گجرات کی تحصیل جلال پور جٹاں کے 14 سالہ احمد آٹھویں جماعت کے طالب علم ہیں جو اپنے قصبہ جوگی پور کے سرکاری سکول میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ جونہی کلاس روم میں جاتے تھے ٹیچر انہیں تمام بچوں سے الگ آخری کونے میں بٹھا دیتے تھے۔
"میری کلاس کے بچے مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور محلے دار بھی میرے گھر والوں سے دور بھاگتے ہیں کیونکہ میرے والد کا ایچ آئی وی پازیٹو آ گیا تھا"۔
احمد، عزیز بھٹی شہید ہسپتال گجرات کے ایچ آئی وی ڈیپارٹمنٹ میں اپنے والد کے ساتھ ان کے چیک اپ کے لیے آئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ 2022ء میں ان کے والد کی طبیعت خراب رہتی تھی۔ پچھلے سال جنوری میں ان کا ٹیسٹ کرایا تو ایچ آئی وی پازیٹو کی رپورٹ آئی۔
"ہمارے گھر میں تو جیسے قیامت آ گئی۔ خاندان والے چاہتے تھے کہ بات یہیں دبا دی جائے مگر میری والدہ نے انکار کر دیا اور انہوں نے نہ صرف ہم سب کی سکرینگ کرائی بلکہ والد کے قریبی لوگوں کو بھی ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیا"۔
احمد بتاتے ہیں کہ ان کے والد کی کسی نے مدد نہیں کی۔ ان کی والدہ نے اپنے زیور بیچ دیے جبکہ گھر کا نظام چلانے کے لیے بہنوں کو پڑھائی چھوڑ کر کام کرنا پڑا۔
ایچ آئی وی ( ہیومن امیونو وائرس) ایک وائرس ہے جو جسم کے دفاعی نظام کر کمزور کر دیتا ہے اور جسم کے لیے دوسری بیماریوں سے لڑنا مشکل ہو جاتا ہے اور مختلف انفیکشنز، کینسر وغیرہ جنم لے سکتے ہیں۔
ایچ آئی وی تقریباً چار عشروں سے عالمی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ تحقیقی رپورٹس بتاتی ہیں کہ یہ وائرس اپنی ساخت بدلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے ابھی تک اس کی کوئی ویکسین تیار نہیں کی جا سکی ہے۔
اہم بات یہ ہے ایچ آئی وی ناقابل علاج نہیں۔ تاہم بر وقت علاج نہ ہونے کی صورت میں یہ بیماری ایڈز پر منتج ہوتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت ( ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ایچ آئی وی، متاثرہ شخص کی جسمانی رطوبت دوسرے شخص میں منتقل ہونے سے پھیلتا ہے۔ یہ وائرس حمل اور بچے کی پیدائش کے دوران بھی منتقل ہو سکتا ہے۔
متاثرہ شخص کے عام رابطے یعنی گلے ملنے، ہاتھ ملانے، یا ذاتی اشیاء اور کھانا وغیرہ بانٹنے سے یہ وائرس منتقل نہیں ہوتا۔
ڈبلیو ایچ او کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2022ء میں دنیا بھر میں تین کروڑ 90 لاکھ لوگ ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے جن میں سے دو تہائی افراد کا تعلق افریقی ممالک سے ہے۔ اسی سال چھ لاکھ 30 ہزار لوگ اس مرض سے ہلاک ہو ئے۔
گلوبل ایڈز مانیٹرنگ کی کنٹری رپورٹ پاکستان 2020ء کے مطابق ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزارنے افراد کی سب سے زیادہ تعداد دو صوبوں یعنی سندھ اور پنجاب میں رہتی ہے جو مجموعی مریضوں کا 91 فیصد ہے۔ ایڈز سے متاثرہ شہروں میں کراچی سرفہرست ہے جس کے بعد فیصل آباد اور پھر لاہور کا نمبر آتا ہے۔
یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ ملک بھر میں ایک لاکھ 83 ہزار 705 افراد ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں جن میں 69 فیصد مرد، 21 فیصد خواتین اور تین فیصد 14 سال سے کم عمر بچے شامل ہیں۔ رپورٹ کہتی کہ پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد میں سب سے زیادہ تعداد ٹرانس جینڈرز اور مردوں سے جنسی تعلقات رکھنے والے مردوں کی ہے جن کا تناسب 25 فیصد ہے۔دوسرے نمبر پر منشیات کے ٹیکے لگانے والے آتے ہیں جن کا تناسب 24 فیصد ہے۔
متاثرہ افراد میں سیکس ورکرز اور ٹرانس جینڈرز کا تناسب دو، دو فیصد بنتا ہے جبکہ 47 فیصد افراد ایسے گروپوں سے تعلق رکھتے ہیں جن کے جنسی رویوں سے ان کے پارٹنر متاثر ہوتے ہیں۔
فی الحال ایچ آئی وی پازیٹو لوگوں کا واحد علاج اے آر ٹی ہے جو دوائیوں اور تھراپی کا امتزاج ہوتا ہے۔
ایشیا پیسفک ایچ آئی وی ڈیٹا ہب کے 2022ء کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں دو لاکھ 70 ہزار افراد ایچ آئی وی سے متاثرہ ہیں ۔ جن میں سے صرف 13 فیصد افراد اے آر ٹی حاصل کر رہے ہیں۔
نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام میں رجسٹرڈ ایچ آئی وی کیسز 53 ہزار 718 ہو گئے ہیں جن میں سے 32 ہزار 972 افراد ملک میں قائم 51 مراکز سے اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی (اے آر ٹی) حاصل کر رہے ہیں۔
پاکستان میں متاثرین کا ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب لوگ رجسٹریشن سے باہر ہیں جبکہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام میں رجسٹرڈ 32 ہزار 972 افراد اے آر ٹی حاصل کر رہے ہیں۔ جن میں سے سات ہزار 182 افراد پچھلے 6 ماہ میں اے آرٹیز میں سپلائی کی کمی کے باعث فالو اپ اپائنٹمنٹس سے محروم رہے۔
پاکستان کی وزارت صحت بھی ملک میں ایچ آئی وی کے اضافے کا اعتراف کرتی کرتی ہے۔ لگ بھگ دو ماہ قبل' ایڈز کنٹرول کے عالمی دن' پر وزارت نے بتایا تھا کہ ملک میں ہر ماہ ایچ آئی وی کے تقریباً 900 سے ایک ہزار نئے کیس سامنے آرہے ہیں جن میں سے زیادہ تر پنجاب اور سندھ سے ہیں۔
ضلع گجرات میں بھی صورت حال کم تشویشناک نہیں ہے۔
مئی 2019ء میں دو ہزار افراد ایچ آئی وی پازیٹو پائے گئے تھے اور ان میں 120 بچے بھی شامل تھے۔
جی پی او ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ گجرات کے مطابق 2022ءکے آخر تک ضلعے میں تین ہزار ایچ آئی وی پازیٹو کیس رجسٹرڈ کیے گئے جن میں دو ہزار 346 مرد، 600 خواتین اور 54 ٹرانس جینڈرز شامل تھے۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت گجرات میں پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کے تحت چار اے آر ٹی سنٹرز کام کر رہے ہیں جن میں سول ہسپتال، عزیز بھٹی شہید ہسپتال، ڈی ایچ کیو اور مدر اینڈ چائلڈ سنٹر شامل ہیں جہاں 780 ایکٹیو کیسز ہیں۔
گجرات کے سب سے بڑے آر ٹی سنٹر عزیز بھٹی شہید ہسپتال کا 2023ء کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ یہاں ایکٹیو کیسز کی تعداد 319 ہے جس میں سے 224 میڈیسن اور تھراپی لے رہے ہیں، 88 افراد نے ایچ آئی وی پازیٹو رپورٹ آنے کے بعد علاج نہیں کرایا اور غائب ہو گئے۔ سات افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔
اعداد و شمار سے اندازہ ہو تا ہےکہ اس علاقے میں ایچ آئی وی اسی رفتار سے پھیلتا رہا تو یہاں بھی صورت حال افریقی ممالک سے مختلف نہیں ہو گی۔ وسیع پیمانے پر ایڈز کی سکریننگ کی جائے تو ناقابل یقین نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر تبسم 2020ء سے عزیز بھٹی ہسپتال کے ایچ آئی وی ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہاں اوسطاً ماہانہ 50 سے 60 افراد کی سکرینگ ہوتی ہے جن میں 70 فیصد مرد، 30 فیصد خواتین اور اکا دکا ٹرانس جینڈر ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اکثر افراد کسی ریفرنس سے آتے ہیں حالانکہ یہاں ایچ آئی وی کی تشخیص مفت ہے۔ پھر بھی اپنی مرضی سے سکرینگ کے لیے مشکل سے ہی کوئی آتا ہے جبکہ سب کو ہر چھ ماہ بعد ٹیسٹ کرانے چاہئیں۔
عزیز بھٹی ہسپتال کے شعبہ ایچ آئی وی کے سربراہ ڈاکٹر عمران نذیر بتاتے ہیں کہ ضروری نہیں ایچ آئی وی پازیٹو شخص لازمی ایڈز کا شکار ہو بلکہ ایسے لوگ ایڈز کے بغیر برسوں زندہ رہ سکتے ہیں اور علاج سے معمول کے قریب تر زندگی گزار سکتے ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ایچ آئی وی پازیٹو شخص ہی ایڈز کا شکار ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
گجرات: خواتین کینسر کی تشخیص کے بعد غائب کیوں ہو جاتی ہیں؟
" اگر کوئی فرد ایڈز کا شکار ہو جاتا ہے تو اس بیماری کا دوسری بیماریوں سے فرق کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ایڈز کی علامات کافی عرصے بعد واضح ہو تی ہیں اور اس کی تشخیص خون کے ٹیسٹ کے ذریعے ہی ہوتی ہے۔
"سرکاری ریکارڈ کے مطابق ضلع گجرات کے تین لاکھ سے زائد افراد اس وقت مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکہ میں کام کر رہے ہیں۔ اس ڈیٹا کو سامنے رکھ کر ہی اس علاقے میں ایڈز کے پھیلاؤ کے عوامل کو دیکھنا اور اس کا انتظام کرنا ہو گا"۔
ڈاکٹر ندیم احمد سائیکالوجسٹ ہیں اور چھ سال سے عزیز بھٹی ہسپتال میں کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد میں 18 سے 30 سال کی عمر کے افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ ان میں سرنج کے ذریعے ڈرگز لینے والے اور بیرون ملک سے وطن واپس آنے والے مزدور اور غیر محفوظ جنسی سرگرمیوں میں ملوث افراد زیادہ ہیں۔
"یہاں کے تقریباً ہر خاندان کا کم از کم ایک فرد باہر گیا ہوا ہے۔ بیرون ملک مقیم مزدور علامات ظاہر ہونے پر واپس آ جاتے ہیں اور بیماری چھپائے رکھتے ہیں جس سے اپنے پارٹنرز اور آنے والے بچے کو بھی متاثر کرتے ہیں"۔
عزیز بھٹی شہید ہسپتال میں ایچ آئی وی سے متاثر فرد اپنی بیماری کے بارے میں بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔
خواجہ سرا روزی کا تعلق گجرات سٹی کی ٹرانس کمیونٹی سے ہے جن کا 2022ء میں ایچ آئی وی پازیٹو ہونے کی تصدیق ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف ان کی پوری کمیونٹی اور برادری بلکہ خاندان کے افراد بھی نفرت کرتے ہیں۔
"ہم اپنا گھر چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں مگر مجبوراً نقل مکانی کرنا پڑی۔ اب در در ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔"
احمد کے والد کی طبیعت میں کافی سدھار آ گیا ہے۔
" ہم نارمل زندگی کی طرح بڑھ رہے ہیں تاہم لوگوں کے روئیے اب بھی ویسے ہیں۔ مگر میں میں ان چیزوں کا عادی ہو گیا ہوں"۔
تاریخ اشاعت 16 فروری 2024