"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

postImg

اسلام گل آفریدی

postImg

"وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے سولر ٹیوب ویل سے بڑی سہولت کوئی نہیں"

اسلام گل آفریدی

اٹھارہ سالہ محمد عامر دسویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ وہ پڑھائی کے ساتھ کھیتی باڑی میں اپنے والد کی مدد بھی کرتے ہیں۔ صبح کا وقت ہے اور وہ  پہاڑ کے دامن میں سورج مکھی کے کھیت کو پانی دے رہے ہیں، لیکن بار بار کبھی گھڑی تو کبھی سولر ٹیوب ویل سے باہر نکلنے والے پانی کو دیکھتے تھے۔

پھر وہ خود ہی بتاتے ہیں کہ وہ دھوپ تیز ہونےکا انتظار کر رہے ہیں، سورج کی تپش جتنا زیادہ ہوگی آپباشی کے لیے پانی بھی اتنا زیادہ ملے گا۔

عامر ضلع خیبر کے باڑہ بازار سے 15 کلومیٹر شمال مشرق میں اکاخیل کے علاقے زاوہ میں رہتے ہیں۔ یہاں زمین کی حدبندی پر تنازعے کی وجہ سے علاقے میں دوسال سے بجلی نہیں ہے جس کے وجہ سے ان کی زمین بنجر پڑی رہی۔ تاہم اب انہوں نے دو ایکٹر پر دوبارہ فصل کی کاشت شروع کر دی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب سے ان کے والد نے کھیتوں کو پانی دینے کے لیے کنویں پر سولر سسٹم لگوایا ہے تب سے آمدنی میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

 "سولر پلانٹ پر ساڑھے تین لاکھ روپے لاگت آئی جو ہم نے والد کی پنشن اور کچھ رشتہ داروں سے قرض لے پورے کیے تھے۔ اب پانی کو ایک بڑے تالاب میں جمع کرکے کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔"

"پچھلے سیزن میں پانی میسر آ جانے سے ہمیں اس دو ایکڑ زمین سے لگ بھگ چھ لاکھ روپے آمدن ہوئی جس سے گھر کے اخرجات اور ہم بہن بھائیوں کی تعلیم کا خرچہ بھی نکل آیا تھا۔ اس لیے اب کی بار بھی ہم نے سورج مکھی، زیتون اور کچالو ہی کاشت کیا ہے۔"

ضلع خیبر میں اب تک کوئی ڈیم تعمیر نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے پانی کی قلت کے باعث یہاں زیر کاشت رقبے میں بتدریج کمی آتی جاتی جا رہی ہے۔

محکمہ آپباشی نے خیبر کی وادی تیراہ سے نکلنے والے دریائے باڑہ اور اورکزئی سے آنے والے دریائے مستورہ کے سنگم پر1975ء میں بند تعمیر کیا تھا جو باڑہ بازار سے 14کلومیٹر مغرب میں سپرہ کے مقام پر واقع ہے۔

سپرہ بند پر دریا کا پانی روک کر نہری نظام میں منتقل کیا جاتا ہے جہاں سے تحصیل باڑہ میں سپاہ، شلوبر قمبر خیل، برقمبر خیل، ملک دین، اکاخیل کے رقبے اور تحصیل جمرود کے مختلف علاقوں کی زمینیں سیراب ہوتی ہیں۔

تاہم اب یہاں سے پانی کی سپلائی بہت کم ہو چکی ہے۔

محکمہ آپباشی کے سب ڈویژنل آفسر انجنیئر حیدر حیات بتاتے ہیں کہ 1978ء میں جب سپرہ بند سے پانی کی ترسیل شروع ہوئی تو سپلائی 278 کیوسک تھی جس سے 44 ہزار ایکڑ رقبہ سیراب ہوتا تھا۔

"ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کا کوئی انتظام نہیں۔ اس لیے سب کچھ دریا میں پانی کی آمد پر منحصر ہے۔بارشیں اور برف باری کم ہوگی تو پانی کی فراہمی خود بخود کم ہو جاتی ہے۔ جب بند تعمیر ہوا تب دریائے باڑہ میں 400 سے 500 کیوسک پانی آتا تھا مگر اب یہ مقدار اوسطاً 120کیوسک ہی رہ گئی ہے۔"

شلوبر قمبر خیل کا علاقہ 'ارجلی ندی' پہلے اپنی زرعی پیدوار کے لیے مشہور تھا لیکن اب نہری پانی کی قلت کے باعث تمام رقبہ بنجر ہو چکا ہے۔

یہاں کے کاشتکار علی مت خان پانچ ایکڑ زمین کے مالک ہیں لیکن انہوں نے صرف نصف ایکڑ زمین پر سبزیاں اور چارہ کاشت کر رکھا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پچھلے کئی سالوں سے پانی اتنا کم مل رہا ہے کہ ساری زمین تو کیا ایک ایکڑ کاشت کرنا بھی ممکن نہیں۔
 
"پہلے ہماری زمین پر اتنی گندم، مکئی، سبزی اور گنا پیدا ہوتی تھی کہ نہ صرف ہمارے خاندان کی ضروریات پوری ہو جاتی تھیں بلکہ ہم فاضل پیداوار بیچا کرتے تھے۔لیکن اب اپنے لیے بھی گندم بازار سے خرید لاتے ہیں۔"

سعدیہ رحمان، خیبر پختونخوا کے شعبہ ایگری انجینئرنگ میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر پلائنگ کے عہدے پر کام کر رہی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ اس وقت ان کے شعبے کی ذمہ داریوں میں نئی زمین کو زیرکاشت لانے کے لیے کسانوں کو زرعی مشینری کی فراہمی، ٹیوب ویلز لگانا اور انہیں شمسی توانائی فراہم کرنا شامل ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ نئی 'صوبائی حکومت کے 100 دن کی کارکردگی' کے حوالے سے وزیر اعلیٰ کو رپورٹ پیش کی گئی ہے جس کے مطابق اس دوران صوبے میں آپباشی کے لیے 56 نئے ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں جبکہ 147 ٹیوب ویلوں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا گیا ہے۔

"سولرائزیشن منصوبے میں تمام اضلاع شامل ہیں جس کے تحت ٹیوب ویل کے لیے 80 فیصد رقم حکومت دیتی ہے اور باقی 20 فیصد کاشتکار خود ادا کرتا ہے۔"

ضلع خیبر میں اکاخیل کا زیر کاشت رقبہ سب زیادہ ہے۔ یہاں کے کاشتکار سید ملی اور ان کے بھائیوں کے ٹیوب ویل پر ایک غیر سرکاری ادارے نے چار سال قبل سولر سسٹم لگا کر دیا تھا اور زیتون اور لیموں کے 420 پودوں پر مشتمل باغ لگانے میں بھی مدد کی تھی۔

"اس پانچ ایکڑ سے ہمیں سالانہ آٹھ لاکھ سے زیادہ آمدنی ہوجاتی ہے جس سے ہم چھ بھائیوں کے گھر چلتے ہیں۔"

سید ملی بتاتے ہیں کہ سولر سسٹم کو ایک بار آسمانی بجلی گرنے اور چند ہفتے پہلے ژالہ باری سے نقصان پہنچا تھا جس کی بحالی پر ڈھائی لاکھ روپے خرچ ہوئے۔ انہیں اب بھی پانی کی قلت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کا دس کنال رقبہ بنجر پڑا ہے۔

"ہمارا سولر سسٹم بار بار خراب ہونے لگا ہے۔ شاید اس میں مختلف واٹ کے پینل ہونے کے باعث اس کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے یا زیر زمین پانی زیادہ نیچے چلا گیا ہے جس کی وجہ سے ٹیوب ویل کے دو انچ پائپ سے پانی ڈیڑ ھ انچ سے بھی کم آ رہا ہے۔"

پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسویسز (پی سی آر ڈبلیو آر) کے خیبر پختونخوا میں سربراہ ڈاکٹر منیب خٹک تصدیق کرتے ہیں کہ ضلع خیبر میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے گر رہی ہے جس کی بنیادی وجہ پانی کے نئے ذخائر پر کام نہ ہونا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ خیبر پہاڑی علاقہ ہے جہاں برساتی نالوں پر کئی چھوٹے اور بڑے ڈیم تعمیر کیے جاسکتے ہیں جن سے نہ صرف سیلابی ریلوں کے نقصانات پر قابو پایاجاسکتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ذخائر کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔

محکمہ زراعت توسیع خیبر کے ڈائریکٹر ضیا ء اسلام داوڑ بتاتے ہیں کہ ضلع خیبر کے کل چھ لاکھ ساڑھے 36 ہزار سے زائد رقبے میں سے تقریباً 60 ہزار 585 ایکڑ زمین زیر کاشت ہے جبکہ پانچ ہزار 140 ایکڑ رقبے میں جنگلات ہیں۔ تاہم تحصیل باڑہ میں پانی کی قلت کے باعث فی ایکڑ پیداوار بھی کم ہو رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے بناء پر بے وقت بارشوں سے دریاؤں میں پانی کم آتا ہے جس سے زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلی گئی ہے اور کنویں خشک ہو رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

شمسی توانائی، قبائلی ضلع خیبر کے لوگوں کی تکالیف کیسے کم کر رہی ہے؟

"یہاں باڑہ ڈیم کے ساتھ پہاڑی نالوں پر چھوٹے ڈیموں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے جس سے نہ صرف آبپاشی کے لیے نہروں کو پانی ملے گا بلکہ زیرزمین پانی کی سطح بہتر ہونے سے سولر ٹیوب ویلوں پر خرچ کم اور زیر کاشت رقبے میں بھی اضافہ ہو گا۔ تیسرا فائدہ یہ ہو گا کہ لوگوں کو سولر سمرسیبل پمپ کے ذریعے پینے کا صاف پانی ہر وقت میسر آئے گا۔"

 باڑہ ڈیم کے پراجیکٹ ڈائریکٹر جلال خان بتاتے ہیں کہ نیسپاک نے 2008ء میں باڑہ ڈیم کی فزیبلیٹی رپورٹ مکمل کرلی تھی جس کے مطابق اس ڈیم کے تعمیر سے 42 ہزار ایکڑ زمین سیراب ہوگی جبکہ چھ میگاواٹ کلین بجلی بھی پیدا ہوگی۔

تاہم اس ڈیم کی تعمیر میں ابھی تک کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔

سید ملی، زرعی ٹیوب ویلوں کی سولرائزیشن کے حکومتی منصوبے سے تو لاعلم ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ میں سولر پینلز کی قیمتوں میں کمی کے باوجود غریب کاشت کاروں کے لیے ٹیوب ویل کا نیا بور کرانا آسان نہیں جبکہ سولر سسم لگانے پر چار لاکھ روپے خرچہ آتا ہے جو اُن کے بس کے بات نہیں۔

 "ہاں! اچھا سولر سولر سسٹم لگانے کے وسائل ہوں تو کاشتکار کے لیے اس سے بڑی سہولت اور کوئی نہیں۔"

تاریخ اشاعت 22 جولائی 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسلام گل آفریدی پچھلے سولہ سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.