قصور کا نیا سیاسی منظر نامہ بھی روایتی خاندانوں اور پرانے چہروں کے ساتھ بن رہا ہے۔ یہاں ووٹر برادریوں کے چکر سے نکلتا دکھائی نہیں دے رہا تاہم حتمی فیصلہ پولنگ کے روز ہو گا۔
آئندہ عام انتخاب میں اس ضلعے کی چار قومی اور دس صوبائی نشستوں پر الیکشن ہو گا۔ گزشتہ الیکشن میں یہاں سے مسلم لیگ نون نے تین قومی اور چھ صوبائی نشستیں جیتی تھیں جبکہ پی ٹی آئی کے حصے میں ایک قومی اور تین صوبائی نشستیں آئی تھیں۔
ضلع قصور کے پہلے قومی حلقہ این اے 131 میں قصور شہر اور مصطفیٰ آباد کے علاقے آتے ہیں۔ اس نشست کے بڑے کھلاڑیوں میں ن لیگ کے سعد وسیم، پی ٹی آئی کے بختیار قصوری، مقصود صابر انصاری اور مہر محمد سلیم جبکہ پیپلز پارٹی کے چودھری منظور احمد شامل ہیں۔
سعد وسیم کے والد وسیم اختر ایک بار چودھری منظور سے ہارنے کے بعد مسلسل دو مرتبہ ممبر قومی اسمبلی بنے تھے۔ پچھلے عام انتخابات میں سعد وسیم نے سابق وزیر خارجہ اور پی ٹی آئی کے امیدوار سردار آصف احمد علی کو شکست دی تھی جبکہ پیپلز پارٹی کے چودھری منظور تیسرے نمبر پر آئے تھے۔
چودھری منظور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما ہیں تاہم ایک بار ایم این اے منتخب ہوئے تھے اور تین بار ن لیگ سے ہار چکے ہیں۔
بختیار قصوری سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے بھائی ہیں جو خود بھی ایک سکول سسٹم چلاتے ہیں اور عملی سیاست میں پہلی بار آئے ہیں۔ مہر محمد سلیم سابق صدر ڈسٹرکٹ بار ہیں اور خورشید قصوری کے قریبی سمجھے جاتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے تیسرے امیدوار مقصود صابر انصاری وائس چیئرمین ضلع کونسل رہ چکے ہیں اور ان کے والد غلام صابر انصاری پانچ بار ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ ان تینوں میں سے جس کو بھی ٹکٹ ملا آسان امیدوار نہیں ہو گا۔
اس نشست پر برادری ووٹ کے علاوہ پارٹی اور امیدوار کا عمومی رویہ اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں تھانے کچہری میں لوگوں کی مدد اور ضلعی انتظامیہ کا جھکاؤ بھی انتخابی عمل پر اثر انداز ہوتا ہے۔
قصور میں گزشتہ دنوں پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے کارکن دو مرتبہ احتجاج کر چکے ہیں جس میں دونوں نے ضلعی انتظامیہ پر ن لیگ کی حمایت کا الزام عائد کیا تھا۔
این اے 132 میں تحصیل کوٹ رادھا کشن اور تحصیل قصور کے دیہات اور قصبات شامل ہیں جہاں 15 سال سے ن لیگ حکمرانی کر رہی ہے۔ دیہی اور نیم شہری حلقہ ہونے کی وجہ سے یہاں ووٹر اور امیدوار کی ترجیحات مختلف ہیں۔
اس نشست پر صدر ن لیگ سابق وزیر اعظم شہباز شریف اور پی ٹی آئی کے راشد طفیل مدِمقابل ہیں۔ ن لیگ کے سابق ایم این اے ملک رشید احمد اور ان کا بیٹا مظہر رشید اس حلقے کے نیچے صوبائی نشستوں پر امیدوار ہیں۔
یہاں سے پی ٹی آئی امیدوار راشد طفیل کے والد سردار طفیل کئی بار رکن قومی اور صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد پچھلی بار راشد طفیل نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا مگر ن لیگ کے ملک رشید سے ہار گئے تھے۔
اس حلقے میں میئو، ارائیں اور انصاری بڑی برادریاں ہیں جبکہ بریلوی اور اہلحدیث مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والا ووٹ بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
شہباز شریف کو جہاں ن لیگ اور ملک رشید گروپ کی حمایت حاصل ہے۔ وہیں کوٹ رادھا کشن قصور روڈ، اوور ہیڈ برجِ و دیگر ترقیاتی منصوبے بھی ان کے کریڈٹ پر ہیں جو ووٹر پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ قدآور شخصیت اور رائیونڈ کے قریب ہونا شہباز شریف کے حق میں جائے گا۔
دوسری طرف راشد طفیل کا اصل ووٹ بنک میئو برادری ہے۔ مگر اس بار انہیں پی ٹی آئی سے ہمدردی کا ووٹ مل سکتا ہے کیونکہ شہر کے ساتھ دیہات میں بھی پی ٹی آئی کی پاپولر سپورٹ موجود ہے۔
تاہم راشد طفیل اپنی بیوی اور بیٹی پر نو مئی کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات کی وجہ سے شدید دباؤ میں ہیں۔ ان کے کورنگ امیدوار سابق بیوروکریٹ حاجی محمد ڈوگر ہیں۔
تحریک لبیک کے امیدوار منیر ساقی کے مطابق این اے 132 میں مذہبی ووٹ اہلحدیث کے احتشام الہی ظہیر، جماعت اسلامی کے راؤ اختر علی اور ٹی ایل پی میں تقسیم ہو گا۔
"اگر ٹی ایل پی، میواتی برادری کا امیدوار لے آتی ہے تو وہ مذہبی ووٹ کا زیادہ بڑا حصہ لے جائے گی، جس کا فائدہ ن لیگ کو ہو گا"۔
این اے 133 تحصیل چونیاں اور تحصیل پتوکی پر مشتمل ہے۔ یہاں بڑے کھلاڑیوں میں ن لیگ کے رانا اسحاق، آئی پی پی کے آصف نکئی اور پی ٹی آئی کے عظیم الدین لکھوی شامل ہیں اور ان میں کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
رانا اور نکئی گروپ روایتی حریف ہیں۔ اگر ن لیگ اور آئی پی پی میں کوئی سیٹ ایڈجسٹمنٹ ہوئی بھی تو امکان یہی ہے کہ دونوں حریف گروپ ایک دوسرے کے لیے سیاسی میدان خالی نہیں چھوڑیں گے۔ جس کا پہلی بار پی ٹی آئی فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
رانا محمد اسحاق تین بار ایم این اے منتخب ہو چکے ہیں۔ وہ سابق سپیکر رانا محمد اقبال کے کزن اور پتوکی سے سابق ایم این اے رانا محمد حیات کے بھائی ہیں۔
سردار آصف نکئی سابق وزیر اعلیٰ سردار عارف نکئی کے صاحبزادے ہیں۔ 2002 کے عام انتخابات میں این اے 140 اور141 سے بیک وقت ق لیگ کے پلیٹ فارم سے منتخب ہوئے۔ حتمی طور پر این اے 141 سے قومی اسمبلی میں پہنچے اور 2004 میں انہیں وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا۔
انہیں ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی وزارت بھی دی گئی۔ 2008 اور 2013 کے انتخابات میں آپ پی پی 183 سے ق لیگ کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہوئے۔ 2018 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور پی پی180 سے ایم پی اے منتخب ہوئے ۔ انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی کابینہ میں شامل کر کے کمیونیکشن اینڈ ورکس کی وزارت دی گئی تھی۔
اس حلقہ میں رانا خاندان کو ن لیگ کے علاوہ میو اور راجپوت برادری کی حمایت حاصل ہے۔ جبکہ نکئی کو جٹ اور ڈوگر برادری کا ووٹ ملتا ہے۔دیہی حلقہ ہونے کے باعث یہاں پارٹی ووٹ کافی کم رہتا ہے۔
این اے 134 میں تحصیل پتوکی کا علاقہ آتا ہے۔ اس حلقہ کا سیاسی و سماجی ڈھانچہ این اے 133 سے مختلف نہیں۔ یہاں بھی رانا اور نکئی خاندانوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے۔ اس بار بھی ن لیگ کے رانا محمد حیات اور آئی پی پی کے سردار طالب نکئی میں جوڑ پڑے گا۔
اس حلقے میں پی ٹی آئی سے کوئی بڑا نام سامنے نہیں آیا تاہم کارکنوں نے کاغذات نامزدگی جمع کرا رکھے ہیں۔
یہاں جماعت اسلامی کے امیدوار حاجی محمد رمضان کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا ووٹ انہیں پڑے گا کیونکہ یہاں پارٹی کی کوئی لیڈر شپ نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ ارائیں برادری اور مذہبی ووٹ کی حمایت سے وہ سبقت لے جائیں گے۔
صوبائی حلقوں میں سے تین، پی پی 175، 178 اور پی پی 179 پر ن لیگ کے امیدوار دو دہائیوں سے براجمان ہیں۔ ان کے پاس دھڑے اور برادری کا مضبوط ووٹ بنک ہے۔ ان میں ملک رشید احمد، ملک احمد سعید اور ملک احمد خان شامل ہیں۔
پی پی 175 سے ن لیگ کے امیدوار سابق ایم این اے ملک رشید ہیں جو پچھلے دونوں الیکشن یہاں سے جیت چکے ہیں اور اس بار انہوں نے اپنا قومی حلقہ شہباز شریف کے لیے چھوڑ دیا ہے۔
اس نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار سابق ٹکٹ ہولڈر تنویر حیات جوئیہ ہیں۔ جبکہ آئی پی پی کے امیدوار داؤد قریشی ہیں جو سابق ایم پی اے اور ریٹائرڈ بیوروکریٹ انیس قریشی کے صاحبزادے ہیں۔
پی پی 176 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار چودھری الیاس گجر دو مرتبہ ممبر صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ ان کے مدمقابل پی ٹی آئی سے مسز مزمل مسعود بھٹی اور ناصرہ میو ہیں۔
مسز مسعود اپنے شوہر مسعود بھٹی کے قتل کے بعد سیاست میں آئی تھیں جبکہ ناصرہ میو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پتوکی کی قومی نشست پر پچھلا الیکشن لڑ چکی ہیں۔ یہاں سے سابق ایم پی اے ندیم یعقوب سیٹھی بھی آزاد امیدوار کے طور پر لڑ رہے ہیں۔
پی پی 177 سے ن لیگ کے امیدوار نعیم صفدر انصاری 2008 سے مسلسل ن لیگ کے ایم پی اے چلے آ رہے ہیں۔ یہاں انصاری برادری کی اکثریت اور ن لیگ کا مضبوط ووٹ بینک ہے۔
ان کے مد مقابل پی ٹی آئی کے امیدوار قیصر ایوب شیخ آ سکتے ہیں جو پارٹی کے پرانے کارکن ہیں۔ اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے امیدوار آصف علی کھوکھر تاجر یونین کے صدر اور پارٹی کے پرانے ورکر ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
ضلع سرگودھا میں ہائی وولٹیج مقابلے مریم نواز کے مد مقابل کون الیکشن لڑے گا؟
پی پی 178 پر ن لیگ کے امیدوار ملک احمد سعید ہیں جو دو دہائیوں میں صرف ایک الیکشن ہارے ہیں۔ ان کے مد مقابل پی ٹی آئی کے امیدوار بیرسٹر شاہد مسعود ہیں جو پچھلے تین انتخابات بطور آزاد امیدوار ہار چکے ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی کے امیدوار شاہین صفدر پہلی بار الیکشن لڑ رہے ہیں۔
پی پی 179 میں ن لیگ کے امیدوار سابق ایم پی اے ملک احمد خان ہیں جو سابق وزیر اعظم میاں شہباز شریف کے معاون خصوصی رہے اور قومی سیاست میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کے مد مقابل پی ٹی آئی کے محمد حسین ڈوگر پہلے پیپلز پارٹی کے ایم پی اے رہ چکے ہیں۔
پی پی 180 سے ن لیگ کے احسن رضا اور آئی پی پی کے ریٹائرڈ کرنل ہاشم ڈوگر سیاسی دنگل سجائیں گے۔ یہ حلقہ قصور میں سب سے زیادہ موضوع بحث ہے کیونکہ یہاں ن لیگ اور آئی پی پی کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے باوجود ن لیگ کے امیدواران مظہر رشید اور احسن رضا آئی پی پی کے ہاشم ڈوگر کے خلاف کمر بستہ ہیں۔
اگر صورت حال برقرار رہی تو پارٹی یہ نشست اوپن رکھ سکتی ہے۔ ق لیگ اور پی ٹی آئی کے مشترکہ امیدوار وقاص موکل بھی اسی حلقے سے مضبوط امیدوار ہیں جو سابق ایم پی اے حسن اختر موکل کے صاحبزادے ہیں۔
سابق وزیر ریٹائرڈ کرنل ہاشم ڈوگر نے نو مئی کے واقعہ پر پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ دیا تھا اور آئی پی پی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔
ن لیگ کے ملک مظہر رشید ایم این اے ملک رشید احمد خان کے صاحبزادے ہیں جبکہ احسن رضا بھی ن لیگ کے سابق ایم پی اے ہیں۔
اسی طرح پی پی 181 میں ن لیگ کے شیخ علاؤالدین اور آئی پی پی کے راؤ شاہد قیوم میں کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔ شیخ علاؤالدین سابق رکن صوبائی اسمبلی اور بزنس مین ہیں۔
یہاں پی ٹی آئی کے امیدوار حنبل ثنا کریمی ہیں جن کے والد میاں عبد الخالق ثانی چونیاں کے تحصیل ناظم رہے۔ جبکہ آئی پی پی کے راؤ زاہد قیوم کے والد راؤ قیوم پیپلز پارٹی کے سرگرم کارکن اور ممبر صوبائی اسمبلی رہے ہیں۔
پی پی 182 پر ن لیگ کے امیدوار محمود انور چودھری، پی ٹی آئی کے عقیل اسلم اور آئی پی پی کے امیدوار پیر مختار احمد ہیں۔ محمود انور کاروباری شخصیت ہیں تاہم پہلے بھی ن لیگ کے پلیٹ فارم سے الیکشن جیت چکے ہیں۔ مد مقابل رانا عقیل پی ٹی آئی کے پرانے ورکر ہیں۔
جبکہ آئی پی پی کے امیدوار پیر مختار احمد پرانے سیاستدان اور سابق تحصیل ناظم چونیاں ہیں۔ وہ پانچ بار ایم پی اے رہ چکے ہیں اور پچھلی بار پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔
پی پی 183 اور 184 میں برادری اور دھڑے کا عنصر زیادہ ہے۔
پی پی 182 شہری آبادی پر مشتمل ہے اس لیے اس پر قومی سیاست اور امیدوار کی شخصیت اثر انداز ہوتے ہیں۔ مقامی لوگوں کی رائے کے مطابق اس حلقہ میں جیتنے والا امیدوار اکثر بدلتا رہتا ہے۔
پی پی 183 میں سابق چیئرمین ضلع کونسل سکندر حیات ن لیگ کے امیدوار ہیں جو صوبائی اسمبلی کا الیکشن پہلی بار لڑ رہے ہیں۔ وہ سابق ایم این اے رانا محمد حیات کے بیٹے اور رانا اقبال کے بھتیجے ہیں۔
ان کا مقابلہ روایتی حریف نکئی خاندان کے آصف نکئی سے ہے۔ جو آئی پی پی کے امیدوار ہیں اور کئی بار ممبر صوبائی اسمبلی متخب ہو چکے ہیں۔ اس حلقے میں پی ٹی آئی کے متوقع امیدوار رانا الماس لیاقت ہیں جو پرانے پارٹی کارکن ہیں۔
قصور کے آخری صوبائی حلقے پی پی 184 میں ن لیگ کے امیدوار سابق سپیکر پنجاب اسمبلی رانا محمد اقبال ہیں۔ ان کا مقابلہ سابق ڈی آئی جی اور آئی پی پی کے امیدوار رانا محمد اسلم سے ہو گا جو رانا اقبال کے قریبی رشتے دار ہیں اور ان کے خلاف دو الیکشن پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے لڑ چکے ہیں۔
اس نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار ذکاوت لیاقت پارٹی کے دو دہائی پرانے کارکن ہیں۔
تاریخ اشاعت 16 جنوری 2024