پاکستان کے بڑے شہروں، خاص طور پر لاہور میں، فضائی آلودگی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے۔ یہ آلودگی نہ صرف صحت کے لیے خطرناک ہے بلکہ معیشت کو بھی نقصان پہنچا رہی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، ہر سال لاکھوں افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے بیمار ہوتے ہیں اور ہزاروں افراد اس کی وجہ سے جان گنواتے ہیں۔
2022ء میں لاہور کا ائر کوالٹی انڈیکس 500 سے تجاوز کرگیا۔ ماہرین کے مطابق 301 سے زائد انڈیکس انسانی صحت کے لیے بہت خطرناک ہوتا ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں ہر سال ایک لاکھ 28 ہزار پاکستانی فضائی آلودگی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران، پاکستان میں آلودگی کی وجہ سے سانس کے انفیکشن کے چار کروڑ کیس سامنے آئے ہیں۔
فضائی آلودگی کی ایک بڑی وجہ ٹرانسپورٹ کا شعبہ ہے، خاص طور پر سڑکوں پر چلنے والی نجی گاڑیاں جو زہریلی گیسیں خارج کرتی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق ٹرانسپورٹ کا شعبہ 95 فیصد فضائی آلودگی کا باعث ہے۔2021ء میں کاربن کے اخراج کا 28 فیصد اخراج اسی شعبے کی وجہ سے ہوا۔
فضائی آلودگی سے منسلک صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات کو ایک طرف رکھتے ہوئے، جب بھی سموگ کی وجہ سے اسکولوں، مارکیٹوں اور دفاتر کو بند کرنا پڑتا ہے تو ملک کو اربوں روپےکا نقصان ہوتا ہے۔
ٹرانسپورٹ کی آلودگی کا حل؟
ماہرین ٹرانسپورٹ سے پھیلنے والی آلودگی کا حل الیکٹرک وہیکلز کو تجویز کرتے ہیں۔
پٹرول سے چلنے والی عام گاڑی فی کلومیٹر 180 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتی ہے جبکہ الیکٹرک وہیکل (ای وی) کسی قسم کی مضر صحت گیس وغیرہ خارج نہیں کرتی۔ ماہرین کے مطابق الیکٹرک گاڑیوں کو استعمال سے لاہور میں سموگ کی وجہ بننے والے 30 فیصد عوامل ختم ہو جائیں گے۔
الیکٹرک گاڑیوں کا دو طرفہ فائدہ ہے۔ وہ نہ صرف کاربن اور ذرات کے اخراج کو کم کرنے کا باعث بنیں گی بلکہ خام تیل کے بے تحاشا درآمدی بل کو بھی کم کریں گی۔
دسمبر 2023 ء تک خام تیل کی درآمدات پر پاکستان کے اخراجات 19.4 بلین امریکی ڈالر تھے جو بہت زیادہ ہیں۔ الیکٹرک وہیکلز سے ان اخراجات میں نمایا ں کمی ہوسکتی ہے۔
الیکٹرک کاروں کے بارے میں غلط فہمیاں
پاکستان میں 43 فیصد گھرانوں کے پاس موٹر سائیکلیں ہیں، 2030ء تک موٹر سائیکل انڈسٹری کا حجم 10 ارب ڈالر تک پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران موٹر سائیکل اور سکوٹروں کی خریداری میں 928 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ مارکیٹ کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ 63 فیصد صارفین ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ایندھن پر چلنے والی وہیکلز کو چھوڑنے کے لیے تیار ہیں۔
ان اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک میں ای بائیکس اور ای رکشہ کی طلب بڑے پیمانے پر موجود ہے۔
ہماری قومی الیکٹرک وہیکل پالیسی میں اس صنعت کے لیے ٹیکس کی چھوٹ بنیادی کا مقصد الیٹرک گاڑیوں کو فروغ دینا ہے لیکن معاشی، ماحولیاتی اور سماجی فوائد کو تسلیم کرنے کے باوجود، الیکٹرک وہیکلز کے بارے میں ان کی لاگت اور بجلی کی کمی کے بارے میں غلط فہمیاں موجود ہیں۔
کیا الیکٹرک گاڑیاں مہنگی ہیں؟
عام خیال کے برعکس، دو پہیوں اور تین پہیوں والی الیکٹرک وہیکلز اب ملک میں فیول سے چلنے والی متبادل وہیکلز کے مقابلے میں سستی ہیں۔
یو این ڈی پی کی 2021ء کی تحقیق میں انہوں نے ایک الیکٹرک بائک اور ایک عام موٹر سائیکل (مثال کے طور پر، سن را الیکٹرک بائک اور ہونڈا 125) کی قیمت کا موازنہ کیا۔ انہوں نے دیکھا کہ اگر پانچ سال تک دونوں گاڑیوں کو استعمال کیا جائے تو الیکٹرک بائک تقریباً 40 فیصد سستی پڑتی ہے۔ اس میں گاڑی خریدنے کی لاگت، فیول پر خرچ ہونے والی رقم، اور گاڑی کی دیکھ بھال پر ہونے والے اخراجات شامل ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ گو ای بائیک کی پیشگی قیمت عام موٹر سائیکل کے مد مقابل سے 50 سے 75 فیصد زیادہ ہے تاہم فی کلومیٹر آپریشنل لاگت فیول سے چلنے والی موٹر سائیکل کے مقابلے میں تقریبا 50 فیصد کم ہے۔
رکشہ پر کی گئی تحقیق کے نتائج بھی ویسے ہیں ہیں۔
تحقیق کے مطابق اگر ایک رکشہ ڈرائیور روزانہ 100 کلومیٹر سے زائد کا سفر کرے تو پھر الیکٹرک رکشہ پٹرول والے رکشے کے مقابلے میں زیادہ سستا پڑتا ہے۔
لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں تو رکشے روزانہ اس سے بھی زیادہ فاصلہ طے کرتے ہیں۔ کلائمیٹ فنانس پاکستان کے امپیکٹ پارٹنر اور آٹو رکشہ بنانے والے پاکستان کے سب سے بڑے مینوفیکچررز میں سے ایک سازگار انجینئرنگ ورکس کی رپورٹ کے مطابق، الیکٹرک رکشہ استعمال کرنے والا ڈرائیور سالانہ آٹھ سے 10 لاکھ روپے تک بچا سکتا ہے۔
الیکٹرک وہیکلز کے لیے بجلی کی قلت، حقیقت یا فسانہ؟
پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں اضافے کے باوجود، ملک میں بجلی کا شدید بحران ہے۔ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کی وجہ سے پیدا ہونے والی اضافی بجلی کو سنبھالنے میں حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ 2023ء میں، حکومت نے آئی پی پیز کو 2.1 ٹریلین روپے کی ادائیگی کی، جو کہ ملک کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہے۔
یہ اضافی بجلی پاکستانی عوام تک نہیں پہنچ پاتی جس کی بڑی وجہ ادارہ جاتی بدانتظامی اور ڈسٹری بیوشن انفراسٹرکچر کا فقدان ہے۔
اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے، حکومت کو بجلی کی گھریلو کھپت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے، حکومت کو سولر پینلز پر ٹیکسوں کے ذریعے قابل تجدید توانائی کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے، الیکٹرک گاڑی مالکان کے ریلیف دینا چاہیے۔ الیکٹرک گاڑیوں کو فروغ دینے سے نہ صرف اضافی بجلی کا استعمال ہوگا بلکہ ماحولیاتی آلودگی بھی کم ہوگی۔
اضافی بجلی کو دو طریقوں سے گاڑیوں کو چلانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس بجلی کو بڑے شہروں میں لگے ہوئے چارجنگ سٹیشنز سے منسلک کیا جائے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بڑے شہروں میں بیٹری سویپنگ سٹیشنز میں ذخیرہ کیا جائے۔
الیکٹرک وہیکلز اور گرین ٹیکنالوجی کے سوالات
بیشتر لوگوں کا خیال ہے کہ برقی گاڑیاں اس لیے ماحول دوست نہیں ہیں کہ انہیں چارج کرنے کے لیے جو بجلی استعمال ہوتی ہے وہ کوئلے یا گیس جلا کر بنائی جاتی ہے۔ لیکن یہ بات کل طور پر درست نہیں ہے۔
اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ گاڑیاں چلنے کے دوران کتنا آلودگی پھیلاتی ہیں، تکنیکی زبان میں یہ سکوپ ون ہے اور سکوپ ٹو یہ ہے کہ ان گاڑیوں کو چلانے کے لیے جو بجلی استعمال ہوتی ہے، اس سے کتنا آلودگی پیدا ہوتی ہے؟
برقی گاڑیاں سکوپ ون کے لحاظ سے بالکل صاف ہوتی ہیں کیونکہ وہ کوئی دھواں نہیں چھوڑتیں۔ سکوپ ٹو کے لحاظ سے، پیدا ہونے والی آلودگی عام گاڑیوں کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
پاکستان کی الیکٹرک وہیکل مارکیٹ میں ترقی کے امکانات اور رکاوٹیں
اس لیے اضافی بجلی کو برقی گاڑیاں چارج کرنے میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ویسے اب سولر پینلز بھی بہت سستے ہو گئے ہیں اور ان سے بجلی بنانا بہت آسان ہو گیا ہے۔
الیکٹرک گاڑیوں کو کیسے عام کیا جائے؟
پاکستان میں برقی گاڑیاں عام کرنے کے لیے بہت سی مشکلات ہیں۔ حکومت کو ان مشکلات کو دور کرنے کے لیے کچھ اقدامات کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے، حکومت کو قومی الیکٹرک وہیکل پالیسی پر نظر ثانی کرکے ایسے پالیسیاں وضع کرنے کی ضرورت ہے جس سے برقی گاڑیوں کو فروغ مل سکے۔ پالیسی میں ایسے اقدامات کی کی نشاندھی کی جائے کہ برقی موٹرسائیکلیں اور رکشے بنانے والی کمپنیوں کو کیسے مدد کی جائے۔ حکومت کو یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ لوگ آسانی سے اپنی برقی گاڑیوں کو رجسٹر کروا سکیں۔
دوسرا، حکومت کو لوگوں کو سستی قسطوں پر برقی موٹرسائیکلیں اور رکشے خریدنے کا موقع دینا چاہیے تاکہ لوگ انہیں آسانی سے خرید سکیں۔
پنجاب حکومت کی جانب سے رواں سال وزیراعلیٰ یوتھ انیشی ایٹو کے تحت موٹر سائیکل سکیم کا آغاز کیا گیا تھا جس کے تحت طلبہ کو آسان اقساط پر 20 ہزار موٹر سائیکلیں فراہم کی جانا تھیں۔ تاہم ای بائیکس نامی سکیم کی آفیشل ویب سائٹ پر کیے گئے دعووں اور 'گرین' وینچر کے اشتہار کے برعکس 20 ہزار میں سے صرف ایک ہزار موٹر سائیکلیں ہی دراصل الیکٹرک تھیں۔
نادیہ گلوبل کے ماحولیاتی کنسلٹنٹ داوڑ حمید نے ایک اور اہم پالیسی اقدام پر روشنی ڈالی جو پاکستان کے ای وی ایکو سسٹم کو بنا یا برباد کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی ای بائیکس میں لیڈ ایسڈ بیٹریوں (LABs) کے استعمال پر پابندی عائد کی جانی چاہیے تاکہ انہیں لیتھیم آئن بیٹریوں سے تبدیل کیا جا سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ لیڈ ایسڈ بیٹریاں ماحول کے لیے بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔ ان بیٹریوں میں موجود سیسہ انسانی صحت کے بہت خطرناک ہے۔
"لیڈ ایسڈ بیٹریاں لیٹھیم آئن بیٹریوں کے مقابلے میں بہت کم وقت تک چلتی ہیں۔ لیٹھیم آئن بیٹریاں تقریباً تین سے چار سال تک چل سکتی ہیں، جبکہ لیڈ ایسڈ بیٹریاں صرف چھ ماہ تک ہی چلتی ہیں۔"
داوڑ کا خیال ہے کہ لیڈ ایسڈ بیٹریوں کی مختصر مدت ای وی مصنوعات میں صارفین کے اعتماد کے مسائل پیدا کرے گی، جس سے پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز پر منتقلی کے طویل مدتی منصوبے کو نقصان پہنچے گا۔
ان کے مطابق پاکستان 2030ء تک نئی گاڑیوں میں سے 30 فیصد برقی گاڑیاں بنا کر ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کا اپنا وعدہ پورا کر سکتا ہے۔
ایسا کرنے کے لیے ہمیں اچھی طرح سے سوچ سمجھ کر پالیسیاں بنانی ہوں گی تاکہ برقی گاڑیاں زیادہ سے زیادہ بنائی جا سکیں۔
تاریخ اشاعت 22 اگست 2024