چھپن سالہ زینت بیگم اپنے پوتے کو بانہوں میں اٹھائے اور ہاتھ میں ڈاکٹر کی پرچی لیے تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کی ایمرجنسی کے باہر کھڑی ہیں۔ ان کے پوتے کی ٹانگ کا ایکسرے ہونا ہے لیکن ہسپتال کی ایکس رے مشین خراب ہے۔ ڈاکٹروں نے انہیں کہا ہے کہ وہ کسی نجی لیبارٹری سے ایکس رے کروا کر لائیں۔
زینت کا تعلق اٹک کے علاقے حسن ابدال میں دولیاں گاؤں سے ہے۔ ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے۔ وہ اپنے سات سالہ پوتے زین علی کے ساتھ بیٹی سے ملنے جہان آباد جا رہی تھیں کہ کیڈٹ کالج کے سامنے رکشے نے انہیں ٹکر مار دی جس سے زین کی ٹانگ پر چوٹ آئی ہے۔
ہسپتال کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ زین کا علاج کرنے سے پہلے وہ ایکس رے کے ذریعے یہ جاننا چاہیں گے کہ ٹانگ کی ہڈی کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔ چونکہ زینت کے پاس نجی لیبارٹری سے ایکس رے کرانے کے پیسے نہیں ہیں اس لیے انہوں نے اپنے بیٹے کو فون کیا ہےکہ وہ ہسپتال آئے اور زین کا نجی لیبارٹری سے ایکسرے کروائے۔
زینت کو جس تکلیف کا سامنا ہے وہ حسن ابدال کے تمام ڈھائی لاکھ باسیوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔
محلہ مہر آباد کے اسد نذیر بتاتے ہیں کہ ہسپتال میں آنےو الے بہت سے مریض مہنگی نجی لیبارٹریوں سے ایکس رے کرانے کی سکت ہی نہیں رکھتے۔ ایسے زخمیوں کو ٹوٹی ہڈیوں سمیت ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اٹک یا راولپنڈی ریفر کر دیا جاتا ہے۔ اسد کے بچے کو بھی کچھ عرصہ قبل اسی طرح ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی ریفر کیا گیا جو ایمبولینس میں ہی دم توڑ گیا تھا۔
اسد نذیر کا کہنا ہے کہ لڑائی جھگڑے کے واقعات میں زخمی ہونے والوں کے میڈیکولیگل کے لیے سرکاری ہسپتال مہں ایکسرے ہونا ضروری ہے۔ چونکہ تحصیل ہیڈکوارٹر میں ایکس رے مشین خراب ہے اس لیے متاثرین کو 40 کلومیٹر دور ڈی ایچ کیو ہسپتال اٹک جانا پڑتا ہے۔ یوں نہ صرف علاج مہنگا پڑتا ہے بلکہ وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔
تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی ایکسرے مشین خراب ہونے کے بعد 22 دسمبر 2022ءکو ناقابل مرمت قرار دی گئی تھی۔ محکمہ صحت پنجاب نے 12 لاکھ روپے کی نئی ڈیجیٹل مشین خرید کر تقریباً دو مہینے پہلے ٹی ایچ کیو حسن ابدال کو بھیجی تھی جسے تاحال چالو نہیں کیا گیا۔
مقامی سماجی کارکن محمد شاہد الزام عائد کرتے ہیں کہ ہیں نئی مشین ڈاکٹروں اور پرائیویٹ لیبارٹریوں کی ملی بھگت کے باعث نصب نہیں کی جا رہی اور ہسپتال کی پارکنگ میں پڑی خراب ہو رہی ہے۔ ہسپتال میں عام ایکسرے کا ریٹ 60 روپے ہے جبکہ پرائیویٹ لیبارٹری والے ایک سے ڈیڑھ ہزار روپے لیتے ہیں۔ نجی لیبارٹری مالکان نے ہسپتال انتظامیہ کو رشوت دے کر اس مشین کو چالو ہونے سے روک رکھا ہے جس کا نقصان غریب مریضوں کو ہو رہا ہے۔
ہسپتال کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نجی لیبارٹریوں کے مالکان تشخیصی ٹیسٹوں کی مد میں ڈاکٹروں کو روزانہ 'حصہ' پہنچاتے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور بعض ڈاکٹروں نے اپنے نجی ہسپتال اور لیبارٹریاں قائم کر رکھی ہیں اس لیے ٹی ایچ کیو کی مشین کا فعال ہونا ان لوگوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
ہسپتال کے انتظامیہ کے مطابق یہاں آؤٹ دور میں روزانہ اوسطاً 900 سے زیادہ مریض آتے ہیں جبکہ ایمرجنسی میں بھی سوا سو کے قریب مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ ریسکیو 1122 کے ترجمان نے بتایا کہ کہ ٹی ایچ کیو میں روزانہ اوسطاً 10 ٹراما مریض منتقل کئے جاتے ہیں اور نجی ایمبولینس گاڑیوں اور ایدھی کی مدد سے لائے جانے والے مریضوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
یہ علاقہ راولپنڈی پشاور روڈ کے علاوہ قراقرم ہائی وے، پشاور اسلام آباد اور ہری پور ہزارہ موٹر ویز کا سنگم ہے۔ ان سڑکوں پر ہونے والے حادثات کے زخمی بھی سب سے پہلے اسی ہسپتال میں لائے جاتے ہیں۔
اسد نذیر کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ ایکس رے لیبارٹریوں کے مالکان کو علم ہوتا ہے کہ یہ زخمی دیگر شہروں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے وہ ان مسافروں سے کئی گنا زیادہ پیسے وصول کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
'گندے بدبودار پانی کی وجہ سے ہم لوگ رات کو سو نہیں سکتے': نارووال میں سیوریج سسٹم نہ ہونے سے شہریوں کی زندگی اجیرن
جب اس مسئلے پر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر شوکت سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ مشین اس لیے چالو نہیں ہو سکی کہ اسے نصب کرنے والی ٹیم نے لاہور سے آنا ہے جو تاحال نہیں آ سکی۔ علاوہ ازیں ہسپتال میں نئی مشین رکھنے کی جگہ نہیں ہے اس لیے اسے پارکنگ کی جگہ پر رکھا گیا ہے۔ جب پرانی مشین ہٹا لی جائے گی تو اس کی جگہ نئی مشین نصب کر دی جائے گی۔
ڈاکٹر شوکت نے یہ نہیں بتایا کہ لاہور سے مشین نصب کرنے والی ٹیم تاحال کیوں نہیں آئی، اس نے کب آنا ہے اور پرانی مشین کو خراب ہونے کے باوجود اس کی جگہ سے کیوں ہٹایا نہیں گیا۔
اس حوالے سے ڈسٹرکٹ ہیلتھ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر اسد اسماعیل کہتے ہیں کہ مشین سپلائی کرنے والی کمپنی کے ٹیکنیشن صوبے کے دور دراز علاقوں میں مشینیں لگا رہے ہیں اور جب حسن ابدال کی باری آئے گی تو تبھی یہاں آ کر نئی مشین نصب کریں گے۔
تاریخ اشاعت 4 اگست 2023