گرینائٹ کا لالچ ننگر پارکر میں سب کچھ کیسے تباہ کر دے گا؟

postImg

جی آر جونیجو

postImg

گرینائٹ کا لالچ ننگر پارکر میں سب کچھ کیسے تباہ کر دے گا؟

جی آر جونیجو

" قانون کے تحت کارونجھر پہاڑیوں کی پوری رینج 'ایک یاد گار' (ون مانومنٹ) ہے جس کو ٹکڑوں اور حصوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ اور نہ ہی اس (رینج) کا کوئی حصہ ممنوعہ کھدائی کے لیے دیا جا سکتا ہے۔

 اس پوری رینج (سلسلہ) کو تحفظ دینا ضروری ہے جس کی معدنیات کے لیے کھدائی نہ صرف کارونجھر کا حسن تباہ کر دے گی بلکہ ان پہاڑیوں کی ساخت کو بھی برباد کر دے گی"۔

سندھ ہائی کورٹ  کے دو رکنی بنچ نے گذشتہ سال اکتوبر میں اپنے فیصلے میں کارونجھر رینج پر کھدائی کا کام روک دیا تھا لیکن سندھ حکومت کے ذمہ داران حکم مانتے نظر نہیں آتے اور انہوں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔

دوسری طرف ماہرین ماحولیات، سندھ بھر کے دانشور، مقامی آبادی اور سیاسی وسماجی رہنما کارونجھر میں کھدائی اور پہاڑیوں کی کٹائی کی شدید مخالفت کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ حالیہ الیکشن مہم کے دوران ننگر پارکر میں تمام امیدواروں نے یہاں کی پہاڑیوں کو کٹائی سے بچانے کانعرہ سرفہرست رکھا تھا۔

 تھرپارکر کی تحصیل ننگر پارکر میں کارونجھر کا 19 کلومیٹر طویل پہاڑی سلسلہ رن آف کچھ کے شمالی حصے میں واقع ہے جو بھارتی ریاست گجرات تک جاتا ہے۔

یہ علاقہ اقوام متحدہ کے رامسر کنونشن کے تحت قائم جنگلی حیات کے لیے 1980ء میں محفوظ قرار دیے گئے علاقے 'رن آف کچھ وائلڈ لائف سینکچری'   (رامسر سائٹ) کا بھی حصہ ہے جس کو کسی کمرشل سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا نہیں جا سکتا۔

رن آف کچھ کا ریزرو ایریا ( رقبہ) سات لاکھ 92 ہزار ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے جو ضلع تھرپارکر میں مٹھی ٹاکیز سے ننگر پارکر اور ڈیپلو تک جبکہ ضلع بدین کی تحصیل ٹنڈو باگو اور تلہار کے علاقوں پر مشتمل ہے۔ تاہم اس میں کارونجھر رینج کی تقریباً 21 ہزار ایکڑ اراضی آتی ہے۔

دنیا کے 200 اہم ایکو ریجنز میں شامل اس 'محفوظ علاقے' میں زیادہ تر حصہ صحرائی وادیاں، ریتلے ٹیلوں کے درمیانی میدان، کارونجھر کی پہاڑیاں، نمکین دلدلی علاقے اور نمکین جھیلیں شامل ہیں۔ اس میں کاشتہ زرعی علاقے، ساحلی پٹی اور میٹھے پانی کی جھیلیں (ویٹ لینڈز) بھی موجود ہیں۔

پرندوں کی درجنوں انواع یہاں کی جھیلوں اور پہاڑوں میں بسیرا کرتی ہیں جن میں مور، تیتر، راج ہنس، لمبے پروں والے گدھ(لانگ بلڈ)، سفید گدھ(وائٹ بیکڈ)، مصری گدھ،لال سر والا بگلا، ماہی خور آبی پرندہ، سارس کونج، تلور، شکرا، باز اور درجنوں مہاجر پرندے خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

 ننگر پارکر اور کارنجھر کے علاقے نیل گائے، صحرائی بلی، انڈین جنگلی گدھا، نیولے، ہرن، خرگوش، سیاہ گوش، لومڑی، گیدڑ، چنکارہ ہرن، دھاری دار لکڑ بگھا، پینگولین سمیت ڈھائی درجن جانوروں کی بڑی پناہ گاہ ہیں۔ جبکہ یہ علاقے گرگٹ(چیمیلین) اور مختلف اقسام کے سانپوں سمیت درجنوں رینگنے والے کیڑوں و جانوروں کا بھی مسکن ہیں۔

2010 ء میں وزارت ماحولیات اور یو این ڈی پی نے پاکستان کے خشک زون کے سات پودوں کو 'نایاب' قرار دیا تھا جن میں سے پانچ کا تعلق تھرپارکر کے ننگر پارکر سے ہے۔

کارونجھر میں پودوں کی 154 نایاب اقسام اور پھولوں کی سیکڑوں انواع پائی جاتی ہیں جن میں طبی اہمیت کی حامل70 جڑی بوٹیاں شامل ہیں۔

یہی نہیں کارونجھر، تھرپارکر کی صدیوں پرانی تاریخ، تہذیب، روایات، لوک داستانوں، گیتوں اور ہزاروں سال پر محیط مذہبی ہم آہنگی کا بھی امین ہے۔

جیالوجسٹ اور تھر ٹیکنیکل فورم کے صدر دیال صحرائی بتاتے ہیں کہ اس پہاڑی سلسلے میں کل 109 پہاڑیاں ہیں جن میں سے 100 میں یا تو مقدس مقامات موجود ہیں یا پھر یہ پہاڑیاں مختلف عقائد کے لوگوں کے لیے مذہبی و ثقافتی اہمیت رکھتی ہیں۔

وہ کہتے ہندؤں کا تیرتھ ساڑدھرو دھام، جین مندر ننگر پارکر، بھوڈیسر مندر، بھوڈیسر مسجد جیسے آثارِ قدیمہ بھی انہیں پہاڑیوں میں آتے ہیں جن کو کاٹنے کے بجائے عالمی ورثہ قرار دے کر سیاحت سے کمایا جا سکتا ہے۔

کارونجھر  کی یہ پہاڑیاں قیمتی پتھر کی دولت سے مالا مال ہیں۔ یہاں ایڈامیلائٹ اور گرینائٹ کے وسیع ذخائر ہیں جن میں گرے، پنک ، سرخ، سفید اور کالے سمیت سات رنگوں کا گرینائٹ پایا جاتا ہے۔ چینی مٹی (چائنا کلے) بھی بڑی مقدار میں موجود ہے۔

یہی معدنی ذخائر نہ صرف یہاں کے مقدس مقامات، آثار قدیمہ، تہذیب و تمدن، سیاحت و ثقافت، جنگلات و جنگلی حیات اور ماحولیات بلکہ ان پہاڑیوں کے اپنے وجود کے لیے بھی خطرہ بن گئے ہیں۔

یہاں سے گرینائٹ نکالنے کے لیے پہلا ٹھیکہ 1988ء میں جس کمپنی کو دیا گیا تھا وہ زیادہ عرصہ کام نہیں کر پائی تھی۔  

پھر 2004ء میں ننگر پارکر کے گرینائٹ کے ٹھیکے مختلف کمپنیوں کو دیے گئے جنہوں نے پہاریوں کی کٹائی اور کھدائی جاری رکھی۔ چھبیس جولائی 2011ء کو مائنز اینڈ منرل ڈپارٹمنٹ سندھ نے گرینائٹ کے لیے یہاں ڈھائی ہزار ایکڑ رقبہ کراچی کی کمپنی کوہ نور ماربلز کو 2030ء تک لیز پر دے دیا تھا۔جس نے یہ ٹھیکہ سرکاری ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کو سب لیز کر دیا۔

پہاڑیوں کی کٹائی پر ننگر پارکر کے لوگوں نے اعتراضات شروع کر دیے جس پر کسی نے کان نہ دھرے۔ تاہم 2018ء میں احتجاج میں شدت آئی تو حکومت نے یہاں کام بند کرادیا اور مقامی لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش بھی کرتی رہی۔ لیکن 2019ء میں سندھ ہائیکورٹ نے ایک درخواست پر حکم امتناع جاری کر دیا۔

تھر کے صحافی نندلال لوہانو بتاتے ہیں کہ 2021ء میں پہاڑوں کی کٹائی اچانک دوبارہ شروع ہوئی تو میڈیا پر شور مچ گیا تھا جس پر مقامی سول جج کرم علی شاہ  نے نوٹس لیا اور 28 دسمبر کوہ نور کمپنی کے علاوہ ایف ڈبلیو او، رینجرز، مائننگ، جنگلات،ماحولیات، پولیس، ثقافت، آثار قدیمہ سمیت 14 محکموں کے حکام کو طلب کر لیا۔

"عدالت نے مائننگ کمپنی کو متعلقہ محکموں کے این او سی پیش کرنے کا حکم دیا مگر وہ دستاویزات پیش نہیں کر سکی جس پر جج نے پہاڑوں کی کٹائی روکنے کا حکم جاری کر دیا"۔

عدالت نے مارگلہ ہلز کیس کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا کہ "کارونجھر محض پہاڑ نہیں بلکہ اجتماعی معاشی ذریعہ ہے۔ یہ پہاڑی سلسلہ سیاحت، ثقافت، مذہبی عقیدت، آبپاشی، دفاع، جنگلی حیات سمیت کئی حوالے سے اہم ہے۔ پہاڑ کو کاٹنے کا مطلب ننگر پارکر کے دو لاکھ لوگوں کی زندگی کے ذرائع کو کاٹنا ہے"۔

سول جج اینڈ جوڈیشل مجسٹریٹ ننگر پارکر نے فیصلے میں قرار دیا کہ کارونجھر کو کاٹنے کا مطلب ایک ایسی مرغی کو ذبح کرنا ہے جو سونے کا نہیں بلکہ ہیرے کا انڈا دیتی ہے۔

تھرپارکر میں کہاوت ہے کہ "کارونجھر روزانہ سوا سیر سونا اگلتا ہے۔" جس سے مراد ان پہاڑیوں میں بڑے پیمانے پرموجود شہد کے چھتوں، جڑی بوٹیوں اور درختوں سے ہونے والی مقامی لوگوں کی آمدنی ہے۔

ننگر پارکر کر رہائشی بشیر کھوسو بتاتے ہیں کہ اس معاملے پر تازہ تکرار محکمہ معدنیات سندھ کے 23 اور 24 جولائی 2023ء کو شائع ہونے والے اشتہارات سے شروع ہوئی جس میں کارونجھر کی 17 سائٹس پر گرینائٹ نکالنے کے لیے ٹینڈر طلب کیے گئے تھے۔ اس پر مقامی لوگوں، سیاستدانوں اور دانشوروں نے شدید احتجاج کیا تو حکومت کو نیلامی منسوخ کرنا پڑی۔

 تھرپارکر سے منتخب نمائندوں ڈاکٹر مہیش کمار ملانی، ارباب لطف اللہ اور قاسم سراج سومرو کا موقف تھا کہ کارونجھر کی پہاڑیاں کاٹنے سے یہاں کے ایکو سسٹم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچےگا۔

اس سلسلے میں سابق ڈپٹی کمشنر تھرپارکر لال ڈنو منگی نے بھی ڈی جی معدنیات کو متعدد خط لکھے تھے جن میں ان پہاڑیوں کی لیز پر مکمل پابندی لگانے کی تجویز دی گئی تھی۔

تاہم اس وقت کے صوبائی وزیر معدنیات شبیر علی بجارانی کی دلیل تھی کہ کارونجھر رینج میں مجموعی طور پر گرینائٹ کے 26 بلین ٹن ذخائر ہیں جبکہ محکمے نے تاریخی مقامات دور کچھ علاقے لیز پر دینے کا فیصلہ کیا ہے جہاں سطح زمین پر 10.6 بلین ٹن گرینائٹ کے ذخائر ہیں۔

اس حوالے سے محکمہ معدنیات کے ایک افسر نے اپنا نام راز میں رکھنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت نے شدید عوامی ردعمل پر نیلامی تو منسوخ کر دی ہے لیکن محکمے کے حکام پہاڑیاں ہر صورت میں لیز پر دینے کے لیے بضد ہیں جس پر افسران میں بھی اختلافات پائے جاتے ہیں۔

مذکورہ افسر بتاتے ہیں کہ اگست میں جب ڈی جی مائینز اینڈ منرلز نے تھرپارکر، جامشورو اور ٹھٹھہ کے 30 ٹھیکوں کی توسیع کے لیے اجلاس طلب کیا تو اختلافات کے باعث منرل ایسوسی ایشن، انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی اور مائنز ریجنل آفس کے نمائندے اجلاس میں شریک ہی نہیں ہوئے جس کی وجہ سے توسیع کا فیصلہ نہیں ہو سکا تھا۔

تاہم اشتہارات کے بعد تھر کے رہائشی وکیل شنکر لال مینگھواڑ نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا جبکہ منور علی ساگر و دیگر کی درخواست 2021ء سے زیر التوا تھی۔ عدالت عالیہ کے جسٹس شفیع صدیقی اور جسٹس ارشد حسین خان پر مشتمل بنچ نے دونوں درخواستوں کی ایک ساتھ سماعت کی اور 16 اکتوبر 2023ء کو فیصلہ سنا دیا۔

 سندھ ہائی کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ یہ پہاڑیاں مقامی لوگوں کے لیے روزگار کا وسیلہ اور تہذیبی ورثہ ہیں جنہیں کاٹنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

 عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ ملک کے 26 مقامات یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج لسٹ کا حصہ ہیں جن میں ننگر پارکر کی لینڈ سکیپ یا یہاں کے جین مندر بھی شامل ہیں۔ جبکہ پاکستان کے یو این کنونشن کا دستخط کنندہ ہونے کے باوجود اس پر عمل نہیں ہوا ہے۔

 عدالت نے اس عالمی ورثے کی فوری بحالی، کارونجھر کی پہاڑیوں پر شجر کاری کرنے اور ہر تین ماہ بعد رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔ بنچ نے فیصلے میں تنبیہہ کی کہ اگر اس پہاڑی سلسلے میں کسی قسم کی مائننگ دیکھی گئی تو سیکرٹری معدنیات، ڈپٹی کمشنر ، ایس ایس پی تھرپارکر ودیگر متعلقہ حکام ذمہ دار ہوں گے اور انہیں نتائج بھگتنا پڑیں گے۔

تاہم چند روز بعد سندھ کی نگراں حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی جو زیرالتوا ہے۔ ساتھ ہی نگراں وزیر قانون عمر سومرو نے دعویٰ کیا کہ کارونجھر کے نام پر عدالت (ہائیکورٹ) کو گمراہ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

کارونجھر کے 'زندہ' پہاڑ: گرینائٹ کی کان کنی کیسے ایک تاریخی پہاڑی سلسلے کی بقا کے لئے خطرہ بن گئی ہے۔

گزشتہ ماہ انکشاف ہوا کہ محکمہ معدنیات نے ایک سمری تیار کی ہے جس میں تجویز دی گئی ہے کہ کارونجھر کی پہاڑیوں کو 'پروٹیکٹڈ ایریا' سے نکال دیا جائے۔ وزیر معدنیات خدابخش مری کا اصرار ہے کہ تہذیبی اور مذہبی مقامات کو چھوڑ کر باقی علاقے سے پتھر نکالا جائے گا۔

"کارونجھر کے ارد گرد 20 ہزار 874 ایکڑ زمین رامسر سائٹ میں شامل ہے جس سے گرینائٹ نکالنے میں سخت رکاوٹیں ہیں۔ اس لیے ہمارا موقف ہے کہ اس اراضی میں سے 20 ہزار ایکڑ رقبہ محکمہ جنگلات کو ڈی نوٹفائی کر دینا چاہیے"۔

اس سمری کی تیاری سے قبل جب مختلف متعلقہ محکموں سے رپورٹ لی گئی تو سیکرٹری جنگلات و جنگلی حیات سید نجم شاہ نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مجوزہ اقدام سے نقصان ہوگا اس لیے کارونجھر کو ' محفوظ علاقہ' برقرار رکھا جائے۔

کیس کے مدعی اور وکیل شنکر مینگھواڑ بتاتے ہیں کہ حکومت سندھ نے مائینز اینڈ منرلز ایکٹ 2021ء کے تحت ٹینڈر طلب کیے تھے جبکہ اسی قانون کی شق تین میں لکھا ہے کہ کوئی ایسی لیز گرانٹ ہی نہیں کی جا سکتی جس سے قدرتی وسائل، آثار قدیمہ اور ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوں۔

کارونجھر سجاگ فورم کے سربراہ اللہ رکھیو کہتے ہیں کہ ان پہاڑیاں سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے جہاں سے سالانہ دو ارب روپے کی زرعی آمدن ہوتی ہے۔ لیکن اگر کارونجھر ہی نہ رہا تو یہاں زندگی اجیرن ہو جائے گی۔

 سجاگ فورم ہی کے رکن ذوالفقار کھوسو کا کہنا تھا کہ کارونجھر صرف سیاحتی مقام نہیں بلکہ آبپاشی کا واحد ذریعہ ہے جہاں تعمیر کیے گئے چھوٹے ڈیم 20 سے زائد ندی نالوں کو بارشوں کا پانی فراہم کرتے ہیں۔
 
وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف ورلڈ بینک سے پانچ ارب روپے قرض لے کر ڈیم بنائے گئے اور دوسری طرف کارونجھر کی ایکالوجی تبدیل کی جا رہی ہے۔ پہاڑیوں کی کٹائی سے ڈیموں میں پانی کی آمد ہی رک جائے گی جس سے یہاں زیر کاشت زمینیں بنجر اور ماحول تباہ ہو جائے گا۔
 
جیالوجسٹ دیال صحرائی کا دعویٰ ہے کہ ننگر پارکر کی زمینیں باقی تھر سے اس لیے زرخیز ہیں کہ پہاڑی نالوں کا پانی پوٹاشیم اور دوسری معدنیات ساتھ لاتا ہے۔ پہاڑوں میں ساختی تبدیلی سے سلسلہ بند ہو جائے گا جس سے زمین کی زرخیزی بھی ختم ہو جائے گی۔

 وہ کہتے ہیں کہ کارونجھر کے قرب و جوار کے ہزاروں لوگ مختلف درختوں سےحاصل ہونے والی گوند ( گگر اور کھونئر)، شہد اور قیمتی جڑی بوٹیوں سے روزی روٹی کماتے ہیں۔ اسی طرح یہاں لاکھوں کی آبادی زراعت و مویشی پروری سے وابستہ ہے جن کا انحصار انہیں پہاڑوں پر ہے۔

 "ہمارے لیے بہتر یہی ہو گا کہ گرینائٹ کے لالچ میں سب کچھ تباہ کرنے کی بجائے تاریخی، مذہبی و تہذیبی ورثے اور اپنے لوگوں کو تحفظ دیا جائے۔ ساتھ ہی عالمی برادری سے وعدے پر عمل کرتے ہوئےکارونجھر کو صحیع معنوں میں ورلڈ ہیریٹیج بنایا جائے"۔

لوک سجاگ نے 7 اکتوبر 2023 کو اس حوالے سے ایک ویڈیو بھی تیار کی تھی۔

تاریخ اشاعت 23 فروری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

جی آر جونیجو کا تعلق تھرپارکر سے ہے۔ وہ گذشتہ پانچ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ سیاست، ماحولیات، تعلیم، کلچر، انسانی حقوق اور پسماندہ طبقوں کو درپیش مسائل سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.