سنہ 2010 میں نو سال کی عمر میں احمد خان کے جسم میں سوجن اور منہ اور ناک سے خون آنا شروع ہوا تو ان کے گھر والے گھبرا گئے۔
وہ انہیں پشاور میں ایک نِجی کلینک لے گئے جہاں لیبارٹری ٹیسٹوں کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اُن کو گردوں کا عارضہ لاحق ہے۔ اگلے دس سال احمد کے گھر والے ان کا علاج کرواتے رہے لیکن دو سال قبل ان کے گردے مکمل طور پر ناکارہ ہو گئے۔ اب انہیں ہفتہ میں دو مرتبہ ڈائیلسس (گُردوں کی صفائی) کے تکلیف دہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
اسی سلسلہ میں امسال نومبر کے وسط میں احمد پشاور میں گردوں کے علاج کے ایک سرکاری ہسپتال میں ڈائلیسس کروا رہے ہیں۔ ان کے بیڈ کے قریب ہی رکھی مضبوط پلاسٹک کی کرسی پر اُن کے 50 سالہ پریشان حال والد اس عمل کے مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ ان کی 55 سالہ والدہ انہیں اپنا ایک گردہ عطیہ کرنا چاہتی ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں گردوں کے امراض کے علاج کا واحد سرکاری ہسپتال انسٹی ٹیوٹ آف کِڈنی ڈیزیز میں پچھلے دو سال میں نہ ہونے کے برابر آپریشن ہوئے ہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف کِڈنی ڈیزیز میں ٹرانسپلانٹ کوارڈینیٹر ڈاکٹر فضل منان کہتے ہیں کہ 2007ء میں قائم ہونے والے اس ادارہ میں اگلے ہی سال گردے کے پیوند کاری کے آپریشن ہونا شروع ہو گئے اور ’’فروری 2020ء تک تین سو سے زائد پیوند کاری کے آپریشن ہوئے جن میں کامیابی کے شرح 92 فیصد ہے۔‘‘
ان کا دعویٰ ہے کہ انسٹی ٹیوٹ آف کِڈنی ڈیزیز میں گردے کے پیوند کاری بند نہیں کی گئی ’’بلکہ دو سال کے عرصہ میں اس پورے نظام کو عالمی معیار کے مطابق لانے کی کوشش کی گئی۔‘‘ اس سلسلہ میں، ان کے مطابق، پانچ کروڑ روپے عمارت پر لگائے گئے جبکہ چار کروڑ روپے کی لاگت سے لیبارٹری کے لئے جدید سامان خریدا گیا۔
لیکن دوسری طرف ایک عام تاثر ہے کہ دو سال قبل گُردوں کی پیوند کاری کے ماہر اور انسٹی ٹیوٹ آف کِڈنی ڈیزیز کے سربراہ ڈاکٹر آصف ملک کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا متبادل نہ ہونے کی وجہ سے ہسپتال انتظامیہ کو کِڈنی ٹرانسپلانٹ کے آپریشن بند کرنا پڑے۔
ڈاکٹر منان اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔
ڈاکٹر آصف ملک، ان کے مطابق، اکتوبر 2020 میں ریٹائر ہوئے تھے جبکہ اس سے آٹھ ماہ پہلے فروری 2020ء میں کورونا وبا کی وجہ سے پیوند کاری کے عمل کو عارضی طور پر روک دیا گیا تھا۔ وہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انسٹی ٹیوٹ آف کِڈنی ڈیزیز میں پیوند کاری کے ماہر عملے کی ایک مکمل ٹیم موجود ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ آف کِڈنی ڈیزیز میں گردوں کے پیوند کاری کے چار سرجن، تین نفرالوجسٹ، تین یورالوجسٹ، ایک آئی سی یو کے ماہر، ایک نشہ دینے کے ماہر سمیت آٹھ بندوں کے ٹیم موجود ہے ’’جبکہ نجی ہسپتالوں میں چار بندوں کے ٹیم ہوتی ہے۔‘‘
لیکن وہ یہ بات بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آپریشن کے عمل اور ٹیم کے نگرانی کے لئے ایک ماہر سرجن کی ضرورت ہے جو انہیں دستیاب نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسٹی ٹیوٹ آف کِڈنی ڈیزیز کو اس سال مارچ میں گُردوں کی پیوند کاری کے حوالہ سے عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر سعید اختر کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا پڑا۔ ڈاکٹر سعید اختر نے اپنی نگرانی میں گُردوں کی پیوند کاری کے 25 آپریشن کروانے کی حامی بھری۔ اس طرح اس سال جون سے دوبارہ آپریشن شروع کر دیئے گئے۔
ڈاکٹر منان کو امید ہے کہ ’’ڈاکٹر سعید کے تجربہ اور رہنمائی سے استفادہ کرتے ہوئے انسٹی ٹیوٹ آف کِڈنی ڈیزیز کا عملہ جلد ہی خود آپریشن کرنے کے قابل ہو جائے گا۔‘‘
ڈاکٹر سعید اختر کے نگرانی میں پہلا آپریشن جون میں جبکہ دوسرا آپریشن اگست میں ہوا جبکہ مزید چار مریضوں کے آپریشن کی تیاری مکمل ہے۔ تاہم میڈیکل ٹرانسپلانٹ ریگولیٹری اتھارٹی کی ٹیم نے ستمبر میں انسٹی ٹیوٹ آف کِڈنی ڈیزیز کے دورے کے دوران اسے گُردے کی پیوند کاری کے آپریشن کے لئے غیر موزوں قراد دیا۔ میڈیکل ٹرانسپلانٹ ریگولیٹری اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اس ہسپتال میں گُردوں کی پیوند کاری کے لئے درکار سٹاف تو موجود ہے ’’لیکن آپریشن کے دوران اس ٹیم کی رہنمائی اور مکمل تربیت کے لئے ماہر ڈاکٹر نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر منان کہتے ہیں کہ انسٹی ٹیوٹ آف کِڈنی ڈیزیز ایک نجی ہسپتال میں گردوں کے پیوند کاری کے عمل کے نگران ڈاکٹر شاہد علی کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کرنے جا رہا ہے جس کے تحت وہ یہاں پر ہونے والے آپریشن کی نگرانی کریں گے۔ اس وقت ڈاکٹر شاہد خیبر پختونخوا کے اُن دو سرجنز میں سے ایک ہیں جو گُردوں کی پیوند کاری کے سپیشلائزڈ (ماہر) سرجن ہیں۔
متبادل مہنگا علاج
تیس سالہ ساجد خان قبائلی ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ کے علاقے عالم گُودر کے رہنے والے ہیں۔ وہ پشاور میں حیات آباد انڈسٹر یل سٹیٹ میں اسلحہ سازی کے ایک کارخانہ میں کام کرتے ہیں۔ گذشتہ سال کے وسط میں ان کے دونوں گُردوں نے کام چھوڑ دیا تو انہیں پشاور میں ایک نجی ہسپتال، رحمان میڈیکل انسٹی ٹیوٹ، لایا گیا۔
اُن کی 22 سالہ بہن انہیں اپنا ایک گُردہ عطیہ کرنے کے لئے تیار ہوئیں تو ایک اور مسئلہ آڑے آ گیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت کی جانب سے جاری کردہ صحت انصاف کارڈ کے تحت گردے کی مفت پیوند کاری کی جا سکتی ہے۔ لیکن مئی 2018ء میں صوبے میں ضم کیے گئے وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقہ جات (جنہیں بعد میں قبائلی اضلاع کا نام دیا گیا) کے باشندوں کو تاحال یہ سہولت میسر نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ساجد نے اس سال 25 جنوری کو ایک نجی ہسپتال کو 18 لاکھ روپے ادا کر کے گردے کی پیوند کاری کروائی۔
یہ بھی پڑھیں
ہوئی صورت نہ کچھ اپنی شفا کی: خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع کے رہائشی افراد صحت سہولت پروگرام کی متعدد سہولتوں سے محروم۔
لیکن اتنا مہنگا علاج ہر مریض کے بس میں نہیں۔
انسٹی ٹیوٹ آف کِڈنی ڈیزیز گردوں میں نہ صرف صوبے بھر بلکہ ہمسایہ ملک افغانستان سے روازنہ 12 سو مریض علاج کے لئے آتے ہیں۔ گُردوں کے صفائی کے لئے 25 مشینیں کام کر رہی ہیں جو 24 گھنٹے میں 125 مریضوں کا ڈائیلسس کر سکتی ہیں۔
ڈاکٹر منان نے سُجاگ کو بتایا کہ صرف انسٹی ٹیوٹ آف کِڈنی ڈیزیز میں ہفتے میں تقریباً چار سو مریضوں کے ڈائلیسس ہوتے ہیں جن کا مستقل علاج پیوند کاری کے ذریعہ ہی ممکن ہے۔ اسی طرح پشاور سمیت صوبہ کے مختلف اضلاع میں قائم بڑے ہسپتالوں میں ڈائلیسس ہوتے ہیں ’’جس سے صوبہ بھر میں ایسے مریضوں کی تعداد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘‘
تاریخ اشاعت 16 دسمبر 2022