خیبرپختونخوا میں سرکاری سطح پر شمسی توانائی کی جانب منتقلی کے اقدامات: کیا روایتی بجلی کی مانگ کم ہو سکے گی؟

postImg

محمد فہیم

postImg

خیبرپختونخوا میں سرکاری سطح پر شمسی توانائی کی جانب منتقلی کے اقدامات: کیا روایتی بجلی کی مانگ کم ہو سکے گی؟

محمد فہیم

پشاور کے علاقے گلبہار کی رہائشی ہمامیر اپنے والدین اور ایک بہن کے ساتھ رہتی ہیں۔ چار افراد کا یہ کنبہ دو برس قبل روایتی بجلی سے شمسی توانائی پر منتقل ہوگیا ہے۔

ان کے گھر میں واپڈا کی بجلی بھی آتی ہے اور شمسی توانائی بھی ہے۔ اس طرح اب جون، جولائی اور اگست کی شدید گرمی میں کئی کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے ان کی جان چھوٹ گئی ہے۔

شدید گرمی کے ان مہینوں میں کبھی مرمتی کام کے نام پر دن بھر بجلی میسر نہیں ہوتی تو دوسری جانب جہاں بجلی ہوتی ہے وہاں کم وولٹیج کا مسئلہ رہتا ہے۔لیکن ہما کے گھر میں شمسی توانائی کے پینلز لگے ہونے کی وجہ وہ ان مسائل سے آزاد ہو گئے ہیں۔

ہما بتاتی ہیں کہ شدید گرمی میں صبح چھ سے شام چھ بجے تک گھر کے تمام کام شمسی توانائی پر کئے جاتے ہیں۔ گھر میں تین کلو واٹ کا سسٹم لگایا گیا ہے جو گھر کی لائٹس، پنکھے، واشنگ مشین اور پانی کی مشین چلانے کیلئے کافی ہے۔

"ایئرکنڈیشنر لگانے کی صورت میں ہم زیادہ لوڈ لینے والے آلات جیسا کہ اوون اور پانی کی مشین استعمال نہیں کرتے۔

ان کے گھر شدید گرمی کے موسم میں بھی بجلی کا بل دو سے تین ہزار روپے آتا ہے۔ وہ رات کے اوقات میں ہی واپڈا کی بجلی استعمال کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ شمسی توانائی پر منتقلی ہی مہنگی اور 'کمیاب' بجلی سے جان چھڑانے کا بہترین طریقہ ہے۔

انجینئرنگ یونیورسٹی پشاور میں شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ کے ڈین ڈاکٹر امجد خٹک کہتے ہیں کہ بجلی کے اخراجات کم کرنے کیلئے شمسی توانائی انتہائی ضروری ہے جس کی مدد سے دن کے اوقات میں کھپت کم کی جاسکتی ہے اور بل کو کنٹرول کیاجاسکتا ہے جبکہ بیٹری کا استعمال رات کے وقت بھی بجلی کی بچت میں مدد دیتا ہے۔

دوسری جانب شمسی توانائی کی اشیا بھی کافی مہنگی ہوگئی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ کم لوڈ کے لیے شمسی توانائی پر منتقل ہوا جائے جائے۔ گھر میں ڈی سی پنکھے اور لائٹس کا استعمال کیا جائے۔ ضروری نہیں ہے کہ ایئر کنڈیشنر کو شمسی توانائی پر منتقل کیاجائے باقی لوڈ بھی بجلی کی کھپت کا باعث بنتا ہے اور اگر ہلکا لوڈ ہی شمسی توانائی پر منتقل کردیاجائے تو تب بل کم ہوسکتا ہے ۔

خیبر پختونخوا میں سرکاری سطح پر بھی شمسی توانائی کے استعمال پر توجہ دی جارہی ہے۔ محکمہ توانائی و برقیات خیبر پختونخوا کے مطابق صوبہ بھر کی چار ہزار مساجد کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے دو ارب 41کروڑ 50 لاکھ روپے کا منصوبہ آخری مراحل میں ہے۔ مساجد کے علاوہ دیگر مذہبی مقامات کو بھی شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا منصوبہ ہے۔ اس کی لاگت کا تخمینہ 5 ارب 88 کروڑ 72 لاکھ روپے ہے۔ اسی طرح صوبہ بھر میں سرکاری سکولوں اور مراکز صحت کو بھی شمسی توانائی پر منتقل کیاجا رہا ہے اور اس پر 4 ارب 34 کروڑ 70 لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔

 خیبر پختونخوا اسمبلی سیکرٹریٹ، سول سیکرٹریٹ، ایم پی ایز ہاسٹل، سپیکر ہاﺅس، گورنر ہاﺅس، خیبر پختونخوا ہاﺅس اسلام آباد اور پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) کے دفتر کی بھی شمسی توانائی پر منتقلی جاری ہے۔

اسی طرح قبائلی اضلاع میں مساجد اور عبادت گاہوں کو 45 کروڑ کی لاگت سے شمسی توانائی پر منتقل کردیا گیا ہے جبکہ وہاں سکولوں کو ایک ارب 14کروڑ 40 لاکھ روپے کی لاگت سے شمسی توانائی پر منتقل کیا جارہا ہے۔ ان اضلاع میں اب مزید دو ہزار مساجد کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا منصوبہ بھی شروع کیاجائے گا جس کی لاگت کا تخمینہ دو ارب 84 کروڑ81 لاکھ روپے ہے۔

 خیبر پختونخوا میں مالی بحران کے پیش نظر صوبائی حکومت کو بیشتر منصوبے مکمل کرنے میں مشکل کا سامنا ہے جبکہ شمسی توانائی کے منصوبے لیٹر آف کریڈٹ نہ ہونے کی وجہ سے تعطل کاشکار ہوئے ہیں تاہم اب یہ مسئلہ بڑی حد تک حل کرلیا گیا ہے اور بیرون ملک سے منگوایا گیا بیشتر سامان موصول ہونا شروع ہوگیا ہے۔

صوبے میں بجلی کی پیدوار بڑھانے کیلئے قائم کئے گئے ادارے پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (پیڈو) کے چیف ایگزیکٹو انجینئر قاضی محمد نعیم خان نے بتایا کہ صوبہ بھر میں بجلی کی پیداوار بڑھانے کیلئے متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے جس میں بڑے ڈیم اور ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سمیت چھوٹے چھوٹے منصوبے بھی شامل ہیں۔ ایک جانب نیشنل گرڈ میں بجلی شامل کی جا رہی ہے تو دوسری طرف نیشنل گرڈ پر دباﺅ بھی کم کیا جا رہا ہے۔

صوبے بھر میں مختلف منصوبوں کی مدد سے اب تک 55 میگاواٹ کا دباﺅ نیشنل گرڈ سے کم کیا گیا ہے اور آٹھ سال بعد صوبے کی ضرورت کا ایک ہزار میگاواٹ کا دباﺅ نیشنل گرڈ سے کم کردیا جائیگا۔

قاضی نعیم کہتے ہیں کہ صوبے میں 316 منی مائیکرو ہائیڈرو پراجیکٹس بھی لگائے گئے ہیں جنہیں چھوٹے ڈیم کہا جاتا ہے۔ ان منصوبوں کی مدد سے صوبے کے دو ڈویژن ملاکنڈ اور ہزارہ کے دور دراز علاقوں میں پن بجلی گھر بنائے گئے ہیں جو شہریوں کو چار سے پانچ روپے فی یونٹ پر اپنے ہی علاقے میں ماحول دوست بجلی فراہم کررہے ہیں۔

ان منصوبوں کی مدد سے مجموعی طور پر29 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ اسی طرح مساجد، دفاتر اور سکولوں کو بھی شمسی توانائی پر منتقل کیا گیا ہے اور اس حوالے سے نو الگ الگ منصوبے مکمل کئے گئے ہیں۔ ان منصوبوں سے 26.3 میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ ان دونوں مدوں میں 55 میگاواٹ سستی اور صاف بجلی پیدا ہوکر استعمال کی جارہی ہے جو نیشنل گرڈ سے نہیں لی گئی۔

اسی طرح جنوبی اضلاع میں 100دیہات شمسی توانائی پر منتقل کئے گئے ہیں جبکہ چترال میں تین ہزار گھروں کو شمسی توانائی پر منتقل کیا گیا اور وہاں کے رہائشیوں کو تمام تکنیکی امور سمجھا دیے گئے ہیں جو خود ہی ان پیداواری یونٹوں کی دیکھ بھال کررہے ہیں اور ضرورت پڑنے پر انہیں حکومت معاونت فراہم کرتی ہے۔

پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو فضل ربی کے مطابق خیبر پختونخوا میں بجلی کا مسئلہ کم کرنے کیلئے واحد حل شمسی توانائی ہے۔ جب تک اس کو ترویج نہیں دی جائے گی اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔

صوبے بھر میں کئی ادارے ایسے ہیں جو صرف دن کے اوقات میں چلتے ہیں۔ ان میں سکول، کالجز، جامعات اور دفاتر شامل ہیں۔ اگر ان اداروں کی بجلی کی ضرورت شمسی توانائی سے پوری کی جائے تو بجلی کی مانگ میں کمی آئیگی اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ کم ہوسکے گا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

یہ اندھیرا جانے کتنوں کا اجالا کھا گیا: گلگت میں بجلی کی پیداوار میں کمی کیوں ہوتی جا رہی ہے؟

فضل ربی کے مطابق خیبر پختونخوا کے مختلف سرکاری اداروں کے ذمہ بجلی بلوں کے بقایاجات 6 ارب 90 کروڑ روپے سے زیادہ ہیں جن کی ادائیگی انتہائی ضروری ہے کیونکہ بجلی بلوں کی ادائیگی اگر سرکاری ادارے نہیں کریں گے تو پرائیوٹ اداروں کو کیسے قائل جائے گا۔ ان واجبات کی ادائیگی کیلئے سرکاری اداروں کے ساتھ ٹیمیں تشکیل دے کر بات کی جارہی ہے اور ہر ممکن کوشش ہے کہ ان کے کنکشن کاٹنا نہ پڑیں کیونکہ ان کی بجلی کاٹنے سے شہریوں کو متعلقہ اداروں کی خدمات کی فراہمی معطل ہوجائیگی۔

"ان اداروں کی شمسی توانائی پر منتقلی کے بعد وہ پیسکو کی بجلی استعمال نہیں کرینگے اور پیسکو کو ادائیگی نہیں کرنی پڑے گی۔ رواں برس بجلی چوری سمیت مختلف مدوں میں پیسکو کا خسارہ 42 فیصد سے بڑھ گیا جو کہ بہت زیادہ ہے۔"

قاضی محمد نعیم خان کہتے ہیں کہ مردان اور چارسدہ میں بہتے ندی نالوں پر چھوٹے پن بجلی گھر بنانے کا تجربہ انتہائی کامیاب ثابت ہوا ہے۔ اب اس حوالے سے منصوبہ بندی آخری مراحل میں ہے اور وسطی اضلاع یعنی پشاور، مردان، چارسدہ، صوابی اور نوشہرہ میں ان آبی گزر گاہوں پر بجلی کے پیداواری یونٹ لگائے جائیں گے۔

پختونخوا انرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی جانب سے اگلے آٹھ سالوں میں بجلی کی مقامی سطح پر پیداوار اور تقسیم کے منصوبے کم سے کم ایک ہزار میگاواٹ بجلی کا نیشنل گرڈ سے بوجھ کم کرسکیں گے اس اقدام سے شہریوں کو سستی اور ماحول دوست بجلی میسر آئے گی جبکہ نیشنل گرڈ کو بھی دباﺅ سے نکالا جا سکے گا۔

تاریخ اشاعت 18 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

محمد فہیم پشاور سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بلدیات، سماجی امور، انسانی حقوق سمیت سیاحت و آثار قدیمہ کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔ وہ پشاور میں ایک نجی یونیورسٹی میں تدریس کے فرائض بھی سر انجام دیتے ہیں۔

thumb
سٹوری

" پنجاب میں آٹے کا بحران آنے والا ہے، حکومت کے لیے اچھا نہیں ہو گا"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceبلال حبیب
thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.