گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

postImg

نثار علی

postImg

گلگت بلتستان: انس کے سکول کے کمپیوٹر کیسے چلے؟

نثار علی

انس ملک ہائی سکول نمبر ون گلگت میں نویں جماعت کے طالب علم ہیں۔ جب وہ چھٹی جماعت میں تھے تو کمپیوٹر کا مضمون ان کے نصاب میں شامل کر دیا گیا تھا۔ مگر آٹھویں جماعت تک وہ کمپیوٹر کے بارے میں صرف اتنا ہی جانتےتھے جتنا انہوں نے کتاب سے پڑھا تھا کیونکہ پریکٹکل کے لیے ضروری تھا کہ سکول کی لیب میں رکھے کمیپوٹر آن ہوتے۔

اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ کمپیوٹر خراب تھے یا سکول میں انہیں چلانے والا کوئی نہیں تھا۔ وجہ سادہ لیکن افسوسناک تھی۔ سکول میں بجلی ہی نہیں آتی تھی۔

انس کے لیے بجلی نہ ہونا غیر معمولی بات نہیں۔ ان کے گھر اور سکول میں  18، 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ انہیں سکول میں بھی گراؤنڈ میں بیٹھ کر پڑھنا پڑتا تھا۔

مگر اب صورت حال بدل گئی ہے۔ لیب کے کمپیوٹر چل پڑے ہیں اور  انس اور ان کے کلاس فیلوز اب کمروں میں بیٹھ کر کلاسیں لیتے ہیں۔

کمپیوٹر کیسے چلے؟

انس بتاتے ہیں کہ پچھلے سال ان کے سکول کو سولر پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ اب سکول میں بجلی نہیں جاتی۔

دو ملین سے زائد آبادی والا گلگت بلتستان اپنے بلند و بالا پہاڑوں، گلیشئرز، آبشاروں، صحرا اور تاریخی مقامات کی وجہ سے قومی اور بین الاقوامی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے لیکن یہاں لوڈ شیڈنگ سے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوجاتے ہیں۔

سکردو، ہنزہ کے علاقوں میں روزانہ 12 گھنٹے سے زائد کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے جبکہ ان علاقوں مہں سردیوں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 20 گھنٹے سے بھی زائد ہو تا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر تمام اضلاع میں بھی بجلی کی شکایت ہمیشہ رہتی ہے۔

گلگت-بلتستان میں بجلی کی طلب اور شارٹ فال

گلگت کے دس اضلاع میں گرمیوں میں بجلی کی طلب 254.82 میگاواٹ جبکہ سردیوں میں 452.19 میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ جبکہ شارٹ فال سردیوں میں 366.07 اور گرمیوں میں 141.17 تک پہنچ جاتا ہے۔  گلگگت بلتستان میں 149 ہائیڈل اسٹیشن یہاں کے لوگوں کو بجلی مہیا کرتے ہیں۔

تاہم نیشنل گرڈ کے ساتھ نہ جڑنے اور تمام پاور ہاؤسس کی پاور کم ہونے کے باعث یہاں کے لوگوں کو طویل ترین لودشیڈنگ کا سامنا رہتا ہے۔ یہ پاور ہاؤس گرمیوں میں 113.65 جبکہ سردیوں میں 86.12 میگاواٹ بجلی پیدا کرتے ہیں۔

دسمبر 2022ء میں گلگت بلتستان کے ہائر سکینڈری سکولوں میں "بلینڈڈ لرننگ سمارٹ کلاسز" کا آغاز کیا گیا۔ ان کلاسوں میں اساتذہ پڑھانے کے لیے جدید تدریسی ٹولز جیسا کہ سمارٹ ٹی وی، انٹیگریٹڈ ایل ایم ایس سسٹمز اور کروم بکس کا استعمال کرتے ہیں۔

اس کے ساتھ ہی ٹیک فیلو پروگرام بھی شروع کیا گیا۔ جس کے تحت 100 ٹیک فیلو کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے  تقریبا 200 سکولوں میں چھٹی، ساتویں اور آٹھویں کلاس کے طلبا کو کمپیوٹر کی تعلیم دینا تھی۔ اس سلسلے میں گلگت بلتستان کے سکولوں میں کمپیوٹر لیبز بھی قائم کی گئیں۔

مگر مسئلہ یہ تھا کہ بجلی نہیں ہے تو کمپیوٹر کیسے چلیں گے؟

محکمہ تعلیم کے چیف انجینئر شفا علی نے لوک سجاگ کو بتایا کہ ان کمپیوٹر لیبز سے اس وقت تک مستفید نہیں ہوا جا سکتا تھا جب تک سکول گھنٹوں جاری رہنے والی لوڈ شیڈنگ سے چھٹکارہ حاصل نہ کر لیتے۔

"اس مسئلے کے حل کے لیے سابق چیف سیکرٹری محی الدین احمد وانی نے خصوصی دلچسپی دکھائی اور سکولوں کو شمسی توانائی پر منتقل کر دیا۔"

محکمہ تعلیم نے ٹیلی فون انڈسٹریز آف پاکستان (ٹی آئی پی) کے تعاون سے دسمبر 2022ء میں گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں کو سولر انرجی پر منتقل کرنے کے لیے انقلابی اقدام شروع کیا۔ منصوبے کے تحت  گلگت بلتستان کے 181 سکولوں کو سولر پر منتقل کیا گیا۔

منصوبے  کی مجموعی لاگت کا تخمینہ 26 کروڑ روپے سے زائد تھا۔ منصوبے کے لیے جون 2023ء میں تقریباً 24 کروڑ روپے کا بجٹ جاری کیا گیا۔

30 دسمبر 2023ء میں اس پراجیکٹ پر عملی کام کا آغاز کیا گیا  جس کے تحت ہر سکول میں پانچ کلو واٹ کا سولر سسٹم نصب کیا گیا۔ جس سےتقریبا 60 ہزار طلبا و طالبات مستفید ہو رہے ہیں۔

شفا علی بتاتے ہیں  کہ گلگت بلتستان کے 181 سکولوں میں اب 24 گھنٹے بجلی دستیاب ہے۔

سمارٹ کلاس رومز پروجیکٹ کا مقصد انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کے استعمال کو ہر سکول میں لازمی قرار دیتے ہوئے عام کرنا ہے۔

"اس پروجیکٹ کے توسط سے ہم اس قابل ہو گئے ہیں کہ ملک کے بڑے تعلیمی اداروں سے ماہرین کے لیکچر  وڈیو لنک کے ذریعے براہ راست دکھا سکیں۔"

گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر شرح خواندگی 53 فیصد ہے، جبکہ مردوں میں 66 فیصد اور خواتین میں 41 فیصد ہے۔

ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن گلگت بلتستان کے مطابق  گلگت بلتستان میں کل ایک ہزار 732 سکول موجود ہیں جن میں سے 932 لڑکوں، 521 لڑکیوں اور 279میں مخلوط نظام تعلیم ہے۔

یہ بھی پڑھیں

postImg

شمسی توانائی کے واٹر پمپ اور گلگت بلتستان کے آخری گاؤں کا ننھا منا زرعی انقلاب

گورنمنٹ گرلز ہائر سیکنڈری سکول گلگت کی پرنسپل گل رخشندہ نے لوک سجاگ سے کو بتایا کہ پہلے بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث انہیں بچوں کو کمپیو ٹر کی عملی پڑھائی اور پریکٹیکل کرانے میں مشکلات کا سامنا رہتا تھا۔

سولر پروجیکٹ کے ایکسٹینشن کے حوالے سے محکمہ تعلیم کے چیف انجینئر شفا علی بتاتے ہیں پہلے فیز میں اور ہر سکول کے لیے 10 لاکھ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا۔ اگلے فیز میں گلگت بلتستان کے باقی تمام سکولوں میں بھی شمسی توانائی فراہم کر دی جائے گی۔

چیف سیکرٹری گلگت بلتستان، ابرار احمد مرزا نے لوک سجاگ کو بتایا کہ اس وقت 400  سکولوں میں کمپیوٹرائزیشن اور سولرائزیشن کا عمل جاری ہے۔

"مالی وسائل ملتے رہیں گے لیکن ہمارا ٹارگٹ گلگت بلتستان کے سو فیصد سکولوں کو شمسی توانائی پر منتقلی اور ہر سکول میں سمارٹ کلاسوں کا اجرا ہے۔"

وہ  مزید بتاتے ہیں کہ سرکاری عمارتوں خصوصاً سکول، ہیلتھ سنٹرز اور پبلک دفاتر کو توانائی پر منتقل کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ گلگت بلتستان حکومت نے وفاقی حکومت کو 50 میگاواٹ کے شمسی منصوبے کی تجویز دی ہے۔

"یہ منصوبہ منظور ہوتا ہے تو ہم گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ پر بہت حد تک قابو پا لیں گے۔"

انس اور ان کے کلاس فیلوز بہت خوش ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں گرمی میں پنکھوں کے بغیر بیٹھ کر نہیں پڑھنا پڑتا۔ کمپیوٹر کی کلاسیں بھی روزانہ ہو رہی ہیں۔

تاریخ اشاعت 29 اپریل 2024

آپ کو یہ رپورٹ کیسی لگی؟

author_image

نثارعلی کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع گانچھے سے ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیات کے علاوہ شمالی علاقوں کے ایشوز پر نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کو رپورٹنگ کرتے ہیں۔

thumb
سٹوری

گندم کے کھیت مزدوروں کی اجرت میں کٹوتی کس نے کی؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceغلام عباس بلوچ

منصوبہ جائے بھاڑ میں، افتتاحی تختی سلامت رہے

مانسہرہ: ہزارہ یونیورسٹی ماحول دوستی میں پہلے نمبر پر

thumb
سٹوری

ٹنڈو محمد خان میں 15 سال سے زیر تعمیر پبلک سکول جس کا کوئی وارث نہیں؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceرمضان شورو

کل باغوں کے مالک تھے، آج مزدوری کر رہے ہیں

سکردو: ٹراؤٹ فش ختم ہوتی جا رہی ہیں

thumb
سٹوری

فیکٹری میں بوائلر کیوں پھٹتے ہیں؟ انسانی غلطی یا کچھ اور ؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceنعیم احمد
thumb
سٹوری

مردان کے گورنمنٹ گرلز سکول کے مالک کو غصہ کیوں آتا ہے؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceوسیم خٹک

کیا بجلی سے چلنے والے رکشوں کی مہنگی بیٹری اور بجلی کے مسائل کا کوئی حل ہے؟

thumb
سٹوری

ننگر پارکر: گیارہ سال پائپ لائن بچھانے میں لگے معلوم نہیں میٹھا پانی کب ملے گا؟

arrow

مزید پڑھیں

User Faceجی آر جونیجو

فیصل آباد: کسانوں کی خواتین بھی احتجاج میں شرکت کر رہی ہیں

بچے راہ دیکھ رہے ہیں اور باپ گھر نہیں جانا چاہتا

Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.
Copyright © 2024. loksujag. All rights reserved.