عبدالفتاح نامی 60 سالہ ملاح متعدد دہائیوں سے کوہِ کھیر تھر کے مشرقی دامن میں واقع حمل جھیل میں ماہی گیری کرتے آ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک وہ روزانہ تین سے چار من مچھلی پکڑ لیا کرتے تھے جس سے انہیں معقول آمدنی ہو جاتی تھی۔ لیکن، ان کے مطابق، اب "جھیل سکڑ رہی ہے اور اس کا پانی آلودہ ہونے سے اس میں مچھلیوں کی افزائش کم ہو گئی ہے" جس کے باعث ان کے لیے "ایک وقت کی روٹی کمانا بھی مشکل ہو گیا ہے"۔
مقامی طور پر حمل ندی کے نام سے جانی جانے والی یہ جھیل سندھ کے مغربی ضلع قمبر شہداد کوٹ میں واقع ہے۔ یہ 25 کلومیٹر لمبی اور 10 کلومیٹر چوڑی ہے اور صوبے میں پائے جانے والے میٹھے پانی کے بڑے ذخائر میں سے ایک ہے۔ اس میں كوهِ کھیر تھر سے آنے والے ندی نالوں کا پانی جمع ہوتا ہے۔ برسات کے موسم میں یہ پانی قدرتی راستوں سے بہتا ہوا منچھر جھیل تک چلا جاتا ہے جو تقریباً ایک سو 25 کلومیڑ جنوب میں ضلع دادو میں واقع ہے۔
عبدالفتاح حمل جھیل کے کنارے واقع تین سو گھروں پر مشتمل مچھیروں کی ایک پس ماندہ بستی میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جھیل میں مچھلیوں کی قلت کی وجہ سے مقامی مچھیروں کی آمدن اس قدر کم ہو گئی ہے کہ ان کے پاس کسی اور جگہ منتقل ہونے کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا۔
حسن ملاح نامی 52 سالہ مقامی ماہی گیر بھی کہتے ہیں کہ جھیل کا پانی تیزی سے آلودہ اور زہریلا ہوتا جا رہا ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں اس میں مچھلیاں بالکل ختم ہو جائیں گی۔ ان کا خاندان اور اس جیسے 20 دیگر گھرانے ایک سال پہلے منچھر جھیل سے نقل مکانی کر کے یہاں آئے تھے کیونکہ آبی آلودگی کے باعث وہاں مچھلیاں ناپید ہوتی جا رہی تھیں۔ انہیں امید تھی کہ حمل جھیل میں انہیں وافر مقدار میں روزگار کے مواقع ملیں گے لیکن یہاں آ کر بھی انہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جھیل کے نواحی قصبے فرید آباد کے رہائشی اور سماجی کارکن پریل احمد اس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ مچھلیوں کی قلت کے باعث کئی ماہی گیر گھرانے اپنا روائتی کام کاج چھوڑ کر "کھیتی باڑی کرنے لگے ہیں"۔
تاہم جھیل کی آلودگی صرف مچھلیوں کی بقا کے لیے ہی خطرناک نہیں بلکہ اس سے انسانی زندگی کو بھی کئی خطرات لاحق ہیں۔ فریدآباد کے مقامی سرکاری ہسپتال میں کام کرنے والے اہل کار عبداللطیف بروہی کہتے ہیں کہ اس کا پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں رہا۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس کے اردگرد موجود آبادیوں میں پانی کی فراہمی کا کوئی متبادل انتظام موجود نہیں ہے اس لیے وہاں کے لوگ یہی آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جس سے ان میں "جگر اور پیٹ کی بیماریاں عام ہوتی جا رہی ہیں"۔
جھیل مغموم، پیڑ زرد سے ہیں
حمل جھیل کبھی بہت خوب صورت ہوا کرتی تھی۔ اس کے کنارے ہریالی اور گھنے درختوں کی بہتات تھی اور اس کا پانی قسم قسم کے آبی جانوروں اور خوبصورت پرندوں کی آماجگاہ تھا۔ اسی لیے دور دراز کے لوگ یہاں سیر کے لیے آیا کرتے تھے۔
لیکن اب اس کا پانی گندہ ہو چکا ہے، اس کے اردگرد لگے ہوئے زیادہ تر درخت کاٹے جا چکے ہیں اور اس میں بسیرا کرنے والے پرندوں کے غیرقانونی شکار سے ان کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
ماہرین کے مطابق جھیل کی بڑھتی ہوئی آلودگی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس کے قریب واقع قصبوں اور دیہات کا گندا پانی اس میں پھینکا جا رہا ہے۔ مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسر اور ماحولیاتی محقق اصغر علی مہیسر نے 'حمل جھیل پر ہیرالدین، میرو خان اور شہدادکوٹ نالوں کے اثرات' نامی اپنی تحقیق میں انکشاف کیا ہے کہ ان تینوں گندے نالوں کا پانی جھیل میں خارج ہو رہا ہے جو اسے ایک بہت بڑے جوہڑ میں تبدیل کر رہا ہے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) نامی بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیم کے ساتھ کام کرنے والے ماہر ماحولیات نوید علی سومرو اُن سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہداد کوٹ اور قمبر کے قصبوں اور ان کے گردونواح میں واقع دیہات کا گندہ پانی دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر بنائے گئے رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین (آر بی ڈی او) نامی نالے میں جانا چاہیے لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ بلکہ، اس کے برعکس، ان آبادیوں سے نکلنے والے "گندے پانی کی ایک بڑی مقدار چھوٹے بڑے نالوں کے ذریعے حمل جھیل میں پہنچ رہی ہے"۔
مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جھیل کے ماحول کی تباہی میں بڑے بڑے زمین داروں (جنہیں مقامی طور پر وڈیرے کہا جاتا ہے) کا بھی ہاتھ ہے۔ وہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ وڈیرے نہ صرف جھیل کے کنارے واقع زمینوں پر قبضے کرنے اور اس کے اردگر موجود درخت کاٹنے میں ملوث ہیں بلکہ انہوں نے اس کے پانی پر بھی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔
مچھیروں کی ایک مقامی بستی میں رہنے والے محمد ملاح کا کہنا ہے کہ "ان وڈیروں نے جھیل کے مختلف حصے آپس میں بانٹ رکھے ہیں"۔ اگرچہ اس تقسیم کی کوئی قانونی حیثیت نہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ "ہر وڈیرے نے بزور طاقت اپنے زیرِ اثر علاقے میں پانی پر قبضہ جما لیا ہے" جس سے "ماہی گیری کے مواقع محدود ہو کر رہ گئے ہیں"۔
ایک مقامی سماجی کارکن نجیب چانڈیو جھیل کے گرد درختوں کے ذخیروں سے بڑی مقدار میں لکڑی کی غیرقانونی کٹائی کو بھی اس کے ماحول کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کٹائی سے جھیل کے ارد گرد ہریالی کم ہو تی جا رہی ہے اور نتیجتاً یہ "ایک ویرانے میں تبدیل ہو رہی ہے"۔
سندھ کے محکمہ جنگلی حیات کے کنزرویٹر جاوید احمد مہر سمجھتے ہیں کہ ان تمام مسائل کی جڑ یہ ہے کہ حمل جھیل ایک ایسے علاقے میں واقع ہے جو "ماضی کی صوبائی حکومتوں کے لیے سیاسی اعتبار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا تھا اس لیے اس کے ماحول کا تحفظ ان کی ترجیح نہیں تھا"۔ تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ "موجودہ حکومت اس سلسلے میں سنجیدگی سے منصوبہ بندی کر رہی ہے اور متعدد ایسے اقدامات اٹھا رہی ہے جن سے اس کی بحالی میں مدد ملے گی"۔
ان کے مطابق ان اقدامات میں جھیل میں بسیرا کرنے والے "پرندوں کے شکار پر پابندی بھی شامل ہے"۔
تاہم نوید علی کے نزدیک یہ مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک گندے نالوں کا پانی جھیل میں داخل ہوتا رہے گا۔ ان کے خیال میں ان نالوں کا رخ موڑ کر انہیں فوری طور پر رائٹ بینک آؤٹ فال ڈرین میں چھوڑا جانا اشد ضروری ہے کیونکہ صرف یہی ایسا طریقہ ہے جس سے "جھیل میں پائی جانے والی آلودگی آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی"۔
تاریخ اشاعت 20 اپریل 2022