اٹک خورد، دریائے سندھ ہر سال درجنوں افراد کو نگل جاتا ہے ذمہ دار کون؟

postImg

ندیم حیدر

postImg

اٹک خورد، دریائے سندھ ہر سال درجنوں افراد کو نگل جاتا ہے ذمہ دار کون؟

ندیم حیدر

اٹک کے رہائشی 50 سالہ محمد خرم عیدالاضحیٰ کے دوسرے روز تفریح کے لیے اپنے بچوں کے ہمراہ دریائے سندھ کے کنارے 'باغ نیلاب' گئے تھے۔ ان کے 17 سالہ بیٹے محمد شہیر اور 13 سالہ بیٹی وردہ دریا کنارے کم گہرےپانی میں کھیل رہے تھے کہ وردا کا اچانک پاؤں پھسلا اور وہ گہرے پانی میں جا گریں۔

محمد شہیر نے بہن کو ڈوبتے دیکھا تو ان کے پیچھے چھلانگ لگا دی۔ اسی اثنا میں محمد خرم بھی اپنے بیٹے اور بیٹی کو بچانے کے لیے پانی میں کود گئے لیکن دریا کی بے رحم لہریں تینوں کو اپنے ساتھ بہا لےگئیں۔

دریا کنارے موجود ایک مقامی شخص نے بھرپور کوشش کے بعد باپ بیٹے کو نکال لیا لیکن طبی امداد کے بعد محمد خرم تو بچ گئے لیکن ان کے بیٹے شہیر ہسپتال میں دم توڑ گئے۔ وردا کی تلاش کےلیے ریسکیو 1122 کی غوطہ خور ٹیموں نے تین روز تک آپریشن جاری رکھا مگر بدقسمتی سے ان کی لاش بھی نہ مل سکی۔

شہیر اور وردا کے دادا بابا تاج محمد اپنی پوتی اور پوتے کی موت کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر لوگ تفریح کے لیے ایسی جگہوں پر نہ جائیں تو اور کہاں جائیں؟ حکومت تفریحی مقامات پر حفاظتی انتظامات کو یقینی بنائے۔

"میرا بیٹا خرم اپنے جواں سال بیٹے کی میت کی تدفین کے بعد سے اپنی بچی کی تلاش میں دریائے سندھ کے کناروں پر بھٹک رہا ہے۔ وہ آج بھی میانوالی کے علاقے کندیاں میں چشمہ بیراج پر گیا ہوا ہے۔"

صرف شہیر اور وردا ہی نہیں، عید الاضحیٰ کے تین دنوں کے دوران 10 افراد اٹک خورد کے مقام پر دریائے سندھ میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔

نواحی علاقے کے رہائشی اعجاز احمد درزی کا کام کرتے ہیں جن کے بھائی اور دو جوان بھتیجے بھی یہیں دریا میں ڈوبنے سے جاں بحق ہوئے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ حفاظتی انتظامات کے بغیر دریائے سندھ میں نہانا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے کیونکہ یہاں کنارے کے قریب ہی بعض جگہ پانی بہت زیادہ گہرا ہے۔

اٹک خورد

راولپنڈی سے 96 کلومیٹر پشاور کی جانب جی ٹی روڈ پر دریائے سندھ کے کنارے واقع خوبصورت قصبہ 'اٹک خورد' ایک تفریحی مقام ہے جس کو'باغ نیلاب'بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں دریا کی سیر کے لیے کشتیاں، جھولے اور تازہ مچھلی کے متعدد ریستوران موجود ہیں۔

پنجاب اور خیبر پختونخوا کے درمیان سفر کرنے والےکچھ دیر کے لیے یہاں رکتے ہیں اور کئی لوگ یہاں پر سیر و تفریح کے لیے بھی آتے ہیں۔ چند سال قبل حکومت نے گولڑہ (راولپنڈی) سے اٹک خورد تک ایک ٹورسٹ ٹرین بھی چلائی تھی جو کچھ عرصہ بعد بند ہو گئی تھی۔

ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر ریسکیو 1122 علی حسین نے لوک سُجاگ کو بتایا کہ یوم آزادی، عیدوں اور دیگر تہواروں پر خیبرپختونخوا اور پنجاب سے ہزاروں سیاح اٹک خورد آتے ہیں جن میں سے اکثر دریا میں اتر جاتے ہیں یا نہانا شروع کر دیتے ہیں۔

"یہاں حادثات زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ لوگ کم گہرا پانی سمجھ کر اترتے ہیں مگر کہیں کہیں کنارے کے ساتھ ہی زیرآب زیادہ گہرائی ہے جہاں بہاؤ تیز ہوتا ہے اور یہ افراد اس کی زد میں آ جاتے ہیں۔"

اٹک میں ریسکیو 1122 کے ریکارڈ کے مطابق دفتر کو پچھلے پانچ سال کے دوران ڈوبنے کے واقعات کے حوالے سے 156 ایمرجنسی کالز موصول ہوئیں جن میں سو سے زائد افراد ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔

ضلعی انتظامیہ ہر سال گرمیوں یہاں دریا میں نہانے پر پابندی لگاتی ہے جس کے لیے دفعہ 144 کا نفاذ ہوتا ہے لیکن ڈوب کر ہلاک ہونے والوں کی شرح میں کوئی کمی نہیں آئی۔

ضلعی ایمرجنسی افسر بتاتے ہیں کہ اٹک میں ہر سال 30 سے 35 افراد ڈوبنے سے جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ تعداد ہے جتنی لاشیں ریسکیو 1122کے غوطہ خور نکالتے ہیں جبکہ بعض کیسز میں مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت بھی ڈوبنے والوں کی لاشیں نکال لیتے ہیں۔

وہ سمجھتے ہیں کہ دفعہ 144 کا نفاذ اس مسئلے کا عارضی حل ہوسکتا ہے تاہم مستقل حل کے لیے دریاؤں پر نہانے کے لیےمحفوظ مقامات بنانا پڑیں گے جہاں حفاظتی اقدامات یقینی بنائے جا سکیں ۔ اس اقدام سے حادثات میں کمی اور عوام کو بہتر تفریح میسر آ سکتی ہے۔

قریبی علاقے جہانگیرہ کے رہائشی ماما شعیب اٹک خورد میں ہوٹل چلاتے ہیں جنہوں نے 40 سال قبل دریا سے مچھلیاں پکڑنے کا کام شروع کیا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ اس جگہ دریا کا بہاؤ بہت تیز اور نیچے نوکیلے پتھر ہیں۔ مقامی لوگ یہاں کبھی نہانے کا خطرے مول نہیں لیتے بلکہ حفاظتی سامان سے لیس ماہر غوطہ خور بھی اس تیز پانی میں خود کو بڑی مشکل سے سنبھالتے ہیں۔

ماما شعیب، ہوٹل چلانے کے ساتھ خدمت خلق کے طور پر یہاں ڈوبنے والے افراد کو نکالنے کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے پچھلے 40 سال میں سینکڑوں افراد کو دریا سے زندہ نکالا ہے۔

"اب تو ہم نے ایک باقاعدہ ٹیم بنالی ہے جس میں میرے تین بیٹوں سمیت 32 افراد شامل ہیں۔ رضا کاروں کا یہ نیٹ ورک اٹک خورد سے چشمہ بیراج تک پھیلا ہوا ہے جن کا ایک واٹس ایپ گروپ بنا ہوا ہے اوروہ دریائے کابل یا دریائے سندھ میں ڈوبنے والوں کی تلاش میں مدد کے لیے اطلاع ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔"

" دریا سے کوئی لاش ملنے پر اس کی تصاویر اور ویڈیوز بھی واٹس ایپ گروپ میں شیئر کردی جاتی ہیں جس سے متوفی کے ورثاء کو تلاش کیا جاتا ہے یا لاش ان کے حوالے کی جاتی ہے۔ متعلقہ محکموں کو بروقت اطلاع دینے کے لیے گروپ میں ضلعی انتظامیہ، پولیس اور ریسکیو 1122 کے افسر اور اہلکار بھی شامل کیے گئے ہیں۔"

ماما شعیب کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے رضا کاروں کو لائف جیکٹس فراہم کی ہیں تاکہ وہ ڈوبنے والے افراد کو بچاتے ہوئے اپنی زندگیوں کو بھی محفوظ بنا سکیں۔

ان کا بھی یہی ماننا ہے کہ دریا کنارے جہاں زیادہ لوگ سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں وہاں دریا کے کچھ حصوں کو لوہے کے جنگلے یا مضبوط رسے لگا کر لوگوں کے نہانے کے لیے مختص کر دیا جائے تو حادثات میں کمی لائی جاسکتی ہے ۔

ماما شعیب کے بیٹے سہیل احمد جو رضا کاروں کی ٹیم کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ کشتی میں لوگوں کو دریا کی سیر کراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہاں تفریح کے لیے زیادہ تر نوجوان ہی آتے ہیں۔

"ہم دریا سے روزی کماتے ہیں۔ سردیوں میں لوگ یہاں کا رخ نہیں کرتے تاہم گرمیاں شروع ہوتے ہی ہمارا کاروبار چمک اٹھتا ہے۔ چھٹیوں اور عید کے ایام میں بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ لیکن ضلعی انتظامیہ یہاں حفاظتی انتظامات کرنے کی بجائے دفعہ 144 لگا دیتی ہے جس سے کاروبار ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔"

وہ بہت افسردہ لہجے میں بولے "اعلیٰ افسران کو ہمارے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ ہمارے بھی بیوی بچے اور بوڑھے والدین ہیں ہم یہاں سے کمائیں گے نہیں تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔"

اس سلسلے میں ترجمان ڈی پی او آفس اٹک ملک نعیم کہتے ہیں کہ دفعہ 144 لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے کے لیے لگائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ دریا میں غیر قانونی نقل و حمل کو روکنے کے لیے مختلف مقامات پر پولیس کی چوکیاں بھی موجود ہیں۔

 "جب ضلعی انتظامیہ کی جانب سے دریا میں نہانے پر پابندی لگائی جاتی ہے تو تمام چوکیوں پر تعینات ہمارا عملہ اپنی حدود میں کسی کو وہاں نہانے کی اجازت نہیں دیتا۔"

تاہم ملاح سہیل احمد کا خیال ہے کہ حادثات سے بچنے کے لیے دریا میں لائف جیکٹس کے بغیر نہانے پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔اسی طرح تیراکی کے ماہر مقامی نوجوانوں کو یہاں بطور 'لائف گارڈز' بھی تعینات کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

'فلٹر لگ گئے مگر چلائے گا کون؟' اٹک کے دیہات میں کروڑوں مالیتی واٹر فلٹریشن پلانٹ بے کار

اٹک خورد میں اکثر سیاح شکوہ کرتے دیکھائی دیتے ہیں کہ حکومت یہاں مناسب انتظامات نہیں کر رہی۔ اگر یہاں نہانے کےلیے تالاب یا محفوظ علاقے بنا دیے جائیں تو سیاح کسی خطرے کے بغیر لطف اندوز ہو سکیں گے۔"

اٹک خورد میں تفریح کے لیے اسلام آباد سے آئی رخسانہ بی بی (فرضی نام) بتاتی ہیں کہ وہ گرمیوں کی تعطیلات کے دوران اکثر ادھر کا رخ کرتے ہیں۔ یہ خوبصورت جگہ ہے جہاں دریا، انگریز دور کا ریلوے سٹیشن، سٹیل پل اور راستے میں مغلیہ دور کی تاریخی عمارتیں ہیں۔

" لیکن یہاں دریا میں ڈوبنے کی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ یہاں آ کر بچے کشتی کی سیر کے لیے ضد کرتے ہیں لیکن ہم انہیں اجازت نہیں دیتے۔ہاں اگر بہتر حفاظتی انتظامات ہوں اور جان کو خطرہ نہ ہو تو ہم بھی بچوں کے ساتھ دریا کی سیر کو ترجیح دیں گے۔"

وہ کہتی ہیں کہ دریا میں سیر کے لیے استعمال ہو نے والی کشتیاں غیر معیاری اور پرانی ہیں جو مچھلی کے شکار کےلیے بنائی گئی ہیں۔ مگر ملاح ان میں گنجائش سے زیادہ افراد کو بٹھا لیتے ہیں جن کی وجہ سے حادثات پیش آتے ہیں۔

"ضلعی انتظامیہ کو چاہیے کہ ہر سال سیزن کے آغاز پر کشتیوں کا معائنہ کرائے اوران کے لیے فٹنس سرٹیفیکیٹ کا حصول لازم قرار دے۔ تاہم ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔"

تاریخ اشاعت 28 جون 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

ندیم حیدر کا تعلق اٹک شہر سے ہے۔ گزشتہ آٹھ سال سے ملکی سطح کے مختلف نیوز چینلز کے ساتھ بطورڈسٹرکٹ رپورٹر کام کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

اٹک خورد، دریائے سندھ ہر سال درجنوں افراد کو نگل جاتا ہے ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceندیم حیدر

تھر پارکر سے کوئلہ تو نکل آئے گا لیکن پانی ختم ہو جائے گا

تتلیوں کا گھر: شہد کی مکھیوں کی کالونی

مردوں کا باتیں کرنا آسان: عورتوں کا بائیک چلانا مشکل

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلی، شہد کی پیداور اور مگس بان خواتین کے روزگار کو کیسے تباہ کر رہی ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceشاہ خالد
thumb
سٹوری

تھانوں، کچہریوں میں ڈیوٹی کرتی خواتین پولیس اہلکار اپنے شیرخوار بچوں کے لیے کیا سہولت چاہتی ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

مرد کے لیےطلاق آسان لیکن عورت کے لیےخلع مشکل کیوں ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر
thumb
سٹوری

بھنبھور: ہاتھی دانت کی صنعت کا سب سے بڑا مرکز

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد فیصل
thumb
سٹوری

وادی سندھ کی قدیم تہذیب کی خوش خوراکی: 'وہ لوگ گوشت کھاتے اور دودھ سے بنی اشیا استعمال کرتے تھے'

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمحمد فیصل
thumb
سٹوری

میدان جنگ میں عید: ایک وزیرستانی کا عید کے لیے اپنے گھر جانے کا سفرنامہ

arrow

مزید پڑھیں

User Faceکلیم اللہ

بلوچستان: عالمی مقابلے کے لیے منتخب باکسر سبزی منڈی میں مزدوری کر رہا ہے

thumb
سٹوری

پاکستان میں صنعتیں کلین انرجی پر چلانا کیوں مشکل ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.