لیہ میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی: 'جہاں کبھی گھنے درخت تھے وہاں اب دھول اُڑتی ہے'۔

postImg

فرید اللہ

postImg

لیہ میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی: 'جہاں کبھی گھنے درخت تھے وہاں اب دھول اُڑتی ہے'۔

فرید اللہ

جنوبی پنجاب کے ضلع لیہ میں واقع عنایت شاہ فاریسٹ رینج نامی جنگل کے ساتھ ایک وسیع و عریض میدان ہے جہاں تاحدِ نگاہ کوئی درخت دکھائی نہیں دیتا۔ کئی سال پہلے اس میدان میں بھی ایک گھنا جنگل ہوا کرتا تھا جو وقت کے ساتھ ختم ہو گیا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلی کسی قدرتی عمل کے نتیجے میں نہیں بلکہ سالہا سال سے ہونے والی درختوں کی غیر قانونی کٹائی کے باعث ظہور پذیر ہوئی ہے۔

اُس میدان کے قریب واقع گاؤں چک 288 ٹی ڈی اے کے رہائشی 80 سالہ رفیق احمد کا کہنا ہے کہ "1970 کی دہائی میں جب وہ جوان تھے تو اپنے مال مویشی چرانے کے لیے اُسی جنگل میں جایا کرتے تھے جو اُس وقت اس قدر وسیع اور گھنا تھا کہ لوگ دن کے وقت بھی وہاں جاتے ہوئے گھبراتے تھے"۔ ان کے مطابق وہ جنگل بہت سے جانوروں اور پرندوں کا مسکن تھا، اس کی بدولت مقامی آبادی کو تیز آندھیوں سے تحفظ ملتا تھا اور علاقے کا موسم بھی خوشگوار رہتا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ "اُس کے ختم ہو جانے سے اب پورے میدان میں دھول اڑتی ہے اور گرمیوں کی تپتی دھوپ میں انسانوں اور حیوانوں کو دور دور تک سایہ نہیں ملتا"۔   

لیہ کے پرانے باسیوں کا کہنا ہے کہ اس جنگل کی کٹائی اس وقت شروع ہوئی جب 1980 کی دہائی میں افغانستان میں ہونے والی جنگ کے نتیجے میں بہت سے افغان پناہ گزین لیہ میں آ کر آباد ہوئے۔ ان کے مطابق ان پناہ گزینوں نے یہاں اینٹوں کے بھٹے اور لکڑی سے کوئلہ بنانے کی بھٹیاں قائم کیں جن کے لیے بڑی مقدار میں لکڑی درکار تھی جس کے حصول کے لیے مقامی جنگلوں سے بڑی تعداد میں درخت کاٹے جانے لگے۔

لیہ کے ڈویژنل فاریسٹ آفیسر اسد شیرازی جنگلات کے سکڑنے کے ایک اور سبب کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی ذمہ داری ضلعے میں نئی سرکاری عمارتوں کی تعمیر پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حال ہی میں حکومت پنجاب نے چوک اعظم نامی قصبے میں سٹیڈیم ، تھانے، ہسپتال اور دیگر سرکاری عمارتوں کی تعمیر کے لیے جنگل کی زمین حاصل کی تھی۔لیکن، ان کے مطابق، اس کے بدلے میں "جو زمین دی گئی ہے وہ ریتلی ہونے کے باعث جنگل لگانے کے لیے موزوں نہیں ہے"۔

درختوں کا صفایہ

لیہ دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر پھیلے صحرائے تھل کا حصہ ہے جسے زیرِکاشت لانے کے لیے 1950 کی دہائی میں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نامی سرکاری ادارے نے ایک نہر بنائی جو شمال میں میانوالی کے ضلع سے شروع ہو کر جنوب میں مظفر گڑھ تک جاتی ہے۔ اس نہر کی تعمیر کے بعد محکمہ جنگلات نے تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی  سے لیہ میں تقریباً 27 ہزار ایکڑ زمین خرید کر عنایت شاہ، ماچھو اور راجن شاہ کے علاقوں میں تین جنگل لگائے۔ نہر کے ساتھ بسائے گئے کئی دیہات میں بھی آٹھ ہزار ایکڑ رقبے پر درخت لگائے گئے۔ مجموعی طور پر یہ جنگلات چھانگا مانگا کے بعد پاکستان میں انسانوں کےہاتھوں لگائے گئے درختوں کا سب سے بڑا ذخیرہ ہیں۔

عنایت شاہ فاریسٹ رینج کے قریبی گاؤں چک 281 ٹی ڈی اے سے تعلق رکھنے والے بزرگ کسان طفیل محمد کہتے ہیں کہ 1982 میں لیہ کو ضلع کا درجہ دیے جانے کے بعد یہاں محکمہ جنگلات کے دفاتر قائم ہوئے جن میں بڑی تعداد میں سرکاری اہلکاروں کو تعینات کیا گیا۔ اسی طرح ماچھو اور عنایت شاہ کے جنگلات سے درختوں کی چوری روکنے کے لیے ان کے قریبی قصبے چوک اعظم میں پولیس کی چوکی بھی بنائی گئی۔ لیکن ان کے بقول ان سرکاری اقدامات کے باوجود جنگلات محفوظ ہونے کے بجائے مزید خطرات کا شکار ہوگئے اور "ان کی حفاظت کے ذمہ دار سرکاری حکام میں رشوت ستانی اور درختوں کی چوری دونوں بڑھتے چلے گئے"۔

رفیق احمد بھی محکمہ جنگلات کے حکام کو اس صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "اس محکمے کے اہلکاروں نے لکڑی چوروں کو رشوت کے عوض جنگلات کے درخت کاٹنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے"۔

ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے سرگرم مقامی سماجی کارکن ظہور احمد تھند اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "ہمارے ہاں درختوں کی حفاظت اور ان میں اضافے کی ذمہ داری پر مامور اہلکار ہی ان میں کمی کا باعث بن رہے ہیں"۔ ان جیسے سماجی کارکنوں نے محکمہ جنگلات اور ضلعی انتظامیہ کو متعدد بار تحریری درخواستیں دے کر ان کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود درختوں کی غیر قانونی کٹائی کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔

محکمہ جنگلات کے اہل کار خود بھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ مقامی جنگلات سے بڑے پیمانے پر لکڑی چوری کی جا رہی ہے۔ اس محکمے کے بلاک آفیسر مہر مختار تسلیم کرتے ہیں کہ لیہ میں میں 13 منظم گروہ جنگلات سے لکڑی چوری کرنے میں سرگرم ہیں جن کے ارکان نے صرف 22-2021 میں چار کروڑ 29 لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کی لکڑی چرائی ہے۔

تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ ضلعی انتظامیہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے بہت سے اقدامات اٹھا رہی ہے جن میں لکڑی چوری میں ملوث گروہوں کے خلاف ٹھوس قانونی کارروائی کرنا بھی شامل ہے۔ ان کے مطابق ان میں سے ایک گروہ کے سرغنہ تصدق حسین سمیت تین لوگوں کو دو دو سال قید کی سزا بھی ہو چکی ہے۔ اس کے علاوہ "محکمہ جنگلات نے ٹمبر مارکیٹ ملتان میں نو ایسے تاجروں کے خلاف مقدمے درج کرائے ہیں جو جنگل سے چوری کی جانے والی لکڑی خریدنے میں ملوث ہیں"۔

مہر مختار کا یہ بھی کہنا ہے کہ پچھلے کچھ عرصہ میں مقامی جنگلات سے غیر قانونی طور پر درخت کاٹنے والے لوگوں کے خلاف مجموعی طور پر 25 مقدمات درج کرائے  گئے ہیں، لکڑی چوری کے ایک سو 13 واقعات میں ملزموں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر ان سے تقریباً ساڑھے 13 لاکھ روپے بطور جرمانہ وصول کیے گئے ہیں اور لکڑی چوروں کے دس سے زیادہ ٹرک اور گاڑیاں بھی قبضے میں لی گئی ہیں۔

تاہم ان اقدامات کے نتیجے میں مقامی جنگلات سے درختوں کی کٹائی ختم نہیں ہوئی بلکہ مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ اب تو جنگلات کی مٹی بھی غیر قانونی طور پر فروخت کی جا رہی ہے۔ یہ چوری حال ہی میں اس وقت منظرِ عام پر آئی جب لیہ کے ڈپٹی کمشنر شہباز حسین کے چوک اعظم کے دورے کے دوران مقامی پولیس اہل کاروں نے ایک ایسے ٹریکٹر ٹرالی کو پکڑا جس میں جنگل کی زمین سے مٹی کھود کر قصبے میں لائی جا رہی تھی۔

اس کے ڈرائیور نے پولیس کو بتایا کہ محکمہ جنگلات کے اہل کار ایک ٹرالی مٹی بھرنے کے عوض ایک ہزار روپے رشوت لیتے ہیں۔ بعد میں یہ مٹی چوک اعظم اور لیہ جیسی بستیوں میں تعمیر ہونے والی نئی عمارتوں میں بھرتی ڈالنے کے لیے استعمال ہوتی ہے جہاں اس کی قیمت 18 سو روپے سے دو ہزار روپے تک ہوتی ہے۔

کلین اور گرین پاکستان؟

لیہ کے مقامی ماہرِ ماحولیات مظاہر خان کے مطابق جنگلات کی لکڑی اوران کی مٹی کی چوری جتنی ہی تشویش ناک بات یہ ہے کہ جس جگہ سے درخت کاٹے جا چکے ہیں وہاں نئی شجر کاری نہیں کی جا رہی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

سوات ایکسپریس وے کے دوسرے مرحلے کی تعمیر: 'ہم سے ہمارے باغات اور زمینیں چھینی جا رہی ہیں'۔

ان کا کہنا ہے کہ "لیہ کے محکمہ جنگلات نے وفاقی حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی کلین اور گرین پاکستان مہم اور وزیرِ اعظم عمران خان کے بلین ٹری سونامی پروگرام کے تحت محض برائے نام نئے درخت لگائے ہیں"۔ اس ضمن میں وہ ماچھو فاریسٹ رینج میں لگائے جانے والے درختوں کی مثال دیتے ہیں جو نگہداشت نہ ہونے کے باعث سوکھ چکے ہیں۔

تاہم دوسری طرف ڈویژنل فاریسٹ آفیسر اسد شیرازی کا دعویٰ ہے کہ شجرکاری کی مہم کامیابی سے مکمل کی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ دس بلین ٹری سونامی پروگرام کے تحت دو سال میں ماچھو فاریسٹ رینج میں پانچ سو 15 ایکڑ، عنایت شاہ فاریسٹ رینج میں سات سو دو ایکڑ ، راجن شاہ فاریسٹ رینج میں چار سو 98 ایکڑ اور مختلف دیہات کے ارد گرد تین سو 16 ایکڑ پر شجر کاری کی گئی ہے۔

تاریخ اشاعت 22 فروری 2022

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

خیبر پختونخوا: ڈگری والے ناکام ہوتے ہیں تو کوکا "خاندان' یاد آتا ہے

thumb
سٹوری

عمر کوٹ تحصیل میں 'برتھ سرٹیفکیٹ' کے لیے 80 کلومیٹر سفر کیوں کرنا پڑتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceالیاس تھری

سوات: موسمیاتی تبدیلی نے کسانوں سے گندم چھین لی ہے

سوات: سرکاری دفاتر بناتے ہیں لیکن سرکاری سکول کوئی نہیں بناتا

thumb
سٹوری

صحبت پور: لوگ دیہی علاقوں سے شہروں میں نقل مکانی پر کیوں مجبور ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرضوان الزمان منگی
thumb
سٹوری

بارشوں اور لینڈ سلائڈز سے خیبر پختونخوا میں زیادہ جانی نقصان کیوں ہوتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا

یہ پُل نہیں موت کا کنواں ہے

thumb
سٹوری

فیصل آباد زیادتی کیس: "شہر کے لوگ جینے نہیں دے رہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

قانون تو بن گیا مگر ملزموں پر تشدد اور زیرِ حراست افراد کی ہلاکتیں کون روکے گا ؟

arrow

مزید پڑھیں

ماہ پارہ ذوالقدر

تھرپارکر: انسانوں کے علاج کے لیے درختوں کا قتل

دریائے سوات: کُنڈی ڈالو تو کچرا نکلتا ہے

thumb
سٹوری

"ہماری عید اس دن ہوتی ہے جب گھر میں کھانا بنتا ہے"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.