پینتالیس سالہ عیسیٰ خان کندیاں شہر کے رہائشی ہیں۔ وہ گزشتہ 20 سال سے شہر سے چار کلومیٹر دور دور کندیاں موڑ پر گنے کے جوس اور چنے کی ریڑھی لگاتے ہیں اور روزانہ اوسطاً سات سو روپے کماتے ہیں۔ اسی سے ان کے گھر کی روزی روٹی چلتی ہے۔ ان کا گھرانہ چار بچوں سمیت چھ افراد پر مشتمل ہے۔
جس جگہ وہ ریڑھی لگاتے ہیں اس سے قریب ایک پارک کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ سابق وزیراعظم نے 2021 میں جب اس پارک کا سنگ بنیاد رکھا تو عیسیٰ خان بہت خوش ہوئے۔ ان کی خوشی کا سبب یہ تھا کہ اس پارک سے انہیں اپنے کاروبار میں ترقی کی امید تھی کیونکہ پارک میں لوگ آتے تو لامحالہ اس کے قریب ان کی ریڑھی پر فروخت بھی بڑھ جاتی۔
تاہم اس پارک کی تعمیر تاحال مکمل نہیں ہو سکی اور کاروبار میں ترقی کے حوالےسے عیسیٰ خان کی امیدیں بھی دم توڑنے لگی ہیں۔
ڈیڑھ لاکھ آبادی پر مشمل کندیاں، میانوالی سٹی کے بعد اس ضلعے کا سب سےبڑا شہری علاقہ ہے لیکن یہاں تفریح کی کوئی سہولت موجود نہیں۔
ایم ایم روڈ پر میانوالی سے مظفرگڑھ کی طرف دس کلومیٹر کے فاٖصلے پر ایک رابطہ سڑک مغرب میں کندیاں کو نکلتی ہے۔ یہاں سے شہر چار کلو میٹر فاصلے پر ہے اور مشرق میں پرانے جنگل 'کندیاں پلانٹیشن' کارقبہ شروع ہوتا ہے۔ سڑک پر یہ سٹاپ 'کندیاں موڑ' کہلاتا ہے۔
یہاں محکمہ جنگلات کی 20 ہزار ایکڑ زمین میں سے 50 ایکڑ پر پنجاب حکومت نے پارک بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پی سی ون کے مطابق پارک کی تعمیر پر لاگت کا تخمینہ تقریباً 23 کروڑ 50 لاکھ روپے لگایا گیا۔ تاہم عملاً اس کے لیے 17 کروڑ 64 لاکھ روپے مختص کیے گئے۔
پارک میں دس ایکڑ زمین پر گھاس کے قطعات بنائے جانا ہیں۔ 20 ایکڑ پر درخت اور پودے جبکہ ایک ایکڑ گلاب اور چمبیلی کے پھولوں اگانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے علاوہ دس ایکڑ پر نباتاتی گارڈن کا قیام بھی اس منصوبے کا حصہ ہے جس سے عام لوگوں کے علاوہ نباتیات (باٹنی) کے طلبہ بھی استفادہ کر سکتیں گے۔
منصوبے کے مطابق پارک میں 40 اقسام کے پھول اور پودے ہوں گے۔ بچوں کے لیے پلے ایریا، پبلک ٹوائلٹس، لوگوں کے بیٹھنے کے لیے مناسب جگہ، پینے کے پانی کی فراہمی کے علاوہ دیگر ضروری سہولیات بھی مہیا کی جانا ہیں۔
سیاحوں کے لیے انفارمیشن سنٹر، ایک فوڈ کورٹ ،چار ہٹ، چار ٹک شاپس اور پانچ پکنک شیڈز بھی اس منصوبے کا حصہ ہیں۔پارکنگ ایریا، واک ویز، باؤنڈری وال اور چھ ہزار رننگ فٹ جاگنگ ٹریک کے ساتھ اس میں عملے کے کوارٹر اور دیگر تعمیرات بھی اس میں شامل ہے۔
پنجاب فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ نے خوش خبری دی تھی کہ یہ پارک جہاں کندیاں کی خوبصورتی میں اضافہ کرے گا وہیں دس ہزار 848 مقامی لوگوں کے روزگار کا ذریعہ بھی بنے گا۔
پارک کی تعمیر اور نگرانی کے دونوں کام محکمہ جنگلات کو سونپے گئے، سب ڈویژنل فاریسٹ افسر کندیاں کو منصوبے کا فوکل پرسن مقرر کیا گیا اور پارک کی تکمیل کے لیے 30 جون 2023 کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔
منصوبے کے مطابق پارک کو دو ماہ قبل عوام کے لیے کھول دیا جانا چاہئے تھا۔لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔ اگرچہ اس کی چار دیواری اور مرکزی گیٹ مکمل ہوچکا ہے مگر احاطے کے اندر پارک نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور ہر طرف ٹف ٹائلز ، سریہ اور تار پڑے ہیں۔
پینتیس سالہ سالہ محمد دین بھی کندیاں میں رہتے ہیں۔ انہوں نے اڑھائی سال قبل یہیں کندیاں موڑ پر کھانے پینے کی اشیاء کی دکان بنائی تھی مگر چلی نہیں اور اب وہ مزدوری کرتے ہیں۔
محمد دین بتاتے ہیں کہ دن کے وقت تو کندیاں موڑ پر مسافروں کی تھوڑی بہت آمدورفت رہتی ہے۔مگر شام ہوتے ہی ویرانی چھا جاتی ہے کوئی مسافر یہاں نہیں اترتا۔تمام بسیں ویگنیں ایک کلومیٹر دور کندیاں ریلوے سٹیشن کے سامنے المعصو م اڈے پر جا کر سواریاں اتارتی ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کاروبار روز بروز گر رہا تھا تو انہیں دکان ختم کرنا پڑی۔اب پارک بنے گا تو یہاں رونق بڑھے گی۔ سیاحوں کی آمد سے ریڑھی ٹھیلے والوں کا فائدہ ہو گا اور وہ بھی دوبارہ دکانیں کھول لیں گے۔
ڈائریکٹوریٹ جنرل مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن پلانگ اینڈ ڈیویلپمنٹ بورڈ کی ٹیم نے پارک کا تعمیر کا معائنہ کر کے 15 مئی 2023ء کو اپنی رپورٹ حکام کو پیش کر دی تھی۔
سیکرٹری فنانس اورسیکرٹری فاریسٹ وائلڈ لائف اور فشریز کو ارسال کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ پارک کا 80 فیصد کام اپریل میں مکمل ہونا چاہیئے تھا مگر ایسا نہیں ہو سکا اور گزشتہ مالی سال کے دوران منصوبے کے لیے جاری کی گئی رقم کا 42.23 فیصد ہی استعمال ہو پایا ہے۔
رپورٹ کے مطابق منصوبے پر کام کی رفتار بہت سست ہے۔ زمین پر بکھرےبجلی کے تار مزدوروں کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
کندیاں میں کھیلوں کا واحد میدان جہاں گائے بکریاں اور کتے بھی کھیلتے ہیں
فیصل خان سرگودھا یونیورسٹی میں باٹنی کے طالب علم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ پارک تعلیمی لحاظ سے بہت اہم ہے کیونکہ منصوبے کے مطابق یہاں بوٹینکل گارڈن میں نا صرف پھول دار بلکہ مقامی پودے بھی بہ کثرت ہوں گے اور یہ باٹنی کے طلبہ کے لیے بڑا تحقیقی مرکز بن سکتا ہے۔
سابق وزیر جنگلات سبطین خان نے بتایا کہ فاریسٹ پارک کندیاں کے حسن میں اضافہ کرے گا۔ لیکن بد قسمتی سے حکومتوں کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں ملتا جس سے ترقیاتی منصوبے التوا کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ایس ڈی ایف او کندیاں آصف ندیم بتاتے ہیں کہ صوبائی اسمبلی تحلیل ہونے سے کام کی رفتار کم ہوئی۔ لیبر پارک میں 14 ملازمین کی ضرورت ہے جن میں مالی اور دیگر عملہ شامل ہے۔ تاہم جنوری میں جب پنجاب اسمبلی تحلیل ہوئی تو الیکشن کمیشن نے بھرتیوں پر پابندی لگا دی تھی۔ اس لیے کام مقررہ مدت میں مکمل نہیں ہو سکا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ پارک کا 60 فیصد کام ہوچکا ہے۔ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ پارک کا انفارمیشن سنٹر، ٹف ٹائل کا کام، بوٹینکل گارڈن ، پلے ایریا اور لان نامکمل ہیں۔
تعمیراتی کام کے انچارج انجینئر بشیر احمد بھی ان کی تائید کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بروقت افرادی قوت میسر آ جاتی تو پارک کا کام جلد مکمل ہوسکتا تھا۔
تاریخ اشاعت 31 اگست 2023