڑنے والا شگاف اور ایل بی او ڈی کے کناروں سے باہر نکلنے والا پانی ہیں۔ ان کے مطابق اس سیلاب نے جہاں مقامی ذرائعِ آمدورفت کو شدید متاثر کیا ہے وہیں اس نے ہزاروں گھروں کو منہدم کر دیا ہے اور لاکھوں ایکڑ اراضی پر کھڑی مرچوں اور کپاس کی فصلوں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

اس سیلاب سے متاثر ہونے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد میرپور خاص اور بدین کے مختلف حصوں میں تقریباً روزانہ احتجاجی مظاہرے کر رہی ہے۔ ان مظاہرین کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ فوری امدادی کارروائیاں کرنے کے ساتھ ساتھ ایل بی او ڈی کے پیدا کردہ مسائل کا بھی کوئی پائیدار حل تلاش کرے۔

کیول میگھواڑ ان کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "اگر یہ نالا پانی کے قدیم راستوں پر تعمیر کیا جاتا تو اس میں آنے والا سیلاب کبھی اتنا نقصان نہ کرتا جتنا وہ اب کر رہا ہے"۔

سیلاب متاثرین نے اپنی مدد آپ کے تحت رلیوں سے خیمے بنائے ہوئے ہیں سیلاب متاثرین نے اپنی مدد آپ کے تحت رلیوں سے خیمے بنائے ہوئے ہیں 

ایل بی او ڈی وسطی سندھ کے ضلع شہید بینظیر آباد (جسے کچھ عرصہ پہلے تک نواب شاہ کہا جاتا تھا) سے شروع ہوتا ہے اور سانگھڑ، میر پور خاص، ٹندو اللہ یار اور بدین کے اضلاع سے گزرتا ہوا بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ مرکزی حکومت نے اس کی تعمیر کا منصوبہ 1984 میں عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک کی مالی امداد سے بنایا تھا لیکن اسے مکمل ہونے میں 11 سال لگ گئے۔

ناصر علی پنہور، جو عالمی بنک اور یو ایس ایڈ جیسے امداد دینے والے اداروں کے ساتھ مل کر سندھ کے ماحولیاتی مسائل پر کافی تحقیق کر چکے ہیں، کہتے ہیں کہ ایل بی او ڈی کی تعمیر کا بنیادی مقصد نہروں سے سیراب ہونے والی زمینوں سے سیم کا پانی نکالنا اور صنعتی اور شہری فضلہ سمندر میں لے کر جانا تھا۔ ان کے مطابق "یہ دونوں مقاصد تو ٹھیک طرح سے پورے نہیں ہوئے البتہ اپنے ڈیزائن اور روٹ کی خرابیوں کی وجہ سے یہ نالا میرپور خاص اور بدین کے اضلاع میں سیلاب کا سبب ضرور بن گیا ہے"۔

ضلع بدین کے ساحلی علاقے کڈھن سے تعلق رکھنے والے محقق اللہ بچایو جمالی بھی انہی مسائل کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مشرقی سندھ کی قدیم برساتی ندیوں ہاکڑو اور ڈھورو پران کی جگہ ایل بی او ڈی کی تعمیر سے پانی کے بہاؤ کے قدرتی راستے بند ہو گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے: لسبیلہ میں آب پاشی کا سرکاری منصوبہ کیسے تباہ کن سیلاب کا سبب بنا۔

مزیدبرآں ان کا کہنا ہے کہ " مقامی لوگوں نے جگہ جگہ ہاکڑو اور ڈھورو پران کی گزرگاہوں پر قبضے کر کے وہاں نہ صرف کاشت کاری کر رکھی ہے بلکہ رہائشی عمارتیں بھی بنا لی ہیں"۔ ان کے مطابق "ان دونوں عوامل کا مجموعی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جب بھی ان ندیوں میں سیلاب آتا ہے تو اس کا پانی حفاظتی بند توڑ کر اردگرد کے علاقوں کو ڈبو دیتا ہے"۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی چند روز پہلے میر پور خاص میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان ندیوں پر بنی ہوئی تجاوزات سیلاب کا باعث بن رہی ہیں۔ انہوں نے مقامی صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ "2011 میں آنے والے سیلاب کے بعد ان تجاوزات کے بارے میں تفصیلی رپورٹیں بھی تیار کی گئیں لیکن ان میں تجویز کیے گئے اقدامات پر عملدرآمد نہیں ہو سکا"۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ "اس کام کے لیے 45 ارب روپے درکار ہیں جن کا انتظام کرنا حکومتِ سندھ کے لیے ممکن نہیں"۔ 

تاریخ اشاعت 17 ستمبر 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

سترام سانگی حیدرآباد میں مقیم ایک ماحولیاتی صحافی ہیں، وہ بنیادی طور پر پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی، جنگلی حیات اور پسماندہ کمیونٹیز پر لکھتے ہیں۔ وہ پندرہ سال سے پرنٹ میڈیا سے منسلک ہیں۔

سندھ: گندم کی سرکاری قیمت 4000، کسان 3500 روپے میں فروخت کرنے پر مجبور

thumb
سٹوری

ماحول دوست الیکٹرک رکشوں کے فروغ کے لیے کون سے اقدامات کی ضرورت ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

مردوں کے راج میں خواتین کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت نہیں

سینٹ کے پیچیدہ طریقہ انتخاب کی آسان ترین وضاحت

فیصل آباد: کرسمس کے بعد ایسٹر پر بھی مسیحی ملازمین تنخواہوں سے محروم

گندم: حکومت خریداری میں سنجیدہ نہیں، کسانوں کو کم قیمت ملنے کا خدشہ

thumb
سٹوری

گولاڑچی کے بیشتر کسان اپنی زمینوں کے مالک کیوں نہیں رہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضا آکاش

مسکان مسیح کے والدین کی "مسکان" کس نے چھینی؟

معذوروں کے چہرے پر خوشیاں بکھیرتے کمپیوٹرائزڈ مصنوعی اعضا

thumb
سٹوری

کیا قبائلی اضلاع میں سباون سکولز انشی ایٹو پروگرام بھی فلاپ ہو جائے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceخالدہ نیاز
thumb
سٹوری

ضلع میانوالی کے سرکاری کالجوں میں طلباء کی تعداد کم کیوں ہو رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceفیصل شہزاد

ڈیجیٹل امتحانی نظام، سہولت یا مصیبت؟

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.