نئی حلقہ بندیوں نے دریا کے مغرب میں واقع صوبہ سندھ کے تین شمالی اضلاع میں سیاسی طوفان برپا کر دیا ہے۔ ضلع کشمور میں جہاں پیپلز پارٹی کے مخالفین خوش نظر آ رہے ہیں وہیں الیکشن کمیشن نے ضلع شکارپور میں پی پی رہنماؤں کو ایک دوسرے کے مقابل لا کھڑا کیا ہے۔
پچھلے الیکشن سےقبل ضلع جیکب آباد کی آبادی لگ بھگ 10 لاکھ، کشمور کی گیارہ لاکھ اور ضلع شکار پور کی آبادی تقریباًساڑھے 12 لاکھ تھی۔ اس وقت شکار پور کی دو نشستوں سمیت ان تینوں اضلاع کو قومی اسمبلی کی چار اور صوبائی اسمبلی کی نو نشستیں دی گئی تھیں۔
حالیہ مردم شماری میں ضلع جیکب آباد کی آبادی 11لاکھ 74 ہزار 97، کشمور کی 12 لاکھ 33 ہزار 957 اور ضلع شکار پور کی آبادی 13 لاکھ 86 ہزار 303 قرار پائی ہے۔
جس کے بعد نئی حلقہ بندی میں ان تینوں اضلاع کی مجموعی صوبائی اسمبلی کی نشستیں تو برقرار رکھی گئی ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے اس بار آبادی کا تناسب حقیقت پسندانہ(ریشنلائزیشن) بنانے کے لیے جیکب آباد، کشمور اور شکار پور تینوں اضلاع کو کلب کر کے(ایک ساتھ جوڑ کر) یہاں قومی اسمبلی کے چار حلقے بنا دیئے ہیں۔
حلقہ بندیوں کی نئی تجاویز کے مطابق این اے 190 صرف ضلع جیکب آباد کے علاقوں پر مشتمل ہو گا جس میں سے کچھ علاقے نکال کر این اے191 میں شامل کر دیئے گئے ہیں۔
دوسرا حلقہ این اے 191 جیکب آباد کم کشمور ہے۔ اس میں جیکب آباد کے تعلقہ ٹھل کے علاقے مصری پور ، مراد پور ، ٹھل بھرانو ضلع کشمورسے تعلقہ کشمور کے دو علاقے گلبلو اور بھنر کے علاوہ سارا تعلقہ کشمور اور تعلقہ کندھ کوٹ سوائےغوث پور ٹاؤن اور غوث پور تپہ شامل کیا گیا ہے۔
این اے 192 کشمور کم شکارپور میں ضلع کشمور کی تحصیل تنگوانی سے تنگوانی ٹاؤن ،دنیا پور، کرم پور ٹاؤن جبکہ کندھ کوٹ تعلقہ سے غوثپور ٹاؤن اور شکارپور میں سے خانپور، سلطان کوٹ ،لالیوں رستم ٹاؤن اور لکھی غلام شاہ کو شامل کیا گیا ہے۔
این اے 193 شکار پور، ضلع کے تمام علاقوں (سوائے خانپور، سلطان کوٹ ،لالیوں، رستم ٹاؤن اور لکھی غلام شاہ) پر مشتمل ہو گا۔
ضلع کشمور کے حصے بخرے ہونے سے کشمور، شکار پور اور جیکب آباد کی سیاست میں بھونچال آ گیا ہے۔ یعنی 12 لاکھ 33 ہزار 957 آبادی پر مشتمل ضلع کشمور کو دو قومی حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے مگر اس کا اپنا الگ قومی حلقہ ایک بھی نہیں ہے۔
نئی حلقہ بندی سے پیدا ہونے والی صورتحال میں ضلع شکارپور میں پی پی مخالف سابق ایم پی ایز عابد حسین جتوئی اور آغا تیمور خان مطمئین کے ساتھ متحد بھی ہیں لیکن پی پی رہنما اختلافات کا شکار نظر آتے ہیں۔
سابق ایم این اے غوث بخش خان مہر، سابق صوبائی وزیر امتیاز احمد شیخ، سابق سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج خان درانی، سابق ایم پی اے میر بابل خان بھیو نے ذاتی اثر و رسوخ کی بنیاد پر اپنے حمایت یافتہ علاقوں کو اپنے حلقوں میں شامل کرانے کے لیے الیکشن کمیشن میں الگ الگ اعتراضات جمع کرائے ہیں۔
ضلع کشمور میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ہمیشہ کامیاب ہونے والے میر شبیر خان بجارانی کے ایک بڑے ووٹ بینک کو ضلع شکارپور کے حلقے میں شامل کر دیا گیا ہے۔ وہ اس بار قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ ان کے والد میر ہزار خاں مرحوم یہاں سے ایم این اے رہ چکے ہیں۔
صحافی علی حسن ملک بتاتے ہیں کہ نئی حلقہ بندیوں کا سب سے زیادہ نقصان میر شبیر بجارانی کو ہو رہا ہے۔
"تنگوانی تعلقہ اورغوث پور ٹاؤن میں آباد بجارانی، سندرانی، ڈہانی، تیغانی، بجاکانی، شیرانی، بھلکانی، ملک گولا، کھوسہ اور دیگر برادریاں زیادہ تر شبیر علی بجارانی کے حامی رہی ہیں۔ اب یہ ووٹ ضلع شکارپور کے قومی حلقہ این اے 192 میں چلے گئے ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ نئی حد بندی کا فائدہ سابق ایم این اے احسان الرحمان مزاری کو ہو گا۔ تاہم یہاں مزاری گروپ کا مقابلہ پیپلز پارٹی کے عابد خان بھیو سے ہو سکتا ہے۔
"اس وقت تو احسان مزاری پی پی میں ہیں مگر انہیں ان کے ماموں سلیم جان مزاری کسی بھی وقت واپس بلا سکتے ہیں۔ تاہم اگلا الیکشن سیاسی وڈیروں کے لیے بڑا امتحان ہو گا۔"
دوسری جانب شکارپور اور کشمور سے پیپلز پارٹی کے متعلقہ امیدواران نے حلقہ بندیوں کے حوالے سے اپنے اعتراضات الیکشن کمیشن میں جمع کرائے ہیں۔
ان میں حال ہی میں پیپلز پارٹی میں شامل ہونے والے غوث بخش مہر نے درخواست کی ہے کہ این اے 192 سے'جاگن' اور رستم سرکل کو این اے 193 میں شامل ہونا چاہیے۔
سابق ایم این اے ڈاکٹر محمد ابراہیم کا بھی مطالبہ ہے کہ این اے 192 سے تپہ شاہل، ہمایوں اور جاگن کو این اے 193 میں شامل کیا جائے۔
دوسری جانب سابق ایم پی اے بابل خان بھیو نے کشمور ضلع کے حصے خانپور کے تپہ جوء اور لکی تعلقہ پر مشتمل این اے 92 بنانے کی تجویز دی ہے اور جاگن شہر شکارپور اور گڑھی یاسین تعلقہ اور خانپور کے بقیہ حصوں کو ملاکر این اے 193 بنانے کی درخواست کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں
مظفرگڑھ اور کوٹ ادو کی مشترکہ صوبائی نشست ختم ہونے سے کیا تبدیلی آئی؟ فرق کس کو پڑے گا؟
ضلع شکارپورکےصوبائی حلقوں پر فراز امتیاز شیخ نے اعتراضات جمع کرائے ہیں کہ پی ایس 9 ، پی ایس7، اور پی ایس 8 کو حتمی قرار دیا جائے۔ پی پی کے دوسرے ممبران نے بھی اسی طرح کی اعتراض جمع کرائے ہیں۔
تعلقہ تنگوانی کے سماجی رہنما جاوید کھوسو کا کہنا ہے کہ ضلع شکارپور کے ووٹرز کو تقسیم کرنے سے عوام کا بہت نقصان ہوسکتا ہے۔ شکارپور یا جیکب آباد سے جو بھی امیدوار جیتے گا اپنے علاقے پر توجہ دے گا دیگر گاؤں اور شہر نظرانداز ہوں گے۔
صحافی زاہد نون کہتے ہیں کہ نئی حلقہ بندیوں سے سب سے زیادہ ضلع کشمور کے نمائندے اور عوام دونوں پریشان ہیں۔ شکارپور اور کشمور کے ووٹرز کو ملا کر قومی اسمبلی کی نشست جوڑی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے تو اپنی پوزیشن بتا دی ہے مگر اب تک سیاسی پارٹیاں اپنی پوزیشن واضح نہیں کر پا رہیں رہیں۔
تاریخ اشاعت 15 نومبر 2023