ضلع کچہری فیصل آباد میں آنے والوں نے گیٹ پر تعینات لیڈی کانسٹیبل صائمہ بتول کو کئی بار ڈیوٹی کرتے دیکھا ہے جو اکثر کڑی دھوپ میں اپنی دو سالہ بیٹی کو بھی سنبھالے ہوتی ہیں۔ سخت سردی ہو یا آج کل کی شدید گرمی، ان کے معمولات میں فرق نہیں آیا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کے خاوند بھی ملازمت کرتے ہیں اور گھر میں بچی کی دیکھ بھال کے لیے کوئی موجود نہیں ہوتا جس کی وجہ سے وہ اسے ساتھ لے آتی ہیں۔
"یہاں تعیناتی سے کچھ سہولت ہو گئی ہے ورنہ پہلے جب میری تھانے میں ڈیوٹی تھی تو ریڈ وغیرہ پر جاتے وقت مجھے بیٹی کو تھانے میں ہی کسی نہ کسی کے پاس چھوڑ کر جانا پڑتا تھا۔"
وہ کہتی ہیں کہ بچی کو ساتھ رکھنا ان کی مجبوری ہے جس کو اگرچہ پولیس حکام نے کبھی ایشو نہیں بنایا اور انہیں دوران ڈیوٹی بیٹی کو ساتھ رکھنے کی اجازت بھی دی ہے۔
'تاہم اگر محکمے میں بچوں کے 'ڈے کیئر سنٹر' کی سہولت میسر ہو تو مجھ جیسی کئی خاتون ملازمین کے لیے فرائض کی انجام دہی آسان ہو جائے گی۔"
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ (آر ٹی آئی) کے تحت حاصل معلومات کے مطابق فیصل آباد پولیس میں 653 خواتین ملازمت کر رہی ہیں جن میں دو انسپکٹر، 38 سب انسپکٹر، دو اسٹنٹ سب انسپکٹر، 16 ہیڈ کانسٹیبل اور 595 کانسٹیبل شامل ہیں۔
فیصل آباد پولیس کے پبلک انفارمیشن افسر (پی آئی او) شہزاد علیانہ بتاتے ہیں کہ پولیس سروس رولز میں مرد یا خواتین اہلکاروں کے درمیان کوئی فرق نہیں اور بطور پولیس ملازم سب کے حقوق و فرائض یکساں ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ خواتین اہلکاروں کے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے فیصل آباد کے وومن پولیس سٹیشن اور پولیس لائنز میں دو ڈے کیئر سنٹر موجود ہیں۔تاہم پولیس لائنز میں واقع تحفظ سنٹر کی انچارج انسپکٹر گل ناز نے پی آئی او کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی۔
وہ بتاتی ہیں کہ تحفظ سنٹر میں ایک کمرہ چھوٹے بچوں کے لیے مختص ضرور ہے جہاں کھلونے وغیرہ بھی رکھے گئے ہیں لیکن اسے ڈے کیئر سنٹر نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں بچوں کی دیکھ بھال کی کوئی سہولت موجود نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ خود دوران ڈیوٹی اس مشکل صورت حال کا تجربہ کر چکی ہیں۔
"جب میری شادی ہوئی تو میں بطور سب انسپکٹر انویسٹی گیشن فرائض سرانجام دے رہی تھی۔ میرے جڑواں بچے پیدا ہوئے تھے جس کی وجہ سے مجھے اپنی ڈیوٹی کے ساتھ بچوں کی دیکھ بھال میں شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔"
انہوں نے بتایا کہ انہیں جب بھی مقدمات کے سلسلے میں عدالت یا اعلیٰ افسران کے سامنے پیش ہونا ہوتا تھا تو وہ اپنے شیرخوار بچوں کو تھانے میں محرر یا دیگر اہلکاروں کے سپرد کر کے جاتی تھیں۔
" خواتین اہلکاروں کے لیے زیادہ تر تھانوں میں ایک کمرہ بطور ریسٹ روم استعمال ہوتا ہے جہاں وہ اپنے چھوٹے بچوں کو بھی رکھ سکتی ہیں لیکن ان کی دیکھ بھال ہمیں خود کرنی ہوتی ہے۔"
انسپکٹر گل ناز کو یقین ہے کہ وقت کے ساتھ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بہتری آ رہی ہے اور انہیں امید ہے کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف خواتین اہلکاروں کو درپیش مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت فیصل آباد پولیس کی تقریباً 30 فیصد خواتین اہلکار شادی شدہ ہیں جن میں سے دس فیصد کو کسی نا کسی وجہ سے اپنے چھوٹے بچے ڈیوٹی پر آتے ہوئے ساتھ لانا پڑتے ہیں۔
تھانہ کوتوالی کی بالائی منزل پر واقع فیصل آباد کے واحد وومن پولیس سٹیشن میں ایک کمرے کو ڈے کیئر سنٹر قرار دے کر وہاں کھلونے و دیگر اشیاء تو مہیا کر دی گئی ہیں مگر بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی عملہ تعینات نہیں۔
وومن پولیس سٹیشن کی کانسٹیبل شازیہ بتاتی ہیں کہ تھانے میں چند ماہ قبل ہی ڈے کیئر سنٹر بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے انہیں کافی سہولت ہو گئی ہے۔
"یہاں سات سے آٹھ خواتین اہلکار اپنے بچے ساتھ لاتی ہیں جن کی ایک ایک دن دیکھ بھال ہم سب باری باری کرتی ہیں۔"
اس وومن پولیس سٹیشن میں قائم ڈے کیئر سنٹر کو بھی مقررہ معیار کے مطابق قرار نہیں دیا جا سکتا ہے کیونکہ وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی گائیڈ لائنز میں بالائی منزل پر ڈے کیئر سنٹر بنانے سے منع کیا گیا ہے۔
" ڈے کیئر سنٹر میں ہر بچے کے لیے کم از کم 30 مربع فٹ جگہ کے ساتھ ایسا اٹیچ باتھ بھی ہونا چاہیے جہاں بچوں کو لٹا کر نیپی تبدیل کرنے یا انہیں نہلانے وغیرہ کی سہولت میسر ہو۔"
پنجاب پولیس میں خواتین اہلکاروں کی مجموعی تعداد آٹھ ہزار 847 بتائی جاتی ہے لیکن ان کے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے لاہور سمیت تمام اضلاع میں ڈےکیئر سنٹرز کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے۔
آر ٹی آئی کے تحت پنجاب پولیس سے حاصل معلومات کے مطابق صرف سنٹرل پولیس آفس لاہور اور راولپنڈی میں ایک ایک ڈے کیئر سنٹر موجود ہے جہاں بچوں کی دیکھ بھال کی تمام سہولیات دستیاب ہیں۔
ان کے علاوہ پنجاب پولیس نے صوبے کے چار اضلاع میں ڈے کیئر سنٹر بنانے کے لیے ایک نجی صنعتی ادارے انٹرلوپ سے مفاہمتی یادداشت پر بھی دستخط کیے ہیں۔
پنجاب میں ڈے کیئر سنٹرز بنانے کا کام وومن ایمپاورمنٹ انیشیٹو پیکج 2012-2017ء کے تحت شروع کیا گیا تھا جس کے لیے پنجاب ڈے کیئر فنڈ سوسائٹی بھی بنائی گئی تھی جو سرکاری محکموں اور نان پرافٹ آرگنائزیشنز میں ڈے کیئر سنٹرز کے قیام کے لیے مالی اعانت فراہم کرتی ہے۔
اس سوسائٹی کے منیجر محمد زبیر بتاتے ہیں کہ ڈے کیئر سنٹر کے قیام کے خواہشمند ادارے کو عمارت کا انتظام اور 30 فیصد اخراجات خود برداشت کرنا ہوتے ہیں جبکہ 70 فیصد مالی معاونت پنجاب ڈے کیئر فنڈ سوسائٹی کرتی ہے۔
"اس وقت صوبے کے 25 اضلاع میں 437 ڈے کیئر سنٹر قائم ہیں جن میں سے 325 آپریشنل ہیں۔ جہاں 11 ہزار 585 گھرانوں کے 16 ہزار 550 بچوں کو خدمات فراہم کی جا رہی ہیں۔"
وہ کہتے ہیں کہ پنجاب پولیس نے ان کے ادارے کی معاونت سے سنٹرل پولیس لائنز اور ملتان پولیس لائنز میں ایک ایک ڈے کیئر سنٹر بنایا ہے جبکہ ایڈیشنل آئی جی آفس لاہور میں بھی سنٹر بنانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
"ہمارا ادارہ سرکاری محکموں اور ڈپٹی کمشنروں کو دستیاب فنڈز سے متعلق خطوط بھیجتا رہتا ہے تاکہ وہ ڈے کیئر سنٹرز بنانے کے لیے اقدامات کر سکیں۔ تاہم ہم کو سنٹر بنانے پر مجبور نہیں کر سکتے۔"
ملازمت پیشہ خواتین کو کام کا بہتر ماحول فراہم کرنے کے لیے اپریل 2019ءمیں صوبائی اسمبلی میں ن لیگ کی ایم پی اے حنا پرویز بٹ نے پنجاب ترمیمی بل برائے بہبود زچہ و بچہ 2019ء جمع کرایا تھا۔
اس بل میں 'بہبود برائے زچہ و بچہ آرڈیننس 1958ء' میں ترامیم کرنے کے لیے کہا گیا تھا جن کے تحت ہر وہ دفتر جہاں 50 سے زائد خواتین کام کر رہی ہیں وہاں ڈے کیئر سنٹر بنانا لازم ہو گا جس میں چھ سال تک کے بچے لانے کی اجازت ہو گی۔
مجوزہ ترامیم کے مطابق ماں دن میں چار مرتبہ ڈے کیئر میں اپنے بچے کو دیکھ سکے گی جبکہ ڈیڑھ سال تک کے بچے کی ماں کو دن میں دو مرتبہ دودھ پلانے کے لیے وقفہ دیا جائے گا۔
یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ ہر خاتون کو بچے کی پیدائش پر 24 ہفتے کی چھٹی (میٹرنیٹی لیو) دی جائے گی اور اگر دوران حمل کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اسے بمع تنخواہ چھ ہفتے کی چھٹی دی جائے گی۔ اگر کوئی آجر اس قانون کی خلاف ورزی کرے گا تو اسے پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں
ملازمت پیشہ حاملہ خواتین کی مجبوری: 'زچگی کے لیے بغیر تنخواہ چھٹی کرو یا نوکری چھوڑ دو'۔
لیکن پانچ سال بعد بھی یہ بل منظور نہیں ہو سکا۔ تاہم اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر حنا پرویز بٹ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس قانون کی منظوری کے لیے وزیر اعلیٰ مریم نواز سے کردار ادا کرنے کی درخواست کریں گی۔
وہ بتاتی ہیں کہ بچے کی پیدائش پر خواتین عام طور پر ملازمت چھوڑ دیتی ہیں جس کی بڑی وجہ دفاتر اور کام کرنے کی جگہ پر سہولیات کی عدم دستیابی ہے۔ مجوزہ قانون کا مقصد خواتین کو دوران زچگی اور بعد میں مناسب سہولت فراہم کرنا ہے۔
وفاقی حکومت نے بھی اسلام آباد میں گزشتہ سال سے 'ڈے کیئر سنٹرز ایکٹ 2023ء' نافذ کیا تھا جس کے تحت 70 یا اس سے زائد ملازم رکھنے والے نجی و سرکاری اداروں کو ڈے کیئر سینٹر قائم کرنے کا پابند بنایا گیا ہے۔
اس قانون کی عدم تعمیل پر جرمانہ اور چھ ماہ تک قید کی سزا بھی مقرر کی گئی ہے لیکن عملدرآمد بہت کم دکھائی دیتا ہے۔
ایسوسی ایشن آف وومن فار اویرنس ایند موٹیویشن (عوام( کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر شازیہ جارج ڈے کیئر سنٹر کو ملازمت پیشہ خواتین کے لیے بنیادی ضرورت قرار دیتی ہیں۔
" آئین کا آرٹیکل 37 (ای) گارنٹی دیتا ہے کہ ریاست ہر کارکن کے لیے کام کے منصفانہ اور انسانی حالات کو یقینی بنانے کے لیے انتظامات کرے گی۔ علاوہ ازیں لیبر پالیسی اور فیکٹریز ایکٹ میں بھی خواتین ملازمین کے بچوں کے لیے ڈے کیئر کی سہولت فراہم کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔"
تاہم وہ بتاتی ہیں کہ اس حوالے سے ملک میں صورتحال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ پنجاب کے علاوہ دیگر تین صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ڈے کیئر سنٹرز بنانے کی کوئی مناسب پالیسی گائیڈ لائنز یا قانون موجود نہیں ہے۔ امید ہے پنجاب کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ اس مسئلے پر ضرور توجہ دیں گی۔
تاریخ اشاعت 22 جون 2024