پچیس سالہ سعدیہ حنیف میانوالی کے گاؤں علی خیلانوالہ میں بچیوں کے لیے امید کی کرن بن گئی ہیں۔وہ چھدرو کے اس گاؤں کی واحد تعلیم یافتہ لڑکی ہیں، جو پپلاں سے پچھلے سال ہی یہاں بیاہ کر آئی تھیں۔
سعدیہ حنیف پاک سٹڈیز میں ماسٹر ڈگری ہولڈر اور ان کے شوہر ایف اے پاس ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ شادی کے ایک ماہ بعد ان پر انکشاف ہوا کہ اس گاؤں کی تمام عورتیں ناخواندہ ہیں۔ان کے لیے حیرت کی بات یہ تھی کہ یہاں اب بھی بچیوں کو سکول نہیں بھیجا جاتا بلکہ لڑکیاں اپنے گھر تھیں یا پھر کھیتوں میں کام کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ والدین لڑکوں کو تو سکول بھیجتے تھے مگر لڑکیوں کی تعلیم کا رواج ہی نہیں تھا۔ صرف یہی نہیں، بچیوں کی تعلیم پر اخرجات کو بے فائدہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ اس رویے نے انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا۔
"جب میں نے لڑکیوں کے والدین سے انہیں سکول بھیجنے کی بات کی تو پہلے بہت مشکل ہوئی کیونکہ وہاں ایسا کبھی کسی نے سوچا نہیں تھا۔لیکن اب گاؤں کی 25 بچیاں پرائمری سکول میں داخل ہو چکی ہیں۔"
چھدرو یونین کونسل میانوالی شہر سے پچیس کلومیٹر دور پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں لوگوں کا ذریعہ معاش کاشتکاری ہے اور زیادہ تر بچیاں بھی والدین کا ہاتھ بٹاتی ہیں۔ چھدرو کے گاؤں علی خیلانوالہ کی آبادی درجنوں گھرانوں پر مشتمل ہے۔لیکن یہاں سے قریب ترین گرلز پرائمری سکول بھی (داؤ خیلانوالہ) چار کلومیٹر دور ہے۔
سر کاری اعدادوشمار کے مطابق ضلع میانوالی میں شرح خواندگی 61.28 فیصد ہے۔یہاں مردوں میں خواندگی کی شرح 78.54 فیصد جبکہ عورتوں میں 44.35 فیصد ہے۔ میانوالی تین تحصیل پر مشتمل ضلع ہے۔
تحصیل میانوالی میں مجموعی شرح خواندگی تو 63.85 فیصد ہے مگر یہاں مردوں میں شرح خواندگی 81 فیصد جبکہ عورتوں میں 44.36 فیصد ہے۔یہاں کے دیہات میں شرح خواندگی مردوں میں 79.80 اور عورتوں میں 41.80 فیصد ہے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اس ضلعے میں ہر سال پرائمری سکولوں میں 24 سے 25 ہزار بچے جبکہ 12 سے 14 ہزار بچیاں داخل ہوتی ہیں۔یعنی داخلے میں بچیوں کی تعداد نصف ہے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر سیکنڈری محمد خالد خان نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ضلعے میں پرائمری تک لڑکوں کی تعداد 75 ہزار کے قریب ہوتی ہے جو انٹر میں ڈیڑھ ہزار تک رہ جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں پرائمری لیول پر بچیوں کی تعداد لگ بھگ 64 ہزار ہوتی ہے جو انٹر لیول تک بمشکل 600 رہ جاتی ہے۔
موضع شماری کے مطابق میانوالی کے 17 فیصد دیہات میں لڑکیوں کا ایک بھی پرائمری سکول، 64 فیصد دیہات میں مڈل سکول اور 83 فیصد دیہات میں ہائی یا ہائر سیکنڈری سکول موجود ہی نہیں۔
اس ضلعے میں گاؤں سے لڑکیوں کے پرائمری سکول کا اوسط فاصلہ چار کلومیٹر، مڈل سکول کا فاصلہ چھ کلومیٹر ہے، یہ پنجاب میں گھر سے سکول تک کے اوسط فاصلے سے کہیں زیادہ ہے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ایلیمنٹری (میل) محمد طارق عباس بتاتے ہیں کہ ضلع میانوالی کے شہری علاقوں میں ہر سو میں سے 84 لڑکے سکول کی تعلیم مکمل کرتے جبکہ 100 میں سے 56 لڑکیاں تعلیم مکمل کرتی ہیں۔ دیہات میں یہ تناسب 75 لڑکے اور 40 لڑکیوں کا ہے۔ اس لحاظ سے ضلع میانوالی میں جینڈر گیپ صوبہ پنجاب کے باقی اضلاع کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر اس کی وجہ دیہات میں لوگوں کی پسماندہ سوچ اور بنیادی تعلیمی سہولیات کا فقدان بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں اکثر دیہات کا پرائمری سکول سے فاصلہ چار سے پانچ کلومیٹر تک کا ہوتا ہے اس وجہ سے وہ بچیوں کو نا اکیلے سکول بھیجتے ہیں اور نہ ہی ان کی تعلیم میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔
یونیسف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پانچ سے 16 سال کی عمر کے تقریباً دو کروڑ 28 لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ یہ تعداد سکول کی عمر کے بچوں کی کل آبادی کا 44 فیصد ہے۔
ماہر تعلیم افضل خان کئی کالجز سے وابستہ رہے اور اب بھی ایک نجی کالج میں پڑھا رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ میانوالی کے دور دراز کے دیہات میں ایک خاص سوچ کے حامل لوگ بیٹیوں کو پرائی امانت سمجھتے ہیں۔ اس لیے ان پر تعلیمی اخرجات بھی نہیں کرنا چاہتے۔
یہ بھی پڑھیں
میانوالی کے کالجوں میں اساتذہ کی راہ دیکھتے طلبہ اپنے مستقبل سے مایوس ہونے لگے
"دوسرے کمزور معاشی حالات ہیں۔ جن کی وجہ سے لوگ کھیتی باڑی میں بچیوں کو بھی اسی کام لگا لیتے ہیں اور یوں مفت کی افرادی قوت ہاتھ آ جاتی ہے۔"
افضل خان کہتے ہیں کہ میانوالی کے دیہات میں تعلیمی اداروں کی کمی بھی یہاں لڑکیوں کی تعلیم بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر سکول موجود ہوتا ہے تو وہاں خاتوں ٹیچر نہیں ہوتیں۔ میانوالی کے سکولوں میں خواتین اساتذہ کی تعداد مرد ٹیچرز سے 40 فیصد کم ہے۔ ان مسائل کو حل کرنا ہو گا۔
علی خیلانوالہ کی نذیراں بی بی کی دو بیٹیاں سکول اب پرائمری سکول جانے لگی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ وہ بالکل نا خواندہ ہیں مگر جب وہ سعدیہ کو دیکھتی تو سوچتی ہیں کہ کاش وہ بھی تعلیم یافتہ ہوتیں، کم از کم گھر کا سودا سلف اور حساب کتاب تو خود کر لیتیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اب وہ اپنی بیٹیوں کی تعلیم میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گی، نا ہی ان کو اپنے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے دیں گی تاکہ جیسی زندگی انہوں نے گزاری ہے ویسی ان کی بیٹیوں کا نہ گزارنی پڑے۔
تاریخ اشاعت 6 نومبر 2023