بڑھتی آبادی، بِکتی زمینیں، مٹتے کھیت، پھولوں کے شہر پشاور کو کنکریٹ نے ڈھک لیا

postImg

اسلام گل آفریدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

postImg

بڑھتی آبادی، بِکتی زمینیں، مٹتے کھیت، پھولوں کے شہر پشاور کو کنکریٹ نے ڈھک لیا

اسلام گل آفریدی

loop

انگریزی میں پڑھیں

چالیس سالہ کاشت کار جاوید علی پشاور رنگ روڑ کے قریب گاؤں سفید ڈھیری کے رہائشی ہیں۔ ان کے پاس صرف ایک ایکڑ زمین ہے جس پر وہ جانوروں کے لیے چارہ اگاتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد اور دادا بھی کسان تھے اوراسی گاؤں میں 30 ایکڑ سے زیادہ زمین پر گندم، سبزیاں اور چارہ اگاتے تھے لیکن اب حالات بالکل تبدیل ہو چکے ہیں۔

"زمین ہماری نہیں تھی۔ دادا کے بعد میرے والد اور دو چچا حصے (خرچہ مالک کا اور دیکھ بھال مزارع کی۔پیداوار آدھی آدھی) پرمقامی زمیندار کی اراضی کاشت کرتے تھے۔ پھرمالک نے زمین پراپرٹی ڈیلر کو بیچ دی۔"

ستر سالہ اختر محمد پشاور شہر سے پانچ کلومیٹر مشرق میں واقع گاؤں اچینی میں رہتے ہیں۔ وہ برسوں تک مختلف لوگوں کی 20 ایکڑ زمین سنبھالتے رہے۔ مگراب وہ صرف اپنے گھر کے لیے ضرورت کی سبزیاں ہی اگاتے ہیں۔

اختر محمد کو زرعی زمین پر رہائشی کالونیاں بننے کا دکھ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہاں تو فصلوں کی ضرورت کے مطابق پانی بھی دستیاب تھا مگر لوگوں نے زمینیں فروخت کر دیں۔ کھیت ختم ہو گئے اب عمارتیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔

بہادرعلی خان پشاور ڈوپلمنٹ اتھارٹی(پی ڈی اے) میں بلڈنگ کنٹرول کے ڈائریکٹر ہیں اور وہ 2015ء سے شہر اور نواح کے نجی ہاؤسنگ منصوبوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ 2021ء میں نئے بلدیاتی نظام کے بعد پی ڈی اے حدود کے اندر رہائشی یا کمرشل منصوبوں کی ذمہ داری اُن کے پاس ہے۔ پی ڈی اے کے باہر بلڈنگ کنٹرول کے اختیارات تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشن (ٹی ایم او) کو منتقل ہوگئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ لینڈ پروٹیکیشن ایکٹ2021ء کے تحت ہاؤسنگ منصوبوں کے لئے ضلع اور تحصیل کی سطح پر کمیٹیاں بنا دی گئی ہیں۔ اب وہی درخواستوں کی جانچ پڑتال کے بعد این او سی یا اجازت نامہ جاری کر جاری کرتی ہیں۔

 ڈائریکٹر بلڈنگ کنٹرول کے مطابق جنوری 2018ء سے نومبر 2021ء تک چھوٹے بڑے 237 منصوبوں کے لیے درخواستیں موصول ہوئی تھیں۔ ان میں آٹھ کمرشل اور رہائشی منصوبوں کو اجازت نامے جاری کئے گئے ہیں اور 18منصوبوں کی چانچ پڑتال کاعمل جاری ہے۔

پی ڈی اے کی دستاویزات کے مطابق 2020ء میں شہر اور گردو نواح میں 161 غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائی گئیں۔

 بہادرعلی خان کہتے ہیں کہ ان سوسائٹیوں نے پی ڈی اے سے منظوری نہیں لی اور نہ ہی کوئی این او سی حاصل کیا۔ ادارے نے ان کے خلاف قانونی کارروائیاں کی ہیں۔ ان کے تعمیراتی کام بند کیے گئے ہیں اور بعض کے دفاتر بھی سیل کر دیے گئے اور 33 سوسائٹیوں کے خلاف نیب میں کیس چل رہے ہیں۔

رنگ روڈ پر اچینی چوک نامی آبادی سے تعلق رکھنے والے سید محمد بتاتے ہیں کہ جب فوجی آپریشن ہوئے تو قبائلی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی۔ زیادہ تر نے پشاور کے مختلف علاقوں میں زمینیں خریدیں اور یہیں گھر بنا لیے۔

ان کا کہنا ہے کہ زمین کی قیمتیں بڑھیں تو مقامی لوگوں نے زرعی اراضی بیچ دی۔ یہاں رہائشی سکیمیں بن گئیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ سوسائٹیاں قانونی ہیں یا غیرقانونی بس اتنا علم ہے کہ اب ان زمینوں پر کھیتی نہیں ہو سکتی۔"

ڈاکٹر مراد علی خان محکمہ زراعت کے ڈائریکٹوریٹ جنرل توسیع میں ڈائریکٹر فلڈ آپریشنز تعینات ہیں۔ نئے قانون کے تحت زرعی زمینوں پر رہاٸشی منصوبوں کو دیکھنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

وہ روز بروز پھیلتی ہاؤسنگ سکیموں سے پریشان اور غیر مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر کوئی مضبوط نظام موجود نہیں ہے۔ منصوبہ بندی کے بغیر رہائشی اور کمرشل استعمال کے لیے زرعی زمین کو استعمال میں لایا جا رہا ہے۔

رہائشی یا کمرشل سکیم کی منظوری کا طریقہ کار

ڈائریکٹر بلڈنگ کنٹرول نے 2021ء کے قانون کے تحت رہائشی یا کمرشل سکیم کی منظوری کا طریقہ کار بتایا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ زمین مالک اپنی درخواست مطلوبہ دستاویزات کے ساتھ ڈپٹی کمشنر آفس میں جمع کراتے ہیں۔

دوسرے مرحلے میں مالکان سے نقشے وغیرہ طلب کئے جاتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں ایک کمیٹی جگہ کا معائنہ اور ریکارڈ کی مکمل جانچ کرتی ہے۔ مختلف اداروں کی منظوری کی بعد ڈی سی آفس اجازت نامہ جاری کر دیتا ہے۔

اجازت نامہ جاری ہونے کے بعد منصوبے کی باقاعدہ مانیٹرنگ ہوتی ہے۔ نئے قانون کے تحت پوری سکیم کے 35فیصد پلاٹ پی ڈی اے یا ٹی ایم اے بطور زر ضمانت رکھتی ہے۔ اس کے بعد جتنا ترقیاتی کام ہو جاتا ہے اسی تناسب سے پلاٹ سوسائٹی کو واپس کر دیے جاتے ہیں۔

لینڈ پروٹیکشن ایکٹ 2021ء

قانون تحفظ اراضی (لینڈ پروٹیکیشن ایکٹ 2021ء)کے تحت رہائشی سکیم کی منظوری ضلع کمیٹی دیتی ہے۔ کمیٹی میں ڈپٹی کمشنر، متعلقہ تحصیل کا اسسٹنٹ کمشنر ضلعی افسر زراعت اور تحصیل چیٸرمین کے علاوہ ماحولیات اورمقامی حکومتوں کے عہدیدار شامل ہیں ۔

ڈاکٹر مراد بتاتے ہیں کہ پہلے کسی بھی رہائشی منصوبے کے لیے کم از کم 160کنال زمین ہونا ضروری تھی۔ نئے قانون میں یہ حد 10کنال مقرر کر دی گئی ہے۔اب ہر منصوبے کی منظوری کو محکمہ زراعت کے این او سی سے مشروط کر دیا گیا ہے۔

"محکمہ زراعت زمین کا جائزہ لیتا ہے۔ اگر کوئی رقبہ کم زرعی پیداور بھی دے تو تب بھی ہم وہاں تعمیراتی منصوبے کی اجازت نہیں دیتے۔ کیوں کہ آنے والے وقت میں جدید ٹیکنالوجی سے بنجر زمینوں پر بھی فصل اگانا ممکن ہو گا۔"

قانون تحفظ اراضی کے مطابق صوبائی اور ضلعی سطح پر کمیٹیوں میں زرعی زمین کو بچانے کی ذمہ داری محکمہ زراعت کے پاس ہے۔ اس کے بعد ہی کوئی اور محکمہ کسی منصوبے کو دیکھے گا۔ قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں فرد یاکمپنی کو دس لاکھ روپے جرمانہ اورتین سے دس سال تک قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

صوبائی محکمہ زراعت کے مطابق ضلع پشاور کا کُل رقبہ ایک لاکھ 26ہزار 661 ہیکٹر ہے۔ اس میں سے 78 ہزار 854 ہیکٹر زیر کاشت ہے۔ ادارے کے مطابق دو ہزار 400 ہیکٹر کے سوا تمام زمین کی آبپاشی کے لیے پانی دستیاب ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

حیدر آباد میں زرعی اراضی پر پھیلتی ہاوسنگ سکیمیں، بلڈرز نے کاشت کاروں کی زندگی اجیرن کر دی

موضع سینسس 2020ء کے مطابق ضلع پشاور کے کل 318 مواضعات میں سے 265 دیہی مواضعات ہیں جبکہ 35 اربن اور 18 جزوی اربن ہو چکے ہیں۔

ڈاکٹر مراد علی کا دعویٰ ہے کہ پشاور کی 37 فیصد زرعی زمین پر اب رہائشی اور کمرشل منصوبے تعمیر کیے جا چکے ہیں۔ تاہم اس دعوے کی تصدیق یا تردید کے لیے مستند سرکاری اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔

سرکاری اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پشاور کی شہری آبادی 2017ء میں 20 لاکھ 26 ہزار 851 تھی۔ یہ اب لگ بھگ 24 لاکھ ہو گئی ہے۔ 1997ء سے مردم شماری کے ریکارڈ کا جائزہ لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہر کی آبادی سالانہ 3.99 فیصد کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔

اربن پالیسی یونٹ خیبر پختونخوا کے اندازوں کے مطابق پشاور کے پھیلاؤ کی رفتار کو دیکھتے ہوئے 2019 ءسے 2039ء تک شہری آبادی کی رہائش کے لیے اضافی 987 ایکڑ رقبہ درکار ہوگا۔

ڈاکٹر مراد کا کہنا ہے قانون تحفظ اراضی کے اثرات تو وقت کے ساتھ آئیں گے مگر ایک بات طے ہے کہ ضلع پشاور میں زرعی زمین تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

تاریخ اشاعت 8 اگست 2023

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسلام گل آفریدی پچھلے سولہ سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔

چمن بارڈر بند ہونے سے بچے سکول چھوڑ کر مزدور بن گئے ہیں

thumb
سٹوری

سوات میں غیرت کے نام پر قتل کے روز بروز بڑھتے واقعات، آخر وجہ کیا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوقار احمد

گلگت بلتستان: اپنی کشتی، دریا اور سکول

thumb
سٹوری

سندھ زرعی یونیورسٹی، جنسی ہراسانی کی شکایت پر انصاف کا حصول مشکل کیوں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاشفاق لغاری

خیبر پختونخوا، 14 سال گزر گئے مگر حکومت سے سکول تعمیر نہیں ہو سکا

thumb
سٹوری

فصائی آلودگی میں کمی کے لیے گرین لاک ڈاؤن کے منفی نتائج کون بھگت رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود
thumb
سٹوری

آن لائن گیمز سے بڑھتی ہوئی اموات کا ذمہ دار کون؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceعمر باچا
thumb
سٹوری

سندھ میں ایم ڈی کیٹ دوبارہ، "بولیاں تو اب بھی لگیں گی"

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمنیش کمار

میڈ ان افغانستان چولہے، خرچ کم تپش زیادہ

ہمت ہو تو ایک سلائی مشین سے بھی ادارہ بن جاتا ہے

جدید کاشت کاری میں خواتین مردوں سے آگے

thumb
سٹوری

موسمیاتی تبدیلیاں: دریائے پنجکوڑہ کی وادی کمراٹ و ملحقہ علاقوں کو برفانی جھیلوں سے کیا خطرات ہیں ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceسید زاہد جان
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.