کینجھر جھیل میں 'فلوٹنگ سولر پینلز' سے 500 میگا واٹ بجلی کی پیداوار کا منصوبہ کیا کیا ڈبو دے گا؟

postImg

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

کینجھر جھیل میں 'فلوٹنگ سولر پینلز' سے 500 میگا واٹ بجلی کی پیداوار کا منصوبہ کیا کیا ڈبو دے گا؟

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

باون سالہ انیس ہلایو کینجھر جھیل کنارے آباد گاؤں محمد یوسف ہلایو کے رہائشی ہیں ان کے گذر بسر کا واحد ذریعہ ماہی گیری ہے۔ ان کے پاس تین کشتیاں ہیں اور وہ جھیل سے مچھلی پکڑ کر بیچتے ہیں۔ وہ اس جھیل کے تحفظ کے لیے سرگرم غیرکاری تنظیم 'کینجھر کنزرویشن نیٹ ورک' کے صدر بھی ہیں۔
انیس بتاتے ہیں کہ گزشتہ سال پتہ چلا کہ سندھ حکومت کینجھر میں تیرتا ہوا (فلوٹنگ) سولر انرجی پراجیکٹ شروع کرنے جا رہی ہے جس کی تصدیق تب ہوئی جب سندھ انوائرنمینٹل پروٹیکشن ایجنسی(سیپا) نے عوام سے رائے مانگی۔

سیپا کی ویب سائٹ پر موجود اشتہار  کے مطابق عوامی شنوائی 12 جون 2024ء کو کینجھر جھیل پر واقع محکمہ آبپاشی کے ریسٹ ہاؤس پر منعقد کی گئی جس کا اعلان اخبارات میں کیا گیا۔

اس عوامی شنوائی میں شرکت کے لیے انیس کو بھی دعوت نامہ موصول ہوا۔

انیس کے بقول عوامی شنوائی میں بتایا گیا کہ کینجھر جھیل کا پانچ فیصد رقبہ فلوٹنگ سولر پینلز کے لیے استعمال ہوگا جو نوری کے مزار کے قریب پانی پر بنائے جائیں گے۔

"مجھ سمیت اجلاس میں موجود مچھیروں اور کینجھر کے گرد و نواح کے باسیوں نے اس منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا۔"

مگر ظاہر ہے کسی کی نہ سنی گئی۔

یہ تمام لوگ آج کل سخت پریشان ہیں انہیں ہر وقت یہ فکر ستاتے جا رہی ہے کہ جھیل ان سے چھن جائے گی یا پانیوں میں ان کا آنا جانا مشکل ہو جائے گا۔

محکمہ توانائی سندھ، محکمہ آبپاشی، کراچی الیکٹرک سپلائی کمپنی (کے الیکٹرک)، سندھ ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیج کمپنی (ایس ٹی ڈی سی) اور گو انرجی پرائیویٹ لمیٹیڈ نے جون 2024ء میں ایک مشترکہ معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

"معاہدے کے تحت کینجھر جھیل پر فلوٹنگ سولر پراجیکٹ شروع کیا جائے گا جس سے 500 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی جس کو ایس ٹی ڈی سی جھیل سےتقریباً 60 کلومیٹر طویل 220 کے وی ٹرانسمشن لائن بچھا کر دھابیجی گرڈ سٹیشن تک پہنچائے گی۔ یہ بجلی کے الیکٹرک کو فرہم کی جائے گی۔"

کراچی سے 137 کلو میٹر دور، ٹھٹہ شہر کے 36 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع کلری یا کینجھر جھیل کا شمار ملک میں میٹھے پانی کی سب جھیلوں میں ہوتا ہے، تقریباً 135 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلی یہ جھیل محکمہ انہار(آبپاشی) سندھ کی ملکیت ہے جہاں سے کراچی شہر کو بھی پانی مہیا کیا جاتا ہے۔

کمپنی کی سوشو اکنامک جائزہ رپورٹ

"50 مقامی افراد کو روز گار ملے گا"

"گو انرجی" نے سیپا کو اس سولر منصوبے کے سماجی و ماحولیاتی اثرات پر مبنی جائزہ رپورٹ  جمع کرائی ہے جس کے مطابق جھیل کے کل رقبے یعنی تقریباً 33ہزار 280 ایکڑ (13468 ہیکٹر) میں سے لگ بھگ ایک ہزار 606 ایکڑ (650 ہیکٹر) علاقہ سولر پینلز کے لیے استعمال ہوگا۔

"جھیل میں دس لاکھ پینل تین حصوں میں تقسیم کر کے قصبہ نوری سے کچھ فاصلے پر لگائے جائیں گے۔ اس پر تقریباً 400 ملین امریکی ڈالر لاگت آئے گی اور یہ منصوبہ دو سال میں مکمل ہو گا۔"

گو انرجی کی طرف سے یہ ماحولیاتی و سماجی مطالعہ منصوبہ شروع ہونے سے پہلے سیپا قانون 2014ء کی شق 17 پر عملدرآمد کے ضمن میں کرایا گیا ہے۔

اس پراجیکٹ کے فوائد بتاتے ہوئے یہ رپورٹ کہتی ہے کہ سندھ میں توانائی کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ توانائی کا یہ منصوبہ فوسل فیول (کوئلہ، تیل و گیس) کی بجلی طرح مزید ماحولیاتی خرابیوں اور گلوبل وارمنگ کا باعث نہیں بنے گا۔

منصوبے سے پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت کم ہو گی جس کا فائدہ صارفین کو ہو گا جبکہ سندھ حکومت کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو گا۔

"کینجھر جھیل میں تعمیراتی کام کے دوران ڈھائی سے تین سو لوگوں کو کام ملےگا اور جب پراجیکٹ فعال ہوگا تو آپریشن، مینٹیننس کے لیے 50 مقامی افراد کو روزگار میسر آئے گا۔"

کمپنی کے چیف آفیسر عمار علی طلعت بتاتے ہیں کینجھر سولر منصوبے کی جائزہ رپورٹ سنگاپور کے ماہرین نے تیار کی ہے۔ یہ منصوبہ جھیل کے ایک چوتھائی پانی کو بخارات بننے سے روکے گا۔

"یہ ایک منفرد منصوبہ ہے جس سے زمین کی بچت اور ماحول دوست سستی بجلی پیدا ہوگی۔"

مقامی لوگوں کے مطابق صدیوں سے آباد سنیہری اور کینجھر جھیلیں دریائے سندھ کے راستہ تبدیل کرنے سے وجود میں آئی تھیں جنہیں 1950ء اور 60ء کی دہائی میں ایک بند تعمیر کر کے آپس میں ملا دیا گیا تھا۔

1976ء میں اس جھیل میں پانی گنجائش بڑھائی گئی اور اسی سال ہی اسے رامسر سائیٹ ڈیکلیئر کیا گیا۔ کینجھر جھیل کو پہاڑی نالوں کے علاوہ کلری کینال ذریعے دریائے سندھ سے پانی مہیا کیا جا تا ہے۔

لڳي اتر واءُ تـ ڪينجھر ھندورو ٿئي

ورلڈ والڈ لائف  فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق نوری کا مقبرہ اور جھیل صرف مقامی ثقافت لوک کہانیوں کا محور ہی نہیں بلکہ 50 ہزار سے زائد لوگوں کے روزگار کا ذریعہ اور سیروتفریح کا مرکز بھی ہے جہاں ہر ویک اینڈ پر 15 ہزار سے زیادہ لوگ آتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ نوری ایک مچھیری تھیں جو اتنی خوبصورت تھیں کہ ان سے 'سمہ خاندان' کے شہزادے جام تماچی کو پہلی نظر میں عشق ہو گیا۔ نوری کا یہ مقبرہ اب سندھ کے ثقافتی ورثے کا حصہ ہے۔

شاہ لطیف بھٹائی  نے تین صدیاں پہلے جھیل پر جھولتی لہروں اور سبزے کو دیکھ کر کہا تھا :

لڳي اتر واءُ تـ ڪينجھر ھندورو ٿئي

یعنی جب شمال کی ہوائیں چلتی ہیں تو کینجھر جھیل جھولا بن جاتی ہے۔

ورلڈ والڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق ستمبر 2006ء کے سروے  میں جھیل کی علاقے میں علفیہ (Poaceae)، ایزویسیا (Aizoaceae)، کیکر، ببول (Acacia nilotica)، بہان (Populus euphratica)، ٹائیفا (typha، مقامی نام کوندر)، سرکنڈا (کانی یا تیلا)، لوٹس (کنول) سمیت مختلف گروپوں کے 136 پودے پائے گئے تھے۔

جھیل کے کناروں پر کھلنے والا کنول (لوٹس) ' لارڈ وشنو' اور'لکشمی دیوی'سے منسوب ہے جس کے پھول اور پتے کئی طرح ادویات کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کنول کی جڑ جسے اردو میں کملا ککڑی اور مقامی زبان میں 'بھے'کہا جاتا ہے، سبزی کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔

انیس ہلایو بتاتے ہیں کہ ٹائیفا، سرکنڈے (کوندر/ پھوس /کانی ) سے مچھیرے اپنی جھگیاں جھونپڑیوں کی چھتیں بناتے ہیں، مرد و خواتین مل کر ان سے چٹائیاں، چھپرے، دروازوں اور کھڑکیوں کی چکیں بنا کر بیچتے اور اپنے خاندانوں کی روزی کماتے ہیں۔

لگ بھگ 24 کلومیٹر لمبی اور چھ کلومیٹر چوڑی جھیل  کا پانی 26 فٹ تک گہرا ہے۔ یہاں  دور تک پھیلی نباتات، سالانہ یہاں لاکھوں مقامی اور مہمان پرندوں کی میزبانی کرتے ہیں۔ 1988ء میں یہاں دو لاکھ پانچ ہزار پرندے گنے گئے تھے جو 2006ء میں کم ہو کر 13 ہزار760 ہو گئے تھے۔

محکمہ جنگلی حیات سندھ ہر سال سردیوں میں پرندہ شماری کرتا ہے جس کے مطابق 2020ء میں کیجھر جھیل پر 15 ہزار 274 پرندے رکارڈ کیے گئے۔ 2021ء میں یہاں 17 ہزار سے زائد پرندے دیکھے گئے تاہم گزشتہ سال 2023 میں یہ تعداد کم ہو کر پانچ ہزار 410 پر آگئی۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف نے 8-2007ء میں یہاں کی تفصیلی سٹڈی کرائی تھی۔ یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اس جھیل کے اندر اور ارد کے علاقے میں 26 اقسام کے بڑےاور 17 چھوٹے ممالیہ (جانور) پائے جاتے ہیں۔

 اسی طرح یہاں ایمفیبین(پانی اور خشکی دونوں پر رہنے والے) اور رینگنے والے جانوروں کی کئی انواع بھی موجود ہیں جن میں سے بعض انٹرنیشنل یونین آف کنزرویشن آف نیچر(آئی یو سی این) کی ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار جانوروں کی ریڈ لسٹ میں شامل ہیں۔
"50 ہزار افراد بے روز گار ہوسکتے ہیں۔"

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے مطابق کینجھر جھیل میں مچھلی کی 55 انواع (خاندان/گروپ) ریکارڈ کی گئیں جن میں سب سے زیادہ سپرینی فارمز خاندان کی 45 فیصد مجھلیاں پائی جاتی ہیں۔ میٹھا ہونے کی وجہ سے کرڑو، موراکھی اور دئیو یہاں کی پسندیدہ اور خاص مچھلیاں ہیں۔

محکمہ فشریز سندھ بتاتا ہے کہ ڈیپارٹمنٹ نے مئی 2021ء سے مئی 2022ء تک کینجھر سے تین کروڑ 41 لاکھ چار ہزار 300 روپے مالیت کی 228.7 ٹن مچھلی پکڑی۔ جھیل میں شکار کے لیے ایک ہزار350 کشتیوں کو لائسنس اور ماہی گیری کے لیے دو ہزار 265 مچھیروں کو اجازت نامے جاری کر رکھے ہیں۔

انیس ہلایو کے مطابق ویسے تو ایک کشتی کے ساتھ اس کے مالک اور دو مددگاروں کو اجازت نامے جاری ہوتے ہیں لیکن 50 فیصد شکار محکمے کے اجازت ناموں کے بغیر ہوتا ہے۔ جھیل کے گرد ونواح میں تقریباً 42 گاؤں آباد ہیں جہاں کے بیشتر لوگوں کا گذر جھیل کے وسائل پر ہی ہو رہا ہے۔

"جھیل کے وسائل سے براہ راست 50 ہزار سے زیادہ آبادی کے گھروں کے چولھے جلتے ہیں جبکہ ارد گرد آٹھ مچھلی منڈیاں جھیل کی مچھلی سے چلتی ہیں جن میں کھمبو میان، یوسف ہلایو میان، سونہری میان، کھپری میان، کھڈایوں میان، جھمپیر میان، مولڈی میان، ڈھور میان اور چلیا میان شامل ہیں ۔"

انیس کے مطابق سولر منصوبے سے صرف مچھیرے متاثر نہیں ہوں گے بلکہ یہاں کی فطری زندگی چرند پرند، مچھلی، سبزہ، پودے گھاس سب پر اثر پڑے گا۔یہ روشنی اور ماحول دوستی کا کیسا منصوبہ ہے جس کے لیے حکومت پہلے سے تنگ ہم مچھیروں کو کیوں دربدر کرنا چاہتی ہے۔"

انیس ہلایو کا کہنا تھا کہ حکومت اس جھیل کو نوری آباد اور کوٹڑی کے صنعتی اداروں سے خارج ہونے والی گندگی و زہریلے پانی سے محفوظ نہیں کر سکی مگر اب لگتا ہے کہ پورا کینجھر ہی مچھیروں سے چھیننے کا منصوبہ بنا چکی ہے۔

پاکستان فشر فوک فورم کے نوجوان چئیرمین مہران شاہ بھی انیس ہلایو سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا خیال میں یہ پانیوں پر قبضہ(اوشن گریبنگ) ہے۔ ان کا ادارہ جھیل کے اندر شمسی توانائی کا یہ منصوبہ لگانے کی مخالفت کرے گا۔

"یہ صرف مچھیروں کے روزگار اور معاشی وسائل کا معاملہ نہیں ان کے باپ دادا کی میراث اور ثقافت کا بھی مسئلہ ہے۔ اس منصوبے سے جھیل پر گزر بسر کرنے والوں سے ان کی زندگی چھن جائے گی۔"

"مچھلی ختم اور مہمان پرندے روٹھ جائیں گے؟"

محکمہ توانائی سندھ کے متبادل توانائی کے پراجیکٹ ڈائریکٹر انجنئیر محفوظ احمد قاضی بتاتے ہیں کہ سولر منصوبے پر مزید مطالعہ اور تحقیق کی جائے گی جس کے بعد تعمیراتی کام 2026ء میں مکمل ہوگا۔

ڈائریکٹر جنرل(ڈی جی) سیپا ڈاکٹر نعیم احمد مغل کہتے ہیں کہ ان کے ادارے نے ابھی سولر منصوبے کی منظوری کا حکم نامہ جاری نہیں کیا۔ جھیل میں 'فلوٹنگ سولر پراجیکٹ' پاکستان کے اندر نیا تجربہ ہے اس لیے وہ خود بھی کینجھر جھیل کا دورہ کرنے جا رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایسے منصوبوں کے لیے مشروط اجازت نام جاری کیا جاتا ہے اور کمپنیوں کو شرائط پر عملدرآمد کا پابند کیا جاتا ہے۔ ان شرائط کی مانیٹرنگ کا سیپا کا ایک نظام موجود ہے جس کی تحت ہر ماہ جائزہ لیا جاتا ہے کہ شرائط پر عمل کیا جا رہا ہے یا نہیں۔

وقار حسین پھلپوٹو، سیپا ہیڈ کوارٹر میں بطور ڈائریکٹر (ٹیکنیکل) کام کر رہے ہیں۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ کینجھر جھیل ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کا مسکن ہے۔ اگر یہاں سولر منصوبہ لگایا گیا تو امکان یہ ہے کہ پرندے یہاں سے گذرنا ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کلانکر جھیل: مچھیروں کے خاندان ہجرت پر مجبور

 "سولر پینلز سے منعکس ہونے والی روشنی کی چمک پرندوں کی آنکھوں پر پڑے گی جو ان کا یہاں سے گذرنا مشکل بنا دے گی۔ منصوبے کے ڈیزائن اور نقشے (دس لاکھ پینلز)کے تحت اس میں جھیل کا تقریباً 20 فیصد آجا ئے گا، کینجھر جھیل رامسر سائٹ میں ہے اور ہم اس معاہدے پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔"

وہ بتاتے ہیں کہ سولر پینلز سے ڈھکے ہوئے رقبے کے نیچے آبی حیات متاثر ہوگی۔ وہاں نہ مچھلی ہوگی اور نہ ہی پودے اور گھاس اگے گی۔

تاہم وہ ذرا مختلف انداز میں منصوبے کی حمایت کرتے ہیں۔

"میرے خیال میں ایک ہی جگہ پلیٹس نہ لگائی جائیں بلکہ ان کو جھیل میں مختلف جگہوں میں بانٹا جائے اس سے جھیل کے اندر اور باہر کی زندگی کم متاثر ہوگی۔"

محکمہ جنگلی حیات سندھ کے ڈپٹی کنزرویٹر ممتاز سومرو کہتے ہیں کہ سورج کی روشنی سولر پینلز کے نیچے پانی تک نہیں پہنچے گی جس کی وجہ سے جھیل کے اس حصے کا پانی گدلا رہے گا اور وہاں کی آبی زندگی سخت متاثر ہوگی۔

"کینجھر جھیل مہمان پرندوں کا اہم مرکز ہے جہاں اس منصوبے کے بعد ان کا راستہ اور خوراک متاثر ہو گی اور وہ یہاں آنا بند کر دیں گے۔"

وہ کہتے ہیں کہ صوبے میں ماحول دوست توانائی منصوبے وقت کی ضرورت ہیں تاہم اس پر کام کرتے وقت جنگلی حیات کے تحفظ کا خیال ضرور ذہن میں رکھا جائے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سینئر مینیجر کنزرویشن الطاف شیخ بتاتے ہیں کہ جھیل میں پہلے ہی پودے اور گھاس کم ہوتا جا رہا ہے۔ سولر منصوبے کی تعمیرات اور فعالی کے بعد جھیل کی نباتاتی زندگی سخت متاثر ہوگی۔

"رامسر سائٹ اور وائلڈ لائف سینکچری پر ایسے کسی بھی منصوبے سے جھیل کے قدرتی ماحول کو خطرات ہیں۔ پراجیکٹ شروع کرنے سے پہلے یہاں حیاتیاتی تنوع (بائیوڈائورسٹی) کا مطالعہ ہونا چاہیے اور  مقامی لوگوں کی رضا مندی حاصل کرنا ضروری ہے۔"

تاریخ اشاعت 9 ستمبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.