غلام رسول بھٹو اور زرینہ بخش بھٹو ایک ہی گاؤں میں پیدا ہوئے۔دونوں کے والدین اوباڑو کے گوٹھ لک پور میں رہتے تھے اور دونوں کی برادری بھی ایک ہے۔ دونوں کاتعلق بھٹو برادری سے ہے۔
اٹھائیس سالہ غلام رسول اور بائیس سالہ زرینہ نے 2016 میں پسند کی شادی کر لی۔ چالیس روز کے بعد غلام رسول کیخلاف ان کی بیوی زرینہ کے اغوا کا مقدمہ درج ہو گیا اور پولیس نے میاں بیوی کو گرفتار کر لیا۔
جب انہیں عدالت کے روبرو پیش کیا گیا تو زرینہ نے بیان دیا کہ اس نے غلام رسول کے ساتھ اپنی مرضی سے شادی کی ہے۔ فاضل جج نے دونوں کو آزاد کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔ جس کے بعد پولیس نے انہیں چھوڑ دیا۔مگر مقدمہ درج کرانے والے لڑکی کے رشتہ داروں اور مقامی وڈیروں نے 15 فروی 2017ء کو خود ساختہ جرگہ بلا لیا۔
جرگے والوں نےمیاں بیوی پر سیاہ کاری کا الزام لگا کر غلام رسول پر پانچ لاکھ جرمانہ اور ان کی یتیم بھتیجی فاطمہ کو ونی کر نے کا فیصلہ سنادیا۔
جرگے کا فیصلہ نہ ماننے پر وڈیروں نے غلام رسول کے گھر دھاوا بول دیا۔ان کے والد بہاول بھٹو اور والدہ کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کے گھر، دکان اور زمین پر بھی قبضہ کر لیا۔
غلام رسول بتاتے ہیں کہ پسند کی شادی کرنے پر ان کے خاندان پر ظلم ڈھائے گئے تو وہ احتجاج کے لیے اسلام آباد پہنچ گئے اور 18 مارچ 2018 سے پریس کلب کے سامنے کیمپ لگا لیا۔ ایک ماہ قبل ان کے بوڑھے والد قرآن لے کر وڈیروں کے پاس گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد گھر، زمین اور دکانوں کی واپسی کے لیے گئے تھے۔ اس پر وڈیروں نے دوبارہ جرگہ بلا لیا او ان کی 13 سالہ بھتیجی آسیہ کو ونی کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وہ دس روز قبل اسلام آباد سے واپس آئے ہیں اور ضلع رحیم یارخان کے قصبے کوٹ سبزل میں رہ رہے ہیں۔ وہاں سے انہوں نے سوشل میڈیا پر ویڈیو پیغام کے ذریعے لوگوں کو اس ظلم سے آگاہ کیا۔
غلام رسول کی وڈیو وائرل ہونے پر سندھ کے نگران وزیر داخلہ حارث نواز نے جرگے کا نوٹس لے لیا اور سیکرٹری داخلہ سندھ نے پولیس کو فوری کارروائی اور مبینہ واقعے کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔
اوباوڑو پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزم نصیر اور مدد علی بھٹو کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ غلام رسول اور زرینہ نے پسند کی شادی کی تھی۔ اب سات سال بعد آٹھ اگست 2023 ءکو زرینہ بھٹو کے والد الہیٰ بخش نے اپنی برادری کے 14 اور چار نامعلوم افراد کے ساتھ مل کر جرگہ کیا۔
پولیس کے مطابق جرگے نے غلام رسول بھٹو پر 10 لاکھ روپے جرمانہ اور ان کی 12 سالہ بھتیجی آسیہ کو ونی میں دینے کا فیصلہ دیا تھا جس پر سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کر دو ملزموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ باق مفرور ملزموں کو بھی جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کی پابندی کے باوجود سندھ میں اب بھی سیاہ کاری کے نام پر خود ساختہ جرگے ہو رہے ہیں۔ رواں سال گھوٹکی میں چار جرگے کر کے بچیوں کو ونی میں دینے کا حکم سنایا گیا ہے۔
داد لغاری تھانے کے حدود میں 13 جون 2023ء کو ایک جرگہ ہوا ۔اس میں ایک فریق پر سات لاکھ جرمانہ اور چھ سالہ بچی فاطمہ کو ونی کیا گیا ۔اس کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج کیا گیااور اس کے تین ملزم ضمانت پر ہیں۔
روانتی میں چھ جولائی کو جرگہ ہوا ۔اس میں 22 لاکھ جرمانے کے ساتھ ایک لڑکی داؤدہ کوش کو ونی میں دیا گیا۔سات اگست کو اوباوڑو میں جرگہ کیا گیا جس میں13 سالہ آسیہ بھٹو کو ونی میں دینے کا فیصلہ سنایا گیا۔
داد لغاری میں 15 اگست کو جرگہ کر کے عروج پتافی کو ونی میں دینے کا فیصلہ سنایا گیا ہے۔ یہ چاروں وہ ہیں جن میں ملزموں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے جبکہ ایسے جرگے بھی ہو رہے ہیں جو رپورٹ نہیں ہو سکے۔
جو لوگ ان جرگوں کا فیصلہ ماننے سے انکار کرتے ہیں وہاں پسند کی شادی کرنے والوں کو سیاہ کاری کا الزام لگا کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ سندھ کے مختلف اضلاع میں رواں سال جنوری سےجون تک چھ ماہ میں غیرت کے نام پر 123 قتل کئے گئے۔
یہ بھی پڑھیں
راجن پور: تین سال میں غیرت کے نام پر 50 افراد قتل، 44 واقعات میں ملزم سزا سے بچ نکلے
خواتین کےحقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیم سندھ سُھائی آرگنائزیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر عائشہ حسن دھاریجو بتاتی ہیں کہ یہاں خواتین کو بھیڑ بکریوں کی طرح قتل کیا جا رہا ہے۔ چھ ماہ میں 91 عورتیں اور 32 مرد قتل ہوچکے ہیں۔
انہوں نے لوک سجاگ کو بتایا کہ جیکب آباد اس قتال میں سرفہرست ہے جہاں 12 عورتوں اور سات مردوں کی سیاہ کاری کے الزام میں جان لے لی گئی۔کشمور میں 11 عورتیں اور پانچ مرد قتل ہوئےاور شکارپور میں 10 عورتیں اور دو مرد ہلاک کر دیئے گئے۔
ڈاکٹر عائشہ کہتی ہیں کہ گھوٹکی میں چھ عورتیں اور ایک مرد جان سے گئے۔ سکھر میں نو خواتین اور ایک مرد کو غیرت کی بھنٹ چڑھایا گیا۔خیرپور میں چار عورتیں اور ایک مرد قتل ہوا جبکہ لاڑکانہ میں چار خواتین اور ایک مرد کی جان لی گئی جبکہ دیگر اضلاع میں 35 عورتیں اور 14 مرد قتل ہوئے۔
تاریخ اشاعت 2 ستمبر 2023