پشاور اور بنوں میں ایچ آئی وی (ایڈز) سے متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ کیوں ہے؟

postImg

اسلام گل آفریدی

postImg

پشاور اور بنوں میں ایچ آئی وی (ایڈز) سے متاثرہ افراد کی تعداد زیادہ کیوں ہے؟

اسلام گل آفریدی

چالیس سالہ سید محمد ضلع بنوں کے رہائشی ہیں اور2023ء میں خیبر پختونخوا میں رجسٹریشن کرانے والے ان 898 ایچ آئی وی پازیٹو افراد میں شامل ہیں جن کا ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت مفت علاج کیا جا رہا ہے۔

وہ برسوں ٹرک چلاتے رہے اور ملک کے مختلف حصوں میں سفر کرتے تھے۔ تاہم اب ڈیڑھ سال سے ٹیکسی چلا کر اپنے پانچ بچوں سمیت کنبے کے آٹھ افراد کی کفالت کر رہے ہیں۔

دو سال قبل وہ مسلسل بیمار رہنے لگے۔ انہیں پہلے بخار اور پھر جسمانی کمزوری سے شروع ہوئی جو بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ چلنا پھرنا بھی مشکل ہو گیا تھا۔ وہ علاج کے لیے ٹیچنگ ہسپتال بنوں چلے گئے۔

 "وہاں ٹیسٹ کرانے پر ڈاکٹروں نے بتایا کہ میں ایچ آئی وی پازیٹیو ہوں۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ یہ کون سی بیماری ہے تاہم وہاں مفت دوائیں ملیں اور مجھے احتیاط کا مشورہ دیا گیا جس سے اب میں دوبارہ کام کاج کے قابل ہو گیا ہوں"۔

خیبر پختونخوا میں ایچ آئی وی، ہپٹائٹس اور تھیلیسیمیا کنٹرول پروگرام کے فراہم کردہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2023ء میں یہاں 898 ایچ آئی وی پازیٹو کیس رجسٹر ہوئے جبکہ 2022ء میں ایک ہزار 25 مریضوں کا اندراج ہوا تھا۔

صوبے میں رجسٹرڈ ایچ آئی وی پازیٹو مریضوں کی مجموعی تعداد چھ ہزار 966 تک پہنچ چکی ہے۔

ریکارڈ کے مطابق سب سے زیادہ ایک ہزار 274 رجسٹرڈ افراد پشاور میں رہتے ہیں جبکہ بنوں 874 مریضوں کے ساتھ دوسرے نمبر پرہے۔ ضم شدہ اضلاع (سابق فاٹا) سے رجسٹرڈ ایچ آئی وی پازیٹو افراد کی تعداد ایک ہزار107 ہے جن میں سے سب زیادہ 282 شمالی وزیرستان کے رہائشی ہیں۔

خیبر پختونخوا کے مختلف مراکز میں گلگت بلتستان کے 10، پنجاب کے 58، سندھ کے 34 اور بلوچستان کے 11 افراد کے علاوہ 201 افغان باشندے بھی مفت طبی سہولت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

صوبے میں رجسٹرڈ ایچ آئی وی پازیٹو افراد میں چار ہزار 865 ( 70 فیصد) مرد، ایک ہزار 573 خواتین، 107 ٹرانس جینڈر اور 421 بچے (260 لڑکے اور 161 لڑکیاں) شامل ہیں۔

امریکی قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) کے مطابق انسانی امیونو وائرس (ایچ آئی وی) جسم میں بیماریوں کے خلاف مدافعت کے نظام پر حملہ شروع کرتا ہے۔ اگر علاج نہ جائے تو یہ وائرس 'ایڈز' (ایکوائرڈ امیونو ڈیفیشینسی سنڈروم) کا سبب بن جاتا ہے جو ایچ آئی وی انفیکشن کا بدترین مرحلہ ہے۔

ایچ آئی وی والے مریض جسمانی رطوبتوں یعنی غیر محفوظ جنسی تعلقات، ایک ہی سرنج یا سوئی کے زیادہ افراد پر استعمال، انتقال خون، حمل اور چھاتی کا دودھ پلانے کے ذریعے وائرس دوسرے افراد کو منتقل کر سکتے ہیں۔

 این آئی ایچ کہتا ہے کہ اگر ایچ آئی وی کو کنٹرول کیا جائے تو وائرس کی منتقلی کا خطرہ صفر کے قریب ہوتا ہے۔اسے کنٹرول کرنے کا واحد طریقہ اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی (اے آر ٹی) یعنی ادویات کا استعمال ہے جو خون میں ایچ آئی وی کی سطح (جسے وائرل لوڈ کہا جاتا ہے) کو کم کرتی ہیں۔

اے آر ٹی ہر ایچ آئی وی پازیٹو شخص کے لیے تجویز کی جاتی ہے جس سے یہ بیماری ختم تو نہیں ہو سکتی تاہم دواؤں کے استعمال سے ان کی زندگی اتنی آسان ہو جاتی ہے جیسے ایچ آئی وی کے بغیر لوگوں کی ہوتی ہیں۔

این آئی ایچ کے مطابق دوائیں (اے آر ٹی) ایچ آئی وی کی منتقلی کے خطرے کو ختم کر سکتی ہیں۔ اس طریقہ علاج میں مریض کو کھانے کے لیے گولیاں، کیپسول یا طویل مدتی انجکشن دیے جاتے ہیں اور بعض اوقات دونوں ملا کر بھی دی جاتی ہیں۔

 ڈاکٹر طارق حیات خیبر پختونخوا میں ایچ آئی وی، ہپٹاٹیس اور تھلسیمیا کنٹرول پروگرام کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ صوبے میں پچھلے سال تک ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد کے لیے صرف چھ اے آر ٹی مراکز تھے لیکن اب یہ تعداد 13 کر دی گئی ہے جہاں ٹیسٹ، آگاہی اور ادویات مفت فراہم کی جارہی ہیں۔

ساٹھ سالہ محمد عزیز عباسی ضلع ہری پور کے دور افتادہ گاؤں کے رہائشی اور ریٹائرڈ سرکاری ملازم ہیں جو پانچ گھنٹے کا سفر کرکے پشاور مرکز سے اپنی 25 سالہ بیٹی صائمہ کی ادویات لینے آتے تھے تاہم اب ابیٹ آباد میں مرکز کھلنے سے اُن کی مشکل کچھ کم ہوئی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ تین سال قبل ان کی بیٹی کو پہلی زچگی کے دوران نجی کلینک میں خون لگایا گیا تھا جو انہوں نے باہر سے خریدا اور سکین کرائے بغیر لگوا لیا تھا۔ وہ خون ایڈز سے متاثرہ شخص کا تھا۔ تاہم صائمہ اب تین بچوں کی ماں ہیں اور علاج کے باعث ان کے بچے اور شوہر بھی اس وائرس سے محفوظ ہیں۔

صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق خیبر پختونخوا میں چھ ہزار 966 مریضوں میں سے چار ہزار 132 افراد غیر محفوظ جنسی تعلقات، 807 استعمال شدہ سرنج یا سوئی اور 630 افراد وائرس سے متاثرہ افراد کا خون لگنے سے ایچ آئی وی کا شکار ہوئے۔

اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ ایچ آئی وی وائرس کے پھیلاؤ کے سب سے زیادہ کیس غیر محفوظ جنسی رابطوں کی وجہ سے ہیں۔

یہی سوال جب بنوں کے سید محمد سے کیا گیا تو انہوں نے چند سکینڈ کی خاموشی کے بعد بتایا کہ وہ کئی کئی ہفتے گھر سے باہر رہتے تھے۔

" ڈرائیوروں کی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے ٹرک اڈوں اور ہوٹلوں میں عورتیں یا لڑکے مل جاتے ہیں اور شاید میں بھی وہیں سے وائرس کا شکار ہوا۔ لیکن اب بنوں میں سرکاری مرکز نہ صرف مفت علاج کررہا ہے بلکہ ڈپریشن دور کرنے کے لیے بھی رہنمائی کر رہا ہے"۔

ڈاکٹر طارق حیات سمجھتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کے متاثرہ مریضوں میں مردوں کا تناسب اس لیے زیادہ ہے کہ یہ لوگ ملک سے باہر محنت مزدوری کرنے جاتے ہیں۔ جہاں قیام کے دوران غیر محفوظ جنسی تعلقات قائم کرلیتے ہیں اور پھر ایچ آئی وی سے متاثر ہونے پر ڈی پورٹ کر دیے جاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ بیرون ملک سے آنے والے کچھ افراد اپنی بیماری چھپاتے ہیں۔

"اس طرح یہ نہ صرف اپنی بیویوں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ بچے بھی پیدا کر لیتے ہیں۔ حالانکہ بر وقت علاج اور احتیاطی تدابیر اختیار نہ کرنے سے جنم لینے والے بچے میں بھی وائرس منتقل ہوسکتا ہے"۔

نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق ملک بھر میں 53 ہزار 718 رجسٹرڈ ایچ آئی وی پازیٹو افراد ہیں۔ تاہم ایک اندازے کے مطابق ملک میں یہ تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہے جن کی اب تک رجسٹریشن نہیں ہوئی۔

پشاور کے 30 سالہ ساجد خان چھ سال دبئی میں ایک ٹیلی کام کمپنی کے ملازم رہے۔ دوسال قبل انہوں نے وہاں ویزے میں توسیع کے لیے اپنا طبی معائنہ کرایا تو ان کا ایچ آئی وی پازیٹو نکل آیا اور انہیں روزگار سے ہاتھ دھونا پڑے۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ واپس آئے تو شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے کیونکہ ایک تو نوکری چلی گئی، اوپر سے خطرناک وائرس کی مصیبت۔ وہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں قائم اے آر ٹی مرکز گئے جہاں انہیں تمام مطلوبہ سہولیات مل گئیں۔ اب وہ اپنا علاج جاری رکھے ہوئے ہیں اور موبائل فونز کی مرمت کا کام کر رہے ہیں۔

صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق خیبر پختونخوا میں 13 اے آر ٹی مراکز کام کررہے ہیں۔ ان میں پشاور میں دو کے علاوہ کوہاٹ، بنوں، بٹ خیلہ، ڈی آئی خان، ٹیچنگ ہسپتال ابیٹ آباد، سیدو شریف، صوابی، مردان، باجوڑ، کرم اور شمالی وزیرستان کے مراکز شامل ہیں جہاں ٹیسٹ، آگاہی اور علاج کی سہولت مفت فراہم کی جاتی ہیں۔

صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق پچھلے سال کے اوائل میں پشاور میں نشے کے عادی افراد کی بحالی کے لیے ایک بڑی مہم چلائی گئی۔ اس دوران ایڈز کنٹرول پروگرام کو ان افراد کے ٹیسٹ کرانے کی اجازت دی گئی۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

ملتان میں ایڈز کا بڑھتا مرض: 'غیر رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے'

ڈاکٹر طارق حیات کا کہنا ہے کہ نشے کے عادی افراد میں سے 85 کا ایچ آئی وی پازیٹو نکلا جن میں وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ کئی افراد کا ایک ہی سرنج استعمال کرنا ہے۔

بنوں میں ایچ آئی وی پازیٹیو افراد کی تعداد زیادہ کیوں؟

ڈاکٹر رضامحمد خان ، خلیفہ گل نواز ٹیچنگ ہسپتال بنوں کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور ایڈز کنٹرول پروگرام کے سابق فوکل پرسن ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ قریبی اضلاع کرک، لکی مروت، ٹانک اور شمالی وزیرستان میں سہولیات کی کمی کے باعث زیادہ تر لوگ علاج کے لیے یہیں آتے ہیں جس کی وجہ سے بنوں میں رجسٹریشن زیادہ ہوئی ہے۔

تاہم ڈاکٹر طارق حیات کہتے ہیں کہ پشاور اور بنوں کے زیادہ مریض رجسٹر ہونے کی بنیادی وجوہ جاننے کے لیے دونوں اضلاع میں خصوصی سروے کرایا جا رہا ہے جو چھ ماہ میں مکمل ہو جائے گا۔ اس کے نتائج سامنے آنے پر زیادہ متاثرہ علاقوں کی نشاندہی بھی ہو جائے گی جس کی روشنی میں تدارک اور آگاہی کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔

سابق فاٹا میں ایک ہزار 107 ایچ آئی وی پازیٹو کیسز سے متعلق ضم شدہ اضلاع کے ایڈز کنٹرول پروگرا م پروجیکٹ ڈائریکٹر سے بار بار کوشش کے باجود رابطہ نہیں ہوسکا۔

 تاہم دیگر ذرائع سے حاصل معلومات کے مطابق سابقہ فاٹا کے سالانہ ترقیاتی فنڈ سے 'ایڈز کنٹرول پروگرام ان فاٹا'کی رقم جاری کی جاتی تھی۔ تاہم جون 2022ءمیں پہلے سے موجود پی سی ون کی مدت ختم ہوگئی تھی۔

 انضمام کے بعد قبائلی اضلاع میں پراجیکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کے لیے صوبائی اسمبلی سے قانون منظور کرایا گیا تھا مگر اس کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو سکا جس سے وہاں ملازمین کی تمام سرگرمیاں معطل ہیں۔

تاہم صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق پی سی ون کی مدت پوری ہونے پر یہ اضلاع صوبائی دائرہ اختیار میں آگئے جس کے بعد باجوڑ، کرم اور شمالی وزیرستان میں اے آر ٹی مراکز قائم کیے گئے ہیں اور یہ کام کر رہے ہیں۔

* شناخت صیغہ راز میں رکھنے کے لیے ایچ آئی وی پازیٹو افراد اور ان کے لواحقین کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔

تاریخ اشاعت 28 فروری 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

اسلام گل آفریدی پچھلے سولہ سال سے خیبر پختونخوا اور ضم شدہ قبائلی اضلاع میں قومی اور بیں الاقوامی نشریاتی اداروں کے لئے تحقیقاتی صحافت کر رہے ہیں۔

thumb
سٹوری

پنجاب حکومت کسانوں سے گندم کیوں نہیں خرید رہی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceاحتشام احمد شامی
thumb
سٹوری

الیکٹرک گاڑیاں اپنانے کی راہ میں صارفین کے لیے کیا رکاوٹیں ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

آصف محمود

سوات: نادیہ سے نیاز احمد بننے کا سفر آسان نہیں تھا

thumb
سٹوری

پسنی: پاکستان کا واحد "محفوظ" جزیرہ کیوں غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceملک جان کے ڈی

پنجاب: فصل کسانوں کی قیمت بیوپاریوں کی

چمن: حکومت نے جگاڑ سے راستہ بحال کیا، بارشیں دوبارہ بہا لے گئیں

thumb
سٹوری

بھٹہ مزدور دور جدید کے غلام – انسانی جان کا معاوضہ 5 لاکھ روپے

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد

ہندؤں کا ہنگلاج ماتا مندر، مسلمانوں کا نانی مندر"

thumb
سٹوری

نارنگ منڈی: نجی سکولوں کے طالب علموں کے نمبر زیادہ کیوں آتے ہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceمعظم نواز

ای رکشے کیوں ضروری ہیں؟

لاہور میں کسان مظاہرین کی گرفتاریاں

thumb
سٹوری

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنثار علی
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.