حکومتی عدم تعاون یا ناقص ضوابط، خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نظام غیر موثر کیوں ہوا؟

postImg

اسلام گل آفریدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

حکومتی عدم تعاون یا ناقص ضوابط، خیبرپختونخوا میں بلدیاتی نظام غیر موثر کیوں ہوا؟

اسلام گل آفریدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

نبیلہ قیوم آفریدی، ضلع خیبر کی تحصیل جمرود کے علاقے شاہ کس کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں جو بلدیاتی انتخابات میں بطور خاتون ممبر  منتخب ہوئی ہیں۔ نبیلہ کیلئے بلدیاتی انتخابات میں شرکت آسان فیصلہ نہیں تھا، انہیں گھر والوں سے اجازت کے لیے بہت جتن کرنا پڑے تھے لیکن ان تمام کوششوں کے پیچھے یہ جذبہ تھا کہ وہ اپنے علاقے کی خواتین کیلئے کچھ کر پائیں گی۔

"میں سوچتی تھی کہ سب سے پہلے گاؤں میں قائم لڑکیوں کے پرائمری سکول کو ہائی اور ہائیر سیکنڈری کا درجہ دلاؤں گی اور علاقے میں طبی سہولیات کیلئے بنیادی صحت کا مرکز کھلواؤں گی۔ لیکن ڈیڑھ سال گزرنے کو ہے اور میں اس سمت ایک قدم بھی نہیں بڑھ پائی ہوں۔ چار سال میں بھی کچھ نہیں ہو پائے گا کیونکہ معاملات آگے بڑھنے کی رفتار دیکھ کر  کچھ زیادہ امید نہیں رہی۔"

خیبر پختونخوا میں دسمبر 2021 اور مارچ 2022 میں دو مرحلوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ہوئے جن کے نتیجے میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں پہلی بار بلدیاتی اداروں کا قیام عمل میں آیا جن میں ولیج، نیبرہڈ اور تحصیل میونسپل کونسلیں شامل ہیں۔

ساجدہ اقبال ضلع کرم کی تحصیل صدّہ سے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں خواتین کی مخصوص نشست پر رکن منتخب ہوئیں۔ اس انتخاب سے پہلے بھی وہ علاقے میں خواتین کو درپیش مسائل کے حل کیلئے اپنے طور پر کام کررہی تھیں۔ تاہم زیادہ بہتر طریقے سے لوگوں کی بہبود کا کام کرنے اور ٹھوس نتائج لینے کے لیے اُنہوں نے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں حصہ لیا۔

خواتین کو درپیش مسائل کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ ان کے علاقے میں خواتین کو نادرا کے دفاتر اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت مالی مدد کے حصول میں مشکلات اور ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی کا سامنا ہے۔

"یہاں قائم بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے مرکز میں بہت زیادہ رش ہوتا ہے جبکہ عملے کی تعداد بہت ہی کم ہے جس کی وجہ سے شدید گرمی میں خواتین بچوں کے ساتھ اپنی باری کے لیے کئی گھنٹے انتظار کرتی ہیں جبکہ بعض خواتین کے کارڈز بنا کسی ٹھوس وجہ کے بلا ک کردیے جاتے ہیں اور اُن کی صحیح رہنمائی اور مدد کیلئے کوئی انتظام موجود نہیں ہوتا۔"

ساجدہ کے بقول نادرا دفتر میں خواتین کی انتظار گاہ میں دھوپ سے بچنے کیلئے سائے، پینے کی پانی اور واش روم کی سہولت دستیاب نہیں ہے، جبکہ ہسپتالوں کے بعض شعبہ جات میں خواتین عملہ نہ ہونے کی وجہ سے علاج میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

"جب ہم ان مسائل کے حل کیلئے سرکاری حکام سے بات کرتے ہیں تو اُن کا یہی جواب ہوتا ہے کہ آپ کو ان چیزوں میں مداخلت کا کوئی قانونی اختیار نہیں کیونکہ یہ معاملات مقامی حکومتوں کے تحت نہیں آتے، یہی وجہ ہے کہ دو سال گزرنے کو ہیں لیکن خواتین کو درپیش مسائل جوں کے توں ہیں۔"

پشاور میں ضم کیے گئے قبائلی سب ڈویژن حسن خیل (سابقہ فرنٹیئر ریجن پشاور) سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن شمائلہ خان آفریدی کو بھی مقامی حکومتوں میں خواتین کے انتخاب کے بعد علاقے میں درپیش مسائل کے حل میں کسی قدر پیش رفت کی اُمید ہو چلی تھی۔

"بنیادی سہولیات کے جو بھی مسائل ہوں، صحت، تعلیم، پینے کے پانی وغیرہ کے فقدان سے سب سے زیادہ خواتین ہی متاثر ہوتی ہیں۔جب بلدیاتی انتخابات کی بدولت گاؤں اور محلوں میں خواتین اراکین منتخب ہوئیں تو یوں لگا تھا کہ اس سے ان معاملات میں بہتری آجائے گی۔"

ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل کی ولیج کونسل سے منتخب ہونے والی خاتون رکن سومیا آفریدی بتاتی ہیں کہ ملک کے باقی حصوں کی نسبت ضم شدہ اضلاع میں خواتین کے مسائل کافی زیادہ ہیں۔

"ان اضلاع میں تعلیم اور صحت کی سہولیات میں کمی ہے، پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولیات موجود نہیں، کئی علاقوں میں خواتین کئی کلومیٹر پیدل چل کر اور سروں پر پانی رکھ کر لاتی ہیں۔"

"ہم کوئی مسئلہ کیا حل کریں گے، ہمیں تو آج تک یہ نہیں بتایا گیا کہ ہمارے اختیارات کیا ہیں؟"

نبیلہ آفریدی کہتی ہیں کہ ہونا تو یہ چاہیئے کہ تحصیل کونسل کی سطح  پر باقاعدگی سے اجلاس منعقد ہوں لیکن بدقسمتی سے جمرود تحصیل کونسل کے اب تک ایک یا دو اجلاس ہوئے ہیں جن میں چند ہی خواتین ارکان  شرکت کرپائی ہیں۔

"دو سال کی مدت میں ایک اجلاس حلف برداری کے لئے بلایا گیا تھا جن میں تحصیل جمرود کی منتخب 27 خواتین نے شرکت کی جبکہ دوسرے اجلاس میں بحیثیت خاتون رکن صرف میں موجود تھی جبکہ تیسرے اجلاس میں تین خواتین نے شرکت کی۔"

اُنہوں نے کہا کہ فیصلہ سازی، مشاورت، اجلاسوں میں شرکت اور مسائل کے حل کے حوالے سے حکام کے ساتھ ملاقاتوں اور دیگر اُمور میں خواتین ارکان کو دور رکھا جاتا ہے۔

"ایک تو پہلے سے ہی خواتین ارکان کی تعداد کم ہے، دوسری طرف اجلاسوں میں منتخب خواتین ویسے ہی کم تعداد میں شرکت کرتی ہیں، پھر مردوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے خواتین کو بولنے کا موقع بھی نہیں دیا جاتا۔"

اُن کے بقول اجلاس میں خواتین کے بیٹھنے کے لئے جگہ نہیں ہوتی جبکہ پینے کی پانی اور الگ واش روم کا بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔

اس حوالے سے تحصیل حکام سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ تحصیل کونسل کا اجلاس جمرود تحصیل کی عمارت میں واقع جرگہ ہال میں منعقد کیاجاتا ہے اور ان کے پاس مقامی حکومتوں کے نمائندوں کے اجلاس کو سیکورٹی فراہم کرنے کے علاوہ کسی بھی قسم کی سہولت مہیا کرنے کیلئے کوئی فنڈ موجود نہیں ہے۔

زاہد اللہ آفریدی، ضلع خیبر کی تحصیل باڑہ میں ولیج کونسل کے چیئرمین ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ تقریبا دو سال کی مدت پوری ہونے کو ہے لیکن اب تک انہیں ولیج کونسل کیلئے نہ تو دفتر دیا گیا ہے اور نہ ہی ترقیاتی فنڈ جاری ہوا ہے۔

اجلاسوں میں خواتین کے شرکت کے حوالے سے انہوں نے وضاحت کی کہ خواتین ارکان جب بھی شرکت کرتی ہیں انہیں بات کرنے کا موقع دیا جاتا ہے، تاہم بعض ارکان ایسی بھی ہیں جن کی جگہ ان کے شوہر یا کوئی اور مرد نمائندہ اجلاس میں شریک ہوتا ہے، جس کی وجہ سے خواتین کے مسائل صحیح طریقے سے سامنے نہیں آتے۔

انہوں نے اختیارات کی کمی کے حوالے سے سابق حکمران جماعت تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس نے قانونی ترامیم کرکے مقامی حکومتوں اختیارات محدود کردیے ہیں، تحصیل کی سطح پر منتخب نمائندوں کو عملاً سرکاری افسروں کے ماتحت کردیا گیا ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر کو تحصیل کی سطح پر منتقل کیے گئے محکمے چلانے کا اختیار دیا گیا ہے۔

دوسرے لفظوں میں مقامی نمائندے ان محکموں کے اہل کاروں کو براہِ راست کوئی حکم نہیں دے سکتے بلکہ اس کیلئے انہیں اسسٹنٹ کمشنر کو کہنا پڑتا ہے۔

اسی طرح تمام شہری سہولیات کی فراہمی کی ذمہ داری تحصیل میونسپل آفیسر (ٹی ایم او) کو سونپ دی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ مقامی نمائندے روزمرہ کے شہری مسائل کے حل کیلئے بھی اسی کے محتاج ہیں۔

مقامی حکومتوں کو ترقیاتی کاموں کیلئے دیے گئے پیسوں کے استعمال کا اختیار بھی ٹی ایم او کو دیا گیا ہے۔ وہ تحصیل ترقیاتی کمیٹی کی سربراہ بھی ہو گا اور ضرورت کے پیش نظر سکیل ایک سے 16 تک کی اسامیوں پر بھرتیاں بھی کر سکے گا۔

گاؤں اور محلے کی کونسلوں کے تمام امور کی انجام دہی کے اختیارات ولیج سیکریٹریز کو سونپ دیے گئے ہیں (تاہم وہ چیئرمینوں کی منظوری کے بغیر کوئی انتظامی فیصلہ نہیں کر سکیں گے)۔ لیکن ان کونسلوں کو کسی بھی ترقیاتی منصوبے پر رقم خرچ کرنے کے لئے اپنی تحصیل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بلدیات سے منظوری لینا ہو گی۔

سومیا آفریدی کا کہنا ہے کہ ایک عطیہ دہندہ ادارے کی مدد سے منتخب اراکین کو بلدیاتی نظام کے حوالے سے تین روزہ تربیت فراہم  کی گئی جس میں انہیں اختیارات اور ان کے کام کے بارے میں آگاہی دی گئی لیکن فنڈ جاری نہ ہونے اور حکومتی اداروں کے عدم تعاون کی وجہ سے نہ صرف ضم شدہ اضلاع بلکہ پورے صوبے میں بلدیاتی نظام غیر موثر ہو کر رہ گیا ہے جوکہ انتہائی افسوناک ہے۔

اسلام آباد میں کام کرنے والے غیرسرکاری تحقیقی ادارے، سنٹر فار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشی ایٹوز (سی پی ڈی آئی) کے سربراہ مختار احمد علی اس موضوع پر بات کرتے ہوئے مقامی حکومتوں کیلئے قوانین میں تبدیلیوں کی ذمہ داری بلدیاتی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو پہنچنے والے سیاسی دھچکوں پر ڈالتے ہیں۔ اُن کے بقول ایسی تبدیلیاں ایک افسوس ناک امر ہے جو پاکستان میں جمہوریت کے استحکام کیلئے کی جانے والی کوششوں کیلئے نقصان دہ ثابت ہوں گی۔''

خیبر پختونخوا کے سابق وزیر بلدیات فیصل امین گنڈاپور اس تاثر کی نفی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے نہ تو قواعد و ضوابط کے وضع کرنے میں کسی بدنیتی کا مظاہرہ کیا، نہ ہی مقامی حکومتوں کے اختیارات میں کمی کرنا مقصود تھا۔

ان کا دعویٰ ہے کہ قانون میں ترامیم اور قواعدوضوابط کے تحت صوبائی حکومت کو کوئی نئے اختیارات نہیں دئیے گئے بلکہ اسے حاصل سابقہ اختیارات کا ہی اعادہ کیا گیا ہےکہ صوبائی اسمبلی کے ارکان صرف ضرورت کے مطابق علاقے میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کرسکتے ہیں جبکہ باقی تمام اختیارات مقامی حکومتوں کے نمائندوں ہی کے پاس موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

آباد کب ہوئے تھے کہ برباد ہم ہوئے: خیبرپختونخوا کی مقامی حکومتوں کے اختیارات کیوں واپس لے لیے گئے؟

صوبائی وزرات خزانہ کے اعلی عہدیدار کا کہنا ہےکہ مالی سال (22-2021) میں پراونشل فنانس کمیشن ایوارڈ کے تحت مقامی حکومتوں کیلئے 15 ارب روپے رکھے گئے تھے۔ اگرچہ اپریل 2021 میں مقامی حکومتیں قائم ہو چکی تھیں لیکن مالی سال کے اختتام یعنی 30 جون 2021تک اس مد میں ایک پیسہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔

اُن کا مزید کہناتھا کہ مالی سال (2022-23) میں بھی مقامی حکومتوں کیلئے اس ایوارڈ کے تحت 41 ارب روپے رکھے گئے ہیں لیکن صوبائی حکومت نے تمام کے تمام فنڈز روک رکھے ہیں جس کی وجہ سے مقامی حکومتیں  مفلوج ہو کر رہ گئی ہیں اور پچھلے دوسال میں صوبے بھر میں مقامی حکومت کے نمائندوں کو نہ ہی فنڈ جاری کیا گیا اور نہ اُن کو ماہانہ اعزازیہ دیا گیا ہے۔

اس کی بنیادی وجہ صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت کا اپنے مدت پوری کرنے سے پہلے خاتمہ اور سیاسی جماعتوں کا غیرسنجیدہ رویہ تھا۔ اُن کے بقول رواں سال اب تک فنانس کمیشن بھی نہیں ہوا جس میں فیصلہ کیاجائے کہ بلدیاتی نمائندوں کو کتنا اور کیسے فنڈ جاری کیاجائے۔
نگراں حکومت کی جانب سے صوبے کو درپیش مالی مسائل کے اعادے پر انہوں نے کہا کہ مسائل ضرور ہیں، تاہم ایسا ممکن نہیں کہ کسی خاص شعبے کیلئے حکومت بالکل فنڈ جاری نہ کرسکے۔

تاریخ اشاعت 8 ستمبر 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسلام گل آفریدی پچھلے سولہ سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.