جب 2012 میں پہلی بار ریاض احمد نے عدالت سے رجوع کیا تو ان کے گاؤں چک ننگر سے تعلق رکھنے والے 34 افراد سِلی کوسز نامی بیماری سے ہلا ک ہو چکے تھے۔
اس سال انہوں نے ایک عرضی سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھیجی جس میں انہوں نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے استدعا کی کہ وہ ان اموات کا ازخود نوٹس لے کر متعلقہ سرکاری حکام کوپتھر پیسنے والے ان کارخانوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دیں جہاں کام کرنے سے ان افراد کو یہ مرض لاحق ہوا تھا (جس کے نتیجے میں ان کے پھیپھڑے آہستہ آہستہ ناکارہ ہوگئے تھے)۔
سپریم کورٹ نے ان اموات کی تصدیق کرنے کے لیے اپنے اہل کاروں پر مشتمل ایک ٹیم چک ننگر بھیجی (جو ضلع ڈیرہ غازی خان کے علاقے چوٹی بالا میں کوہِ سلیمان کے اندر واقع ہے) لیکن یہ ٹیم گاؤں تک پہنچ ہی نہیں سکی کیونکہ کوہِ سلیمان سے آنے والا ایک برساتی نالا اس کے راستے میں حائل ہو گیا تھا جسے عبور کرنے کے بجائے اس کے ارکان اپنے دفتروں میں لوٹ گئے۔ اس تصدیقی مشن کی ناکامی کے بعد سپریم کورٹ نے ریاض احمد کی عرضی ہی مسترد کر دی۔
اسی دوران انہوں نے ڈیرہ غازی خان اور لاہور کی لیبر عدالتوں میں بھی متعدد درخواستیں دائر کیں جن میں سِلی کوسز سے مرنے والے افراد کے لواحقین کو زرِ تلافی دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا اور ان کارخانوں کے خلاف کارروائی کرنے کی استدعا کی گئی تھی جہاں کام کرنے کی وجہ سے یہ افراد اس بیماری کا شکار ہوئے تھے۔
لیکن لیبر عدالتوں نے یہ تمام درخواستیں یہ کہہ کر مسترد کر دیں کہ ان لوگوں کے پاس ایسی کوئی دستاویز نہیں جو ثابت کر سکے کہ وہ واقعی انہی کارخانوں میں کام کرتے تھے جہاں ان کے مطابق وہ سلی کوسز کا شکار ہوئے تھے۔ حقیقت میں ان کے پاس نہ تو ایسا کوئی شناختی کارڈ تھا جو انہیں ان کارخانوں کا ملازم ظاہر کرتا ہو اور نہ ہی انہیں کبھی کوئی ملازمت کا معاہدہ یا تعیناتی کا خط دیا گیا تھا۔
ریاض احمد کہتے ہیں کہ ان دستاویزات کی عدم موجودگی مزدوروں کی غلطی نہیں تھی بلکہ یہ سب کچھ کارخانہ داروں کا کیا دھرا تھا لیکن لیبر عدالتوں نے انہیں لیبر قوانین کی اس واضح خلاف ورزی پر سزا دینے کے بجائے ہر طرح کی ذمہ داری سے مبرا قرار دے دیا۔
عدالت سے عدالت تک
اسامہ خاور نامی ایک نوجوان وکیل نے ضلع گوجرانوالہ میں واقع اپنے گاؤں نت کالر میں رہنے والے سِلی کوسز کے 11 متاثرین کے ساتھ مل کر 2014 میں لاہور ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی جس میں عدالت سے درخواست کی گئی کہ اس بیماری سے ہونے والی اموات کی تحقیقات کرنے اور ان کے ذمہ دار لوگوں کا تعین کرنے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا جائے۔ اس پٹیشن کے دائر کیے جانے سے پہلے نت کالر اور اس کے گردونواح میں 13 افراد سِلی کوسز کی وجہ سے ہلاک ہو چکے تھے۔
لیکن لاہور ہائی کورٹ میں اسامہ خاور کو وہی مسئلہ درپیش تھا جس کا سامنا ریاض احمد کو لیبر عدالتوں میں کرنا پڑا تھا کہ وہ ان لوگوں کی اموات کو ان کارخانوں سے کیسے جوڑیں جہاں سے انہیں یہ بیماری لگی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت کی نظر میں ایسے 80 فیصد کارخانے جہاں خطرناک حالاتِ کار میں پتھر پیسے جا رہے ہیں سرے سے موجود ہی نہیں (کیونکہ وہ کسی بھی سرکاری محکمے کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں) اس لیے، ان کے بقول، ان 'ناموجود' کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا وجود ثابت کرنا قریب قریب ناممکن تھا۔
ان کے لیے دوسرا بڑا مسئلہ عدالت کو یہ دکھانا تھا کہ مزدوروں کی ہلاکت کا سبب بننے والی بیماری سِلی کوسز ہی ہے۔ چونکہ گجرانوالہ میں اس کی تشخیص کے لیے درکار آلات اور طبی مہارت موجود نہیں تھی اس لیے پٹیشن کے دائر کنندگان میں شامل مریضوں میں سے کسی کے پاس بھی ایسا کوئی ناقابلِ تردید ثبوت نہیں تھا کہ وہ درحقیقت اسی بیماری میں مبتلا ہیں۔
نتیجتاً پٹیشن کو سماعت کے لیے قبول کرنے کے باوجود ایک سال تک لاہور ہائی کورٹ نے اس پر کوئی ٹھوس کارروائی نہ کی یہاں تک کہ عدالت نے پنجاب حکومت کو صوبے میں موجود پتھر پیسنے کے کارخانوں کی تعداد جاننے اور ان کی وجہ سے سِلی کوسز میں مبتلا ہونے والے مزدوروں کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے لیے بھی کوئی احکامات جاری نہ کیے۔
عدالتی کارروائی میں اس سست روی کے باعث اسامہ خاور نے فیصلہ کیا کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان میں بھی ایک درخواست دائر کریں گے ۔ تاہم انہیں معلوم تھا کہ اس درخواست کی قبولیت کے لیے انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ سِلی کوسز سے ہونے والی اموات کی وجہ سے پنجاب میں ایک ہنگامی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے جسے فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن، ان کے مطابق، انہیں دستیاب سرکاری دستاویزات کی بنیاد پر وہ ایسا بالکل نہیں کر سکتے تھے۔
چنانچہ انہوں نے اپنے طور پر ثبوت اکٹھے کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس کام کا آغاز انہوں نے مئی 2014 میں ضلع گجرانوالہ کے گاؤں چہل کلاں میں بسترِ مرگ پر پڑے صفدر علی نامی مزدور سے کیا جس نے انہیں کئی ایسے مزدوروں کے نام اور پتے بتائے جو اس کے ساتھ کام کرتے ہوئے سِلی کوسز کا شکار ہوئے تھے۔
ان معلومات کی روشنی میں اسامہ خاور نے شیخوپورہ، اوکاڑہ، ڈیرہ غازی خان اور گجرانوالہ سمیت پنجاب کے کئی ضلعوں میں جا کر وہاں موجود اس بیماری میں مبتلا مزدوروں کے بارے میں تفصیلی فہرستیں مرتب کیں (تاہم ابھی انہیں یہ کام کرتے ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ صفدر علی کا انتقال ہو گیا)۔
اسی دوران وہ اپنے گاؤں کے دو مریضوں، محمد الیاس اور محمد عبداللہ، کو لاہور کے سرجی میڈ نامی نجی ہسپتال میں معائنے کے لیے لے گئے جہاں جنوری 2014 میں ڈاکٹر خاور عباس چوہدری اور ڈاکٹر ایم اے جاوید صدیقی نے ان میں سِلی کوسز کی موجودگی کی تصدیق کر دی۔ (یہ دونوں مریض اس تشخیص کے تقریباً تین سال بعد وفات پا گئے۔)
پورے پنجاب سے متاثرین کے کوائف اکٹھے کرنے اور ان کی تشخیص کا دستاویزی ثبوت حاصل کرنے کے بعد اسامہ خاور نے بالآخر سپریم کورٹ آف پاکستان میں ایک درخواست دائر کی کہ اس معاملے کا جلد از جلد ازخود نوٹس لیا جائے۔ 5 جولائی 2014 کو ان کی یہ درخواست سماعت کے لیے قبول کر لی گئی۔
قانون پر عمل کے لیے درکار ادارے کدھر ہیں؟
اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس دوست محمد خان نے 14 جولائی 2015 میں جاری کیے گئے ایک فرمان میں کہا کہ پاکستان میں کسی بھی صوبے کے لیبر کے محکمے کے پاس صنعتی مزدوروں کا تسلی بخش ریکارڈ موجود نہیں جبکہ کچھ صوبائی محکموں کو (خاص طور پر سندھ میں) یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے دائرہِ اختیار میں کتنے غیر رجسٹرڈ کارخانے کام کر رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کارخانوں میں مزدوروں کی جسمانی حفاظت یقینی بنانے کے لیے کوئی مرکزی قانون موجود نہیں اور یہ کہ وفاقی سطح پر ایسی قانون سازی مشکل بھی ہو گئی ہے کیونکہ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد مزدوروں سے متعلق قوانین بنانے اور انہیں لاگو کرنے کا اختیار صوبائی حکومتوں کو حاصل ہو گیا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے انہوں نے لا اینڈ جسٹس کمیشن کو یہ ذمہ داری سونپی کہ وہ ایک نئے قانون کا مسودہ تیار کرے۔ ساتھ ہی انہوں نے تمام صوبائی حکومتوں کو ہدایت کی کہ وہ اس مسودے کی تیاری میں شریک ہو کر اپنی اپنی صوبائی اسمبلیوں سے اسے ایک قانون کے طور پر منظور کرائیں۔
یہ بھی پڑھیں
بستی بستی موت کے ڈیرے: سِلی کوسز کا شکار مزدور انصاف کے متلاشی۔
اس عمل کے نتیجے میں سندھ نے 2017 میں اور پنجاب نے 2019 میں کارخانوں میں کام کے دوران مزدوروں کی حفاظت یقینی بنانے کے لیے قوانین پاس کر لئے (جبکہ باقی دو صوبوں میں ابھی تک ایسا کوئی قانون نہیں بنایا گیا)۔
لیکن اسامہ خاور کہتے ہیں کہ دونوں صوبائی حکومتوں نے ان قوانین کو لاگو کرنے کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے۔ مثال کے طور پر ان کے تحت ایسی کونسلیں قائم کی جانی تھیں جن میں لیبر اور سوشل ویلفیئر کے محکموں کے اہل کاروں کے علاوہ کارخانہ مالکان اور مزدوروں کے نمائندے بھی شامل ہوں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ابھی تک ملک کے کسی حصے میں بھی یہ کونسلیں نہیں بنائی گئیں۔
لاہور میں مقیم وکیل جنت علی کلیار لاہور ہائی کورٹ میں سِلی کوسز کے بارے میں ہونے والی عدالتی کارروائی کا حصہ رہی ہیں۔ ان کے مطابق ان نئے قوانین کے علاوہ پاکستان میں فیکٹریز ایکٹ اور ورکمین کمپنسیشن ایکٹ بھی موجود ہیں جن میں یہ درج ہے کہ حکومت کو ایسے کارخانوں کے مالکان کے خلاف کارروائی کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے جو مزدوروں میں سِلی کوسز جیسی بیماریوں کی وجہ بن رہے ہیں۔ ان قوانین میں یہ بھی لکھا ہے کہ حکومت ایسے کارخانہ مالکان کو یہ حکم بھی دے سکتی ہے کہ وہ ان مزدوروں کو ہرجانہ ادا کریں جو ان کے کارخانوں کے ناقص حالاتِ کار کی وجہ سے کسی بیماری کا شکار ہو گئے ہیں۔
لیکن وہ کہتی ہیں کہ ان تمام قوانین کے صحیح معنوں میں اطلاق کے لئے درکار ادارے حکومت نے یا تو قائم نہیں کیے یا اگر قائم کیے بھی ہیں تو انہیں کبھی اچھی طرح سے فعال نہیں بنایا۔ ان کے نزدیک ان قوانین کو لاگو کرنے میں حکومتی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ "حکومت اب تک صنعتی مزدوروں سے منسلک اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے لئے کارخانوں کے مالکان کی طرف سے دی گئی معلومات پر انحصار کرتی ہے جس کے نتیجے میں زیادہ تر کارخانوں کے اندرونی مسائل حکومتی ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں بن پاتے"۔
جنت علی کلیار انڈیا کے انسانی حقوق کے قومی کمیشن کی مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ وہاں سِلی کوسز کے مریضوں میں اضافے کی خبریں سامنے آنے کے بعد اس کمیشن نے خود ہی اس معاملے کی تحقیق شروع کر دی اور پھر انتظامیہ کو ان اموات کے متعلق تمام تفصیلات سے آگاہ کیا جن کے نتیجے میں حکومت کے لئے اس مسئلے کی روک تھام کے لیے قوانین بنانا اور ان پر عمل درآمد کرانا قدرے آسان ہو گیا۔
اس کے برعکس پاکستان میں اس معاملے میں محض اتنی پیش رفت ہوئی ہے کہ پتھر پیسنے کے کارخانوں کے مالکان نے مزدوروں کو نوکری دینے کا طریقہ کار تبدیل کر لیا ہے۔ جنت علی کلیار کہتی ہیں کہ اب وہ ایک علاقے سے ڈھیر سارے مزدوروں کو کام نہیں دیتے بلکہ مختلف علاقوں سے دو دو، چار چار کر کے مزدور بھرتی کرتے ہیں تاکہ انہیں ایک بار پھر چک ننگر یا نت کالر کی طرح ایک ہی جگہ سلی کوسز سے ہونے والی بہت سی اموات کے لیے جواب دہ نہ ہونا پڑے۔
اسی طرح کارخانوں کے مالکان اب کسی مزدور کو دو سال سے زیادہ عرصے کے لئے ملازمت پر نہیں رکھتے تاکہ اگر اسے مستقبل میں سِلی کوسز جیسا کوئی مرض لاحق ہو جائے تو انہیں اس کے لیے براہِ راست ذمہ دار قرار نہ دیا جا سکے۔
اسامہ خاور کے بقول ان تبدیلیوں کے پیچھے مالکان کی یہ حکمتِ عملی کارفرما ہے کہ مزدور ایک دوسرے سے دور ایک ایک کر کے خاموشی سے مرتے رہیں اور ان کی "موت ایک بار پھر کوئی غیر معمولی واقعہ نہ بن سکے"۔
تاریخ اشاعت 11 دسمبر 2021