ضلع گجرات کے سیاسی کارکنوں کو نئی حلقہ بندیوں پر کئی اعتراضات ہیں لیکن سب ایک ہی بات پر خوش ہیں کہ 2018ء میں کھو جانے والی ایک صوبائی نشست اس ضلعےکو واپس مل گئی ہے۔
2013ء کے عام انتخابات میں ضلع گجرات سے قومی اسمبلی کے چار اور صوبائی اسمبلی کے آٹھ ارکان منتخب ہوئے تھے۔ تاہم 2017ء کی مردم شماری میں گجرات کی آبادی 27 لاکھ 56 ہزار 289 بتائی گئی۔ الیکشن کمیشن کے اس وقت کے فارمولے کے تحت حلقہ بندیوں میں اس ضلعے کو ایک صوبائی نشست سے محروم کردیا گیا۔
2018ء میں ضلع گجرات کی قومی اسمبلی کی چار اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں سات ہو گئی تھیں۔ لیکن حالیہ مردم شماری میں گجرات ضلع کی آبادی 32 لاکھ 19 ہزار 375 تک پہنچ گئی ۔ یوں اب یہاں قومی اسمبلی کے چار حلقے تو برقرار ہیں لیکن صوبائی اسمبلی کے حلقے آٹھ ہو گئے ہیں۔
ضلع گجرات میں سابقہ حلقہ بندی کے تحت قومی اسمبلی کے حلقوں کے نمبر این اے 68 سے این اے 171 تک تھے۔ اب نہ صرف ان کے نمبر این اے 62 سے این اے 65 تک ہو گئے بلکہ ان میں سے بیشتر کی ساخت بھی بدل گئی ہے۔
پہلے یہاں صوبائی حلقے پی پی 28 سے شروع ہو کر پی پی 34 پر ختم ہوتے تھے۔ نئی حلقہ بندیوں میں پی پی 27 کے اضافہ ہو گیا ہے اور باقی حلقوں کے نمبر پی پی 28 سے 34 تک برقرار ہیں۔
نئی حلقہ بندیوں میں گجرات کے تمام صوبائی حلقوں کی حدود اور علاقہ جات میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
اس توڑ پھوڑ نے کئی امیدواروں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ نئے حلقہ بندی میں کنجاہ اور جلالپور جٹاں کے علاقوں کی مختلف حلقوں میں شمولیت اہمیت کی حامل ہے۔
پی ٹی آئی کے صدر اور سابق وزیر اعلی چودھری پرویز الٰہی کنجاہ ہی کے حلقے سے الیکشن لڑتے ہیں اور اس حلقے میں بھی خاصی تبدیلی آئی ہے۔
نئی حلقہ بندیوں کے مطابق پی پی 27 گجرات ون، سرائے عالمگیر تحصیل، کھاریاں کنٹونمنٹ چارج نمبر1، کھاریاں میونسپل کمیٹی چارج نمبر 13 اور کھاریاں پٹوار سرکل ون کے علاقوں پر مشتمل ہے۔
پی پی 28 گجرات ٹو میں کھاریاں-2 کے علاوہ کھاریاں-1 ماسوائے پٹوار سرکل کھاریاں، کوٹلہ ارب علی خان کی آبادی اور گردونواح کے دیہات بزرگوال، بہورچ، لنگڑیال، صبور، نگریاں، رجاول شامل ہیں۔
پی پی 29 گجرات تھری، تحصیل جلالپور جٹاں کے علاقوں ٹانڈہ اور پیرو شاہ کے علاوہ دولت نگر قانونگوئی کے دو پٹوار سرکلز ڈھما ملکاں اور ڈھیرکی پر مشتمل ہے۔
پی پی 30 گجرات فور میں تحصیل جلالپور جٹاں کی میونسپل کمیٹی کے چارج نمبر23 اور 24، جلالپور جٹاں قانونگوئی شامل ہے۔ اسکے علاوہ قانونگوئی حلقہ دولت نگر کے دو پٹوار سرکلز ڈھما ملکاں اور ڈھیرکی کے سوا تمام آبادیاں بھی اسی حلقے میں آگئی ہیں۔
حلقہ پی پی 31 گجرات فائیو شہری علاقوں میٹروپولیٹن کارپوریشن گجرات کے چارج نمبر 16 کے علاوہ چارج نمبر 18 سے چارج نمبر 22 تک کی آبادیوں پر مشتمل ہے۔ شہری علاقوں سے متصل دیہات موسیٰ کمالا، ادھووال، جندیوال وغیرہ کی آبادیاں بھی اس حلقے میں شامل ہیں۔
حلقہ پی پی 32 گجرات-6 میں میٹروپولیٹن کارپوریشن گجرات کے چارج نمبر 15 اور 17 کی کے علاوہ میونسپل کمیٹی کنجاہ کے چارج نمبر 25 کی آبادیاں شامل ہیں۔ جبکہ کنجاہ قانونگوئی، تحصیل کنجاہ کا چارج نمبر 26 اور شادیوال قانونگوئی کے علاقے بھی اسی حلقے میں آتے ہیں۔
حلقہ پی پی 33 گجرات-7 کھاریاں تحصیل کی میونسپل کمیٹی لالہ موسیٰ کے چارج نمبر 14 اور 15، لالہ موسیٰ قانونگو ئی، صبور قانونگوئی کا پٹوار سرکل بھدر، اور جوڑاہا قانونگوئی کی کچھ آبادیوں پر مشتمل ہو گا۔
تحصیل گجرات کے چار علاقوں دتے وال، شاہ عابدی وال، گورسی اور چک پنڈی کی آبادیاں بھی اسی حلقے میں شامل کی گئی ہیں۔
حلقہ پی پی 34 گجرات-8 میں میونسپل کمیٹی ڈنگہ کے چارج 16 کے پانچ سرکلز، ڈنگہ قانونگوئی، جوڑا قانون گو سرکل کے علاقوں فتو بھنڈ، چکوری بھیلو وال، بھاؤ غاست پور، رندھیر، لانگو، مرزا طاہر کی آبادیاں شامل ہیں۔
ان کے علاوہ تحصیل کنجاہ کی میونسپل کمیٹی ڈنگہ کے چارج نمبر 16، منگووال غربی چارج نمبر 27، منگووال غربی قانون گو حلقہ اور گجرات تحصیل کی ڈیونا قانونگوئی کے کچھ علاقے بھی اسی پی پی 34 میں آتے ہیں۔
چودھری پرویز الٰہی کے پارٹی صدر بننے کے بعد گجرات میں پی ٹی آئی کی پوزیشن بظاہر مضبوط دکھائی دیتی ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کے سابق ارکان اسمبلی اور رہنماوں کو ان حلقہ بندیوں پر تحفظات ہیں۔
چودھری پرویز الٰہی لگ بھگ پانچ ماہ سے زیرحراست ہیں۔ تاہم ان کے صاحبزادے چودھری مونس الٰہی کہتے ہیں کہ کہ وہ ان حلقہ بندیوں کو نہیں مانتے اور یہ حلقہ بندیاں ایک جماعت کی پسند نا پسند کی بنیاد پر کی گئی ہیں۔
"اس کے باوجود ہمارے امیدوار ضلع سے کلین سویپ کریں گے"۔
پی ٹی آئی کے سابق رکن اسمبلی سید فیض الحسن نے الزام عائد کیا ہے کہ دو سیاسی جماعتوں کے لوگ مرضی کے حلقے بنواتے رہے۔ جبکہ حلقہ بندیوں کے لیے ان سے رسمی رابطہ بھی نہیں کیا گیا۔
"ہمارےحلقوں کا حلیہ ہی بگاڑ دیا گیا ہے۔ ہمارے امیدواروں کے ووٹ بینک کے علاقوں کو کاٹ کر دوسرے حلقوں میں شامل کر دیا گیا۔"
مسلم لیگ ن کے ضلعی صدر نوابزادہ طاہر الملک پی ٹی آئی کے الزام کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ حلقہ بندیوں کے عمل کے دوران ان کی پارٹی سے بھی کسی نے رابطہ نہیں کیا۔ یہ خالصتاً الیکشن کمیشن کا کام ہے اور کمیشن نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔ پی ٹی آئی کے الزام تراشی سے پوائنٹ سکورننگ کرنا چاہتی ہے۔
ن لیگ کے سابق رکن اسمبلی عابد رضا کوٹلہ کہتے ہیں کہ نون لیگ حلقے بنوانے تڑوانے پر یقین نہیں رکھتی۔ میدان سب کےلیے کھلا ہے اور مونس الٰہی واپس آکر الیکشن لڑیں۔
یہ بھی پڑھیں
نئی حلقہ بندی، ضلع بھکر میں ایک صوبائی نشست کا اضافہ کس سیاسی خاندان کو مضبوط کرے گا؟
سابق ایم پی اے میاں اختر حیات نے لوک سُجاگ کو بتایا کہ گجرات کے پی ٹی آئی کے کارکنوں نے حلقہ بندیوں کے خلاف الیکشن کمیشن میں اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔ اگر وہاں سے انصاف نہ ملا تو وہ عدالتوں میں جائیں گے۔
پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر ضیا محی الدین کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو بھی کچھ حلقوں پر اعتراضات ہیں۔
"لیکن ہماری پارٹی پالیسی ہے کہ ہم واویلا نہیں کرتے بلکہ سسٹم ہی میں رہ کر سیاسی جدوجہد کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔"
گجرات کی سیاسی دھڑے بندی پر گہری نظر رکھنے والے عبدالسلام مرزا بتاتے ہیں کہ نئی حلقہ بندیوں کا فائدہ مسلم لیگ ق کو ہو رہا ہے۔ دیہات میں ق لیگ کا ووٹ بینک ہے اور شہر میں پی ٹی آئی مضبوط ہے۔ اس لیے گجرات کے دونوں صوبائی حلقوں میں دیہی علاقے شامل کیے گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ یہاں عام تاثر یہ ہے کہ ق لیگ اور نون لیگ کے امیدوار حلقہ بندی اثر انداز ہوئے ہیں۔ گجرات میں قومی سیٹ پر دلچسپ مقابلہ ہوگا جہاں پرویز الٰہی یا مونس الٰہی، چودھری سالک حسین اور نون لیگ کے علیم الدین وڑائچ امیدوار ہیں۔
" سب سے دلچسپ صورتحال لالہ موسیٰ و کھاریاں کے قومی حلقے میں ہو گی۔ جہاں پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ امیدوار ہیں۔ پچھلی بار یہاں فیض الحسن شاہ جیتے تھے۔ اب نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں ہوتی تو پی ٹی آئی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر ے گی۔
تاریخ اشاعت 8 نومبر 2023