لاہور میں واقع امراضِ قلب کے سرکاری ہسپتال، پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی، میں زیرِ علاج 65 سالہ الفت بی بی حرکتِ قلب بند ہو جانے سے یکم دسمبر 2021 کو انتقال کر گئیں۔
ان کی بہن کی آہ و زاری سن کر ہسپتال کی راہداری میں موجود ڈاکٹروں اور نرسوں سمیت سبھی لوگوں کی توجہ خون آلود چادر تلے سٹریچر پر پڑی ان کی میت کی جانب مبذول ہو گئی۔ لیکن چند لمحوں میں سب لوگ اپنی اپنی راہ چل دیے کیونکہ ہسپتالوں میں موت کے ایسے مناظر روز کا معمول ہیں۔
لاہور کے شمالی علاقے شاہدرہ کی رہائشی الفت بی بی کے بھتیجے سلطان احمد کہتے ہیں کہ وہ گزشتہ 25 سال سے بیمار تھیں لیکن کسی بڑے ہسپتال سے علاج کرانے کے بجائے اپنی جان پہچان کے ایک ڈاکٹر سے مشورہ لینا بہتر سمجھتی تھیں۔ اس ڈاکٹر نے انہیں بتا رکھا تھا کہ وہ بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کی دوائیں کھاتی رہیں حالانکہ یہ دوائیں لینے کے باوجود بھی اکثروبیشتر ان کا بلڈ پریشر مناسب حد سے بڑھ جاتا تھا۔
جب 2018 میں انہیں پہلی مرتبہ دل میں درد ہوا تو ان کے ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ اس کا سبب ان کے بلڈ پریشر میں اچانک اضافہ ہے۔ اس نے انہیں وہی دوائیں لیتے رہنے کا مشورہ دیا جو وہ پہلے سے لے رہی تھیں اور انہیں یقین دلایا کہ انہیں استعمال کرتے رہنے سے ان کا درد ختم ہو جائے گا۔
تاہم ان کی طبیعت ٹھیک ہونے کے بجائے مزید خراب ہو گئی اور انہیں دل کے مقام پر اس قدر دباؤ محسوس ہونے لگا کہ ان کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا۔ کافی عرصہ وہ اسی کیفیت میں رہیں جس کے بعد ان کے خاندان والے انہیں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے گئے جہاں اگست 2021 میں ایک ماہرِ امراضِ قلب نے ان کا تفصیلی معائنہ کیا اور انہیں بتایا کہ دراصل وہ ہائپر ٹینشن کی مریضہ ہیں جس کی وجہ سے ان کے دل کی شریانیں خراب ہو رہی ہیں۔ اس نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے دل کا بائی پاس آپریشن کرائیں تاکہ ان کی شریانوں کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کیا جا سکے۔
لیکن پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی انتظامیہ نے الفت بی بی کو آپریشن کے لیے لگ بھگ چار ماہ بعد کی تاریخ دی جس سے چار دن پہلے ہی ان کا انتقال ہو گیا۔
ثمینہ بی بی بھی اسی طرح کے طبی مسائل کا شکار ہیں۔
وہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے سرحدی ضلع میانوالی میں پیدا ہوئیں لیکن 12 سال کی عمر میں انہیں کراچی بھیج دیا گیا جہاں انہیں ایک گھر میں چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کرنا تھی۔ اب ان کی عمر 38 سال ہے، وہ پانچ بچوں کی ماں ہیں اور پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں کام کر چکی ہیں۔
سات سال پہلے وہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے میانوالی گئیں تو وہاں انہیں ہر وقت تھکن اور غنودگی رہنے لگی۔ جب انہوں نے ایک مقامی ڈاکٹر سے معائنہ کروایا تو اس نے انہیں بتایا کہ ان کا وزن بہت بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے ان کی صحت خطرے میں ہے لہٰذا انہیں اپنا وزن کم کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔
وہ روزانہ چار مختلف گھروں میں کام کرتی ہیں اس لیے انہیں اس مشورے پر عمل کرنے کا کبھی وقت ہی نہیں ملا۔
لیکن وہ کہتی ہیں کہ آہستہ آہستہ ان کی طبعیت اس قدر خراب رہنے لگی کہ وہ ایسے گھریلو کام انجام دیتے ہوئے بھی تھکاوٹ اور تکلیف محسوس کرنے لگیں جو پہلے وہ آسانی سے کر لیتی تھیں۔ بمشکل سانس لیتے ہوئے وہ ایک خرخراتی ہوئی آواز میں کہتی ہیں کہ "میں جن گھروں میں کام کرتی ہوں وہاں کی مالکنیں اکثر مجھے ڈانٹتی ہیں کہ میں سست ہو گئی ہوں لیکن میرے لیے تیزرفتاری سے اور بلا تکان کام کرنا ممکن ہی نہیں رہا"۔
مئی 2020 میں ایک گھر میں کپڑے دھوتے ہوئے انہیں ایسا چکر آیا کہ ان کا سر ایک تپائی سے جا ٹکرایا۔ انہیں فوراً ایک قریبی ہسپتال پہنچایا گیا جہاں ان کے معائنے کے بعد ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ وہ ہائپرٹینشن اور ذیابیطس کی مریضہ بن چکی ہیں۔
ہائپر ٹینشن کون سی بیماری ہے؟
ہائپر ٹینشن بلند فشار خون (ہائی بلڈ پریشر) کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور دل کے دورے، حرکت قلب کے اچانک بند ہونے، فالج، گردے کے امراض اور دیگر جسمانی پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہے۔ یہ ایک موروثی مرض ہے جو عام طور پر والدین سے بچوں کو منتقل ہوتا ہے لیکن موٹاپا، خواتین میں ماہواری کے بعد ہارمون کی مقدار میں کمی یا زیادتی، جسمانی سرگرمی کی کمی یا زیادتی، ذیابیطس، خون میں کولیسٹرول کی زیادتی، زیادہ مقدار میں نمک کا استعمال، ناقص علاج معالجہ اور مالی مشکلات کے باعث مناسب طبی سہولتوں سے استفادہ نہ کر سکنا اس کے دیگر بنیادی اسباب ہیں۔
برٹش جرنل آف جنرل پریکٹس نامی طبی جریدے میں 2010 میں شائع ہونے والے ایک جائزے کے مطابق پاکستان میں رہنے والے تمام بالغ افراد میں سے 18 فیصد اور 45 سال سے زیادہ عمر کے تمام پاکستانیوں میں سے 33 فیصد لوگ اس بیماری کا شکار ہیں۔ اس جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ہائپرٹینشن کے صرف 50 فیصد پاکستانی مریضوں میں ہی اس کی بروقت تشخیص ہو پاتی ہے۔ باقی لوگوں کو ثمینہ بی بی کی طرح اس کا پتہ اتنی دیر سے چلتا ہے کہ ان کا علاج بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
تشخیص شدہ مریضوں میں سے بھی محض نصف کو علاج میسر آتا ہے (جبکہ باقی ماندہ مریض الفت بی بی کی طرح علاج سے پہلے ہی موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں)۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان میں ہائپرٹینشن کے ہر سو مریضوں میں سے صرف 25 ایسے ہیں جو اس کا علاج کرا پاتے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں اس وقت ہائپرٹینشن 10 بڑی بیماریوں میں شامل ہے۔ صوبائی ڈائریکٹوریٹ جنرل ہیلتھ سروسز کی جانب سے صحتِ عامہ سے متعلق جاری کردہ سالانہ رپورٹوں میں یہ بھی نظر آتا ہے کہ صوبے میں اس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ان رپورٹوں کے مطابق ہائپرٹینشن کے سب سے زیادہ مریض لاہور میں پائے جاتے ہیں جس کے بعد بالترتیب راولپنڈی، فیصل آباد، گجرانوالہ، رحیم یار خان، سرگودھا اور مظفرگڑھ کا نمبر آتا ہے۔ 2019 میں کیے گئے ایک سرکاری جائزے سے یہ نتیجہ بھی نکلا ہے کہ پنجاب میں روزانہ اوسطاً ہائپرٹینشن کے 13 ہزار تین سو 37 مریض سامنے آتے ہیں۔
لاہور کے شیخ زاید ہسپتال میں بطور پروفیسر آف میڈیسن کام کرنے والے ڈاکٹر محمد عثمان ہائپر ٹینشن کو ایک خاموش قاتل قرار دیتے ہیں کیونکہ، ان کے مطابق، اکثر اس کی علامات اس وقت تک ظاہر نہیں ہوتیں جب تک اس کا مریض کسی سنگین طبی پیچیدگی کا شکار نہ ہو جائے۔ اس لیے، ان کے مطابق، ثمینہ بی بی کی طرح "ہائپرٹینشن کے تقریباً 70 فیصد مریضوں کو یا تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ انہیں یہ مریض لاحق ہے اور یا پھر ڈاکٹر ان کے مرض کی صحیح تشخیص نہیں کر پاتے"۔ ان کا کہنا ہے کہ "ایسے بیشتر مریضوں کا تعلق دیہی علاقوں سے ہوتا ہے"۔
پاکستان میں ہائپرٹینشن کا پھیلاؤ اور علاج
نیشنل ہیلتھ سروے آف پاکستان میں دیے گئے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں 15 سال یا اس سے زیادہ عمر کی قریباً 18.9 فیصد آبادی ہائپرٹینشن کی مریض ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب کی 11 کروڑ سے زیادہ آبادی میں سے کم از کم دو کروڑ لوگ اس بیماری میں مبتلا ہیں۔
لیکن صوبائی حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو رقم مختص کر رکھی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مصداق بہت ہی کم ہے۔ مثال کے طور پر ہائپرٹینشن سمیت تمام غیروبائی امراض کی روک تھام کے لیے بنائے گئے پنجاب حکومت کے ادارے کو 2016 اور 2021 کے درمیان کل ملا کر محض سات کروڑ 81 لاکھ 50 ہزار روپے دیے گئے ہیں جو لگ بھگ سوا کروڑ روپے سالانہ کے قریب بنتے ہیں۔ اگر یہ تمام رقم صرف ہائپرٹینشن کی روک تھام پر ہی خرچ کر دی جائے تو اس بیماری کے ایک مریض کے حصے میں ایک روپے سے بھی کم پیسے آتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ 45 سالہ محمد بلال جیسے ہائپر ٹینشن کے مریضوں کو مناسب، بروقت اور سستے علاج کی سہولت کہیں دستیاب نہیں۔
انہیں 22 سال پہلے اس وقت پتہ چلا کہ وہ ہائپرٹینشن کے مریض ہیں جب انہوں نے اپنے والد کے زیرِ استعمال بلڈ پریشر چیک کرنے والے آلے کے ذریعے اپنا معائنہ کیا۔ جلد ہی ایک ڈاکٹر نے اس کی تصدیق کر دی اور انہیں کہا کہ وہ اس کے علاج کے لیے باقاعدہ دوائیں کھائیں۔
وہ ایک لمبا عرصہ یہ دوائیں کھاتے رہے لیکن چھ ماہ پہلے انہیں شدید تھکن رہنے لگی اور ان کا رنگ بھی پیلا پڑ گیا۔ ان کے بھائی محمد عمران علاج کے لیے انہیں لاہور کے ایک بڑے نجی ہسپتال میں لے گئے مگر وہاں ان سے اس قدر زیادہ فیس مانگی گئی کہ وہ اسے ادا نہیں کر پائے۔ اس لیے اس ماہ کے شروع میں انہیں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی لے جایا گیا۔
لیکن وہاں گھنٹوں پڑے رہنے کے باوجود کسی ڈاکٹر نے محمد بلال کا معائنہ تک نہ کیا۔ ان کے بھائی کے مطابق "ہم ڈیڑھ دن ڈاکٹر کا انتظار کرتے رہے مگر کسی نے ہماری بات نہ سنی"-
اس وقت تک ان کے جسم میں پانچ لیٹر پانی جمع ہو چکا تھا جس سے ان کے گردوں میں بھی خرابی پیدا ہونے لگی تھی۔ گویا انہیں لاحق ہائپر ٹینشن ان کی جان کے در پے تھی مگر ان کے مناسب، بروقت اور سستے علاج کے امکانات دور دور تک دکھائی نہیں دے رہے تھے۔
تاریخ اشاعت 7 دسمبر 2021