جامشورو تھرمل پاور سٹیشن زرعی زمینیں نگل گیا، "کول پاور پراجیکٹ لگا کر سانس لینے کا حق نہ چھینا جائے"

postImg

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

جامشورو تھرمل پاور سٹیشن زرعی زمینیں نگل گیا، "کول پاور پراجیکٹ لگا کر سانس لینے کا حق نہ چھینا جائے"

اشفاق لغاری

loop

انگریزی میں پڑھیں

بھہتر سالہ محمد عثمان، ضلع جامشورو میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے یونین کونسل رائلو(سابقہ نام پٹارو ) کے گاؤں چاکر خان راجڑ میں رہتے ہیں۔ بڑھاپے اور مشکلات کے بوجھ نے ان کی کمر جھکا دی ہے۔ پھیپڑوں میں پانی بھر چکا، بولتے اور چلتے ہوئے سانس اکھڑ اکھڑ جاتی ہے۔

ان کے مصائب کی کتھا جامشورو تھرمل پاور سٹیشن( ٹی پی ایس) کے گرد گھومتی ہے جس کی وجہ سے ان کی سونا اگلتی زرعی زمینیں ان کے سامنے برباد ہوتی رہیں مگر وہ کچھ نہیں کر پائے۔

محمد عثمان اپنی ہر بات 1988ء سے شروع کرتے ہیں جب جامشورو ٹی پی ایس کی تعمیر کا کام شروع ہوا۔

وہ بتاتے ہیں کہ تھرمل پاور پلانٹ نے 1989ء میں پیداوار شروع کی تو کمپنی نے مشینوں اور بوائلر سے خارج ہونے والے پانی (ویسٹ واٹر) کی نکاسی کے لیے کوئی ڈرین نہیں بنائی تھی۔

"انہوں نے گندہ پانی پلانٹ کے ساتھ کی زمین میں چھوڑ دیا۔ پلانٹ سے تھوڑا فاصلے پر میری 250 ایکڑ اراضی شروع ہوتی ہے۔سرکاری زمین جوہڑ بن گئی تو یہ پانی آہستہ آہستہ میری زمین کو برباد کرتا چلا گیا۔"

محمد عثمان 'ریکارڈ کے پکے' ہیں۔ وہ عدالتی فیصلوں، مختلف اوقات میں ہونے والے سروے کی رپورٹوں، کمشنر، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر اور مختیارکار کے دفتری کاغذات سمیت سب فائلیں گود میں لیے بیٹھے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے کوئی عدالت نہیں چھوڑی، ہر وہ دروازہ کھٹکھٹایا جہاں انہیں اپنی اراضی یا نقصان کا ازالہ ہونے کی تھوڑی سی بھی امید نظر آئی مگر کہیں انصاف نہیں ملا۔

ان کہنا تھا کہ وہ تقریباً 42 مقدمات بھگت چکے ہیں جو کمپنی کے ٹھیکیداروں نے عدالتوں سے رجوع کرنے پر ان کے اور ان کے پانچ بیٹوں کے خلاف درج کرائے تھے۔ انہیں ججوں اور تھانیداروں کے پورے پروفائل تک یاد ہیں۔

"اب ہم دیکھ رہے ہیں یہاں ٹی پی ایس کے احاطے میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والا کارخانہ (کول پاور پلانٹ) بھی لگ رہا ہے۔ پتا نہیں وہ کون کون سی تباہی لائے گا ؟"

جامشورو ٹی پی ایس کے ڈرین سے یونین کونسل رائلو ( پٹارو ) کے صرف ایک گاؤں کی نہیں بلکہ پانچ دیہات کی زمینیں تباہ ہو چکی ہیں جن میں گاؤں چاکر خان راجڑ، گاؤں رمضان راجڑ، بیگو خان میرجت، امام بخش برفت اور گاؤں صدیق راجڑ شامل ہیں۔

پلانٹ  کراچی سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور جامشورو ٹاؤن کے شمال میں انڈس ہائی وے (این-55) پر واقع ہے جو تھرمل پاور سٹیشن، وفاقی حکومت کی ملکیت ہے۔ اسے وزارت توانائی(پاور ڈویژن) کے ماتحت ادارہ جامشورو پاور جنریشن کمپنی (جینکو-1) چلا رہی ہے۔

واپڈا نے جامشورو سے 12 کلومیٹر پر کوٹری  کے صنعتی علاقے میں پاکستان کا گیس سے چلنے والا پہلا پاور سٹیشن ( جی ٹی پی ایس) لگایا تھا جس کی 1981ء اور 1994ء میں توسیع کی گئی۔ یہ پلانٹ 144 میگا واٹ (انسٹالڈ کپیسٹی) بجلی بنانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ یہاں دو یونٹ 70- 1969ء سے موجود تھے جو بہت پہلے ریٹائر کر دیے گئے تھے۔

واپڈا نے دوسرا پلانٹ جامشورو شہر کے قریب 1989ء اور 1991ء کے درمیان لگایا جس کی انسٹالڈ کپیسٹی 850 میگاواٹ ہے اور اسے جامشورو ٹی پی ایس کہا جاتا ہے۔

1999ء میں واپڈا کے زیرانتظام  جامشورو پاور کمپنی لمیٹڈ (جینکو- ون) بنا کر کوٹری اور جامشورو کے پاور پلانٹس اس کمپنی کو دے دیے گئے تب سے یہ دونوں پلانٹ جینکو ون کی ملکیت ہیں۔

لائسنسنگ گروپ  کے خیال میں سٹیم پاور (تھرمل) پلانٹ کی عمر لگ بھگ 30 سال اور گیس ٹربائن جنریشن یونٹ کی مفید مدت 20 سے 25 سال ہوتی ہے۔ اس لیےکوٹری پاور سٹیشن کی کہانی ختم ہوگئی جو چار برس سے مکمل ڈی کمیشنڈ(ریٹائر)ہو چکا ہے۔

 لیکن جامشورو تھر مل پاور سٹیشن کی نئی داستانیں سامنے آرہی ہیں۔

محمد عثمان راجڑ بتاتے ہیں کہ پہلے جامشورو ٹی پی ایس کی ڈرین بنائی ہی نہیں گئی تھی جب وسیع علاقے کو گندے پانی گھیر لیا تو لیول اور لائننگ کیے بغیر ایک کچا نالہ (ڈرین) بنا دیا گیا جو چند میل کے فاصلے پر دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔

"جب دریا میں پانی سطح بلند ہوتی ہے تو یہ 'جوہڑ نما' نالہ پیچھے کی طرف بہنے لگتا اور اوور فلو ہو کر ارد گرد کی آبادیوں کو ڈبو دیتا ہے۔"

ساڑھے آٹھ سو  میگا واٹ صلاحیت کے حامل جامشورو ٹی پی ایس میں چار یونٹ نصب ہیں جن میں سے پہلے کی انسٹالڈ کپیسٹی 250 میگا واٹ ہے جو فرنس آئل پر چلتا ہے۔ تین فرنس آئل اور گیس پر چلتے ہیں جن کی کل کپیسٹی دو، دو سو میگا واٹ تھی۔ اس تھر مل پاور سٹیشن پیدا واری صلاحیت اب زیادہ سے زیادہ 675 میگا واٹ رہ گئی ہے۔

جامشورو تھرمل پاور کی تباہ کاری

محکمہ انہار سندھ کا دستیاب ریکارڈ بتاتا ہے کہ جامشورو ٹی پی ایس کا یونٹ نمبر ایک 1994ء سے محکمے سے ایک ارب 41 کروڑ 91 لاکھ 20 ہزار کیوبک (مکسر) فٹ پانی لے رہا ہے اور اس کی ادائیگی کر رہا ہے۔2022ء کے آخر تک اس مد میں ٹی پی ایس کے ذمہ 19کروڑ 11 لاکھ 77ہزار سے زائد رقم واجب الادا تھی۔

ریکارڈ کے مطابق ٹی پی ایس کے چھ یونٹ 1999ء سے مسلسل آٹھ ارب85 کروڑ53 لاکھ آٹھ ہزار 800 گیلن پانی سالانہ استعمال کر رہے ہیں جو ویسٹ کی شکل میں کئی آلودگیوں کو ساتھ لیے اس ڈرین (کچا نالہ) میں گرتا ہے۔

کمپنی انتظامیہ سے ملنے والے اعداد و شمار تصدیق کرتے ہیں کہ تھرمل پاور کے اگر چار یونٹ چل رہے ہوں تو یہاں سے ایک ہزار 215 میٹرک ٹن فی گھنٹہ واٹر ویسٹ ( پانی) خارج ہوتا ہے۔

غلام نبی راجڑ، مقامی زمیندار اور یونین کونسل رائلو سے ضلع کونسل کے منتخب رکن ہیں اور خود بھی متاثرین میں شامل ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ٹی پی ایس کے زیریلے پانی سے پانچ سے لے کر 250 ایکڑ زمین کے درجنوں زمین مالکان متاثر ہوئے ہیں۔

"جن لوگوں کا واحد ذریعہ روزگار زراعت تھی وہ اراضی بنجر ہونے کے بعد نقل مکانی کر گئے۔ بعض زرعی رقبوں میں 40 سال، تو کچھ زمین میں 20 سال سے پانی کھڑا ہے اور کچھ اراضی پانچ سال سے زیر آب ہے جو اب زہریلے مواد کی وجہ سے بانجھ ہو چکی ہے۔"

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت 25 ہزار سے زیادہ آبادی، پلانٹ کی نکاسی والے آلودہ پانی کے درمیان رہ رہی ہے۔ یہاں نہ صرف لوگ بلکہ مال مویشی بھی بیماریوں کا شکار ہیں۔

" کوئی عدالت اور دفتر ایسا نہیں جہاں ہم نے شکایت نہ کی ہو۔ بالآخر 94/1993ء میں ہماری آواز حکمرانوں اور کمپنی کانوں تک پہنچ گئی اور فیصلہ ہوا کہ زرعی زمین کے مالکان کو فصل کے حساب سے فی ایکڑ پانچ ہزار روپے ششماہی ادا کیے جائیں گے۔ تاہم یہ رقم بھی متاثرین کو صرف ایک دو سال ملی۔"

محمد عثمان راجڑ اپنے پڑوسی کی بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سروے کے بعد انہیں دو فصلوں کی تین قسطوں کے تقریباً 15 لاکھ روپے ملے تھے۔ چیک تھرمل پاور کا لینڈ ایکوزیشن افسر جاری کرتا تھا۔

"ہماری زمیںیں کمپنی کے مطابق کل تو متاثر تھیں لیکن آج جب کل سے زیادہ زہریلے پانی کھڑا ہے۔ ہمیں معاوضہ کیوں نہیں دیا جا رہا؟ "

غلام نبی راجڑ بتاتے ہیں کہ کچا نالا کبھی ایک تو کبھی دوسری جگہ سے ٹوٹ جاتا ہے۔ لوگوں کے شور مچانے پر اس کا 25 فیصد حصہ 2007ء اور 2018ء میں پکا کیا گیا لیکن حالات وہی ہیں۔

عثمان راجڑ کہتے ہیں کہ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ جب سے یہ نالہ بنا اس کی کبھی مرمت ہوئی نہ صفائی، ہر دس پندرہ قدم پر اس میں شگاف ہے۔

"آپ کو ہر طرف پانی ہی پانی نظر آئے گا۔ کسی زمانے میں ہم بڑے زمیندار تھے میرے پاس 40 سے زیادہ ہاری تھے جو زمین پر کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے۔ کنکی، جوار، باجرا، کپاس اور سبزیاں اگتی تھی۔ اب بس یادیں رہ گئی ہیں۔ اجداد کی زمینیں اور قبرستان چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔"

 تاہم جامشورو پاور کمپنی لمیٹڈ کے ریذیڈنٹ انجنئیر(آپریشنز) عبدالغنی جمالی کا موقف ہے کہ جب پلانٹ پر کام شروع ہوا تو زمین کے مالکان یا متاثرین کو طے شدہ رقوم مل چکی ہیں۔

 "نکاسی ڈرین کی دریا تک لمبائی تقریباً پانچ کلومیٹر ہے جس میں ٹریٹمنٹ پلانٹ کا صاف پانی جاتا ہے۔ تاہم پلانٹ بند ہونے کے باعث 2021ء کے بعد سے اس میں پانی نہیں چھوڑا جا رہا۔"

تاہم وہ  اعتراف کرتے ہیں کہ 1990ء سے تین سال پہلے تک نالے میں مسلسل پانی چھوڑا جاتا رہا ہے۔

جمالی کے مطابق متاثرین کو تمام ادائگیاں ڈپٹی کمشنر جامشورو کے ذریعے ہوتی ہیں اور سروے وغیرہ بھی ریونیو ڈیپارٹمنٹ ہی کرتا ہے۔

اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر جامشورو ریاض احمد وسان سے موقف لینے انہیں تحریری سوالات بھی بھیجے گئے مگر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

جامشورو میں 2012ء کے بعد چار سال ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر رہنے والے افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کمپنی نے نہ تو متاثرہ زرعی زمین کا کوئی سروے کرایا اور نہ ہی ادائیگیاں کیں۔ کمپنی کے خلاف مقامی زمینداروں کی شکایتیں آتی رہتی تھیں۔
ان کا خیال ہے کہ کمپنی کارپوریٹ سوشل ریسپانبلٹی(سی ایس آر) کی رقم ڈپٹی کمشنر کے دفتر جمع کراتی رہی ہوگی۔

زیر آب یا متاثرہ زمینیوں کا جائزہ لینے کے لیے سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر سول جج جامشورو نور احمد چانڈیو کی سربراہی میں ضلعی انتظامیہ، تھرمل پاور حکام اور محکمہ ریونیو کے افسران پر مشتمل ایک چھ رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی۔

اس کمیٹی نے جون 2018ء میں ہائی کورٹ میں رپورٹ جمع کرائی جس کے مطابق جامشورو تھرمل پاور کے اخراج سے دیہہ بادہ ریتی (یوسی رائلو) کی 180 ایکڑ زمین متاثر ہوئی ہے۔

جبکہ غلام نبی راجڑ ودیگر زمیندار اس سروے کے اعداد وشمار درست تسلیم نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ نکاسی کے پانی سے متاثرہ زمین دو ہزار ایکڑ سے زیادہ ہے۔

 تھرمل کے ساتھ اب کول پاور پراجیکٹ

جینکو ون کی زیر نگرانی جامشورو ٹی پی ایس کے احاطے ہی میں اب 1320 میگا واٹ کپیسیٹی کا کول پاور پراجیکٹ  زیر تعمیر ہے جس کے دو یونٹس ہیں اور ہر ایک 660 میگا واٹ بجلی پیدا کرے گا۔ اس سے جینکو ون کی مجموعی انسٹالڈ کپیسٹی دو ہزار 170 میگاواٹ ہو جائے گی۔

کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود اس منصوبے کی تفصیلات کے مطابق اس پاور پلانٹ میں 80 فیصد درآمدی اور 20 فیصد تھر کا کوئلہ استعمال کیا جائے گا۔

ڈیڑھ ارب ڈالر کے اس کول پاور منصوبے میں جینکو کے ساتھ ایشیائی ترقیاتی بینک بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

جامشورو ٹی پی ایس میں کول پراجیکٹ لگانے کےلیے ایشیائی ترقیاتی بینک  کے تعاوں سے2013ء میں اس منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کا جائزہ لیا گیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق مقامی لوگوں نے کول پراجیکٹ کی تنصیب سے متعلق جن خدشات کا اظہار کیا ان میں سرفہرست یہاں سے خارج ہونے پانی سے زرعی زمینوں اور مال مویشی پر پڑنے والے اثرات ہیں۔

یہ رپورٹ تصدیق کرتی ہے کہ جامشورو ٹی پی ایس کی نکاسی کا پانی کھلے نالے سے گزرتا ہے اور مقامی لوگوں(کمیونٹیز) کی زرعی زمینیں کمپنی کے نکاسی کے نالے میں آگئی ہیں۔ زمینداروں نے شکایت کی ہے کہ آلودہ پانی سے ان کی زمینوں میں سیم و تھور ہوگیا ہے۔

جائزہ رپورٹ میں تجویز دی گئی تھی کہ ڈرین نالے کو پکا کیا جائےمگر 2013ء سے 2024ء تک تقریباً گیارہ سالوں میں یہ نالا پکا نہیں ہوا۔

رپورٹ کے مطابق محکمہ انہار نے نئے کول پاور منصوبے کے لیے 40 کیوسک پانی رکھا ہے جو دریائے سندھ سے لیا جائے گا۔ یہ پانی لینے کے لیے 16 پمپ لگائے جائیں گے جن سے پلانٹ اور رہائشی کالونی کے لیے پانی کی ضرورت پوری کی جا سکے گی۔

ریزیڈنٹ انجنئیر(آپریشنز) ٹی پی ایس جامشورو کہتے ہیں کہ کوئلے کے پلانٹس ابھی فعال نہیں ہوئے تاہم ان کا اخراج بھی اسی نالے میں ہو گا۔ جس کے ممکنہ اثرات پر وہ ابھی کوئی رائے نہیں دے سکتے۔

ریزیڈنٹ انجنئیر(آپریشن) جامشورو پاور کمپنی لمیٹیڈ عبدالغنی جمالی بتاتے ہیں کہ جامشورو ٹی پی ایس کے پاس کل 885 ایکڑ زمین ہے جس میں 500 کلو واٹ کا گرڈ سٹیشن اور رہائشی کالونی موجود ہے جبکہ کول پاور پراجیکٹ کے دونوں یونٹس بھی اسی میں لگ رہے ہیں۔

جامشورو پاور ہاؤس جنریشن پراجیکٹ کے ایمپلی مینٹیشن  یونٹ کی تازہ ترین جائزہ رپورٹ کے مطابق کول یونٹس کے لیے اضافی زمین درکار نہیں ہو گی۔ صرف کوئلے کی راکھ کے لیے تالاب(ایش پانڈز)بنائے جائیں گے جس کے لیے 100 ایکڑ رقبہ چاہیے ہو گا۔

"یہ زمین دیہہ موڑہا جبل میں سندھ حکومت سے مارکیٹ قیمت میں خریدی جائے گی جو 15 لاکھ روپے ایکڑ ہےاور اس کے لیے کاغذی کارروائی مکمل ہو چکی ہے۔ دو اگست 2022ء کو سندھ کابینہ نے اس زمین کی منظوری نہیں دی تھی اور شرط رکھی تھی کہ سندھ انوائرنمینٹل پروٹیکشن ایجنسی( سیپا) سے ماحولیاتی اثرات کی جائزہ رپورٹ تیار کرائی جائے۔"

عملدرآمد رپورٹ کے مطابق کول پاور پراجیکٹ کے دو میں سے ایک، 660 میگاواٹ یونٹ کا تعمیراتی کام 97 فیصد مکمل ہو چکا ہے۔

شعور کا شہر اور سانس لینے کا حق

جامشورو ٹی پی ایس کا وہ احاطہ جہاں کول پاور پراجیکٹ لگایا جارہا ہے اس علاقے کو سندھ میں 'شعور کا شہر (تعلیمی اداروں کا شہر)'کہا جاتا ہے۔

تھرمل و کول پلانٹس کے ایک پہلو میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اور اس کا ہسپتال ہے۔

لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ یونیورسٹی آف سندھ ہے اور اس سے متصل مہران یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ہے۔ پڑوس میں شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی آف آرٹس اینڈ ڈیزائن واقع ہے اور یہیں پاور پراجیکٹ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر قدیمی درسگاہ کیڈٹ کالج پٹارو ہے۔

تمام تعلیمی اداروں کی رہائشی کالونیاں، ہاسٹلز اور رہائشی ہاؤسنگ سوسائٹیز بھی یہیں ہیں جو جامشورو شہر کی آبادی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ مشرق میں پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ بہتا ہے۔ پاور یونٹس اور دریا کے درمیان پرانے گاؤں، انسانی آبادی اور زرعی زمینیں ہیں۔

ممبر ضلع کونسل غلام نبی راجڑ کا کہنا تھا کہ جامشورو میں کول پاور پراجیکٹ کے اثرات براہ راست انسانی آبادی پر ہوں گے۔ یہ تباہی کے منصوبے ہیں ان کی زرخیز زمینیں تو پہلے ہی چھن گئیں اب سانس لینے کا حق تو نہ چھینا جائے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

تھر کول پاور پراجیکٹ: مقامی لوگوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب

صرف غلام نبی راجڑ اور محمد عثمان راجڑ ہی نہیں مقامی نوجوان بھی کول پاور کے خلاف احتجاج کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

انڈس کلائیمیٹ فورم کول پاور کے ماحولیاتی، زرعی، زمینی آلودگی اور کمپنی کے خلاف 13 ستمبر کواحتجاجی واک کر چکا ہے جس میں کاشتکار، یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات، پروفیسر، محققین اور سول سوسائٹی کے نمائندگان شریک تھے۔

منصفانہ ترقی اور ماحول پر کام کرنے والے ادارے پرائیڈ  (پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ فار اکویٹیبل ڈیویلپمنٹ) کی رپورٹ بتاتی ہے کہ جامشورو کول پاور کا پہلا یونٹ 31 مارچ 2019 تک آپریشنل ہونا تھا مگر اس کی تاریخ میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی ہے۔

ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر لاگت کے اس پراجیکٹ میں ایشیائی ترقیاتی بینک 90 کروڑ ڈالر، اسلامی ترقیاتی بینک 22 کروڑ ڈالر اور پاکستان 38 کروڑ ڈالر لگائے گا۔

سندھ اور بلوچستان کی یونیورسٹیوں اور پاک امریکن سنٹر فار ایڈوانسڈ سٹڈیز سنٹر کی ایک مشترکہ تحقیقی رپورٹ  کے مطابق جامشور ٹی پی ایس کے نئے پلانٹس سے پاکستان کی کوئلے کی کھپت تقریباً 3.4 ملین ٹن سالانہ تک بڑھ جائے گی۔

"جامشورو میں فضائی آلودگی روکنے کے انتظامات نہ کیے گئے تو یہاں سالانہ 850 ٹن کاربن مونو آکسائیڈ ، 36.83 کلو ٹن نائٹروجن آکسائیڈز، 80.74 کلوٹن سلفر آکسائیڈز /سال، اور 39 کلو ٹن پارٹیکولیٹ میٹر (PM10) پیدا ہو سکتا ہے۔"

اس تحقیق کے مطابق یہ گیسیں اور مادے انسانوں کے لیے پھیپھڑوں کے کینسر ،سانس کی بیماریوں، دل کی امراض، دائمی برونکائٹس (سینے کی تکلیف)، دمہ اور فالج کا سبب بن سکتی ہیں۔

ستم ظریفی یہ ہے کینسر کے علاج کا سندھ کا سب سے بڑا مرکز بھی جامشور کول پراجیکٹ کے قریب ہی لیاقت میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال میں قائم کیا گیا ہے۔

تاریخ اشاعت 20 ستمبر 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اشفاق لغاری کا تعلق حیدرآباد سندھ سے ہے، وہ انسانی حقوق، پسماندہ طبقوں، ثقافت اور ماحولیات سے متعلق رپورٹنگ کرتے ہیں۔

"بلاسفیمی بزنس": پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ

thumb
سٹوری

ضلع تھرپارکر خودکشیوں کا دیس کیوں بنتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
thumb
سٹوری

معلومات تک رسائی کا قانون بے اثر کیوں ہو رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ریاست خاموش ہے.....

وہ عاشق رسولﷺ تھا مگر اسے توہین مذہب کے الزام میں جلا دیا

وزیراعلیٰ پنجاب کے مسیحی ووٹرز سہولیات کے منتظر

thumb
سٹوری

پانی کی قلت سے دوچار جنوبی پنجاب میں چاول کی کاشت کیوں بڑھ رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceآصف ریاض

سندھ، عمرکوٹ: ایک طرف ہجوم کی شدت پسندی، دوسری طرف مانجھی فقیر کا صوفیانہ کلام

جامشورو پار پلانٹ: ترقیاتی منصوبوں کے سہانے خواب، مقامی لوگوں کے لیے خوفناک تعبیر

سندھ: وزیر اعلیٰ کے اپنے حلقے میں کالج نہیں تو پورے سندھ کا کیا حال ہو گا؟

thumb
سٹوری

لاہور کی چاولہ فیکٹری کے مزدوروں کے ساتھ کیا ہوا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ
thumb
سٹوری

جامشورو تھرمل پاور سٹیشن زرعی زمینیں نگل گیا، "کول پاور پراجیکٹ لگا کر سانس لینے کا حق نہ چھینا جائے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.